وزیراعظم محمد شہبازشریف نے کہا ہے کہ یہ سیاست کا وقت نہیں، متحد ہوکر دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے، آج اتحاد وقت کا تقاضا ہے، یہ دہشت گردوں سے مقابلے کا وقت ہے، پہلے امن قائم کرلیں، پھر سیاست بھی ہوتی رہے گی۔ کوئٹہ میں امن و امان کی صورتِ حال سے متعلق اعلیٰ سطحی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ ہمارے بہادر سپوت دہشت گردی کے خاتمے کے لیے خون کے نذرانے پیش کررہے ہیں، یہ وہ عظیم قربانیاں ہیں جن کی بدولت پاکستان عظیم بن کر سرخرو ہوگا۔ بلوچستان اور خیبر پختون خوا میں امن و امان ملکی ترقی و خوش حالی کے لیے لازمی شرط ہے۔ شرپسند عناصر کی بزدلانہ کارروائیاں امن اور ترقی کے لیے ہمارے عزم کو متزلزل نہیں کرسکتیں۔
وطنِ عزیز میں دہشت گردی ایک ناسور کی شکل اختیار کرچکی ہے۔ وزیراعظم کی زیر صدارت اس اجلاس سے قبل یکم فروری کو قلات میں ایک شدید اندوہناک واقعہ پیش آیا جس میں دہشت گردوں کے ایک حملے میں 18 سیکیورٹی اہلکار شہید ہوگئے، جب کہ سیکیورٹی فورس کی کارروائیوں میں 23 امن دشمن عناصر بھی ہلاک ہوئے۔ قبل ازیں قلعہ عبداللہ بلوچستان میں بھی 28 جنوری کو ایک چیک پوسٹ پر حملے میں پاک فوج کے 2 جوان شہید، جب کہ جوابی کارروائی میں 5 حملہ آوروں کو ہلاک کردیا گیا۔ پچھلے کچھ عرصے میں بلوچستان اور صوبہ خیبر میں دہشت گردی اور تخریب کاری کی کارروائیوں میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جن میں اکثر و بیشتر افغانستان میں چھوڑے ہوئے امریکی اسلحے اور جنگی ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا۔ ان کارروائیوں کا بڑا سبب بھی 2001ء میں افغانستان پر امریکی حملہ اور مابعد اثرات ہیں۔ ایک تخمینے کے مطابق اس امریکی جنگ میں پاکستان کو 2001ء سے 2023ء تک 35 کھرب روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔ امریکہ تو پیشانی پر شکست کا داغ سجائے افغانستان سے واپس چلا گیا، مگر پاکستان آج تک اس امریکی حملے کے منفی اثرات سے نجات نہیں پا سکا۔ 16 دسمبر 2014ء کا سانحۂ اے پی ایس بھی اسی جنگ کا ایک شاخسانہ تھا، تاہم اس سانحے نے پاکستانی قوم کو متحد کردیا تھا، اور اس سانحے کے بعد ملک کی سیاسی اور عسکری قیادت نے مل کر ایک متفقہ قومی منصوبۂ عمل تشکیل دیا تھا، اور اس متفقہ قومی حکمتِ عملی کے اثرات بھی ٹھوس شکل میں سامنے آئے تھے کہ 2014ء میں دہشت گردی کے تقریباً پندرہ سو واقعات میں پانچ سو سے زائد فوجی اور پندرہ سو شہری شہید ہوئے تھے، جب کہ قومی منصوبۂ عمل پر تمام اداروں کی جانب سے پوری قوت سے عمل درآمد کے نتیجے میں 2017ء میں تخریبی سرگرمیوں کی تعداد نصف کے قریب 294 تک محدود ہوگئی، جن کے دوران 218 دفاعی اہلکار اور 439 شہری شہید ہوئے۔ مگر اس کے بعد پھر ہمارا قومی اتحاد پارہ پارہ ہوگیا اور دہشت گردی کے خلاف قوم کا عزم بھی متزلزل ہوا۔ عوام اور مسلح افواج کے مابین اعتماد کا رشتہ بھی متعدد وجوہ سے مجروح ہوا ہے۔ آج صورتِ حال ایسی ناگفتہ بہ ہوچکی ہے کہ تمام سیاسی قائدین اپنے اپنے مفادات اور اقتدار کی کشمکش میں مصروف ہیں، کسی کو ملک و قوم کے مفاد کی فکر ہے نہ اس انتشار کے سبب پہنچنے والے نقصانات کی پروا۔ وزیراعظم محمد شہبازشریف نے اگرچہ اپنے زیرنظر خطاب میں کہا ہے کہ ’’یہ سیاست کا وقت نہیں، متحد ہوکر دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے، اتحاد وقت کا تقاضا ہے، امن قائم کرلیں، پھر سیاست بھی ہوتی رہے گی۔‘‘ وزیراعظم کے ان خیالات سے اختلاف نہیں کیا جا سکتا، مگر ضرورت اس سے آگے بڑھنے کی ہے کہ جناب وزیراعظم ایوانِ اقتدار میں موجود ہیں، اس لیے قوم کو متحد کرنے کی اوّلین ذمہ داری بھی انہی پر عائد ہوتی ہے۔ وہ جذبۂ خیرسگالی کا مظاہرہ کرتے ہوئے وقت کے تقاضے اور اتحاد کی خاطر درکار اقدامات کا آغاز اور اعلان فرمائیں، محض زبانی نہایت عمدہ خیالات کا اظہار کردینا اور عملاً سیاسی مخالفین کے خلاف مقدمات کی بھرمار اور انہیں پسِ دیوارِ زنداں دھکیل کر قومی اتحاد کی توقع رکھنا نتیجہ خیز نہیں ہوسکتا۔ وزیراعظم کی صدارت میں ایپکس کمیٹی نے گزشتہ برس 23 جون کو ’’عزم استحکام آپریشن‘‘ کی منظوری دی تھی اور اس پر دیگر سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لینے اور قومی اتفاقِ رائے کی خاطر کُل جماعتی کانفرنس منعقد کرنے کا اعلان کیا تھا، مگر آج تک اس کی نوبت نہیں آسکی۔ وزیراعظم اگر واقعی اپنے قومی اتحاد و اتفاق سے دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے عزم میں سنجیدہ ہیں تو انہیں اس کے لیے عملی اقدامات بھی کرنا ہوں گے، محض زبانی جمع خرچ اور نیک خواہشات سے مثبت اور ٹھوس نتائج کی توقع کرنا بہرحال عقل و فہم میں آنے والا معاملہ نہیں۔
دہشت گردی اور تخریب کاری جس سرعت سے پھیل رہی ہیں اس کا ایک لازمی تقاضا یہ بھی ہے کہ ہمارے دفاعی ادارے یکسو ہو کر اس ناسور سے قوم کو نجات دلانے پر اپنی تمام تر توجہ مرکوز کریں۔ موجودہ حالات میں جب کہ بہت سی دیگر ذمہ داریاں بھی ہمارے دفاعی اداروں نے اپنے ذمہ لے رکھی ہیں، بہتر ہو گا کہ مسلح افواج ان سے فراغت پا کر خود کو دہشت گردی کے خاتمے اور ملکی دفاع کے دیگر امور تک مرکوز کریں تاکہ فوری، بہتر اور دیرپا نتائج حاصل ہوسکیں۔ اس طرح عوام اور فوج کے مابین اعتماد کا رشتہ بھی مستحکم ہو گا جو ملکی دفاعی فرائض کی ادائیگی کے لیے ناگزیر ہے۔
(حامد ریاض ڈوگر)