دوسرا اور آخری حصہ
(ڈاکٹر عبدالوحیدقریشی ؒ2025۔1939ء)
سیکڑوں لوگوں کا قبولِ اسلام:
محمد عثمان نے بتایا کہ” میں ماضی میں میگھواڑ ہندو برادری سے تعلق رکھتا تھا۔ مسلمان ہوا تو عبدالوحید قریشی ؒصاحب سے 1989ء میں رابطہ ہوا، اور ایسا تعلق قائم ہوا جو سیکڑوں ہندو خاندانوں کو ایمان کے نور سے منور کرنے کا سبب بنا۔ میں وقتاً فوقتاً کبھی پانچ تو کبھی دس افراد لے آتا، وہ لوگ کلمہ طیبہ پڑھ کر مسلمان ہوجاتے، جب وحیدؒ صاحب بیرون شہر یا صوبہ ہوتے تو مجھے جس کا بتاتے وہاں نومسلموں کو کلمہ پڑھوانے لے جاتا۔ درست تعداد یاد نہیں، چار پانچ سو لوگوں نے اسلام قبول کیا ہوگا۔ ایک بار علم ہوا کہ سانگھڑ میں ایک زمیندار پندرہ ہندوئوں سے بیگار لیتا ہے۔ وحید صاحب کے کہنے پر ڈی ایس پی سردار مینگل موبائلیں لے کر سانگھڑ گئے اور وہاں سے پندرہ لوگوں کو بازیاب کرایا اور حیدرآباد لے آئے، وہ سب کے سب مسلمان ہوگئے۔ وہ نومسلموں کو واپس لے جانا چاہتا تھا لیکن وحید ؒصاحب نے لے جانے نہیں دیا۔“
وحید قریشی صاحب کا کہنا تھا کہ نومسلموں کا تعلق حیدرآباد، جھول، نوآباد، کھپرو، سانگھڑ، بدین، ٹنڈوآدم، تھر، بیرانی، عمرکوٹ سے تھا۔ جو غیر مسلم میرے پاس آتے، میں انھیں کلمہ پڑھاتا۔ اگر میں موجود نہ ہوتا تو اُن خواہش مندوں کو مسجدِ قبا ہیرآباد، مفتاح العلوم اور دیگر جگہ بھیج دیتا۔ مسلمان ہونے والوں میں بیشتر ہندوئوں کی میگھواڑ برادری تھی۔ محمد عثمان کا کردار نہایت ایمان افروز رہا ہے، اس نے بڑی محنت کی ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے اجرِ عظیم عطافرمائے۔ (آمین)
مسجدوں سے لگائو:
عبدالوحیدقریشی صاحب کو مساجد سے بہت لگائو تھا، مساجد کی تعمیر و مرمت اور انہیں آباد کرنے کے معاملے میں ہمیشہ پیش پیش رہتے تھے۔ جماعت اسلامی کے تحت بہت سی مساجد تعمیر ہوئیں۔ چوںکہ مساجد ہمارے ہاں کسی نہ کسی مسلک سے موسوم کردی جاتی ہیں جبکہ جماعت اسلامی کسی مسلک کی نمائندہ نہیں ہے اس لیے ہر ایک کے لیے مسجدیں کھلی ہوتی تھیں۔ اس کا ایک نقصان یہ ہوا کہ مسجدوں پر قبضے ہوگئے۔ عبدالوحیدقریشی ؒ صاحب نے ابتدا میں ہیرآباد میں حاجی شانِ الٰہی کے ساتھ قبا مسجد تعمیر کرائی۔ ایک واقعہ پرویزمشرف کے دور میں اُس وقت پیش آیا جب ایک لیفٹیننٹ جنرل محکمہ ڈاک کا ڈائریکٹر جنرل بنا، اُس نے حیدرآباد جی پی او کی قدیمی مسجد کو مسمار کرنے کا حکم دے دیا، یہ مسجد پچاس پچپن سال سے قائم تھی۔ ایک رات مسجد کو شہید کرنے کا سلسلہ شروع کردیا گیا، جوں ہی اطلاع ملی، عبدالوحید قریشی صاحب فوراً پہنچے۔ مسجد خاصی شہید ہوچکی تھی۔ مزدوروں کو کام سے روکا۔ اُن کا انچارچ بھی موجود تھا، اس نے سختی سے کہا کہ ڈائریکٹر جنرل کا حکم ہے کہ اسے مسمار کردیں۔ یہ کہا اور کام میں لگ گیا۔ مولانا، تاج ناہیوں کو لے کر کنٹونمنٹ تھانے پہنچے۔ ڈیوٹی پر موجود اے ایس آئی کو کہا ایف آئی آر درج کریں۔ اس نے کہاکہ ایس ایچ او نہیں ہے، اس کے حکم کے بغیر ایف آئی آر نہیں لکھ سکتا۔ اسی دوران ایک سب انسپکٹر بھی آگیا اور کہاکہ ہم مجبور ہیں، ایف آئی آر نہیں کاٹ سکتے، البتہ میں موبائل بھیج کر مزدوروں کو گاڑی میں بٹھا کر لاسکتا ہوں۔ اسے ہی غنیمت جانا اور سب انسپکٹر سے کہا چلیں یہ کرلیں۔ پولیس مزدوروں کو لے کر آئی، انچارج بھی آگیا۔ اس نے دھمکی دی کہ ایف آئی آر درج کرائے گا۔ دوسرے دن پوسٹ ماسٹر جنرل سے ملاقات کی اور احتجاج کیا۔ اس نے بھی کہاکہ ہم مجبور ہیں، ڈائریکٹر جنرل نے حکم دیا ہے۔ اس کے بعد پوسٹ ماسٹر جنرل کی طرف سے ہائی کورٹ میں مقدمہ کیا گیا۔ عبدالوحیدقریشی ؒصاحب کی جانب سے قاضی منورعلی ایڈووکیٹ مقدمے کی پیروی کرتے رہے۔ اس عرصے میں عرفان مگسی کی صدارت میں ایک حکومتی کمیٹی بن گئی۔ اس کمیٹی نے ملاقات کی۔ ایک اور شخص جو پچاس سال سے وہاں نماز پڑھ رہا تھا، اس سے موقف لیا۔ عرفان مگسی نے کہا: میں بھی بچپن سے اس مسجد کو دیکھ رہا ہوں۔ دوران مقدمہ ہی مسجد کی تعمیر شروع کی اور مسجد تعمیر ہوگئی۔ حاجی گلشن الٰہی اور صاحبزادہ زبیر نے مسجد کی تعمیر میں مالی تعاون کیا۔ مسجد کمیٹی کے صدر جماعت اسلامی کے نعمت اللہ قریشی تھے۔ امامت کے لیے صاحبزادہ ابوالخیر محمدزبیر صاحب سے کہا کہ پہلے والے امام کو بھیج دیں۔ وہ امام بریلوی مکتبِ فکر سے تعلق رکھتا تھا، اس پر دیوبند مکتبِ فکر کے لوگ وحیدؒ صاحب سے ناراض ہوگئے۔ ٹاور مارکیٹ میں حنفی مسجد کے متعلق بتاتے تھے کہ یہاں مارکیٹ فائربریگیڈ کے کچھ ملازمین ایک چبوترے پر نماز پڑھتے تھے۔ کچھ عرصے بعد ملازمین ان کے والد کے پاس آئے اور کہا کہ آپ سلاوٹ مسجد میں نماز پڑھتے پڑھاتے ہیں، یہاں نماز پڑھایا کریں۔ سلاوٹ مسجد میں کوئی باقاعدہ امام نہیں تھا تو والد صاحب وہاں نماز پڑھادیتے تھے۔ چند سال بعد والد محترم نے انھیں کہا کہ آپ باقاعدہ امام مقرر کرلیں، پھر مشورے سے ان ملازم نمازیوں نے ایک امام مقرر کرلیا۔ نمازیوں کی تعداد بڑھنے لگی۔ آس پاس سے دکاندار نماز کے لیے آنے لگے۔ والدمحترم اور دیگر نے اِن سے کہا کہ اس کو باقاعدہ مسجد بنانے کی کوشش کی جائے۔ اُس وقت وہاں ویکسین سینٹر اور بلدیہ کا چھوٹا دفتر تھا۔ وہ جگہ فائربریگیڈ کاحصہ نہیں تھی۔ اس سلسلے میں انھوں نے بلدیہ اعلیٰ حیدرآباد سے رجوع کیا اور بھاگ دوڑ کے بعد50×50کا زمین کا ایک ٹکڑا مسجد کے لیے منظور کرالیا۔ اس کی قیمت حاجی محمد ابراہیم ریواڑی والے نے ادا کی۔ 2019ء میں کہسار میں سائبان کے نام سے ایک ہائوسنگ اسکیم میں 9ہزار اسکوائرفٹ پر مسجدخیرالبشر قائم کی۔
سماجی خدمات
عبدالوحیدقریشی ؒ کی عوامی اور کرشماتی شخصیت میں غالب پہلو سماجی خدمت کا ہے۔ مدرسہ قاسم العلوم منصورہ ہالا ضلع مٹیاری اور مدرسہ ریاض العلوم عثمان حیدرآباد سے عشق تھا۔ منصورہ جانا ہوتا تو صبح روانگی ہوتی، بصورتِ دیگر روز صبح اسپتال، سرکاری دفاتر، کورٹ، تھانے جاتے اور اپنے اثر رسوخ سے لوگوں کو ہرممکن ریلیف دلاتے۔ سول اسپتال کا عملہ خاص طور پر ہر دور کے ایم ایس ان سے واقف تھے۔ مریضوں کی تیمارداری کرتے، ہمت دلاتے، سرکاری وسائل، جماعت اسلامی کا بیت المال اور ذاتی وسائل استعمال کرتے۔ بعض اوقات جیب میں صرف لوگوں کی پرچیاں اور درخواستیں رہ جاتیں۔ دو دفعہ کونسلر اور ایک دفعہ ایم پی اے رہے۔ میئر حیدرآباد سید احدیوسف کے دور میں تعلیم، صحت، زکوٰۃ وغیرہ کی کمیٹیوں کے چیئرمین تھے۔ سید احد یوسف جب وزیرصحت بنے تو یہ ان سے دور رہنے لگے۔ احدیوسف کو احساس ہوا تو انھوں نے پوچھ لیا۔ آپ نے کہا:’’آپ وزیر صحت ہیں اور حیدرآبادہی سے ہیں، ذرا سول اسپتال کی حالت دیکھیں، ایک ایک بیڈ پر تین تین بچے ہیں اور باقی انتظار میں ہیں۔‘‘ اس پر احد یوسف نے سول اسپتال حیدرآباد اور جام شورو میں ڈیڑھ ڈیڑھ سو بستروں پر مشتمل دو عمارتیں تعمیر کرا دیں اور کڈنی وارڈ بھی۔ پولیس آفیسر خادم حسین رند زمانہ طالب علمی میں ایک طالب علم کو ان کے پاس ملازمت کے لیے لایا اور وہ کام ہوگیا۔
ایم کیوایم اورجماعت اسلامی کے تعلقات کے متعلق ہر شخص جانتا ہے۔ ایم کیو ایم کے سیکڑوں کارکنان کو رہا کرایا اور ضمانتیں دیں۔ مارشل لا کے دور میں جب کرنل رحمٰن انچارج تھے، کہا: ’’عبدالوحیدقریشی صاحب! آپ ایک سو آدمیوں کو تو چھڑا چکے ہیں، اور کتنے چھڑائیں گے!‘‘ انھوں نے کہا: ’’آپ پکڑتے جائیں، میں چھڑواتا جائوں گا‘‘۔ ایک دفعہ پروفیسر مان خان کو پکڑلیا، وہ ایم کیو ایم سے وابستہ تھے اور ایم کیو ایم کے معاملے ہی میں پکڑے گئے تھے۔ ان کی ضمانت کرائی۔ پروفیسر مان خان نے تحریری صورت میں ایم کیو ایم سے لاتعلقی اختیار کی۔ ایک بڑے میاں کا نواسہ ایم کیو ایم میں تھا، اسے پولیس نے پکڑلیا۔ وحید صاحب لاہور میں تھے، ایم کیو ایم نے بڑی کوششیں کیں لیکن نواسہ رہا نہ ہوسکا۔ اس پر نانا نے کہاکہ جب تک عبدالوحیدقریشی نہیں آئے گا وہ نواسے کو نہیں چھوڑیں گے۔ جب وہ لاہور سے واپس آئے تو بڑے میاں کے ساتھ ان کے نواسے کی رہائی کے لیے گئے۔ کرنل انچارج تھا، اس نے کہاکہ قریشی صاحب آپ آگئے ہیں تو میں چھوڑ رہا ہوں۔
2005ء یا بعد کا واقعہ ہے، ایک نوجوان نے درخواست دی کہ چچا سے ہم بھائیوں کے پیسے دلوائے جائیں۔ چچا اور بھتیجوں کو بلوایا تو پتا چلاکہ بچوں کے والد کا انتقال ہوگیا ہے، دونوں نابالغ تھے، ان کی وراثت کے 25 لاکھ روپے چچا کے پاس امانتاً رکھوائے گئے تھے۔ چچا نے پیسے کی این آئی ٹی میں سرمایہ کاری کردی، وہ بڑھتے بڑھتے 80 لاکھ روپے تک پہنچ گئے۔ بھتیجے این آئی ٹی سے ریکارڈ لے آئے اور 80 لاکھ کا مطالبہ کردیا۔ دو تین نشستوں میں چچا اس بات پر راضی ہوئے کہ وہ 42 لاکھ روپے دیں گے۔ اس پر عبدالوحید قریشیؒ صاحب نے نوجوانوں کو مشورہ دیا کہ آپ نے دس سال لگادیے ہیں، یہ لے لیں ورنہ اس سے بھی جائیں گے۔ انھوں نے مشورہ مان لیا۔ لکھت پڑھت ہوگئی۔ چچا نے 34 لاکھ روپے فوری اداکیے اور 8 لاکھ روپے مکان فروخت کرکے دیے۔
حسین آباد میں ایک مدرسے کا معاملہ آیا کہ وہاں ایک مکان مولوی چھٹو کا تھا، انھوں نے وہ مکان مدرسے کے لیے وقف کررکھا تھا۔ چھٹو صاحب نے وہ مکان اپنے ایک رشتے دار ڈاکٹر کو عارضی طور پر رہنے کے لیے دیا مگر وہ خالی کرنے سے انکاری تھا۔ جب معاملہ عبدالوحید قریشی ؒصاحب کے پاس آیا تو انہوں نے فریقین کی بات سنی، جن کے قبضے میں مکان تھا ان سے کہا کہ یہ مولوی چھٹو کا مکان ہے اسے خالی کردیں۔ انھوں نے بات مان لی اور مدرسہ خالی کردیا۔
بلدیاتی کونسلر کی حیثیت سے متعدد فیصلے کیے۔ ایک فیصلے پر کارکنان سخت ناراض ہوئے، کیوں کہ فیصلہ مخالف فریق کے حق میں میرٹ پر کیا تھا۔ کارکنان عرصے تک ناراض رہے۔ بالآخر یعقوب کونسلر کے ہاں ایک میٹنگ میں بلاکر احتساب کیا گیا۔ عبدالوحید قریشیؒ صاحب نے کارکنان کو مطمئن کیا کہ جس کا حق ہو اُسے دینا چاہیے خواہ فیصلہ ہمارے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ کالی موری میں دیوبند مکتبِ فکر کا ایک مشہور مدرسہ ریاض العلوم ہے، اسے ریواڑی والوں نے بنایا ہے۔ جب اس کی زمین خریدی جارہی تھی حکومتِ سندھ بہت زیادہ پیسے مانگ رہی تھی۔ اُس وقت عبدالوحیدقریشیؒ صاحب رکن سندھ اسمبلی تھے۔ کوششیں کرکے مدرسے کے لیے زمین بہت کم پیسوں میں دلوا دی۔ سندھ میں وڈیرانہ نظام ہے، زمیندار بیگار کے لیے غریب اور سادہ لوح دیہاتیوں کو اپنی نجی جیلوں میں رکھتے ہیں۔ ایک ایسے ہی معاملے میں سو ڈیڑھ سو مظلوم ہندو ہاریوں کو عدالت کے ذریعے اُن کے ظالم زمینداروں سے چھڑوایا۔ کونسلری کے دوسرے دور میں میئر سیداحدیوسف سے اُن مخالفین کے کاموں کے لیے بھی سفارشیں کیا کرتے تھے جو اِن کے حلقے کے ترقیاتی کاموں کو روکتے تھے۔ جماعت اسلامی کے کارکن مختارشیخ بتاتے ہیں: ’’2017ء میں نواب شاہ کے قریب کسی گائوں میں ایک زمیندار نے قتل کردیا، جس کا الزام ٹوبہ ٹیک سنگھ کے رہائشی عبدالحمید پر عائد کردیا۔ اس پر مقدمہ ہوا اور اسے سینٹرل جیل حیدرآباد منتقل کردیا گیا اور سزائے موت سنائی گئی۔ اس دوران عبدالحمید پر اس قدر بہیمانہ تشدد کیا گیا کہ اس کی بینائی تک ضائع ہوگئی۔ گھر والے مایوس ہوکر ٹوبہ ٹیک سنگھ لوٹ گئے۔ عبدالوحید قریشیؒ صاحب کو جب اس کا علم ہوا تو انھوں نے ایک وکیل کیا اور بڑی جدوجہد کے بعد اس کی بے گناہی ثابت ہوئی اور اسے رہا کرالیا۔ آئی اسپیشلسٹ سے اس کی آنکھوں کا معائنہ کرایا۔ اب مسئلہ اس کے گھر والوں کی تلاش کا تھا۔ اس کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال کیا اور گھر والے رابطے میں آگئے۔ عبدالوحیدؒ صاحب نے عبدالحمید کو گھر چھوڑنے کی ذمہ داری مجھے دی، میں جب عبدالحمید کے ساتھ اس کے گھر پہنچا تو گھر والوں کی خوشی دیدنی تھی۔‘‘
اے پی ایم ایس او کے سابق کارکن اور اسکول ٹیچر صابر ایچ راجپوت کہتے ہیں: ’’ایک دفعہ کراچی سے حیدرآباد آنے کے لیے کوچ میں داخل ہوا، عبدالوحید قریشی صاحب نیم غنودگی کے عالم میں بیٹھے تھے، مسکراتے ہوئے پوچھا: کہاں بیٹھو گے؟ قاسم چوک حیدرآباد پر ساتھ اترے۔ ان کا بیٹا عمر فاروق گاڑی لے کر آیا تھا۔ مجھے آگے بٹھادیا ۔گھر کے قریب خود اُتر گئے اور میرے انکار کے باوجود بیٹے سے کہا کہ انھیں گھر تک چھوڑ آئیں۔‘‘
مشاہیر سے مراسم:
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ 1969ء میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (PDM)کے جلسے میں شرکت کے لیے حیدرآباد آئے، ان کا قیام مسلم لیگی رہنما نواب زاہد کے یہاں تھا۔ واپسی پر انھیں اسٹیشن پر چھوڑنے گئے۔ مولانا بیگ سے کپڑا نکال کر کھڑکی سے مٹی صاف کرنے لگے، وحیدؒصاحب نے آگے بڑھ کرکھڑکی سے مٹی صاف کردی اور مولانا سے (حیدرآباد دکن کی نسبت سے) کہا کہ آپ کو تو حیدرآباد سے انسیت ہونی چاہیے مگر آپ یہاں ایک ہی دن رہے۔ اس پر مولانا نے کہا کہ’’اسی لیے تو میں حیدرآباد (دکن)برسوں رہا ہوں۔‘‘ 1974ء میں غالباً مئی یا جون کا مہینہ تھا، خصوصی طور پر اچھرہ میں ملاقات کے لیے گئے اور تفہیم القرآن کا سندھی ترجمہ کرانے کی اجازت چاہی۔ مولانا نے فوری طور پر اپنے صاحبزادے محمد فاروق اور ادارۂ ترجمان القرآن کے جنرل منیجر بشیراحمدبٹ کو بلاکر ہدایت کی کہ عبدالوحید کو اجازت نامہ دے دیں۔ اُن دونوں حضرات نے تحریری طور پر اجازت نامے دستخط کرکے دے دیے جو آج تک محفوظ ہیں۔ تحریکِ نظام مصطفیٰﷺ میں پریٹ آباد حیدرآباد کے 16 افراد شہید ہوئے تھے۔ اس حوالے سے مولانا کا ایک مکتوب اِن کے نام آیا۔ مولانا عزیز ؔدانش اور رفیق ؔریواڑوی حیدرآباد کے معروف شاعر تھے، مولانا عزیزدانش جماعت اسلامی کے ہمدرد تھے، انھوں نے رفیق ریواڑوی سے کہا کہ اسٹیشن چلتے ہیں اور مولانا (ابوالاعلیٰ مودودیؒ) کی زیارت کرتے ہیں، اور تم بھی دیکھ لینا، دیکھنے میں کیا حرج ہے! رفیق ریواڑوی تیار ہوگئے۔ ریل پہنچ چکی تھی اور مولانا دروازے پر کھڑے تھے۔ رفیق ریواڑوی نے مولانا کا چہرہ دیکھ کر کہا کہ ”یہ شخص جھوٹا نہیں ہوسکتا۔‘‘ حاجی شان الٰہی مدینہ کیپ ہائوس چھوٹکی گھٹی کے مالک تھے۔ ایک دفعہ اِن سے کہا کہ آپ مولانا (مودودیؒ)کی ٹوپی کا سائز لادیںل، اس سائز کی ٹوپی بنوادوں گا۔ مولانا جناح کیپ سے ملتی جلتی گولائی والی ٹوپی پہنا کرتے تھے، اس ٹوپی میں درمیان میں ڈھیلا کپڑا ہوتا تھا۔ یہ جب لاہور گئے تو مولانا کی پرانی ٹوپی سائز کے لیے لے آئے اور حاجی شان الٰہی کو دے دی۔ انھوں نے مولانا کے لیے تحفتاً ٹوپی تیار کرکے دے دی۔ مولانا کو وہ ٹوپی بہت پسند آئی۔ بعد میں مولانا کے دیرینہ ساتھی مولانا نقی علی اپنے اور مولاناؒ کے لیے یہاں سے بنواکر لے جاتے تھے۔
جے یوپی کے سربراہ علامہ شاہ احمدنورانی اور شاہ فریدالحق کے مقابل قومی اسمبلی کا انتخاب لڑا تھا۔ ایک بار علامہ شاہ احمد نورانی ؒ کو دو چار سو ووٹ زیادہ ملے اور ایک بار انھیں کچھ ووٹ زیادہ ملے۔ اس کا سبب جے یو پی کے رہنما اور سابق ایم این اے مولانا محمد علی رضوی اور سابق میئر سیداحدیوسف کا سپورٹ کرنا تھا۔ جب علامہ شاہ احمد نورانی کو متحدہ مجلس عمل کا صدر منتخب کیا گیا، جامعہ بنوریہ کراچی میں دینی جماعتوں کے قائدین اور دینی مدارس کا ایک بہت بڑا اجتماع منعقد کیا۔ تقریب کے اختتام پر جب علامہ شاہ احمدنورانی روانہ ہورہے تھے، انھیں مخاطب کیا تو گاڑی سے اتر آئے۔ علیک سلیک کے بعد انھیں حیدرآباد سے قومی اسمبلی کا انتخاب لڑنے کی دعوت دی۔ نورانی میاںؒ نے کہا’’قریشیؒ صاحب! آپ سے ڈر لگتا ہے۔‘‘ قریشی ؒصاحب نے کہا ”اب تو ہم آپ کے کارکن ہیں اور آپ ہمارے صدر ہیں“۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہماری قومی روایت کے برعکس دورانِ الیکشن مہم کبھی علامہ شاہ احمدنورانی صدیقی نے ان کے خلاف بولا، نہ انھوں نے کچھ کہا۔ جے یو پی کے موجودہ صدر صاحبزادہ ابوالخیر محمد زبیر نے ایک کتاب ’’صوفیائے سندھ‘‘پر لکھی۔ اس کتاب کی تقریبِ رونمائی ان کے والد مفتی محمودالوری ؒ کے مزار پر تھی، علامہ شاہ احمد نورانی صدیقیؒ تقریب کی صدارت کررہے تھے۔ جب عبدالوحیدؒصاحب کو اظہارِ خیال کا موقع ملا تو آپ نے حمدوثنا کے بعد علامہ اقبال ؒ کی فارسی رباعی پڑھی:
مسلمان آں فقیرِ کج کلاہے
رمید از سینہ او سوز آہے
دلش نالد چرا نالد نداند
نگاہے یا رسولؐ اللہ نگاہے
تقریر کے بعد واپس اسٹیج پر آئے تو علامہ شاہ احمد نورانی اٹھ کھڑے ہوئے اور ان کی پیشانی چومنے لگے۔
ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خاں ؒاور پیر صبغت اللہ شاہ پیرایرانی دونوں بزرگ جماعت اسلامی کے لیے نرم گوشہ رکھتے تھے۔ ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خاںؒ جب ملتے، داڑھی چومتے تھے۔ دوسرے مولانا جان محمد بھٹوؒ داڑھی چومتے تھے۔ پیرایرانی سے ملاقات ہوتی، وہ کہتے کہ ’’جماعت اسلامی کے مجاہد آگئے ہیں۔‘‘ عوامی تحریک کے سربراہ اور سندھ کے معروف قوم پرست سیاست دان رسول بخش پلیجو مرحوم سے ملنا جلنا تھا۔ جب وہ قاضی حسین احمد ؒ کے انتقال پر تعزیت کے لیے آئے تو جماعت اسلامی کے ساتھ تعلیم کی بہتری خصوصاً حیدرآباد میں یونی ورسٹی کے قیام کے لیے مشترکہ طور پر کام کرنے کی خواہش کا اظہارکیا۔ اُس وقت تک حیدرآباد میں کوئی سرکاری جنرل یونی ورسٹی نہیں تھی۔ اے این پی کے ولی خان مرحوم بھٹو دور میں جیل سے رہا ہوئے تو پہلے دفترجماعت اسلامی اسٹیشن روڈ پر ملنے آئے۔ سندھ ترقی پسند پارٹی کے رہنما ڈاکٹر قادرمگسی سے زمانہ اسیری سے تعلقات تھے۔ سردار علی شاہ مسلم لیگ فنکشنل پیرپگار اکے اخبار روزنامہ ”مہران“ کے مدیر تھے، جب عرصے بعد لٹریچر فیسٹول میں ماسک پہنے ہوئے ملے تو پہچانا نہیں، سردارعلی شاہ کی آواز سنی تو پہچان گئے اور کہا کہ ’’سردار علی شاہ کتاب لکھتا ہے اور دیتا نہیں ہے تو کیسے پہچانوں گا!‘‘سردار علی شاہ کہنے لگے: ’’عبدالوحیدقریشی اتنا سخی ہے کہ اسے صبح نوٹ کی بوری بھرکردو، شام کو خالی کردے گا۔‘‘سردارعلی شاہ، اسحاق اثر وغیرہ نے جیے سندھ، سیکولر عناصر خصوصاً دہریوں کا ابلاغی محاذ پر ڈٹ کر مقابلہ کیا تھا۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ جماعت اسلامی اور برادر تنظیمات کی مرکزی، صوبائی اور ضلعی قیادت سے بہترین کوارڈی نیشن رہا۔ تنظیمی حلقے سے باہر طویل فہرست ہے۔ مہاجرین بحالی کمیٹی کے سربراہ مولانا عبدالقدوس، مجلس احرار کے رہنما، خطیب اور جید عالمِ دین مولانا خلیل الرحمٰن پانی پتی، (پانی پتی صاحب نے مولانا مودودیؒ کے خلاف لکھنے کے لیے مولانا ہی سے درخواست کی تھی لیکن صداقت جان گئے تھے۔ گوجرانوالہ سے حیدرآباد آتے تو ضرور ملتے، یہ حیدرآباد میں مدرسے قائم کرنا چاہتے تھے) مدیر ماہ نامہ ”بیداری“ حیدرآباد مولانا موسیٰ بھٹو انھی میں شامل ہیں۔ غرض ہر خاص و عام ان کی محبت اور اخلاص سے فیض یاب رہا ہے۔ وحیدصاحب رحمۃ اللہ علیہ جماعت اسلامی کی چلتی پھرتی تصویر تھے۔ تبلیغی کردار تھا۔ 20جنوری کی سہ پہر تمام شہر انھیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے الوداع کہہ رہا تھا اور سوچ رہا تھا ؎
ایسا کہاں سے لائیں کہ تجھ سا کہیں جسے