اعلیٰ تعلیمی نظام کے بگڑتے ہوئے حالات میں مزید ابتری کے خدشات
خیبر پختون خوا حکومت نے یونیورسٹیز ترمیمی ایکٹ 2024ء کا گزیٹڈ اعلامیہ جاری کردیا ہے، جس کے بعد وزیراعلیٰ خیبر پختون خوا تمام سرکاری جامعات کے چانسلر بن گئے ہیں۔ واضح رہے کہ خیبر پختون خوا اسمبلی نے یونیورسٹیز ترمیمی بل 6 دسمبر 2024ء کو منظور کیا تھا جس کے بعد دستخط کے لیے اسے گورنر خیبر پختون خوا کو ارسال کیا گیا، تاہم چند روز بعد گورنر نے بل پر اعتراضات لگاتے ہوئے اسے واپس کردیا تھا۔ اسمبلی سیکرٹریٹ نے اس حوالے سے مؤقف اختیار کیا ہے کہ مذکورہ ترمیمی بل دراصل منی بل یعنی مالی امور سے متعلق بل ہے جس پر گورنر آئینی طور پر کوئی اعتراض نہیں لگا سکتے اور اسے منظور کرنا لازمی ہے، لہٰذا گورنر کے اعتراض کی کوئی آئینی حیثیت نہیں ہے۔ اسمبلی سیکرٹریٹ کی جانب سے ترمیمی قانون کا گزیٹڈ اعلامیہ جاری کردیا گیا ہے، اب قانون کے مطابق صوبے کی تمام سرکاری یونیورسٹیز کے چانسلر وزیراعلیٰ بن گئے ہیں، جب کہ اس ترمیم سے قبل بلکہ شروع دن سے پبلک سیکٹر جامعات کا چانسلر صوبے کا گورنر ہوتا تھا، لیکن اب اس ترمیم کے بعد صوبے کے وزیراعلیٰ جو چند دن قبل تک پاکستان تحریک انصاف کے صوبائی صدر بھی تھے، اس اہم انتظامی عہدے پر فائز ہوگئے ہیں۔ اسی طرح وائس چانسلرز کی مدت ملازمت بھی تین سال سے بڑھاکر چار سال کردی گئی ہے۔ اس نئی ترمیم کی ایک اور اہم بات یہ ہے کہ یونیورسٹیز میں رجسٹرار کے انتظامی عہدے پر اب انتظامی کیڈر کے سرکاری افسران بھی تعینات کیے جاسکیں گے۔ وائس چانسلرز دو سال کے بعد اپنی کارکردگی رپورٹ وزیراعلیٰ کو پیش کریں گے، اور تسلی بخش کارکردگی دکھانے والے وائس چانسلرز ہی کام جاری رکھ سکیں گے، بصورتِ دیگر انہیں اپنے عہدوں سے فارغ کیا جاسکے گا۔
اس ترمیمی ایکٹ کے مجوزہ فوائد اور اس حوالے سے متوقع خدشات پر گفتگو سے پہلے یہ بتانا خالی از دلچسپی نہیں ہوگا کہ جب اس بل کو صوبائی اسمبلی نے پاس کرنے کے بعد توثیق کی خاطر آئینی تقاضے کی تکمیل کے لیے خیبرپختون خوا کے گورنر فیصل کریم کنڈی کے پاس بھیجا تو انہوں نے اس بل پر اعتراض لگاتے ہوئے اسے صوبائی اسمبلی کے اسپیکر کو واپس بھیج دیا تھا۔ انہوں نے اسمبلی کے اسپیکر سے استفسار کیا تھا کہ وہ فیصلہ کریں کہ آیا یہ بل آئین کے تحت ”منی بل“ قرار دیے جانے کے قابل ہے؟
گورنر نے اسپیکر کو واپس بھیجے گئے بل کے ساتھ ایک خط میں لکھا تھا کہ ”مجھے خیبرپختون خوا یونیورسٹی ایکٹ 2024ء میں مجوزہ ترمیم موصول ہوئی ہے، جو منظوری کے لیے مجھے بھیجی گئی۔ اس بل کے ساتھ آپ (اسپیکر) کا دستخط شدہ ایک سرٹیفکیٹ بھی شامل ہے، جس میں اسے آئین کے آرٹیکل 115(1) کے تحت منی بل قرار دیا گیا ہے“۔ گورنر نے مزید کہا کہ ”بل کا باریک بینی سے جائزہ لینے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ مجوزہ ترامیم واضح طور پر ان حدود میں نہیں آتیں جو آرٹیکل 115(1) کے تحت منی بل کی تعریف میں آتی ہیں“۔ انہوں نے وضاحت کی کہ خاص طور پر یہ بل ایسے معاملات سے متعلق نہیں لگتا، جیسے ٹیکس عائد کرنا، قرض لینا، یا صوبائی کنسولیڈیٹڈ فنڈ یا عوامی اکاؤنٹ سے اخراجات کرنا، جو کسی بھی منی بل کی بنیادی خصوصیات ہیں۔ گورنر نے اپنے اعتراض میں اسپیکر کی توجہ آئین کے آرٹیکل 63-اے کی طرف بھی دلائی، جو اُن حالات سے متعلق ہے جب کوئی رکن پارلیمانی جماعت کی ہدایت کے برخلاف منی بل جیسے معاملات پر ووٹ دیتا ہے یا ووٹ دینے سے گریز کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کسی بل کو منی بل قرار دینے کا براہِ راست اثر اسمبلی کے اراکین پر پڑتا ہے کیونکہ اس پر ووٹ دینے یا نہ دینے کا ان کا فیصلہ انہیں آرٹیکل 63-اے کے تحت تادیبی کارروائی کے خطرے سے دوچار کرسکتا ہے۔
گورنر کا مزید کہنا تھا کہ مندرجہ بالا حقائق کی روشنی میں ضروری ہوجاتا ہے کہ بل کی نوعیت کو درست طریقے سے متعین کیا جائے۔ اگر زیر غور بل منی بل کے معیار پر پورا نہیں اترتا تو اسے دوبارہ اسمبلی میں پیش کرنا ضروری ہوگا، تاکہ معزز اراکین اپنی پارلیمانی آزادی کے مطابق آرٹیکل 63-اے کی پابندیوں کے بغیر اس پر غور و خوض اور ووٹنگ کرسکیں۔ گورنر نے اس معاملے کی آئینی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے بل کو اسپیکر کے فیصلے کے لیے آرٹیکل 115(4) کے تحت واپس بھیجا تاکہ یہ طے کیا جا سکے کہ آیا یہ واقعی منی بل کے زمرے میں آتا ہے؟ انہوں نے مزید کہا کہ یہ قدم مکمل طور پر آئینی طریقہ کار کی حرمت برقرار رکھنے اور اراکینِ صوبائی اسمبلی کے حقوق کے تحفظ کے لیے اٹھایا گیا ہے۔
واضح رہے کہ ماہرینِ تعلیم اور سیاسی مبصرین صوبے کی 34 سرکاری جامعات کا چارج گورنر سے وزیراعلیٰ کی جانب منتقل کرنے کو صوبائی حکومت اور وفاق کے درمیان جاری کشیدگی کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔ ماہرینِ تعلیم نے اس ترمیم کو اعلیٰ تعلیمی نظام کے بگڑتے ہوئے حالات میں مزید ابتری کا سبب قرار دیا ہے۔
پشاور یونیورسٹی ٹیچرز ایسوسی ایشن کے سابق صدر ڈاکٹر محمد عزیر کے مطابق صوبائی حکومت کی جانب سے کی گئی حالیہ ترمیم ایک سنگین غلطی ہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ چانسلر سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ ہر سال کسی بھی یونیورسٹی کی کم از کم دو میٹنگز میں شرکت کرے گا۔ وزیراعلیٰ تمام 34 جامعات کی ان میٹنگز میں کیسے شرکت کریں گے؟ ڈاکٹر عزیر کے مطابق یہ اقدام جامعات کو درپیش مسائل کو مزید پیچیدہ بنادے گا۔ ڈاکٹر عزیر نے بتایا کہ پشاور یونیورسٹی کا خسارہ 3,500 ملین روپے سے تجاوز کرچکا ہے جس کی وجہ سے ملازمین کو تنخواہوں کی ادائی میں مسلسل مشکلات پیش آرہی ہیں۔ بنیادی مسائل حل کرنے کے بجائے حکومت نے جامعات کا چارج منتقل کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔
صوبائی مینجمنٹ سروس کے افسران کو جامعات کی انتظامی نشستوں پر تعینات کرنے کے متعلق اسلامیہ کالج یونیورسٹی کے پولیٹیکل سائنس کے لیکچرر ڈاکٹر شاہ نواز خان کا کہنا تھا کہ اگرچہ گورنر سے وزیراعلیٰ کو اختیارات کی منتقلی براہِ راست جامعات کے کردار پر اثرانداز نہیں ہوگی، تاہم مجوزہ قانون میں کی گئی مخصوص ترامیم پر تنقید کی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومتی عزائم سے ظاہر ہوتا ہے کہ خزانچی، رجسٹرار اور دیگر انتظامی نشستوں پر پی ایم ایس افسران تعینات کیے جائیں گے، جبکہ جامعات کے اہم ترین فیصلہ ساز فورم سینڈیکیٹ میں اساتذہ کی تعداد 9 سے کم کرکے صرف 3 یا 4 کردی جائے گی۔ اس طرح سینڈیکیٹ میٹنگ میں زیادہ تر فیصلے انتظامی افسران کریں گے۔
ان خدشات کے جواب میں خیبرپختون خوا کے وزیر برائے اعلیٰ تعلیم مینا خان آفریدی نے یقین دہانی کرائی ہے کہ صوبائی حکومت نے یہ ترمیمی بل جامعات کے مفاد میں پیش کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یونیورسٹیز میں انتظامی نشستیں موجود نہ ہونے کے باعث بیوروکریسی کو ان پر تعینات کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ جلد ہی صوبائی حکومت جامعات کو درپیش مالی مسائل حل کرلے گی۔ مینا خان آفریدی کا کہنا تھا کہ خیبر پختون خوا یونیورسٹیز (ترمیمی) ایکٹ 2024ء سے توقع کی جارہی ہے کہ یہ صوبے بھر میں جامعات کی کارکردگی اور نظم و نسق کو بہتر بنائے گا جس سے طلبہ اور تعلیمی ادارے دونوں مستفید ہوں گے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ وزیراعلیٰ تمام 34 جامعات کو وقت کیسے دیں گے؟ تو انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ طلبہ کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے پُرعزم ہیں اور ان کی قیادت میں جامعات ایک بار پھر ترقی کی راہ پر گامزن ہوں گی۔ انہوں نے کہاکہ یہ تبدیلی ضروری تھی کیونکہ گورنر صرف رسمی حیثیت رکھتے تھے اور جامعات کو وقت نہیں دے رہے تھے۔
دوسری جانب خیبر پختون خوا کے گورنر فیصل کریم کنڈی نے وزیراعلیٰ کی تعلیمی معاملات کو سنبھالنے کی صلاحیت پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزیراعلیٰ اور ان کی ٹیم صوبے میں امن و امان برقرار رکھنے میں ناکام ہوچکے ہیں، تو یہ جامعات کو کیسے سنبھالیں گے!
اس بڑی اور بظاہر ناقابلِ فہم ترمیم کا ڈول ایک ایسے وقت میں ڈالا گیا ہے جب پاکستان میں بالعموم اور خیبرپختون خوا میں بالخصوص اعلیٰ تعلیم کا نظم و نسق ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے۔ شدید مالی بحران کے باعث کئی ادارے اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں، جبکہ اس دوران صوبائی حکومتیں ایسے قانونی اقدامات متعارف کروا رہی ہیں جو انتظامی چیلنجز کو حل کرنے کے بجائے جامعات پر سیاسی کنٹرول مضبوط کرنے کی کوشش نظر آتے ہیں۔ ماہرینِ تعلیم کا ان تبدیلیوں کے متعلق استدلال ہے کہ ان سے ان اداروں کی علمی بنیادیں کمزور ہونے کا خدشہ ہے، جس کے نتیجے میں یہ تعلیمی مراکز دانش ورانہ اور تحقیقی فضیلت کے بجائے محض انتظامی دفاتر میں تبدیل ہوسکتے ہیں۔ دوسری جانب ہائر ایجوکیشن کمیشن نے ان تبدیلیوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ یہ اقدامات تعلیمی معیار اور ادارہ جاتی ساکھ پر گہرے منفی اثرات مرتب کریں گے۔
خیبرپختون خوا کی جامعات میں اگرچہ وائس چانسلرز کی مدت ملازمت چار سال کردی گئی ہے لیکن وہ وسط مدتی کارکردگی جائزے کے تابع ہوں گے، جس کے تحت ان کے سروں پر برخاست کیے جانے کی تلوار مسلسل لٹکتی رہے گی، اس سے نہ صرف ان کی پیشہ ورانہ کارکردگی متاثر ہوگی بلکہ جامعات کے تعلیمی اور تحقیقی معیار پر بھی کمپرومائزہوگا، اس طریقہ کار سے جامعات میں سیاسی مداخلت کے دروازے کھل سکتے ہیں جو طویل مدتی منصوبہ بندی اور تعلیمی آزادی کے لیے بھی نقصان دہ ہوگی۔ ماہرینِ تعلیم کا ان اقدامات کے متعلق کہنا ہے کہ یہ پیش رفت اعلیٰ تعلیمی پالیسیوں میں گہرا تضاد ظاہر کرتی ہے۔ ایک طرف جامعات سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ عالمی سطح پر نمایاں مقام حاصل کریں، جدید تحقیق کریں اور جدت طرازی کو فروغ دیں، جبکہ دوسری طرف حکومتیں ان پر سیاسی کنٹرول مسلط کررہی ہیں، جس سے یہ ادارے محض سرکاری مشینری کے ذیلی دفاتر بن کر رہ جائیں گے۔ یہ تضاد ظاہر کرتا ہے کہ فیصلہ سازوں کو اس بات کی بنیادی سمجھ نہیں کہ جامعات کس طرح ترقی کرتی ہیں۔ تعلیمی اداروں کو خودمختاری درکار ہوتی ہے، نہ کہ مائیکرو مینجمنٹ۔ انہیں ایسے شفاف، آزاد اور جامع حکمرانی کے ڈھانچے چاہئیں جو مختصر مدت سیاسی مفادات کے بجائے علمی ترقی کو ترجیح دیں۔
یہ حقیقت ہے کہ صوبائی حکومت کو جامعات پر براہِ راست کنٹرول بڑھانے کے بجائے ان میں بامعنی اصلاحات
پر توجہ دینی چاہیے۔ اس ضمن میں خودمختار گورننگ باڈیز کا قیام، مؤثر سینڈیکیٹس اور سول سوسائٹی و کاروباری افراد کی شمولیت سے اعلیٰ تعلیمی اداروں کی خودمختاری کو برقرار رکھتے ہوئے احتساب کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں جامعات کی خودمختاری سے متعلق جاری پریکٹس سے یہ بات ثابت ہے کہ وہ جامعات جو سیاسی مداخلت سے آزاد ہوتی ہیں..تحقیق، جدت اور سماجی ترقی میں سب سے آگے رہتی ہیں، لیکن بدقسمتی سے ہماری جامعات کو اس کے برعکس سمت میں دھکیلا جارہا ہے، جہاں صوبائی حکومتیں تعلیمی آزادی کے بجائے اس پر کنٹرول کو ترجیح دے رہی ہیں، جس کا حتمی نتیجہ ان اداروں کی خدانخواستہ مزید زبوں حالی کی شکل میں بھی برآمد ہوسکتا ہے جن کا ملک وقوم کی ترقی میں بنیادی کردار ہوتاہے۔ یہ امر پوری قوم کے لیے یقیناً ایک بہت بڑا دھچکا ہوگا۔