اب سوال یہ ہے کہ بگاڑ کس طور پر پیداہوا اور اس قدر کیسے بڑھا کہ سبھی کچھ لپٹ ہوتا چلاگیا؟
بے سمت معاشرے کیسے ہوتے ہیں، اگر کسی کو یہ دیکھنا ہو تو پاکستان کی سیر کرے۔ جب کسی بھی معاشرے میں اکثریت یہ طے کرلے کہ اُسے کسی بھی معاملے میں اصول پرستی نہیں اپنانی، قوانین کا احترام نہیں کرنا، اُن پر عمل بھی نہیں کرنا، اور ہر معاملے میں صرف اپنی مرضی اور صوابدید کے مطابق فیصلہ کرنا ہے تو پھر وہی سب کچھ ہوتا ہے جو اِس وقت پاکستان میں ہورہا ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ پاکستانی معاشرہ شروع ہی سے ایسا تھا۔ جب پاکستان قائم ہوا تھا تب بیشتر معاملات درست تھے، اپنے اپنے مقام پر تھے اور لوگ اصولوں کی پاس داری اور قوانین کا احترام کرتے ہوئے زندگی بسر کرتے تھے۔ شرم بھی تھی، رواداری بھی تھی، بھائی چارہ بھی تھا، مفاہمت پسندی بھی تھی۔ لوگ بات بات پر لڑتے جھگڑتے نہیں تھے۔ بشری خامیاں اور کمزوریاں تو ہوتی ہی ہیں، مگر اُن میں بے جا اور انتہائی غیر ضروری قسم کی شدت نہیں تھی۔ لوگ معاملت کے وقت انتہا پسندانہ طرزِ فکر و عمل کا اظہار نہیں کرتے تھے، کیونکہ مجموعی ماحول ایسا نہیں تھا۔ اگر کوئی انتہا پسندی کی روش پر گامزن رہتا تھا تو دور سے پہچانا جاتا تھا۔
پاکستانی معاشرہ اپنے عہدِ اوّل میں مثالی نوعیت کا کہا جاسکتا ہے، کیونکہ صَرف کا رجحان ابتدا ہی سے غیر معمولی نوعیت کا تھا اور لوگ زیادہ سے زیادہ خرچ کرکے زندگی بسر کرنے کے قائل تھے۔ اِس کے نتیجے میں بے روزگاری برائے نام تھی اور جن لوگوں کو ملازمت نہیں مل پاتی تھی وہ اپنا کوئی بھی چھوٹا موٹا کام کرکے خوب کماتے تھے۔ معاشرہ متحرک رہتا تھا۔ لوگ مجموعی طور پر بہت خوش اور خوش حال تھے، اور یہ بات پورے خطے میں واضح طور پر محسوس کی جاتی تھی۔ جب ہمارے پڑوس میں انتہائی نوعیت کی پس ماندگی اور افلاس تھا تب بھی ہم بہت اچھی طرح جی رہے تھے، اور افلاس اگر تھا بھی، تو ایسا نہیں تھا کہ سبھی کچھ کھا جاتا۔ ہمارے پڑوس میں جو افلاس تھا وہ انسانیت ہی کے درپے تھا، شرم و حیا کے بندھن بھی ٹوٹ چکے تھے، لوگ جینے کے نام پر زندگی کی گاڑی کو محض دھکیل رہے تھے۔ یہی سبب ہے کہ ساٹھ اور ستّر کی دہائی میں بھی پڑوس سے لوگوں کی ہجرت جاری رہی۔ وہاں زندگی تب بھی مشکل تھی اور اب بھی آسان نہیں۔ تب ہمارے ہاں زندگی جس قدر آسان تھی اُس کا وہاں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اور حق تو یہ ہے کہ آج بھی ہمارے ہاں معاشی اور معاشرتی دونوں ہی اعتبار سے معاملات اُتنے نہیں بگڑے ہیں جتنے بتائے جاتے ہیں یا ہمارے مین اسٹریم میڈیا میں پیش کیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں تو یہ طے کرلیا گیا ہے کہ معاشرے کی ہر اُس قدر کو خوب نمک مرچ لگاکر پیش کرنا ہے جو منفی ہو۔ ہر منفی معاملے کو معاشرے کا ترجمان یا نمائندہ رجحان بناکر یوں پیش کیا جاتا ہے گویا اُسے پیش نہ کرنے پر جرمانہ عائد کیے جانے کا خدشہ ہو۔
آج ہمیں اپنے معاشرتی ڈھانچے کی کوئی بھی کَل سیدھی دکھائی نہیں دے رہی۔ سبھی کچھ بگڑا ہوا، اپنے مقام سے ہٹا ہوا لگ رہا ہے۔ باہر سے آیا ہوا کوئی شخص محض ایک اُچٹتی سی نظر بھی ڈالے تو ہمارے معاشرے کے بارے میں یہی کہے گا کہ یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ ایسی کسی بھی رائے کو غلط بھی قرار نہیں دیا جاسکتا۔
کیا معاشرے کی خرابیوں کے لیے صرف ریاستی نظم کو ذمہ دار قرار دیا جاسکتا ہے؟ یقیناً نہیں۔ کیا چند اداروں نے مل کر معاشرے کو تباہی کے راستے پر ڈالا ہے؟ ایسا بھی نہیں ہے۔ کیا صرف عوام اِس کے ذمہ دار ٹھیرائے جاسکتے ہیں؟ یہ بھی ممکن نہیں۔ کیا عمر کے کسی خاص حصے کے لوگ اس خرابی کو پیدا کرنے کا سبب بنے ہیں؟ نہیں ایسا بھی نہیں ہے۔ تو پھر معاملہ ہے کیا؟ کیا صرف سیاست دانوں کو موردِ الزام ٹھیرانا چاہیے؟ ایسا کرنا عدل کے اصولوں کے مطابق نہ ہوگا۔ کیا صرف اعلیٰ افسران یا ملک کی مجموعی انتظامی مشینری اِن تمام خرابیوں کی جڑ ہے؟ صرف انتظامی مشینری کے گلے میں الزامات کا ہار ڈال کر سُکون کا سانس نہیں لیا جاسکتا۔
آج کا پاکستانی معاشرہ سمت سے محروم دکھائی ہی نہیں دیتا بلکہ ہے بھی۔ بدنظمی پہلے کا معاملہ تھا، اب تو بے نظمی ہے۔ بیشتر اہم معاملات اپنے مقام سے ہٹے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ انتظامی مشینری سَڑ چکی ہے۔ اِس ڈھانچے کو بدلنے کی ضرورت ہے، مگر ایسا نہیں کیا جارہا اور اِس کے نتیجے میں بگاڑ بڑھتا ہی چلا جارہا ہے۔
ہم ایک زمانے سے رو رہے ہیں کہ ہمارے ہاں کرپشن بہت زیادہ ہے۔ جب بھی کرپشن کی بات ہوتی ہے تو ذہن کے پردے پر سب سے پہلے سرکاری مشینری ابھرتی ہے۔ پھر سیاست دان، اور اُن کے بعد کاروباری طبقہ۔ اِس میں تو خیر کوئی شک نہیں کہ سرکاری مشینری بہت کرپٹ ہے۔ سیاست دان؟ اُن کی کرپشن بھی وسیع البنیاد ہے اور اظہر من الشمس بھی ہے۔ اور کاروباری طبقہ؟ جب سبھی کرپشن کے دریا میں ڈبکیاں لگارہے ہیں تو پھر وہ کیوں اور کیونکر پیچھے رہیں؟ کاروباری طبقہ بھی جی بھرکے مزے لوٹ رہا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا معاشرے کے ہر جُز اور ہر معاملے پر محیط کرپشن کے لیے صرف سرکاری مشینری، سیاست دانوں اور کاروباری طبقے ہی کو موردِ الزام ٹھیرایا جاسکتا ہے؟ ایسا کرنا قرینِ انصاف نہ ہوگا۔
آج کے پاکستانی معاشرے میں جتنی بھی خرابیاں پائی جاتی ہیں اُن کے لیے سب ذمہ دار ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ کسی ایک طبقے نے یا چند اداروں نے مل کر معاشرے کو بگاڑ ڈالا ہے۔ اگر ایسا ہوا ہوتا تو اصلاحِ احوال میں زیادہ الجھنوں کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ صرف سیاست دانوں، اداروں، سرکاری مشینری، بیوروکریسی یا کاروباری طبقے کو موردِ الزام ٹھیراکر جان چھڑانا غیر دانش مندانہ قدم اٹھانے کے مترادف ہوگا۔
اب اس بحث کی گنجائش نہیں کہ بگاڑ کب شروع ہوا اور کس طور پروان چڑھا۔ وقت بہت گزر چکا ہے۔ اصلاحِ احوال کے لیے اب معاملات کو بتدریج دُرست کرنے کی بھی گنجائش نہیں۔ اب تو جو کچھ بھی کرنا ہے بہت تیزی سے کرنا ہے تاکہ چھُوٹی ہوئی بس پر دوبارہ چڑھنا ممکن ہوسکے۔
یہ حقیقت کسی بھی طور نظرانداز نہیں کی جاسکتی کہ پاکستان آج جہاں کھڑا ہے اُس مقام تک کوئی بھی معاشرہ اُسی وقت پہنچتا ہے جب بگاڑ میں سب نے اپنا اپنا حصہ ڈالا ہو۔ جب چند لوگ کرپٹ ہوتے ہیں تب اُنہیں سیدھا کرنے کی گنجائش ہوتی ہے۔ معاملات کی خرابی اُس وقت تیزی سے بڑھتی ہے جب کئی طبقے مل کر خرابیوں کی طرف جائیں، اُن کی شدت میں اضافہ کریں۔ ہمارے ہاں ایسا ہوا اور پھر ہوتا ہی چلا گیا۔
جب معاشرے میں کوئی ایک طبقہ بگڑتا ہے، ناجائز ذرائع سے دولت بٹورنے کی طرف بڑھتا ہے تب اُن خرابیوں کی ابتدا ہوتی ہے جن سے معاشرے تباہ ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں ابتدائی دور میں معاشرتی نوعیت کی خرابیاں برائے نام تھیں۔ معاشی خرابیاں اور کمزوریاں بھی بہت زیادہ نہیں تھیں۔ بگاڑ خاصی سُست رفتاری سے پیدا ہوا۔ لوگ کسی بھی خرابی کی طرف جاتے ہوئے ڈرتے تھے۔ کرپشن کا بھی ایسا ہی معاملہ تھا۔ جو لوگ ناجائز ذرائع سے کماتے تھے وہ اپنی کمائی کو چھپاتے تھے اور اس بات سے واضح طور پر خوف زدہ رہتے تھے کہ کہیں بدنام نہ ہوجائیں۔ لوگوں کو اس بات کا احساس تھا کہ اگر لوگوں کو معلوم ہوگیا کہ وہ ناجائز ذرائع سے کمارہے ہیں تو اُن کی ساکھ داؤ پر لگ سکتی ہے۔ اور ایسا ہوتا بھی تھا۔ لوگ اُن سے دور رہتے تھے جن کے بارے میں پورا یقین ہو کہ وہ ناجائز ذرائع سے کماتے ہیں۔
دنیا بھر میں چاہے کچھ بھی ہورہا تھا مگر حقیقت یہ ہے کہ ہم اپنی روایات اور اقدار سے وابستہ تھے بلکہ چمٹے ہوئے تھے۔ معاشرے میں بگاڑ پیدا کرنے والی باتیں بہت کم تھیں۔ لوگ مجموعی طور پر گھل مل کر رہتے تھے، ایک دوسرے کی بات کو سنتے اور سمجھتے تھے، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہر پریشانی میں ایک دوسرے کی مدد کے لیے تیار رہتے تھے۔ کوئی کسی کی مجبوری سے فائدہ اٹھانے کے بارے میں سوچنے سے پہلے دس بار عواقب کے بارے میں سوچتا تھا۔ غریب کی تحقیر و تذلیل سے گریز کیا جاتا تھا۔ جی ہاں، یہ سب کچھ اِسی معاشرے میں تھا۔ خرابیاں کس معاشرے میں نہیں ہوتیں؟ پاکستانی معاشرے میں بھی خرابیاں تھیں، مگر بے لگام نہیں ہوئی تھیں۔ بہت کچھ قابو میں تھا اور قابو میں رکھا جاسکتا تھا۔
ملک کے ابتدائی تین عشروں کے دوران زندگی بہت سے، بلکہ بیشتر معاملات میں مثالی نوعیت کی ہو نہ ہو، پُرسکون ضرور تھی۔ لوگ اپنی آمدنی کی حدود میں رہتے ہوئے زندگی بسر کرنے کو ترجیح دیتے تھے۔ ایک دوسرے کو دیکھ کر حسد اور ہوس میں مبتلا ہونے کی دوڑ نہیں تھی۔ جو کچھ بھی اللہ کی طرف سے عطا ہوتا تھا اُس پر صبر اور شکر کی توفیق نصیب ہوا کرتی تھی۔
اب سوال یہ ہے کہ بگاڑ کس طور پیدا ہوا اور اس قدر کیسے بڑھا کہ سبھی کچھ تلپٹ ہوتا چلا گیا؟ کسی بھی معاشرے میں بگاڑ جس طور پھیلتا ہے ہمارے ہاں بھی اُسی طور پھیلا۔ معاشرے اُس وقت بگڑتے ہیں جب لوگ اُنہیں بے لگام چھوڑتے ہیں۔ کوئی بھی حکومت یا ریاستی مشینری معاشرے کا تیا پانچا نہیں کرسکتی اگر عوام اِس کے لیے تیار نہ ہوں۔ معاشرے کی سمت درست رکھنے کی بنیادی، غیر اعلانیہ اور غیر محسوس ذمہ داری تو عوام ہی کی ہوتی ہے۔ آج ہمیں ایسا لگتا ہے کہ عوام کے ہاتھ میں تو کچھ بھی نہیں۔ یہ احساس غلط نہیں۔ واقعی آج عوام بہت حد تک بے بس ہیں، مگر یہ بات بھلائی نہیں جانی چاہیے کہ ہمیشہ یا شروع سے ایسا نہیں تھا۔ عوام بیشتر معاملات میں اپنی مرضی کے مطابق طرزِعمل اختیار کرتے تھے اور اِس سے بہت فرق پڑتا تھا۔ جب لوگوں نے معاملات کو ڈھیلا چھوڑنا شروع کیا تب بگاڑ کے دائرے نے وسعت اختیار کرنا شروع کی۔ یوں معاملات ہاتھ سے نکلتے چلے گئے۔
اسکولنگ کے معاملے ہی کو لیجیے۔ آج سرکاری اسکول میں بچوں کو پڑھانا گالی جیسا لگتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ تمام ہی سرکاری اسکول بالکل گئے گزرے ہیں۔ اچھے سرکاری اسکول آج بھی ہیں، مگر لوگ اُن میں اپنے بچوں کی انرولمنٹ سے گریز کرتے ہیں۔ یہ سب کچھ غیر محسوس طور پر ہوا ہے۔ جب پرائیویٹ اسکول نمودار ہوئے تو لوگوں نے اُن میں بچوں کو انرول کرانا شروع کیا۔ ابتدا میں پرائیویٹ اسکول غیر معمولی نوعیت کے تھے۔ اُن میں پڑھنے والے بچوں کی ذہنی سطح واقعی بلند ہوتی تھی، یعنی ہوجاتی تھی۔ پھر یوں ہوا کہ دیکھا دیکھی سب نے اپنے بچوں کو پڑھانے کے لیے سرکاری اسکولوں کو نظرانداز کرنا اور پرائیویٹ اسکولوں کو ترجیح دینا شروع کردی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سرکاری اسکولوں کی کارکردگی بھی خراب ہوتی چلی گئی۔ سرکاری اساتذہ کو معلوم تھا کہ لوگوں کو اپنے بچوں کی سرکاری اسکولوں میں تعلیم سے کچھ غرض نہیں۔ پرائیویٹ اسکول بہتر نتائج دینے لگے اور لوگ اُن کی طرف لپکنے لگے۔ یہ سلسلہ اِتنا بڑھا کہ سرکاری اسکول میں بچوں کو پڑھانے سے واضح طور پر گریز کیا جانے لگا، اور سچ تو یہ ہے کہ آج بیشتر والدین سرکاری اسکول میں بچوں کو پڑھانے کو خاصا تحقیر آمیز عمل سمجھتے ہیں۔ بیشتر والدین کو یہ فکر لاحق ہوتی ہے کہ سرکاری اسکول میں بچوں کو پڑھوائیں گے تو رشتہ دار، پڑوسی اور جاننے والے طعنہ دیں گے، ذلیل کریں گے۔
کم و بیش ہر معاملے میں لوگوں نے خود ہی خرابیوں کو راہ دی ہے۔ یہ دیکھا دیکھی کا معاملہ ہے۔ ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی لوگوں نے گھر میں کھانا پکانے کے بجائے پکا پکایا کھانا لانے یا منگوانے کو ترجیح دینا شروع کردی۔ اب یہ معاملہ بھی سَروں پر سوار ہے۔
یہ تو ہوئے قدرے چھوٹے اور عمومی معاملات۔ جب معاشرے کو معاشی مشکلات کا سامنا نہیں تھا تب کرپشن کی گنجائش برائے نام تھی۔ انسان کرپشن بالعموم اُس وقت کرتا ہے جب گزارا نہ ہو پارہا ہو۔ اگر تمام ہی اشیائے ضرورت کی قیمتیں قابو میں ہوں تو کسی کے پاس رونے پیٹنے کا جواز باقی نہیں رہتا۔ پاکستان میں بھی ایسا ہی تھا۔ جب سب کچھ قابو میں تھا تب چند ہی افراد ایسے تھے جو کرپشن یا ناجائز آمدنی پر یقین رکھتے تھے۔ اِن چند لوگوں نے کرپشن کو متعدی مرض میں تبدیل کیا۔ جن کے پاس کرپشن کا کوئی جواز نہ تھا وہ بھی کرپشن کی راہ پر گامزن ہونے لگے۔ رفتہ رفتہ پورے معاشرے نے کرپشن کو طرزِ زندگی یا پھر طرزِ زندگی کے ایک اہم جُز کی حیثیت سے قبول کرنا شروع کردیا۔ پھر یوں ہوا کہ کرپشن کرنے والوں کو بُرا سمجھنے کی روش ہی دم توڑ گئی۔ اب معاملہ یہ ہے کہ کسی بھی شخص کو اس بات سے کچھ بھی غرض نہیں کہ کسی نے اگر بہت زیادہ دولت جمع کی ہے تو کس طور کی ہے۔ جن سرکاری ملازمین کی تنخواہ ماہانہ گزارے کی سطح سے زیادہ نہ ہو وہ بھی کروڑوں کے گھروں میں رہتے ہیں، عالی شان گاڑیوں میں گھومتے ہیں، برانڈیڈ ملبوسات اور دیگر اشیا استعمال کرتے ہیں مگر کوئی بھی یہ سوال نہیں اٹھاتا کہ اُس شخص کے پاس اِتنا پیسہ آیا کہاں سے؟ جب سوال اٹھایا جاتا تھا تب لوگ چوکنے رہتے تھے اور کرپشن کی راہ پر چلنے سے کتراتے تھے۔
اِس وقت معاملہ یہ ہے کہ کم و بیش سبھی کرپشن کے دریا میں غوطہ خوری فرمارہے ہیں۔ کرپشن صرف پیسے کی نہیں ہوتی۔ معاوضے کے مطابق کام نہ کرنا بھی کرپشن ہے۔ کام کیے بغیر کھانا بھی کرپشن ہے۔ ڈیوٹی کے طے شدہ اوقات کے مطابق وقت نہ دینا بھی کرپشن ہے۔ کسی کے لیے کام کرنے کے حالات پیدا نہ ہونے دینا بھی کرپشن ہے۔ اگر خالص دیانت داری سے جائزہ لیجیے تو معاشرے کا کم و بیش ہر فرد ہی کرپٹ دکھائی دے گا۔ المیہ یہ ہے کہ کسی بھی نوع کی کرپشن کو کرپشن سمجھنے کا چلن بھی ختم ہوچکا ہے۔ لوگ کرپشن بھی حق سمجھتے ہوئے کرتے ہیں۔
بگڑے ہوئے معاملات کی دلدل سے معاشرے کو نکالنے کی اب ایک ہی صورت ہے … یہ کہ سب اپنی اپنی ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے اصلاحِ احوال کے لیے متحرک ہوں۔ کوئی ایک ادارہ جوابدہ نہیں، کسی ایک طبقے کو موردِ الزام ٹھیرایا نہیں جاسکتا۔ معاشرے کا یہ حال ہم سب نے مل کر کیا ہے۔ عام آدمی آج اگر انتہائی مجبور دکھائی دے رہا ہے تو یہ کیفیت راتوں رات پیدا نہیں ہوئی بلکہ کئی عشروں کی غفلت شعاری نے یہ دن دکھائے ہیں۔ لوگوں نے اپنی اپنی درست راہ ترک کی تو معاشرہ بے سمت ہوا ہے۔ اب سب کو اپنے اپنے حصے کا کام کرنا ہے۔ یہ سب کچھ بھی مرحلہ وار ہوگا کیونکہ معاشرہ مرحلہ وار بگڑا تھا، راتوں رات نہیں بدلا۔