ذرائع ابلاغ کے لیے حل حاضر ہے!

برادرِ عزیز انیق احمد فرماتے ہیں:
’’حاطب بھائی! مجھے آپ سے شکوہ ہے۔ آپ ذرائع ابلاغ کی غلطیاں بتاتے ہیں، حل نہیں بتاتے‘‘۔

گزشتہ کالم میں برقی ذرائع ابلاغ پر بولی جانے والی اُردو سے متعلق غلطیوں کی نشان دہی کی گئی تھی۔خوشی ہوئی کہ ملک کے ایک بڑے نشریاتی ادارے سے منسلک اور ملک کے مقبول ترین نظامت کار نے ان مسائل کا حل پیش کرنے کو کہا۔ دل سے نکلی ہوئی بات دل پر اثر کرتی ہے۔ اثر قبول کرنے کے لیے صاحبِ دل ہونا پہلی شرط ہے۔ ایک زمانے میں ہم اپنے کالموں کی اثر پزیری سے کچھ مایوسی کا شکار ہوئے تو مشفقِ محترم احمد امام شفق ہاشمی نے حوصلہ دلایا:’’دل سے لکھا ہوا کوئی حرف رائیگاں نہیں جاتا۔کسی نہ کسی دل میں اُتر جاتا ہے‘‘۔

اہلِ دل کی خدمت میں حل پیش کرنابڑے اعزاز کی بات ہے۔ حل اُنھیں کی خدمت میں پیش کرنا فائدہ مند ہے جو حل چاہتے ہیں۔ جنھیں حل نہیں چاہیے، اُنھیں حل پیش کردیا جائے تو وہ اُس پر ہل چلا دیتے ہیں۔ اے لو! حل پیش کرنے سے پہلے ہی حالیؔ یاد آگئے۔

مولانا حالیؔ نے امت کی بے حالی پر ’’مدّو جزرِ اسلام‘‘کے عنوان سے ایک طویل مسدس کہی، جو ’’مسدسِ حالی‘‘ کے نام سے مشہور ہوئی۔ امت کے ماضی کی تمام خوبیاں اور امت کے حال کی تمام خرابیاں بیان کرنے کے بعد مولانا فرماتے ہیں:

تمھِیں اپنی مشکل کو آساں کرو گے
تمھِیں درد کا اپنے درماں کرو گے
تمھِیں اپنی منزل کا ساماں کرو گے
کرو گے تمھِیں کچھ اگر یاں کرو گے
چھپا دستِ ہمت میں زورِ قضا ہے
مَثَل ہے کہ ہمت کا حامی خدا ہے

ہمیں یہاں اس بند کے فقط آخری شعر سے مطلب ہے۔آخری شعر کے پہلے مصرعے میں ’قضا‘ سے مراد مشیتِ الٰہی اور تقدیرِ خداوندی ہے۔ سورۃ النجم کی آیت نمبر 39 میں ارشادِ ربانی ہے:’’لَیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰی‘‘ ۔یعنی’’انسا ن کو کچھ نہیں ملتاسوائے اُس کے جس کی وہ خود سعی کرتا ہے‘‘۔اسی مشیت کی طرف اشارہ ہے اس مصرعے میںکہ ’’چھپا دستِ ہمت میں زورِ قضا ہے‘‘۔ہمت ہی سے حالات بدلتے ہیں۔ مشکل آسان اور تقدیر نگوں ہو جاتی ہے۔کہا جاتا ہے کہ ’’قوتِ ارادی سے پہاڑ بھی ہل سکتے ہیں‘‘۔ مگر ہلنے کے لیے پہاڑ کو خود اپنی قوتِ ارادی سے کام لے کر ہلنے کا ارادہ کرنا ہوگا۔ مشکل یہ ہے کہ مشکل حل کرنے کے لیے ہماراتواپنی جگہ سے ہلنا بھی مشکل نظر آتا ہے۔ مگر ایسے میں ایک فارسی کہاوت ہم جیسے کم ہمتوں کی ہمت بڑھاتی ہے۔ ہم سے کہتی ہے:

مشکلے نیست کہ آساں نہ شود
مرد باید کہ ہراساں نہ شود

کوئی مشکل ایسی نہیں جو آساں نہ ہوجائے۔ مرد وہ ہے جو ہراساں نہ ہوجائے۔ پس اے دوستو! ہراساں ہوئے بغیر ’ہمتِ مرداں‘ سے کام لو اور یہ جان لو کہ اپنے اپنے دائرۂ اختیار کی حد تک اپنی قومی زبان کو فروغ دینا ہم سب کا قومی فرض ہے۔ اُردو ہماری تہذیب اور ہماری قومی خودمختاری کی علامت ہے۔ قومی یکجہتی کا قطب نما ہے۔ دیگر پاکستانی زبانوں سے ہم آہنگ ہونے کی وجہ سے اُردو ہماری لسانی یک رنگی کی محافظ ہے۔ جب کہ انگریزی کو پاکستان میں یہ عزّو شرف حاصل نہیں ہے۔

حل کی بات کرنے سے پہلے یہ بات پھر دُہراتے چلیں کہ اُردو ذرائع ابلاغ میں اُردو کا حال اچھا نہیں۔ حالاں کہ ذرائع ابلاغ کو زبان کی درستی کے معاملے میں زیادہ حساس ہونا چاہیے۔’اطلاعات‘ اور ’تفریحات‘ کے ساتھ ساتھ ذرائع ابلاغ کے وظائف میں ’تعلیمات‘بھی شامل ہیں۔ عام مشاہدہ ہے کہ ذرائع ابلاغ سے جس قسم کی زبان کا ابلاغ ہوتا ہے عامۃ الناس کی زبان پر بھی وہی الفاظ چڑھ جاتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے تک ذرائع ابلاغ میں صحتِ زبان کا خاص اہتمام کیا جاتا تھا، لہٰذا اخبارات کا املا اور ریڈیو کا تلفظ مستند مانا جاتا تھا۔ پاکستان میں ٹیلی وژن کی نشریات کا آغاز بھی معیاری زبان کے ساتھ ہوا تھا۔ ورقی و برقی ذرائع ابلاغ کے اداروں میں املا، انشا اور تلفظ درست کرنے والے ماہرین مقرر کیے جاتے تھے۔ تعلیمی اداروں میں اُردو کا دور دورہ تھا، اس وجہ سے نوواردانِ ذرائع ابلاغ بھی اُردو قواعد و انشا کی بنیادی معلومات رکھتے تھے۔ اب بالکل ابتدائی جماعتوں سے ذریعۂ تعلیم انگریزی زبان ہے۔ اس کے نتیجے میں ہمارا پورا تعلیمی نظام انحطاط کا شکار ہوا ہے۔ اس انحطاط سے نہ صرف زبان کا معیار گرا ہے بلکہ معاشرتی اقدار بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئی ہیں۔

حل کے لیے کچھ اقدامات سرکاری سطح پر کرنے کے ہیں۔ چین، فرانس اور جرمنی سمیت کئی ممالک میں ایسے سرکاری ادارے قائم ہیں جو اپنی زبان کے معیار کا تحفظ کرتے ہیں۔ ان اداروں کے احکام نافذ کیے جاتے ہیں۔ ذرائع ابلاغ کو ضابطے کا پابند بنانے والے سرکاری ادارے ہمارے ہاں بھی موجود ہیں۔ لیکن چند اخلاقی پابندیوں کے علاوہ اُن کا دائرۂ کار بیش تر سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے پابندیاں لگانے تک محدود ہے۔ اُنھیں اس سے کوئی سروکار نہیں کہ مطبوعات و نشریات میں قومی زبان کا کیا حشر ہورہا ہے۔ اگر’PEMRA’ اور وفاقی و صوبائی محکمہ ہائے اطلاعات و نشریات کو قومی زبان کی خدمت کی توفیق مل جائے تو اخبارات و جرائد، نشریاتی اداروں اور اشتہاری ایجنسیوں پر کم ازکم اتنی پابندی تو لگا ہی سکتے ہیں کہ کوئی اُردو فقرہ رومن حروف میں نہیں لکھا جائے گا۔ مطبوعہ اور برقی ذرائع ابلاغ کی انتظامیہ اپنی قومی ذمے داری محسوس کرتے ہوئے یہ پابندی اپنے اداروں پر ازخود بھی لگا سکتی ہے۔ اس سے آگے بڑھ کر ذرائع ابلاغ کے لیے قائم کیے جانے والے سرکاری انضباطی ادارے، مقتدرہ قومی زبان کے تعاون سے (جس کا موجودہ سرکاری نام ’’ادارہ فروغِ قومی زبان‘‘ ہے) اخبارات و جرائد، نشریاتی اداروں اور اشتہاری ایجنسیوں کو ’’فرہنگِ اصطلاحات‘‘ فراہم کرسکتے ہیں اور اُنھیں پابند کرسکتے ہیں کہ اُردو زبان میں غیر ضروری طور پر انگریزی فقرے استعمال کرنے کے بجائے مقررہ معیاری اُردو اصطلاحات استعمال کی جائیں۔ اگر سیاسی اشخاص کے لیے سرکار کی دی ہوئی اصطلاحات استعمال کرنے کی پابندی ذرائع ابلاغ سے کروائی جا سکتی ہے تو قومی زبان کے تحفظ کے لیے اس قسم کی پابندیاں کیوں نہیں لگائی جاسکتیں۔

اُن تمام جامعات میں، جہاں علومِ ابلاغیات کے شعبے قائم ہیں، ابلاغیات کے طلبہ و طالبات کو ہر تدریسی سطح پر اُردو قواعد و انشا کی مبادیات کی تعلیم دی جائے اور اُردو ادب سے روشناس کرا دیا جائے تاکہ جب وہ اُردو ذرائع ابلاغ میں اپنی عملی زندگی کا آغاز کریں تو اُردو سے بالکل ہی بے بہرہ نہ ہوں۔ ورقی اور برقی ذرائع ابلاغ اس بات کا اہتمام کریں کہ اُن کے ادارتی عملے کی میزپر انگریزی اُردو ڈکشنری اور اُردو لغت موجود ہو تاکہ انگریزی الفاظ کے متبادل اُردو الفاظ اور اُردو الفاظ کا املا اور تلفظ جاننے کے لیے انھیں فوری کمک میسر ہو۔ مطبوعہ اور نشری ذرائع ابلاغ کی انتظامیہ کو چاہیے کہ جس طرح وہ اپنی مطبوعات و نشریات کے فنّی معیارکا جائزہ لینے والے افراد کا تقرر کرتے ہیں اسی طرح زبان و بیان کے معیارکا جائزہ لینے کے لیے بھی ماہرین کا تقرر کریں جیسا کہ ماضی میں ہوتا آیا ہے۔ سرکاری اداروں، جامعات کے شعبہ ہائے اُردو اور ذرائع ابلاغ کے اداروں کے تعاون سے ایسی تربیتی کارگاہوں (Workshops) کا انعقاد کیا جا سکتا ہے جن میں صحافیوں کو معیاری زبان لکھنے اور بولنے کی تربیت دی جائے۔ تو صاحب، یہ تھیںچند گزارشات۔ شاید کہ کسی دل میں اُتر جائے مری بات!