آج علی الصبح خبر آئی کہ جناب تابش مہدی صاحب اب ہم میں نہیں رہے، وہ کچھ دنوں سے علیل اور داخلِ شفا خانہ تھے۔ آپ کی رحلت کے ساتھ اردو شعرو ادب کی تعمیری و اسلامی فکر کا ایک باب بند ہوگیا۔
آپ کی ولادت اترپردیش کے شہر پرتاب گڑھ میں مورخہ 3جولائی 1951ء کو ہوئی تھی، اس طرح آپ نے زندگی کی 73 بہاریں اس دنیائے فانی میں گزاریں۔ آپ کا مکمل نام مہدی حسن تابش تھا۔ آپ نے گھر کی مکتبی تعلیم کے بعد مقامی اسکول میں، پھر بالترتیب تجوید و قرات کی تعلیم مدرسہ سبحانیہ الٰہ آباد، اور مدرسہ تعلیم القرآن حسن پور مراد آباد سے مکمل کی۔ 1970ء سے 1997ء تک الٰہ آباد یونیورسٹی سے لے کر جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی تک تعلیم کا سفر جاری رکھا، اور مولوی سے لے کر عربی، اردو، فارسی زبانوں میں اعلیٰ ڈگری حاصل کی، جن میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی شامل تھی۔
18 مئی 1979ء کو آپ کا عقدِ مسعود دیوبند کے مشہور خطاط اور عالم دین مولانا اشتیاق احمد عثمانی کی پوتی سے ہوا، جن سے سات اولادیں ہوئیں۔ دو فرزندان میں ہماری اس بزم علم و کتاب کے معزز رفیق مولانا شاہ اجمل فاروق شامل ہیں۔
سنہ 1971ء سے اپنی وفات تک آپ نے ابوالکلام آزاد کالج پرتاب گڑھ، دارالعلوم امروہہ، جامعۃ الفلاح بلریا گنج، اور اسلامی اکادمی جماعت اسلامی ہند میں بالترتیب تدریسی خدمات انجام دیں۔
تصنیفی میدان میں آپ نے 55سے زائد کتابیں یادگار چھوڑیں، اور ”الایمان“ دیوبند سے ”پیش رفت“ دہلی تک بے شمار مجلات میں مضامین لکھے۔ کئی اہم علمی و ادبی انجمنوں میں مشیر رہے، جن میں مکتبہ اسلامی دہلی کو خاص اہمیت حاصل رہی، اور ڈھیر سارے انعامات اور ایوارڈ حاصل کیے۔ تابش صاحب ایک مجلسی بااخلاق انسان تھے، ان کے رویوں میں اپنائیت اور محبت کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ 1970ء سے آپ نے مشاعروں میں بحیثیت شاعر شرکت شروع کی تھی۔ مختلف علمی و ادبی سرگرمیوں کے باوجود آپ کی شناخت زیادہ تر ایک اسلامی فکر کے شاعر ہی کی حیثیت سے رہی۔
آپ کا نام پہلے پہل 1970ء کی دہائی کے اواخر میں ہمارے کانوں میں پڑا تھا، خاص طور پر جب آپ نے مولانا عامر عثمانی کے ماہنامہ ”تجلی“ دیوبند کے بند ہونے کے کچھ عرصے بعد فروری 1980ء میں دیوبند سے ”الایمان“ کے نام سے ایک ماہنامہ جاری کیا تھا، جس کے سرپرست ڈاکٹر عبدالرحمٰن داعی تھے۔ یہ تابش صاحب کی جماعت اسلامی سے وابستگی کا آغاز تھا۔ چونکہ ابھی فضائوں میں ”تجلی“ کا اثر باقی تھا، اور آپ نے بھی ایک شاعر کا مزاج پایا تھا، جس میں کسی سے جلد متاثر ہوکر اپنا فوری ردعمل ظاہر کرنا شامل ہوا کرتا ہے، اور یہ آپ کی جوانی کے بھی دن تھے، تو آپ کے مزاج میں یہ اوصاف مکمل طور پر اثرانداز نظر آتے تھے، اسی اثر میں آپ کے قلم سے ”الایمان“ میں چند ایک مضامین اور پھر ایک دو تصانیف بھی نکلیں، جن کے بارے میں بعض سنجیدہ لوگوں کا خیال تھا کہ یہ ان کا میدان نہیں تھا۔ لیکن یہ صورت حال زیادہ دیر نہیں رہی۔ انسانی زندگی کئی مراحل سے ہوکر گزرتی ہے، جب علم اور تجربہ بڑھتا ہے، اور پھر کتابی باتوں کے ساتھ ساتھ اہل اللہ کی صحبتیں بھی میسر آنے لگتی ہیں تو انسانی رویوں میں تبدیلی آنا ایک فطری بات بن جاتی ہے۔ یہ کسی شخصیت کا تضاد نہیں بلکہ اس کا ارتقا ہوتا ہے، لہٰذا کسی شخصیت کے بارے میں فیصلہ اس کے اختتام کو دیکھ کر ہی کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔
1981ء میں اس ناچیز نے ایک تحریکی حلقے کے ساتھ مل کر دعوتی اور ادبی کیسٹوں کا سلسلہ شروع کیا تھا، جس میں دروس و تقاریر کے ساتھ ساتھ شعراء کی آواز میں کلام کے کیسٹ بھی شامل تھے، اور اس وقت ہمارے ترتیب کردہ مولانا ماہرالقادری، حفیظ میرٹھی کے کیسٹ منظرعام پر آچکے تھے، تابش صاحب کو جب اس کی اطلاع ملی تو انہوں نے اس کی بہت ستائش کی، اور ڈیڑھ گھنٹے کا اپنی آواز میں ریکارڈ شدہ کیسٹ اشاعت کے لیے ہمیں بھیج دیا۔ اُس وقت تک تابش صاحب ایک اسلامی شاعر کی پہچان بناچکے تھے۔
آپ کو ابتدا میں امروہہ میں شعری و ادبی ماحول ملا تھا، جہاں مولانا نسیم احمد فریدی امروہوی اور مولانا شہباز صدیقی امروہوی جیسی علمی و روحانی شخصیات کی صحبتیں نصیب ہوئی تھیں۔ امروہہ کے نام کو دورِ حاضر کے مقبول ترین شاعر جون ایلیا مرحوم نے ازسرنو زندہ کیا ہے، یہاں کے علمی و ادبی سنہرے ماضی پر میر تقی میرؔ کا یہ شعر صادق آتا ہے جو آپ نے کسی اور شہر کے بارے میں کہا تھا کہ
اب خرابہ ہوا جہاں آباد
ورنہ ہر اک قدم پہ یاں گھر تھا
امروہہ سے باہر آپ کو ابوالوفاء عارف شاہ جہاں پوری، عامر عثمانی، مولانا حکیم محمد ایوب صدیقی، مولانا بلالی علی آبادی، سروش مچھلی شہری سے فیض اٹھانے کے مواقع نصیب ہوئے اور جماعت اسلامی سے جذباتی وابستگی کے باجود آپ نے دوسرے صوفیہ اور روحانی شخصیات کی مجالس اور صحبتوں سے سے بھی استفادہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، اس کا اندازہ شخصیات پر آپ کی کتاب ’’مہک چھوڑ گئے‘‘ سے کیا جاسکتا ہے۔
1955ء کے آس پاس جماعت اسلامی ہند سے وابستہ دانش وروں اور ادیبوں نے ترقی پسند تحریک کے مقابلے میں اسلامی ادب کی تحریک کا لکھنؤ سے آغاز کیا تھا، جس نے بعد میں ادارہ ادب اسلامی ہند کی شکل اختیار کی، اور جس کے آپ نائب صدر بھی رہے۔ اس ادارے سے وابستہ پرانے ادیبوں میں م نسیم اعظمی، شاہ طیب عثمانی، پروفیسر رشید کوثر فاروقی، شبنم سبحانی، اصغر علی عابدی، ڈاکٹر فضل الرحمٰن فریدی، ابوالمجاہد زاہد، حفیظ میرٹھی، مائل خیرآبادی، عزیز بگھروی، سہیل احمد زیدی جیسے اسلامی فکر کے ادیبوں اور شاعروں کا نام آتا ہے، تابش مہدی صاحب اس سلسلے کی دوسری نسل سے تعلق رکھتے تھے۔ اس نسل کے بھی اسلامی ادیبوں اور شاعروں میں اب شاید دو ایک جگنو ہی روشنی دے رہے ہیں۔
تابش صاحب سے ہماری پہلی ملاقات کوئی پچیس سال قبل دبئی میں ہوئی تھی، اس دوران دو ایک بار وہ بھٹکل بھی تشریف لاچکے تھے۔ پہلی ہی ملاقات سے محسوس ہوا تھا کہ برسوں کی شناسائی ہے۔ آخری ملاقات آپ سے 2018ء میں بھٹکل میں ہوئی تھی، جب آپ ادارہ ادب اطفال کی دعوت پر ان کے پروگرام میں تشریف لائے تھے، اور جاتے جاتے عجلت میں پانچ دس منٹ اپنے اشعار سنا گئے تھے، جس کی ریکارڈنگ بھٹکلیس کے یوٹیوب چینل پر محفوظ ہے۔ جب ہم نے ”علم و کتاب“ کے نام سے اہلِ علم کا ایک واٹس ایپ گروپ شروع کیا تو وہ اصل گروپ کے تو ممبر نہیں بنے جس میں بحث مباحثہ ہوتا ہے، البتہ ہمارے اس گروپ میں شامل تھے جس میں بحث مباحثہ کی سہولت نہیں ہے، محسوس ہوتا تھا کہ وہ باقاعدہ اس گروپ سے جڑے ہوئے ہیں، اور اسے دیکھتے ہیں، کیونکہ وقتاً فوقتاً آپ کی رہنمائی اور ہمت افزائی کے پیغامات ہمیں موصول ہوتے رہتے تھے۔
اللہ تعالیٰ نے آپ کے کلام میں بے پناہ حسن دیا تھا، مست ہوکر پڑھتے تھے۔ بچپن میں تجوید و قرات کی تعلیم، پھر اس کی تدریس نے آپ کی آواز کو خوب صیقل کردیا تھا، اور پھر مزاج میں ایسی اپنائیت کہ کوئی نیا ملنے والا بھی محسوس کرے کہ دسیوں سالوں کی شناسائی ہے۔ قرآن پاک کو تجوید و قرات سے سکھانا آپ کی ایک شناخت بن گئی۔ جامعۃ الفلاح اور مرکز جماعت میں تحریک و دعوت سے وابستہ نوجوانوں کو قرآن پاک کو صحت و خوش الحانی سے پڑھنے کی مشق کرانے میں زندگی کا بہت سارا وقت آپ نے صرف کیا، کیا بعید کہ دوسرے نیک کاموں کے ساتھ ساتھ آپ کی یہ ایک خدمت ہی آپ کی مغفرت اور اس دربار میں سربلندی کا ذریعہ بننے کے لیے کافی ہو، جس کی تمنا لے کراِس دنیا سے گزرنے والا ہر مومن جاتا ہے۔ اللھم اغفر لہ وارحمہ۔