وہ ایک شخص ،سائباں کہیں جسے
اتوار اور پیر کی درمیانی شب سول اسپتال حیدرآباد میں بستر ِعلالت پر اُس عہدساز شخص کو نہایت پُرسکون اندازمیں لیٹا دیکھا، جس کے چہرے پر ہمیشہ خیرمقدمی تبسم بکھرا ہوتا تھا۔ منصور بھائی کی موجودگی میں رضا بھائی نے سرگوشی میں بتایاکہ’’ابھی سوئے ہیں، لمحہ بھر کے لیے آنکھیں کھولیں، دیکھا اور پھر آنکھیں بندکرلیں جو فجر میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند ہوگئیں۔ اناللہ واناالیہ راجعون۔
کم ازکم حیدرآباد میں کسی شخص سے جماعت اسلامی کا پوچھا جائے تو وہ اِن کا نام لے گا۔ اگر اِن کا نام لیا جائے تو جماعت اسلامی کا نام ذہن میں آجاتا ہے، گویا عبدالوحیدقریشی اور جماعت اسلامی لازم و ملزوم تھے۔ وحیدصاحب کے بزرگ محمد بن قاسم کی آمدکے بعد ملتان آئے۔ ملتان میں ان کے آباء و اجداد حضرت بہاء الدین زکریا ملتانیؒ کے ارادت مندوں میںسے تھے۔ حمیدالدین ناگوریؒ نے حضرت بہاء الدین زکریا ملتانیؒ سے بیس پچیس خاندان ناگور بھیجنے کا کہا، یوں قریشی برادری کے کچھ خاندان ناگور پہنچے، بعد میں ناگور سے جودھپور منتقل ہوگئے۔ وہاں کاشت کاری کے بعد دوسرا پیشہ کپڑے رنگنے کا اختیار کیا، اور یہ پیشہ اس قدر شہرت کا سبب بناکہ اکثر انھیں قریشی نہیں سمجھتے ہیں۔
عبدالوحید قریشیؒ 1939ء میں جودھپور راجستھان میں پیدا ہوئے۔1941ء میں اہلِ خانہ کے ساتھ حیدرآباد سندھ میں اپنے ماموں کے پاس چلے آئے۔ ماموں عبدالغفار المعروف قمرؔ جودھپوری عمدہ شاعر اور مسلم لیگ سے وابستہ نیشنل سالار تھے۔ قمرجودھپوری کو یہ اعزاز حاصل رہا ہے کہ 14اگست 1947ء کو پکاقلعہ چوک حیدرآباد پر پاکستان کا قومی پرچم لہرایا، یعنی انھوں نے پاکستان بنتے ہوئے دیکھا۔ عبدالوحید قریشیؒ صاحب کی اہلیہ محترمہ، چاروں صاحبزادگان، تین صاحبزادیاں، بچوں کے بچے، بھائی اوربھائی کے بچے جماعت اسلامی سے وابستہ ہیں۔
ان سے راقم کے مراسم بچپن سے تھے۔ ایک عشرے سے زائد اِن کے ساتھ معاون کے طورپر کام کیا۔ دوسال قبل رمضان المبارک میں ان کی زبانی جماعت اسلامی حیدرآبادکی تاریخ سنتا اور محفوظ کرتا رہا۔ معلوم نہ ہوتا اس کے اظہارکا مختصر موقع یوں ملے گا۔
جماعت اسلامی سے پہلاتعارف اورذمہ داریاں
محترم عبدالوحید قریشیؒ صاحب کی شخصیت پر پہلا اثر ماموں کا پڑا۔ ان کی قربت، ان کے دینی رجحان اور مسلم لیگی مزاج نے شعور بخشا۔ دینی مزاج اور خدمت ِخلق کے جذبے کے تحت 1954ء میں انجمن خدام الاسلام نامی تنظیم قائم کی۔ اسی برس جماعت اسلامی سے تعارف اُس وقت ہوا جب مولانا وصی مظہرندویؒ سلاوٹ مسجد میں جماعت اسلامی کی کتابوں اور پمفلٹ پر مشتمل اسٹال لگاتے تھے اور لوگوں میں تقسیم کرتے تھے۔ مسجدکے امام دیوبند مسلک کے تھے، کہنے لگے کہ ان کی کتابیں نہ پڑھاکرو۔ اس پر تعجب ہوا اور تجسس بھی۔ پہلی دفعہ مولانا ندوی کو یہیں دیکھا۔ مولانا ندوی نور محمد ہائی اسکول میں پڑھایاکرتے تھے۔ بڑے بھائی عبدالرشید قریشی ان سے اسکول میں پڑھاکرتے تھے۔ بقرعیدکے موقع پر مولانا قربانی کی کھال کے سلسلے میں گھر بھی آتے تھے۔ یوں جماعت اسلامی سے ابتدائی تعارف ہوا۔ اسی عرصے میں جماعت اسلامی کے ارکان خواجہ محمد ابراہیم مرحوم، بشیر احمد مرحوم اور محمود احمد مرحوم سے رابطہ ہوا۔ خواجہ محمدابراہیم مرحوم سندھ پنجاب گڈزٹرانسپورٹ کے منیجر تھے اور مارکیٹ میں ان کے گھرکے قریب ہی دفتر تھا۔ بشیر احمد مرحوم مدیر ماہ نامہ ’’تحریر وتصویر‘‘ ظہیراحمدکے والد اور بعد میں جسارت کے نمائندے رہے ہیں۔ ان کی کوششوںسے1954ء میں جماعت اسلامی میں شامل ہوئے، البتہ رکنیت کا حلف مارشل لاکے بعد اٹھایا۔ میاں محمدشوکت کے دورِ امارت میں پہلی دفعہ جماعت اسلامی وارڈ Aکے ناظم بنے۔ 1966ء میںشہرکے قیّم (جنرل سیکریٹری) ہوئے۔ بھٹو دور میں ولی خان ودیگر کوگرفتارکیاگیا تو ان سے ملنے اور حمایت کرنے پر گرفتارکرلیا گیا اور سینٹرل جیل کراچی بھیج دیا گیا۔ کراچی جیل میں مدیرجسارت صلاح الدین شہید بھی ساتھ تھے۔ 1970ء یا اس سے قبل جب سینٹ بوناوینچر اسکول کے سامنے والی گلی میں جماعت اسلامی حیدرآبادکا دفتر تھا، جیے سندھ کے بیس پچیس افرادکے جتھے نے حملہ کردیا۔ دفتر میں اُس وقت میاں محمد شوکتؒ، محمد عمرقریشیؒ اور ان سمیت پندرہ بیس کارکنان موجود تھے۔ حملہ آور دروازہ توڑکر اندر داخل ہوگئے۔ قبل اس کے کہ وہ اوپر چڑھتے ایک کارکن نے ایک مٹکا زورسے سیڑھی پر دے مارا جس سے دھماکے جیسی آوازگونجی، وہ سمجھے کہ ہمارے پاس اسلحہ ہے۔ مجسٹریٹ نے تلاشی لی، اسلحہ ہوتا تو ملتا، یوں انھیں ناکام لوٹنا پڑا۔
بھٹوکے زمانے میں نیپ کے سربراہ ولی خان اور ان کے ساتھیوں پر حیدرآباد سینٹرل جیل کے اندر بغاوت کا مقدمہ چلایا گیا۔ ہر پیشی پر جماعت اسلامی کا وفد مقدمے کی کارروائی سننے جاتا تھا۔ آپ، محمد عمر قریشی ؒو دیگر کے ساتھ ہوتے تھے۔ تین چارپیشیوں کے بعد آئی جی جیل خانہ جات سے ملاقات ہوئی، انھوں نے کہا:’’قریشی صاحب! آپ ان ملحدوں کے لیے کیوں آتے ہو؟‘‘ انہوںنے کہا:’’ہمارااِن سے سیاسی معاہدہ ہے، یہ ہمارے حلیف ہیں(قومی اتحادبن چکا ہے)، مفتی محمود ہمارے صدر ہیں اور دوسری جانب ہم انھیں تصویر کادوسرارخ بھی دکھاناچاہتے ہیں۔ تفہیم القرآن اور دیگر کتب مطالعے کے لیے دیتے ہیں ‘‘۔ آئی جی جیل خانہ جات کہنے لگے: ’’اچھا اچھا!‘ ‘تیسرے دن ان سب کی گرفتاری کے وارنٹ آگئے۔
1977ء میں تحریک نظام مصطفیٰ ؐ میں قلعہ چوک پرگرفتارکیاگیا۔ پہلے سٹی تھانہ، پھر نارا جیل، اور آخر میں سکھرجیل بھیج دیاگیا۔ آپ 1979ء میں حلقہ نمبر 2 عامل کالونی، ہیرآباد اور کالی موری سے کونسلر منتخب ہوئے۔ 1983 ء میں حلقہ نمبر 4 سے کونسلر منتخب ہوئے۔ 1979ء سے 1982ء تک حیدرآباد شہرکے امیر رہے۔ 1985ء میں ڈسٹرکٹ کونسل زکوٰۃ کمیٹی کے ممبر مقرر ہوئے۔ اس سے قبل یو سی میں زکوٰۃ کمیٹی کے چیئرمین رہے۔ 1985ء میں وجود پانے والی اسمبلی میں 1986ء میں رکن سندھ اسمبلی کی حیثیت سے حلف اٹھایا۔ 1986 ء یا1987ء سے 1996ء تک حیدرآباد ڈویژن کے امیر رہے۔ 1996ء میں صوبائی ناظم انتخاب واحتساب مقررکیاگیا۔ 1987ء سے مسلسل صوبائی ومرکزی مجلس شوریٰ کے رکن بنتے رہے۔ 1995ء میں جب ملّی یکجہتی کونسل کا قیام عمل میں آیا تو حیدرآباد میں اسے منظم کیا اور بھرپور اندازمیں چلایا۔ کونسل نے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے کام کیا جس کے اثرات اس طرح ظاہر ہوئے کہ فرقہ وارانہ کشمکش کم ہوگئی۔ مدرسہ عربیہ ریاض العلوم عثمان شاہ حیدرآبادکے 1998ء میں رکن،2005ء میں سیکریٹری اور2016ء میں صدر مجلس ِ منتظمہ منتخب ہوئے۔ منصورہ ہالا، ضلع مٹیاری میں واقع جماعت اسلامی کے مدرسے جامعۃ العلوم الاسلامیہ کے2000ء سے قبل رکن بنے اور2002ء سے جنرل سیکریٹری تھے۔2001ء میں قاضی حسین احمد صاحبؒکے دورِامارت میں مجلس عاملہ کے رکن ہوئے۔ صوبائی سطح پر اسداللہ بھٹو صاحب کے دورِامارت میں صوبائی مجلس عاملہ کے رکن ہوئے۔ اسداللہ بھٹو صاحب ہی کے پہلے دورِ امارت میں نائب امیر صوبہ رہے۔ اسد اللہ بھٹوصاحب نے قیم صوبہ(جنرل سیکریٹری) بنانے کی کوشش کی لیکن اِن کی جانب سے معذرت ہوئی۔ ان کے دوسرے دورِامارت میں کسی بھی ذمہ داری سے معذرت چاہی، لیکن اسد اللہ بھٹو صاحب نے صوبائی نائب قیم (ڈپٹی سیکریٹری) مقرر کردیا، اُس وقت سے تادم آخراسی ذمہ داری پر فائز رہے۔ جب متحدہ مجلس عمل کا قیام عمل میں آیا تو حیدرآبادکی تنظیم سازی کے نتیجے میں صدارت کے لیے ان کا نام اتفاقِ رائے سے منظور کیاگیا۔ اسے مثالی اندازمیں چلایا۔ سب کوساتھ لے کر چلے۔ جب قاضی صاحب نے ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے انتخابات میں انھیں امیدوار بننے کاکہا تو معذرت کرلی۔ حیدرآباد سے ایم این اے کے لیے صاحبزادہ ابوالخیر محمد زبیر اور ایم پی اے کے لیے عبدالرحمٰن راجپوت امیدوار بنے۔ بھرپور انتخابی مہم چلائی اور مرکزی قائدین کے شاندار جلسے ہوئے۔ یہ انتخابی مہم اس اندازمیں چلائی کہ پورے شہر میں فضا قائم ہوگئی۔ مختلف اور مخالف جماعتوں اور برادریوں کی حمایت حاصل کی جس کے نتیجے میں دونوں منتخب ہوگئے۔ 10،12سال تک جماعت اسلامی کے ڈائریکٹر تعلقات عامہ لوئر سندھ رہے۔1990ء میں کراچی میں گورنرسندھ کے اعزازمیں استقبالیہ دیاگیا، وہاں شہریوں نے شہر میں جرائم کی شکایت کی جس پر گورنر نے ایک حکم نامے کے ذریعے چیف سٹیزن پولیس لائژن کمیٹی قائم کی۔ حیدرآباد میں ڈپٹی کمشنر کی زیرصدارت سرکٹ ہائوس میں ایک اجلاس ہوا۔ اِس اجلاس میں رفیق تالپور، نواب راشدعلی خان، رئیس امداد نظامانی، ندیم شاہ، غلام ربانی قریشی ایڈووکیٹ، حماد صدیقی، احسان علی شاہ، احمد بخش قریشی اور بیرسٹر رسول بخش شریک تھے، اس میں عبدالوحید قریشی صاحب کو چیف سٹیزن پولیس لائژن کمیٹی منتخب کیاگیا۔ یہ عہدہ ان کے پاس جون 1993ء سے دسمبر2001ء تک رہا۔ ڈپٹی چیف غلام ربانی قریشی (پرویزمشرف دورکے معزول جج) تھے۔ وسائل کے بغیر بحیثیت چیف لائژن کمیٹی بھرپورکام کیا۔ 12مئی 2007ء کو کراچی میں دہشت گردی کے خلاف حکمران اتحادکی جماعتوں کے سوا حیدرآبادکی تمام دینی، سیاسی، قوم پرست جماعتوں کا ایک اجلاس ان کی تحریک پر رکن اسلام ہیرآباد میں ہوا اور ایم کیوایم مخالف اتحاد ’’حیدرآبادگرینڈالائنس‘‘بنایا۔ ایم ایم اے میں شامل جے یوپی کے ایم پی اے عبدالرحمٰن راجپوت اور پی پی کے ایم پی اے زاہد بھرگڑی کوکنوینر اور ڈپٹی کنوینر بنایا۔ یہ مقامی اتحاد دینی سیاسی، قوم پرست جماعتوں اور وکلاکے درمیان ایک دوسرے سے قربت پیدا کرنے کا سبب بنا۔ 3نومبر 2007ء کو پرویزمشرف نے ایمرجنسی نافذکی تو عدلیہ بحالی تحریک میں حصہ لینے پر گرفتارکرکے جیل بھیج دیا گیا۔ یہ اِن کی چھٹی جیل تھی۔ اکتوبر 2010ء میں سیشن 2010۔2012ء کے لیے امیر ضلع مقرر ہوئے۔ ان کے دورِامارت میں حیسکو کی جانب سے طویل اور غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ، ڈیٹکشن بلوں کی بھرمار اور ٹرانسفارمر اڑنے کے واقعات ہونے لگے۔ جب حیسکو ہیڈ آفس حسین آباد پر دھرنادیا تو حیسکو انتظامیہ نے نرمی دکھائی اور سہولت دی کہ جو گھریلو یا کمرشل صارفین ہماری جانب آئیں گے ان کے مسائل فوری حل ہوں گے۔ اور ایسا ہی ہونے لگا۔ بعدازاں نائب قیم (ڈپٹی جنرل سیکریٹری )جماعت اسلامی سندھ رہے۔
سیاسی لحاظ سے سندھ ایک حساس صوبہ ہے، پانی کے مسئلے پر حساسیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ ماضی میں گریٹرتھل کینال پر سیاسی و قوم پرست جماعتوں کا اجلاس ہوا، جماعت اسلامی کی نمائندگی ان کے ساتھ زین العابدین لغاری صاحب کررہے تھے۔ پہلے ہی اجلاس میں کنوینر مقررکرنے کا معاملہ بھی زیربحث آیا۔ رسول بخش پلیجوکوکنونیر مقررکیے جانے کی اکثر جماعتوں نے تائیدکی۔ انھوں نے محسوس کیاکہ رسول بخش پلیجوکا کنوینر بننا جماعت اسلامی کے لیے مشکلات پیدا کرے گا اور لوگ کہیں گے کہ کمیونسٹ اورقوم پرستوں کی سربراہی میں جماعت اسلامی کام کررہی ہے۔ انھوں نے تجویز پیش کی کہ اگر گریٹر تھل کینال کے خلاف ملک گیر تحریک چلانی ہے تو پیپلزپارٹی کے نثارکھوڑوکوکنوینرمقررکیا جائے۔ اس تجویز کو منظورکرلیاگیا اور نثارکھوڑوکو کنوینر منتخب کیا گیا۔ اجلاس میں رسول بخش پلیجو، ڈاکٹر قادر مگسی، نثار کھوڑو، ممتاز بھٹو کے نمائندے ایوب شر، تاج محمدناہیوں اور قاضی ابرار تھے۔
ختمِ نبوت ؐ و نظام مصطفیٰؐ کی تحریکیں اور فتنۂ گوہر شاہی
ختم ِ نبوت کے مسئلے پر پہلی تحریک اُس وقت اٹھی جب بانی جماعت اسلامی مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ کو ردّ قادیانیت پر سزائے موت سنائی گئی۔ حیدرآباد میں بھی اس کا شدید ردعمل ہوا۔ فتنہ قادیانیت اور مولاناکی سزا کے خلاف حیدرآباد میں تاریخی ہڑتال کی گئی۔ قادیانیت کے خلاف عوامی شعور اُجاگرکیا گیا۔ دوسری تحریک بھٹو دور میں شروع ہوئی۔ یہاں بھی ابتدا اسلامی جمعیت طلبہ نے کی۔ جماعت اسلامی نے تحریک کو منظم کرنے میں کردار ادا کیا، عبدالوحید قریشی ؒصاحب کا اس میں نمایاں حصہ تھا۔ بالآخر یہ مسئلہ پارلیمان کے ذریعے حل ہوا۔
1977ء میں نظام مصطفیٰ ؐ تحریک شروع ہوئی۔ حیدرآباد میں پہلا جلسہ مدینہ مسجد سرے گھاٹ پر منعقد ہوا۔ پولیس نے فائرنگ کی جس میں ایک پانی پلاتا بچہ شہید ہوگیا اور کچھ زخمی ہوئے۔ بریگیڈیر نے وحیدصاحب کو فون کرکے کہا شہید بچے کی لاش ہمارے حوالے کردیں، کہیں ہنگامے نہ پھوٹ پڑیں۔ ان کی جانب سے شہید کی لاش نہیں دی گئی۔ اس بچے کا بہت بڑا جنازہ ہوا اور ٹنڈویوسف میں تدفین ہوئی جس میں ہزاروں افراد شریک تھے۔ عبدالرحمان پتن شہیدکی لاش بھی حوالے نہیں کی گئی۔ پتن کا بھی بہت بڑا جنازہ ہوا اور کالی موری قبرستان میں تدفین ہوئی۔ تحریک کے دوران ہی پریٹ آباد میں 16 افراد کو شہیدکردیاگیا۔ مولاناکو ٹیلی گرام کیا، مولانا نے اس کا جواب دیا جو ’’مکتوباتِ مودودی‘‘ میں شائع ہوا۔ مسلسل گرفتاریاں جاری تھیں۔ عبدالوحید قریشیؒ کے بارے میں طے پایاکہ وہ پکا قلعہ پر گرفتاری دیں۔ وہاں گرفتاری دی اورجیل بھیج دیے گئے۔
حیدرآباد اور مضافات میں ایک اور فتنے نے سر اٹھایا۔ یہ فتنہ گوہرشاہی کا تھا۔ انجمن سرفروشا ن ِاسلام کے بانی ریاض احمدگوہر شاہی (2001ء۔1941ء) گوجر خان پنجاب سے کوٹری حیدآباد آیا اور اسے اپنا مرکز بنایا۔ یہ شخص کہتا کہ نماز وغیرہ کی ضرورت نہیں ہے، بس قلب کی صفائی ضروری ہے۔ بریلوی مساجد میں اس کے مرید بن جاتے اور حلقہ بناکر ’’اللہ ہو‘‘کا وردکرتے، نمازنہ پڑھتے۔ بعد میں یہ ہونے لگاکہ دورانِ نماز الگ سے کسی گوشے میں زور زور سے ’’اللہ ہو‘‘ کا ورد کرنے لگتے، جس سے باجماعت نمازمیں خلل پڑتا۔ یہ صورتِ حال ناقابلِ برداشت تھی۔ اس میں بریلوی مسلک کے لوگ شامل تھے حالاں کہ بریلوی مکتب ِ فکر نے ان سے برأت کا اعلان کیا ہے۔گوہر شاہی کے مریدکہتے کہ گوہر شاہی کی تصویر چاند میں نظرآتی ہے،گوہر شاہی کی امریکہ میں حضرت عیسیٰ ابن مریم ؑ سے ملاقات ہوئی ہے، اور یہ کہ گوہر شاہی حضرت امام مہدی ہیں۔ جب کہ عام شہری یہ بھی دیکھتے کہ وہ گاڑی میں پچھلی سیٹ پر دومشکوک خواتین کے درمیان ہی بیٹھتا۔ اس کے علاوہ متعدد مشاہدات ہماری اسلامی اقدار کے خلاف تھے۔ اس کے خلاف مقدمات چلے اور کامیابی ہوئی۔گوہر شاہی کے مرنے کے بعد اسے عوام نے کوٹری میں دفنانے کی اجازت نہیں دی۔ ایک دفعہ کاذکر ہے،گوہر شاہی کی برسی کے سلسلے میں اس کے مریدین کوٹری میں جمع ہورہے تھے۔ جمعیت علماء اسلام (س)کے ضلعی امیر مولانا شبیر احمد اور ان کے کارکن محمدفاروق نے رابطہ کیا اور بتایاکہ وہ لوگ اسلحہ ساتھ لارہے ہیں، ان کے عزائم خطرناک معلوم ہوتے ہیں، کہیں کوئی فساد نہ ہوجائے۔ عبدالوحید قریشی صاحب نے ایک وفدکے ساتھ جس میں دیگر جماعتوں کے لوگ بھی شامل تھے، اے ایس پی خادم حسین رند سے ملا قات کی اور ساری صورتِ حال سامنے رکھی۔ پوری بات سن کر اے ایس پی نے کہاکہ رات کوتین بجے ایک آدمی بھیج دیں میں خودجاکر اس معاملے کودیکھوں گا۔ تین بجے ایک صاحب کو بھیج دیاگیا۔ اے ایس پی نے پہلے سے تمام تھانوں کی موبائلیں جمع کررکھی تھیں، گوہر شاہی کے مرکزکوٹری پر چھاپہ مارا اور چالیس بیالیس افراد کو گرفتارکیاگیا۔ ان سے اسلحہ اور آتش گیر مادہ بھی برآمد ہوا۔ عبدالوحیدؒ صاحب دوسرے یا تیسرے دن وفدکے ساتھ ان کے دفتر گئے اور شکریہ اداکیاکہ آپ نے کوٹری کو فساد سے بچالیا۔ اے ایس پی نے بتایاکہ عبدالوحید قریشی صاحب! میں آپ کو اُس وقت سے جانتا ہوں جب آپ ایم پی اے تھے اور دوستوں کے ساتھ پان گلی ٹاور مارکیٹ میں بیٹھتے تھے، میں نورمحمد ہائی اسکول میں پڑھتا تھا، میں ایک لڑکے کے ساتھ آپ سے ملنے آیا تھا، وہ لڑکا ہندو اور بے روزگار تھا، اُس کی ملازمت کی درخواست میں نے آپ کودی،آپ نے بنا کچھ پوچھے درخواست پر نوٹ ڈال دیا جس سے اسے نوکری مل گئی۔ خادم حسین رند سندھ پولیس میں اعلیٰ عہدے پر فائز ہیں۔
علمی وادبی خدمات
عبدالوحیدؒصاحب اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے۔ تعلیمی مدارج ادیب، ادیب عالم، ادیب فاضل، ایم اے اسلامک کلچر سندھ یونی ور سٹی جام شورو سے طے کیے۔ عربی و فارسی کی تعلیم مولانا عزیزدانش امدادی سے حاصل کی۔ عبدالغفار قمرؔ جودھپوری سگے ماموں اورعمدہ شاعر تھے۔ زمانہ طالب علمی ہی میں اپنے استاد مولانا عزیز دانش سے شاعری میں اصلاح لی اور اخترؔ کے تخلص سے شاعری کی۔ زمانہ طالب علمی ہی سے اچھا ادبی ذوق رکھتے تھے۔ اردو اور سندھی پرعبورکے ساتھ ساتھ عربی اور فارسی سے لگائو رہا۔ انگریزی سے اچھی واقفیت تھی۔ اردو، سندھی اورفارسی شعرا کے کلام کا اچھا ذخیرہ ذہن نشین تھا۔ اقبالؔ کے اشعار، حالی کی مسدس ِحالیؔ، حبیب جالب ؔکی نظمیں موقع محل کے مطابق سنایاکرتے تھے۔ سندھی پر اس قدر عبورتھاکہ سندھی ادیب اور شاعر بھی دھوکہ کھا جاتے تھے۔ ایک دفعہ سندھ یونی ورسٹی گئے۔ وائس چانسلر غلام علی الانا سے ان کے آفس میں ملاقات ہوئی۔ دورانِ ملاقات سندھی میں گفتگو ہونے لگی۔ جی الانا نے کہا ’’وحید صاحب! آپ کی سندھی تو بہت عمدہ ہے، کیسے سیکھی؟‘‘ انھوں نے سندھی میں کہاکہ ’’سیدے‘‘ میں بیٹھتا تھا، سیکھ گیا۔ اس پر انھوں نے آفس میں موجود پروفیسر صاحبان کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہاکہ اس لفظ کا تو انھیں بھی پتا نہیں ہوگا کہ کسے کہتے ہیں۔ جی الانہ نے سنڈیکیٹ کی رکنیت کے لیے کہا اور فارم بھی بھروایا تھا۔ شاید اوپر والوں کو منظور نہ تھا۔ حیدرآبادکی پہلی سرکاری عوامی جامعہ گورنمنٹ کالج یونی ورسٹی حیدرآبادکی سنڈیکیٹ کے لیے نامزدگی گئی مگر وہی ہوا جو اِس سے قبل ہوا۔
علمی وادبی خدمات
ڈاکٹر محمدعلی محمدی کی تجویز پر ڈاکٹر محمد دین غوث کے ساتھ سندھ اسلامک پبلی کیشنزکا غیر تجارتی ادارہ قائم کیا۔ مولانا جان محمد بھٹو نے تفہیم القرآن کے سندھی ترجمے کی ابتدا کی تھی، بعدازاں امیرالدین مہر نے تکمیل کی، انھوں نے شائع کرنے کی اجازت دی۔ اس ادارے نے سندھی زبان میں مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ کی شہرۂ آفاق تفسیر’’ تفہیم القرآن‘‘ اور ترجمۂ قرآن کے بعد پروفیسر کریم بخش نظامانی کی مرتب کردہ ’’سیرت ِطیبہؐ‘‘ کا پہلا حصہ، سیدعلی میرشاہ کی مرتب کردہ ’’سیرت ِ صحابہؓ‘‘ اور مولانا جان محمد بھٹو کا سیرت پر مضمون ’’سیدالاوّلین والآخرین ﷺ‘‘ شائع کی ہیں، جب کہ ڈاکٹر عبدالجبار عابد لغاری اور میری تالیف ’’شاہ ولی اللہ محدث دہلوی‘‘ کو شاہ ولی اللہ اکیڈمی اور سندھ اسلامک پبلی کیشن نے مشترکہ طور پر شائع کیا ہے۔ اسی طرح ماہرتعلیم، سابق پرنسپل شاہ ولی اللہ اورینٹل کالج منصورہ ہالا پروفیسر سید محمدسلیمؒ کی دریافت مولانا مودودیؒکا ایک نایاب طویل مضمون ’’متاع کارواں‘‘ انجمن تعلیم اسلامی اور سندھ پبلی کیشن نے مشترکہ شائع کیا۔ 1974ء میں سندھی ترجمے کے پہلے پارے کی افتتاحی تقریب بسنت ہال میں اے کے بروہی کی صدارت میں ہوئی۔ مولانا جان محمد بھٹو مرحوم مہمانِ خصوصی تھے۔ اس تقریب میں دور دور سے احباب شریک ہوئے اور ہال تنگ پڑگیا۔ سندھی میں تفہیم القرآن ایک خواہش اور دیرینہ مطالبہ تھا جو پورا ہوا۔ اس وقت تک سندھی میں کیا اردومیں بھی کمپوٹرکمپوزنگ نہیں ہوتی تھی، یہ پارہ عمدہ سندھی کتابت میں تھا جس کی کتابت سعید میرٹھی مرحوم نے کی تھی۔ سعید میرٹھی ایک بہترین کاتب تھے۔ یہ لیتھوکے بجائے فوٹوآفسٹ پر چھاپا گیا تھا۔ سرورق جاذب نظرتھا۔ اس سے پہلے اتنی عمدہ کتابت وطباعت سندھی کتب میں نہیں ہوتی تھی۔ پانچ پارے اسی اندازمیں علیحدہ علیحدہ طبع کرالیے۔ بعدازاں پہلی جلد طبع کی۔ سندھی تفہیم کا تیسرا طبع شدہ پارہ جب مولانا مودودیؒ کوپیش کیا تو مولانا بہت خوش ہوئے اور فرمایا: ’’عبدالوحید! یہ کاغذکہاں سے لیا؟ یہ توکرنافلی (بنگلہ دیش کا ایک شہر) ملزکاپیپر ہے جوبرسوں پہلے بند ہوگئی ہے۔‘‘ وحیدؒ صاحب نے مولانا سے عرض کیاکہ روزنامہ ڈان والوں کے پاس عرصے سے اس کاغذکے 100 رِم رکھے ہوئے تھے، حفیظ الرحمٰن صاحب جوکاغذ ہی کا کام کرتے تھے ان کے ذریعے خرید لیے تھے۔ اِس ادارے کے تراجم، تصانیف اور تالیفات کو سندھی دنیا میں بڑے پیمانے پر تقسیم کرتے رہے، خصوصاً اسلام آباد بھی سندھی قارئین کو ارسال کرتے تھے۔ راقم سمیت درجنوں لوگ بلٹی کے ذریعے بھیجتے رہے ہیں۔
(جاری ہے)