یونیورسٹیوں کو چلانے کے لیے اہل اور نااہل کا سوال

آخر سندھ کے ہر شعبے میں کیا ہورہا ہے

بروز اتوار 26 جنوری 2025ء کو کثیرالاشاعت سندھی روزنامہ ’’کاوش‘‘ حیدرآباد کے ادارتی صفحے پر معروف کالم نگار زاہدہ ڈیتھو نے زیر نظر اپنے کالم میں جو خامہ فرسائی کی ہے اُس کا اردو ترجمہ قارئین کی معلومات اور دل چسپی کے لیے پیش خدمت ہے۔

’’کراچی ایکسپو میں سندھ ہائر ایجوکیشن سے دورانِ خطاب سندھ کے وزیراعلیٰ نے بلند آہنگ انداز میں یہ اعلان کیا ہے کہ سندھ کی یونیورسٹیاں تباہ ہوچکی ہیں اور یہاں پر نااہل وی سیز بھرتی کیے جاتے ہیں۔ انہوں نے اپنی یہ ذمہ داری بھی قبول کی ہے کہ سرچ کمیٹی تشکیل دینے اور سلیکشن کرنے کا قانون جس میں پی ایچ ڈی کرنا اور ہونا لازمی ہے، خود انہوں نے بنایا تھا، لیکن وہ اس میں ناکام ہوگئے۔ دوسری جو بات انہوں نے بے حد قابل تشویش تھی، یہ بتائی ہے کہ ’’وی سی تو وہ مقرر کرسکتے ہیں لیکن اسے برخواست نہیں کرسکتے‘‘۔ قابلِ افسوس امر ہے کہ سندھ کی وزارتِ علیا کے منصب پر براجمان شخص ہی کی صوبے میں رٹ موجود نہیں رہی! سال ڈیڑھ سال پیشتر بھی جامشورو میں ایم ایچ پنہور انسٹی ٹیوٹ کی تقریب میں تمام وی سیز کو نالائق کہا گیا، اور ان سے پہلے بھی وی سیز کے لیے اس طرح کے جملے سننے میں آچکے ہیں۔

تنقید کرنا بے حد ضروری ہے کیوں کہ تنقید ہونے سے ہی چیزیں اور امور روبہ اصلاح ہوا کرتے ہیں، لیکن ہمارے ہاں تو نالائقوں کی فوجِ ظفر موج بھرتی شدہ ہے۔ شاہ صاحب کو عمدہ طریقے سے چیزوں اور معاملات کو دیکھنے اور پرکھنے کی ضرورت ہے کہ آخر سندھ کے ہر شعبے میں کیا ہورہا ہے۔ یہ امر تو کسی سے بھی پوشیدہ نہیں ہے کہ وی سی لگوانے کے لیے پولیٹکل اور نان پولیٹکل سورس یعنی پیسہ استعمال ہوتا ہے، یا پھر وڈیرے، منتخب نمائندے اپنی اپنی فرمائشوں پر وی سیز لگواتے ہیں اور پھر کمیشن بھی وصول کرتے ہیں۔ کبھی ہمیں بھی اس بارے میں آگاہ کیا جائے کہ آخر وہ نااہل افراد رکھے ہی کیوں گئے ہیں؟ اس کا تو صاف مطلب یہ ہوا کہ سسٹم تو کوئی دراصل ہے ہی نہیں۔

یہ بھی ضرور قابلِ غور امر ہونا چاہیے کہ بیوروکریسی کا جو برا حال، ستیاناس اور حشر نشر اِس دور میں کیا گیا ہے اس کی کوئی اور مثال دنیا میں کہیں ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتی، اور اس پر طرہ یہ ہے کہ بیوروکریٹس نے بھی اپنی سیٹیں بچانے کے لیے تمام تر حدود و قیود پامال کرکے رکھ دی ہیں۔ نام نہاد پبلک پرائیویٹ پارٹنرز جو اپنے اختیارات کو غلط استعمال کرتے ہیں اور بیورو کریسی کو اپنا غلام بنا ڈالا ہے، اس پر بھی ضرور کبھی بحث کی جائے۔

سندھ کے بند اسکولوں کے بارے میں اگر کبھی سوچا جائے تو دل ہی بیٹھنے لگتا ہے۔ بند اسکولوں کو کھولنے کے لیے بھلا کون سے قابلِ عمل اقدامات کیے گئے ہیں؟ ہماری پرائمری کی تعلیم یکسر تباہ و برباد ہوچکی ہے، ذرا اس پر بھی تو توجہ کی نظر ڈالی جائے۔ بند پڑے ہوئے سرکاری اسکولوں کے اساتذہ گھر بیٹھے ہی تنخواہیں وصول کرلیتے ہیں۔ بہت سارے اسکولوں میں تو اساتذہ کا کوئی نام و نشان ہی نہیں ہے۔ آخر غریبوں کے بچے کہاں پر جاکر پڑھیں؟ یہ بھی ضرور بتایا جائے۔ یونیورسٹیوں کی اتنی زیادہ فیسیں ہیں، گدھا گاڑی چلانے والے کا کوئی بچہ آخری انہیں کس طرح سے ادا کرسکتا ہے؟ اور وہ کس طرح سے کسی یونیورسٹی میں پڑھنے کا سوچ بھی سکتا ہے؟ اس حوالے سے کسی قسم کا کوئی بھی میکنزم ہمیں دکھائی نہیں دیتا۔ میں نے بہ چشمِ خود لڑکوں اور لڑکیوں کو جامعات میں روتے دیکھا ہے کہ فیس نہیں ہے، آگے کیسے پڑھیں؟ اس پر بھی دھیان دینے کی اشد ضرورت ہے۔ سندھ کے کس محکمے کی کارکردگی کے لیے یہ کہا جائے کہ بہترین ہے؟ بجٹ تو خرچ ہوتا نہیں۔ اپریل، مئی اور جون میں پھر سارے سال کا بجٹ کھپانے یا ٹھکانے لگانے کے لیے سرکاری دفاتر میں افسران کی دھما چوکڑی اور افراتفری دیکھنے کو ملتی ہے۔ الیکشن سے پہلے نگراں حکومت آنے سے پہلے دن رات لگاکر جس طرح سے کھاتوں کو خالی اور سرکاری خزانے کو ٹھکانے لگایا گیا تھا آخر وہ سارے پیسے کہاں پر اور کس مد میں خرچ کیے گئے؟ اس کا حساب کتاب کون دے گا؟

ایک باوردی ایس پی صاحب نے بڑے فورم میں ایک ایم این اے کو جس طرح سے چائے پلائی یہ تماشا سبھی نے دیکھا تھا۔ اس کے خلاف کون سا ایکشن ہوا؟ وہ ایس پی موصوف تو رہے ایک طرف، اِس وقت بھی جو جعلی نوکریوں کے آرڈر بھاری رشوت کے عوض بیچ رہے ہیں، ایسے عناصر کے خلاف تو کوئی ایکشن لیا جائے۔ کوئی بھی حکومتی رٹ کہیں پر دکھائی نہیں دیتی۔ کیا اس عمل کو بھی عدلیہ ہی کو روکنا پڑے گا؟ ہر دن ہی بہ کثرت مرد اور خواتین بے گناہ قتل کیے جارہے ہیں۔ اس کا حساب بھی حکومت کے ہی ذمے ہے اور اسے ہی دینا چاہیے کہ آخر اتنی زیادہ لاقانونیت کیوں ہے ہمارے صوبے میں؟ میرٹ کی سرِعام پامالی اور سندھ پبلک سروس کمیشن میں بے تحاشا ہونے والی کرپشن کو بھی تو ختم کیا جانا چاہیے۔ اس کے لیے آخر ہماری صوبائی حکومت کے ذمہ داران ابھی تک کیا کر پائے ہیں؟ سندھ میں عام افراد تو لاوارث ہیں ہی اور انہیں تو قتل کیا ہی جارہا ہے، پولیس کے اعلیٰ افسران تک کو جرائم پیشہ عناصر مار رہے ہیں لیکن حکومتِ سندھ اتنی زیادہ بے بس، مجبور اور لاچار ہے کہ مجرموں کے کھلے عام ہتھیاروں کی نمائش کرتے ہوئے گھومتے پھرتے دکھائی دینے کے باوجود انہیں گرفتار کرنے یا ختم کرنے میں کامیاب ہوتی نظر نہیں آتی۔ یہ امر بھی یقیناً توجہ طلب ہونا چاہیے۔

اب آتے ہیں اُس قانون کی طرف جسے حکومت پاس کرانے کے لیے بے تاب دکھائی دیتی ہے۔ یہ قانون Open for all کے تحت ہے جس میں سلیکشن Criteria کو تبدیل کر دیا گیا ہے، اور وہ اس طرح سے کہ جامعات کا وی سی ہونے کے لیے کوئی بھی اپلائی کرسکتا ہے اور وہ یونیورسٹی کو چلا بھی سکتا ہے، لیکن ان سے یہ امر فراموش ہوگیا ہے کہ ہمارے ہاں ماسٹر فیکٹر کچھ اتنا زیادہ مضبوط اور طاقتور ہے کہ وہ باہر سے آنے والوں کو سسٹم چلانے ہی نہیں دے گا۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ کچھ ایسے افراد جن کا وسیع تجربہ ہو، مگر اس کے لیے بھی مسابقت اور مقابلہ سخت ہونا ضروری ہے۔ یہاں پر بھی اگر Influence ہی چلا تو پھر کیا ہوگا؟ حکومتی ذمہ داران کا دبائو، اقربا پروری، ہر جگہ من پسند افراد کی تعیناتی کا رواج اب ختم ہوجانا چاہیے۔ ہمارے ہاں اعلیٰ قابلیت کے حامل تعلیم یافتہ، مخلص، لائق اور فائق افراد موجود ہیں لیکن وہ عیار اور مکار عناصر کی چال بازیوں کی بنا پر آگے نہیں آسکے ہیں، اور اعلیٰ معیار کی مطلوبہ اسناد رکھنے کے باوصف اُن کی مروجہ ازکارِ رفتہ نظام میں اداروں تک رسائی ناممکن ہے۔

ہمارے ہاں وہی آگے آسکتا ہے جو چار پیسے لگا اور خرچ کرسکتا ہو، یا پھر کوئی وڈیرہ اُس کے پسِ پردہ ہو۔ عام اور غریب فرد یہاں پر سسٹم سے بالکل باہر ہوچکا ہے۔ اب بے چارے پانچ ہزار پی ایچ ڈی افراد تو موجود ہیں تاہم ان میں سے بہت سارے ڈگری ہولڈرز کو یہ پتا ہی نہیں ہے کہ انہوں نے یہ ڈگری حاصل کس طرح سے کی ہے؟ دکھ تو اس بات کا ہے کہ جو محنت کرکے ڈگریاں حاصل کیے ہوئے ہیں آخر ان کا کیا بنے گا؟ ان کے خوابوں پر تو پانی پھر چکا ہے اور وزیراعلیٰ سندھ موصوف فرماتے ہیں کہ جو بیوروکریٹس ریٹائر ہوچکے ہیں وہ بھی وی سی بننے کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔ یعنی نوکر شاہی کے ریٹائر افسران بھی اب ہمارے صوبے میں جامعات کے وائس چانسلر بن سکتے ہیں۔ یہ عمل کسی بھی طور مناسب دکھائی نہیں دیتا۔ جو افراد پہلے ہی ریٹائر ہوچکے ہیں وہ آخر یونیورسٹیوں جیسے بڑے اور اہم اداروں کو شیخ الجامعات (وائس چانسلرز) بن کر کس طرح سے چلا پائیںگے؟ یہ ایک بہت بڑا سوال ہوگا۔ اس لیے لائق اور قابل افراد کو چاہیے کہ وہ اس کرپٹ اور فرسودہ نظام کے خلاف جدوجہد کریں، ورنہ سب کچھ ہی رائیگاں چلا جائے گا اور آخر میں صرف جھنجھنا ہی بجتا ہوا دیکھنے اور سننے کو مل پائے گا۔‘‘