خیبرپختون خوا:پی ٹی آئی کی سیاست میں ہلچل

موجودہ صورتِ حال میں پاکستان تحریک انصاف کے صوبائی صدر کو ہٹانا ایک حیران کن عمل ہے

بانی پی ٹی آئی عمران خان نے علی امین گنڈاپور کو پارٹی کی صوبائی صدارت سے ہٹادیا ہے اور انہیں صوبے میں امن وامان سمیت دیگر انتظامی امور پر توجہ دینے کی ہدایت کی ہے، جب کہ اُن کی جگہ ملاکنڈ سے تعلق رکھنے والے پارٹی کے دیرینہ نظریاتی راہنما جنید اکبر کو پارٹی کا نیا صوبائی صدر مقرر کردیا ہے۔ اس تبدیلی کے حوالے سے پی ٹی آئی کے مرکزی سیکرٹری جنرل سلمان اکرم راجا کا کہنا ہے کہ علی امین خود بھی چاہتے تھے کہ وہ پارٹی صدارت اپنے پاس نہ رکھیں، بانی پی ٹی آئی نے علی امین کو کہا ہے کہ صوبے میں دہشت گردی اور گورننس کے معاملات پر فوکس کریں۔ دوسری جانب ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران خان نے کے پی کے میں کرپشن پر تحفظات کا اظہار کیا ہے اور علی امین کو پیغام دیا ہے کہ وہ ڈیرہ اسماعیل خان کی سیاست سے باہر آئیں۔ پی ٹی آئی رہنما سلمان اکرم راجا نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور پر بطور وزیراعلیٰ بہت ذمہ داریاں ہیں اور کے پی کے میں امن و امان کی صورت حال بھی سب کے سامنے ہے، اس لیے علی امین گنڈاپور کو کے پی کے کی صدارت سے ہٹانے کا فیصلہ ان کی اپنی خواہش پر کیا گیا ہے۔ سلمان اکرم راجا نے کہا کہ یہ فیصلہ جنید اکبر کی عمران خان سے جیل میں ملاقات کے دوران کیا گیا۔ ملاقات میں ایم این اے عاطف خان، اپوزیشن لیڈر پنجاب اسمبلی ملک احمد خان کھر، ایم پی اے پنجاب میاں فرحت عباس بھی شریک تھے۔ دوسری جانب پی ٹی آئی کے نومنتخب صوبائی صدر جنیداکبر نے سوشل میڈیا پر اپنے ایک پیغام میں کہا ہے کہ میں اپنے قائد عمران خان کا بے حد مشکور ہوں کہ مجھے صوبائی صدر نامزد کیا۔ مجھے علی امین، عاطف خان اور شاہ فرمان کے مشورے سے چنا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے اپنے سیاسی کیرئیر کا آغاز گاؤں کی صدارت سے کیا، مڈل کلاس کا بندہ ہوں اور یہ پوزیشن مجھے محنت کی وجہ سے ملی جس کی مثال دوسری پارٹیوں میں نہیں ملتی۔

واضح رہے کہ وزیراعلیٰ خیبر پختون خوا کو پاکستان تحریک انصاف کی صوبائی صدارت سے ہٹانے کی خبر نے صوبے میں سیاسی ہلچل پیدا کری ہے اور آئندہ چند روز میں صوبے کی سیاست کا رخ بدلنے کے لیے اس طرح کے مزید غیر متوقع فیصلے جاری ہونے کے امکانات ظاہر کیے جارہے ہیں۔ اس نئی پیش بندی کی صورت میں صوبے میں بعض اہم سیاسی نشستوں پر بھی تبدیلی اور ردوبدل کے امکانات پیدا ہوئے ہیں۔ اس حوالے سے سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق موجودہ صورتِ حال میں پاکستان تحریک انصاف کے صوبائی صدر کو ہٹانا ایک حیران کن عمل ہے، حکومت اور مقتدرہ کے ساتھ مذاکرات اور جلسے اور جلوسوں کے لیے علی امین گنڈاپور کی جانب دیکھا جارہا تھا، لیکن بانی پی ٹی آئی کے حکومتی اور پارٹی کے عہدے الگ الگ کرنے کے اچانک اقدام نے علی امین گنڈاپور کی سیاسی اہمیت کو محدود کردیا ہے، اس لیے بانی پی ٹی آئی کی جانب سے اس حوالے سے مزید اہم ترین فیصلوں کے امکانات بھی ظاہر کیے جارہے ہیں۔ دوسری جانب صوبے کی سطح پر اہم سیاسی تبدیلیوں کی وجہ سے کارکنوں کی نظریں بھی پارٹی کی قیادت پر جم گئی ہیں۔ مستقبل قریب میں اہم سیاسی فیصلوں کے لیے پارٹی کے اہم رہنماؤں اور دیگر اہم شخصیات کے ایک دوسرے سے رابطوں میں بھی تیزی دیکھی جارہی ہے اور سوشل میڈیا کارکن ایک دوسرے کو مبارک بادیں دیتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ صوبے کی سیاست میں علی امین گنڈاپور کو پارٹی صدارت کے عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد پیدا ہونے والی سیاسی ہلچل کے دوران علی امین گنڈاپور کو وزارتِ اعلیٰ سے ہٹائے جانے کی چہ میگوئیاں بھی شروع ہوگئی ہیں، تاہم پی ٹی آئی ذرائع نے ایسی کسی بھی تبدیلی کی اطلاعات کو من گھڑت قرار دے دیا ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ خیبر پختون خوا کی تنظیم میں آئندہ چند روز میں مزید بڑی تبدیلیوں کا امکان ہے، بانی پی ٹی آئی عمران خان نے خیبر پختون خوا میں پارٹی کی تنظیم نو کی ہدایات جنید اکبر کو دی ہیں، جن کو مدنظر رکھتے ہوئے پارٹی کے کئی عہدوں پر تبدیلی کی جائے گی۔ یہ اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں کہ نئے صوبائی صدر اب صوبے میں اپنی ٹیم بنائیں گے کیونکہ علی امین گنڈاپور نے بھی پارٹی کی تنظیم میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں کی تھی اور ان کے دور میں بھی وہی عہدیداران کام کرتے رہے جو پرویز خٹک کے دور میں تعینات کیے گئے تھے، جبکہ کچھ عرصہ قبل پشاور ریجن کے صدر عاطف خان اور ضلع پشاور کے صدر شیر علی ارباب کو شکیل خان کے حق میں بیان دینے پر ہٹایا گیا تھا۔ ذرائع کے مطابق جنید اکبر صوبے بھر میں پارٹی کی تنظیمِ نو کریں گے اور ضلعی سطح پر غیر متحرک نمائندوں کو ہٹاتے ہوئے متحرک کارکنوں کو سامنے لایا جائے گا- ذرائع کے مطابق عاطف خان اور شیر علی ارباب کو بھی تنظیمی ذمہ داریاں ملنے کا قوی امکان ہے۔

سیاسی مبصرین اس بات پر بھی تعجب اور حیرانی کا اظہار کررہے ہیں کہ خیبر پختون خوا کابینہ میں شامل 32 ارکان میں سے ایک نے بھی سابق صوبائی صدر علی امین گنڈاپور کی خدمات کے اعتراف میں اب تک نہ تو کوئی بیان جاری کیا ہے اور نہ ہی سوشل میڈیا پر کوئی پوسٹ یا ٹوئٹ کی ہے، تمام ارکانِ اسمبلی نے علی امین گنڈاپور کو ہٹانے پر خاموشی اختیار کررکھی ہے، البتہ چند ارکان نے جنید اکبر کو نئی ذمہ داری ملنے پر مبارک باد ضرور دی ہے۔ یاد رہے کہ علی امین نے بطور پارٹی صدر کئی ماہ تک خدمات انجام دی ہیں اور پارٹی کو اسلام آباد احتجاج میں لیڈ کیا، تاہم علی امین کے دور کے حوالے سے کسی بھی رکن کابینہ نے ایک بھی ٹویٹ نہیں کی ہے۔ کابینہ کے کئی ارکان صوبائی وزیر اعلیٰ تعلیم مینا خان آفریدی، وزیر قانون آفتاب عالم، وزیر ابتدائی و ثانوی تعلیم فیصل ترکئی، وزیر سی اینڈ ڈبلیو سہیل آفریدی، وزیر خزانہ مزمل اسلم اور دیگر سوشل میڈیا پر خاصے متحرک ہیں، تاہم انہوں نے علی امین کی خدمات پر بات کرنا بھی گوارا نہیں کیا ہے۔ پارٹی کے سینئر رہنماؤں شہرام ترکئی، عاطف خان، تیمور جھگڑا اور اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے بھی علی امین کی خدمات کے اعتراف میں کوئی پوسٹ نہیں کی ہے۔

دریں اثناء معلوم ہوا ہے کہ خیبر پختون خوا کابینہ میں بڑے پیمانے پر اکھاڑ پچھاڑ کی تیاری کرلی گئی ہے۔ اس حوالے سے کہا جاتا ہے کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان کے ساتھ گزشتہ روز وزیراعلیٰ خیبر پختون خوا علی امین گنڈاپور نے طویل ملاقات کی جس میں صوبے کی گورننس کے حوالے سے بھی بحث کی گئی۔ ذرائع کے مطابق اجلاس میں کابینہ میں رد و بدل کے حوالے سے بھی بات کی گئی ہے اور کئی ارکان کی کار کردگی کے حوالے سے عمران خان کو آگاہ کردیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق خیبر پختون خوا کابینہ میں تبدیلیاں کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور آئندہ چند روز میں کئی ارکانِ کابینہ کے قلمدان تبدیل کیے جانے کا امکان ہے، جبکہ دو سے تین وزراء کو فارغ کیے جانے کی بھی اطلاعات زیرگردش ہیں۔ سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ صوبائی صدارت اور وزارتِ اعلیٰ کے الگ الگ ہونے سے کابینہ ارکان بھی غیر یقینی صورتِ حال کا شکار ہیں، کیونکہ انہیں اگر ایک طرف صوبے میں وزیراعلیٰ کے ساتھ کام کرنا ہے تو دوسری جانب پارٹی کے صوبائی صدر کو بھی راضی رکھنا ہے، دونوں مخالف سمت پر کھڑے رہنماؤں کے ساتھ کام کرنے میں ارکانِ کابینہ کو یقیناً مشکلات درپیش ہوسکتی ہیں، تاہم پہلی فرصت میں اب وزیراعلیٰ اپنی کابینہ کی سمت طے کریں گے جس میں کئی ارکان کی چھٹی بھی ہوسکتی ہے۔

پی ٹی آئی کے نومنتخب صوبائی صدر اور چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی جنید اکبر نے بیک وقت دو اہم ترین عہدوں پر تعیناتی کے متعلق میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت چیئرمین پی اے سی کے لیے میرے نام پر راضی نہیں تھی، بانی پی ٹی آئی وزیراعظم تھے تو میں کھل کر ان کی مخالفت کرتا تھا، پارٹی میں سب لوگ جانتے ہیں کہ میں کیسا ہوں۔ ایک انٹرویو میں چیئرمین پی اے سی کا کہنا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف میں کوئی گروپ بندی نہیں، گنڈاپور پر بطور وزیراعلیٰ بہت ذمہ داریاں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پارٹی میں کس کا کس کے ساتھ رابطہ ہے یہ معلوم نہیں، بانی سے ملاقات نہ ہونے پر پارٹی میں کسی سے شکوہ نہیں۔ چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے کہا کہ ایک سے ڈیڑھ ماہ قبل صوبائی صدارت سے متعلق پتا چل گیا تھا، ذہنی طور پر پارٹی صدارت کی ذمہ داری سنبھالنے کو تیار نہیں تھا اور میری ذاتی خواہش نہیں تھی کہ کے پی کے کا پارٹی صدر بنوں۔ انھوں نے بتایا کہ چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی بننے کی بھی خواہش نہیں تھی، پارٹی کو تجویز دی تھی شیخ وقاص کا نام دیں تو وکیل کے ذریعے معلوم ہوا کہ میرا نام دیا گیا ہے، حکومت پہلے میرے نام پر راضی نہیں ہورہی تھی لیکن چیئرمین پی اے سی کے لیے ڈیڈلاک ختم کرنے میں اسپیکر قومی اسمبلی نے کردار ادا کیا۔ انھوں نے کہا کہ میں اب بھی سمجھتا ہوں کہ چیئرمین شپ شیخ وقاص کو دینی چاہیے۔

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور سابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے عمران خان کی جانب سے جنید اکبر کو صوبائی صدر خیبر پختون خوا نامزد کرنے اور قومی اسمبلی کی پبلک اکائونٹس کمیٹی کا چیئرمین منتخب ہونے پر دلی مبارک باد دیتے ہوئے کہا ہے کہ جنیداکبر عمران خان کے مخلص اور نظریاتی ساتھی ہیں، جنہوں نے 9مئی کے بعد ریاستی ظلم و جبر کا جواں مردی سے سامنا کیا۔ مجھے یقین ہے کہ وہ عمران خان کی ہدایات کی روشنی میں خیبر پختون خوا میں پارٹی کو منظم کرنے اور کارکنان کو متحد رکھنے میں کامیاب ہوں گے۔