جمہوریت کی تعریف تو یہ ہے کہ ’’عوام کی حکومت، عوام کے لیے، عوام کے ذریعے‘‘۔ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں جمہوریت کی تعریف وہی ہوگی جو اشرافیہ چاہے گی۔ ارکان پارلیمنٹ جب انتخابی عمل کا حصہ بن کر امیدوار کی حیثیت سے میدان میں اترتے ہیں تو انتخابی اخراجات کے لیے طے شدہ قانونی حد سے کہیں زیادہ، بلکہ کئی سو گنا زیادہ اخراجات کرتے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق قومی اسمبلی کے امیدوار انتخابی مہم میں کم از کم پانچ کروڑ اخراجات کرتے ہیں، اور زیادہ سے زیادہ اخراجات کی تو کوئی حد ہی نہیں۔ عوام کے یہ ’’غریب‘‘ نمائندے پارلیمنٹ میں پہنچ کر ہمیشہ اس تگ و دو میں رہتے ہیں کہ ان کی تنخواہ بڑھ جائے۔ قومی اسمبلی کا اجلاس چاہے پندرہ منٹ کے لیے ہو، اس اجلاس پر کم و بیش تین کروڑ سے زائد اخراجات اٹھتے ہیں۔ گزشتہ ہفتے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس اٹھارہ منٹ تک جاری رہا، اس دوران قانون سازی بھی ہوئی اور چار بل منظور کرنے کے بعد مشترکہ اجلاس ملتوی کردیا گیا۔ آٹھ بل مشترکہ اجلاس میں پیش کیے جانے تھے، چار بلز پر حکومتی اتحاد میں اتفاقِ رائے نہیں ہوسکا، یوں اجلاس آٹھ کے بجائے چار بل منظور کرنے کے بعد ملتوی کرنا پڑا۔ ایک سال ہونے کو ہے، قومی اسمبلی کا کوئی ایک بھی سیشن ایسا نہیں گزرا جس میں حکومت اور اپوزیشن ارکان کے مابین ایوان میں ہنگامہ آرائی، مار کٹائی، ہاتھا پائی نہ ہوئی ہو۔ اس عمل میں متعدد ارکان کی رکنیت بھی چند روز کے لیے معطل کی جاچکی ہے لیکن ایوان میں امن قائم نہیں ہوسکا۔ آج بھی یہی صورتِ حال ہے۔ یوں ہماری جمہوریت میں آج تک ’’عوام کی حکومت، عوام کے لیے، عوام کے ذریعے‘‘ نظر نہیں آئی۔
ایک نہایت اہم اور بڑی پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ قومی اسمبلی کی فنانس کمیٹی نے ارکانِ پارلیمنٹ کی تنخواہوں اور مراعات میں 140 فیصد اضافے کی تجویز منظور کرلی ہے اور سمری بھی وزیراعظم شہبازشریف کو ارسال کردی گئی ہے۔ فنانس کمیٹی نے ایم این ایز اور سینیٹرز کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کی اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی سربراہی میں منظوری دی ہے۔ اسپیکر سردار ایاز صادق نے بتایا کہ تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کا تقاضا پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف سمیت تمام جماعتوں کے ارکان کی جانب سے بیک آواز ہوکر کیا گیا تھا۔ ان ارکان کی جانب سے تنخواہ دس لاکھ روپے ماہانہ کرنے کا مطالبہ کیا گیا جو اسپیکر نے منظور نہیں کیا، تاہم ان کی سربراہی میں قائم قومی اسمبلی کی فنانس کمیٹی نے تنخواہوں اور مراعات میں 140 فیصد اضافے کی تجویز منظور کرلی جس کے تحت اب قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ارکان کی تنخواہ ماہانہ 5 لاکھ 19 ہزار روپے مقرر ہوئی ہے۔ تحریک انصاف کے 67 ارکان کی جانب سے تنخواہوں میں اضافے کا تحریری مطالبہ کیا گیا تھا۔ ارکانِ پارلیمنٹ کی جانب سے تنخواہیں کم از کم وفاقی سیکرٹری کی تنخواہ کے مساوی مقرر کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا جو تمام کٹوتیوں کے بعد الاؤنسز سمیت 5 لاکھ 19 ہزار روپے بنتی ہے۔ یہ تجویز من و عن منظور کر لی گئی ہے۔ اب ارکانِ پارلیمنٹ کو سہولتیں بھی وفاقی سیکرٹری کے مساوی حاصل ہوں گی۔ ابھی ایک ماہ قبل ہی پنجاب اسمبلی میں عوامی نمائندگان کی تنخواہ پر نظرثانی کا بل منظور کیا گیا تھا جس کے تحت پنجاب اسمبلی کے ارکان کی تنخواہ 76 ہزار روپے ماہانہ سے بڑھا کر 4 لاکھ روپے اور وزیر کی تنخواہ ایک لاکھ روپے سے بڑھاکر 9 لاکھ 60 ہزار روپے ماہانہ مقرر کی گئی ہے۔ ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کی تنخواہ ایک لاکھ 20 ہزار روپے سے بڑھا کر 7 لاکھ 75 ہزار روپے، جبکہ پارلیمانی سیکرٹری کی تنخواہ 83 ہزار روپے سے بڑھاکر 4 لاکھ51 ہزار روپے ماہانہ، اور وزیراعلیٰ کے مشیر کی تنخواہ ایک لاکھ روپے سے بڑھاکر 6 لاکھ 65 ہزار روپے ماہانہ کی گئی۔ وزیراعلیٰ پنجاب کے معاون خصوصی بھی اب اتنی ہی تنخواہ وصول کریں گے۔ دیگر صوبائی اسمبلیوں میں بھی اسپیکرز، وزیروں، مشیروں اور ارکانِ اسمبلی کی تنخواہوں اور مراعات میں خاطر خواہ اضافہ کیا جا چکا ہے۔ بے شک ملک میں بڑھتی مہنگائی اور یوٹیلٹی بلوں میں شتر بے مہار اضافے سے عام آدمی ہی نہیں، متوسط اور کسی حد تک اس سے اوپر کے طبقات بھی بری طرح متاثر ہوئے ہیں، جبکہ حکومت کے ٹھوس، مربوط اور جامع اقدامات و فیصلوں سے ہی عوام کو روز افزوں مہنگائی سے نجات مل سکتی ہے۔ اس کے لیے فیصلے انہی منتخب ایوانوں میں ہونے ہیں جن کے ارکان عوام کے اقتصادی مسائل سے صرفِ نظر کرتے ہوئے صرف اپنی تنخواہوں میں اضافے کے بل منظور کرا رہے ہیں۔
ہمارے مروجہ انتخابی نظام میں غریب عوام میں سے کوئی شخص قومی، صوبائی اسمبلی یا سینیٹ کا انتخاب لڑنے کا تصور تک نہیں کرسکتا۔ تلخ حقائق یہ ہیں کہ سیاسی پارٹیوں کے ٹکٹ ہی لاکھوں، کروڑوں روپے میں فروخت ہوتے ہیں جو پارٹی فنڈ کے نام پر امیدواروں سے وصول کیے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ امیدواروں کو کروڑوں روپے انتخابی مہم پر بھی خرچ کرنا پڑتے ہیں۔ ٹکٹ حاصل کرنے کے بعد انتخابی مہم تک کہیں بھی غریب نظر نہیں آئے گا، لیکن یہی اشرافیہ غریبوں سے ووٹ لے کر ایوانوں میں پہنچ جاتی ہے، جہاں غریب کی فلاح و بہبود کے بجائے اشرافیہ اپنے انتخابی اخراجات پورے کرتی ہے، اور یہی اس کی پہلی ترجیح ہوتی ہے، اور انواع و اقسام کے ٹیکسز اور یوٹیلٹی بلز میں اضافے کی شکل میں راندہء درگاہ عوام کی جانب ہی سارا بوجھ منتقل کردیا جاتا ہے۔ پارٹی فنڈ اور انتخابی مہم پر کروڑوں کے اخراجات کرنے والے ان ارکان کے بارے میں کسمپرسی کی زندگی بسر کرنے کا تو تصور بھی نہیں کیا جا سکتا، چند ہی ایسے ارکان ہوتے ہیں جن کے پاس دولت و وسائل کی کمی ہو، لیکن ارکان کی اکثریت جاگیردار، سرمایہ دار، صنعت کار ہے، جن کے گھروں کے آنگن مال و دولت سے بھرے ہوتے ہیں، انہیں تو ملک کی ترقی، قومی معیشت کے استحکام اور پسے اور کچلے ہوئے محروم طبقات کی فلاح کے لیے سوچنا چاہیے۔ اس کے برعکس مراعات یافتہ اشرافیہ سارے وسائل اپنی جانب منتقل کرتی ہے اور جمہوریت کے ثمرات عام آدمی تک پہنچ ہی نہیں پاتے۔
گزشتہ ہفتے ہونے والا پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بھی بدترین ہنگامہ آرائی کی نذر ہوا اور ایوان مچھلی منڈی بنا رہا۔ اس شور شرابے میں ہی چار بل منظور اور چار موخر کرا لیے گئے، اور اسپیکر سردار ایازصادق نے 18 منٹ کی کارروائی کے بعد پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس 12 فروری تک ملتوی کردیا۔ سابق وزیراعظم میاں نوازشریف، وزیراعظم محمد شہبازشریف، چیئرمین سینیٹ سید یوسف رضا گیلانی، وزیر دفاع خواجہ محمد آصف اور دوسرے راہنما سرکاری بینچوں پر موجود تھے۔ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اجلاس ملتوی ہونے کے بعدایوان میں داخل ہوئے۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں تجارتی تنظیمات ترمیمی بل مجریہ 2021ء اور درآمدات و برآمدات انضباط ترمیمی بل 2023ء نیشنل ایکسی لینس، انسٹی ٹیوٹ بل مجریہ 2024ء، قومی ادارہ برائے ٹیکنالوجی بل مجریہ 2024ء میں ترمیم منظور کی گئی۔ جمہوریت میں اپوزیشن کواپنے مؤقف کے اظہار اور اختلافِ رائے کا پورا حق حاصل ہے، مگر اپوزیشن کی جانب سے اپنے سیاسی ایجنڈے کے تحت ایوان کی کارروائی میں خلل ڈال کر اسے چلنے نہ دینا جمہوریت کو آمریت کی جانب دھکیلنے کے مترادف ہے۔ ماضی میں ماورائے آئین اقدام کے تحت جمہوریت کی بساط لپیٹی گئی ہے۔ کسی قانون اور آئین کی کسی شق میں ترمیم و تخفیف کے مجاز فورم بھی یہی منتخب ایوان ہیں جہاں عوام اپنے مسائل کو اجاگر کرنے اور انہیں حل کرانے کے لیے اپنے نمائندے منتخب کرکے بھجواتے ہیں۔ اگر یہ نمائندے عوام کے حقوق اور ان کی محرومیوں پر آواز اٹھانے کے بجائے ان منتخب فورمز کو محض اپنے مفادات اور اپنے سیاسی ایجنڈے کے لیے بروئے کار لانا شروع کر دیں تو پھر اس سے جمہوریت کا چہرہ ہی خراب ہوتا ہے اور عوام کا اعتماد پارلیمانی جمہوری نظام سے اٹھنا شروع ہوجاتا ہے۔ دس سال ہونے کو ہیں، اب تک منتخب نمائندوں نے کسی منتخب ایوان کو خوش اسلوبی سے اور قواعد و ضوابط کے مطابق چلنے نہ دینے کی روش ہی اختیار کر رکھی ہے۔ ہر اپوزیشن ’’امپائر‘‘ کی انگلی اٹھنے کی منتظر رہتی ہے۔ آج بھی سیاسی صورت حال یہی ہے۔
، حکومت انٹرنیٹ کے سست ہوجانے کی اصل وجہ نہیں بتا سکی ہے، بلکہ وہ سائبر کرائم قوانین میں بڑی تبدیلیوں کا مشورہ دے رہی ہے۔ ان تبدیلیوں میں چار نئی تنظیموں کا قیام، آن لائن نقصان کی غیر واضح تشریح اور وسیع تعریفیں شامل کرنا شامل ہیں۔ ان نئے قوانین کے مطابق لوگوں کو ’جھوٹی یا جعلی معلومات‘ شیئر کرنے پر تین سال تک قید کی سزا ہوسکتی ہے۔ یہ حیرت کی بات نہیں ہے کہ پیکا ترمیم کو عوام کی نمائندگی کرنے والوں سے مشورہ کیے بغیر منظور کرلیا گیا ہے۔ قوانین اور پالیسیاں بنانا ایک ایسا عمل ہونا چاہیے جس میں ہر کسی کی رائے شامل ہو، بشمول وہ لوگ جو براہِ راست ان قوانین سے متاثر ہوں گے جیسے متعلقہ شعبے کے ماہرین، متاثر ہونے والے میڈیا ورکرز اور نوجوان، جو سب سے زیادہ انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں۔ یہ ترامیم بنیادی طور پر انٹرنیٹ سے متعلق اُن تمام غیرقانونی کارروائیوں کو قانون کے دائرے میں لاتی ہیں جو 2016ء میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی جانب سے سائبر کرائم قانون (پیکا) متعارف کروائے جانے کے بعد سے کی گئی ہیں۔ حکومت کے ان اقدامات کو پہلے غیر قانونی سمجھا جاتا تھا۔سب سے پہلے یہ ترمیم ’شکایت کنندہ‘ کی تعریف کو وسیع کرتی ہے جس میں نہ صرف براہِ راست متاثر ہونے والے فرد کو شامل کیا جاتا ہے بلکہ ہر وہ شخص شامل ہوگا جو یہ مانتا ہے کہ جرم ہوا ہے۔ اس نے نہ صرف ’افراد بلکہ تنظیموں اور سرکاری اداروں‘ کو بھی شکایت کنندہ کی تعریف میں شامل کیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اب گروپ اور حکومت دونوں اس قانون کو لوگوں کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کے لیے استعمال کرسکتے ہیں۔دوسرا نکتہ، اس ترمیم کے تحت ’جھوٹی یا جعلی معلومات‘ شیئر کرنا جرم ہے۔ ’اگر کوئی جان بوجھ کر ایسی معلومات پھیلاتا ہے جوکہ غلط ہیں اور وہ معاشرے میں خوف یا بدامنی کا باعث بن سکتا ہے تو ایسے شخص کو تین سال تک قید، 20 لاکھ روپے تک جرمانہ یا دونوں سزائیں ہوسکتی ہیں۔ اظہارِ رائے کے لیے یہ سزا سخت تشویشناک ہے کیونکہ اس کی تعریف مبہم ہے اور آسانی سے اس کا غلط استعمال کیا جا سکتا ہے۔حکومت کے پاس اب یہ فیصلہ کرنے کا اختیار ہوگا کہ وہ تعین کرے کہ سچ کیا ہے اور ان لوگوں کو سزا دی جائے گی جو اس کے خیال میں جھوٹ پھیلا رہے ہیں۔ یہ پاکستان کے بین الاقوامی وعدوں، خاص طور پر بین الاقوامی معاہدہ برائے شہری اور سیاسی حقوق (آئی سی سی پی آر) کے خلاف ہے جو آزادیِ اظہار کے بارے میں اصول طے کرتا ہے جس کے آرٹیکل 19 میں قوانین واضح، ضروری اور منصفانہ بنانے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔اس ترمیم کا تیسرا نکتہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر جو کچھ ہوگا، اس پر حکومت کا تقریباً مکمل کنٹرول ہوگا، یعنی حکومت جج، جیوری اور جلاد بن چکی ہے۔ اس کا بہت کم احتساب یا جانچ پڑتال ہوگی جوکہ جمہوری نظام میں انتہائی اہم ہوتی ہے۔ اس ترمیم سے چار نئے اداروں کا قیام عمل میں آئے گا جن میں سے ایک سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈریگولیٹری اتھارٹی ہے۔یہ نیا ادارہ ممکنہ طور پر انٹرنیٹ کے مواد کو کنٹرول کرنے میں پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کی ذمہ داری نبھائے گا اور اسے بغیر کسی سوال کے حکومتی ہدایات پر عمل کرنے کی ضرورت ہوگی۔ جبکہ پی ٹی اے کا مقصد خودمختار ہونا تھا اور وہ یہ انتخاب کرسکتا تھا کہ آیا حکومتی احکامات پر عمل کرنا ہے یا نہیں، لیکن نئی اتھارٹی صرف حکومتی احکامات پر عمل کرے گی۔ پی ٹی اے نے عدالت میں یہ دلیل تک دی کہ اسے وزارتِ داخلہ نے ایکس کو بلاک کرنے کا حکم دیا تھا، حالانکہ قانون کہتا ہے کہ اسے خود ایکس بلاک کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرنا تھا۔ تاہم اس نئی اتھارٹی کے چیئرپرسن کا تقرر براہِ راست وفاقی حکومت کرے گی۔ پیکا کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے عوام کی شکایات جمع کرنے کے لیے ایک نئی سوشل میڈیا کمپلینٹ کونسل بنائی جائے گی۔ اس کے علاوہ ایک سوشل میڈیا پروٹیکشن ٹریبونل نئی اتھارٹی کے فیصلوں سے متعلق اپیلوں کو سنبھالے گا۔ تاہم ہائی کورٹس میں معمول کے مطابق اپیلیں کرنے کے بجائے براہِ راست سپریم کورٹ میں اپیل کی جا سکتی ہے۔ یہ پاکستان کے آئین (آرٹیکل 10) کے تحت منصفانہ ٹرائل اور مناسب عمل کے حق کے خلاف ہے۔ ٹریبونل ہائی کورٹ کے ایک ریٹائرڈ جج، ایک سافٹ ویئر انجینئر اور ایک صحافی پر مشتمل ہوگا۔ قانونی مسائل کی پیچیدگی کے پیش نظر، ان فیصلوں کو ایسی کونسل پر چھوڑنا غیر منصفانہ ہے جبکہ پہلے ہائی کورٹس میں اپیل کرنے کا حق برقرار رہنا چاہیے۔ اس کے علاوہ ترمیم کے تحت وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے سائبر کرائم ونگ کا کردار سنبھالنے کے لیے ایک نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن اتھارٹی کی تشکیل عمل میں آئے گی۔ یہ 2016ء میں پیکا کی منظوری کے 9 سال بعد ہوا ہے کہ جب موجودہ ادارے توقعات پر پورا نہیں اترے۔ اب نئے اداروں کی تشکیل ترقی کے عمل کو سست کرسکتی ہے اور قانون کے تحت سائبر کرائم سے نمٹنے میں نظام کو کم مؤثر بناسکتی ہے۔ چوتھا نکتہ یہ کہ ترمیم اتھارٹی کو یہ فیصلہ کرنے کا زیادہ اختیار دیتی ہے کہ کون سا مواد غیر قانونی شمار ہونا ہے، کون سا نہیں۔ اس حوالے سے 9 نئے زمرے شامل کیے گئے ہیں جو پیکا کے اصل قانون کے سیکشن 37 میں درج تھے۔ ان میں سے ایک زمرے میں ایسا مواد شامل ہے جو عدلیہ، فوج، پارلیمنٹ یا صوبائی اسمبلیوں کے ارکان پر ’تشدد کا اظہار کرتا ہے‘۔ اس سے اتھارٹی کی جانب سے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر متعدد رپورٹس کی جاسکتی ہیں جن میں ان شہریوں کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے جو محض سرکاری اہلکاروں کا احتساب چاہتے ہیں، کیونکہ انہیں ٹیکس دہندگان اور ووٹر کی حیثیت سے حساب مانگنے کا حق حاصل ہے۔ اس ترمیم میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو اتھارٹی کے ساتھ رجسٹر کرنے کی بھی ضرورت ہے، یعنی انہیں پاکستان میں مقامی طور پر کام کرنا چاہیے۔ اگر وہ اتھارٹی کے سینسر شپ کے مطالبات پر عمل نہیں کرتے تو اتھارٹی پلیٹ فارم کو مکمل طور پر بلاک کرسکتی ہے۔ سب سے پہلے یہ ترمیم بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرتی ہے بالکل اسی طرح جس طرح پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کا 2021ء میں منظور کیا گیا پیکا آرڈیننس جسے اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپریل 2022ء میں کالعدم قرار دیا تھا۔ آزادیِ اظہار اور صحافت کی آزادی کے حق کو اتنا محدود نہیں ہونا چاہیے کہ صحافیوں کو اس صورت میں تین سال تک قید کا سامنا کرنا پڑے کہ حکومت نے ان کی رپورٹنگ یا کسی عام شہری کی سوشل میڈیا پوسٹ کو ’جھوٹ‘ قرار دے کر رد کردیا ہو۔ یہ ٹریبونل کے فیصلوں پر اپیلوں کو پہلے ہائی کورٹس کی طرف سے نظرثانی کی اجازت دینے کے بجائے صرف سپریم کورٹ تک محدود کرکے مناسب عمل اور منصفانہ ٹرائل کے حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ مزید یہ کہ حقوق میں مزید کمی سنگین بین الاقوامی نتائج کا باعث بن سکتی ہے۔ یہ آئی سی سی پی آر کی خلاف ورزی کرتا ہے اور پاکستان کی جی ایس پی پلس حیثیت کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔ یہ درجہ پاکستان کو یورپی یونین سے تجارتی فوائد حاصل کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ اگر پاکستان ان معیارات پر پورا نہیں اترتا تو وہ ان تجارتی مراعات سے محروم ہوسکتا ہے۔ تیسرا نتیجہ یہ ہوسکتا ہے کہ اس سے انٹرنیٹ کا ماحول مزید تنگ ہوجائے گا جس سے معاشی نقصانات بڑھ جائیں گے۔ پاکستان کو پہلے ہی پڑھے لکھے طبقے کی جانب سے بیرون ملک جانے کے چیلنج کا سامنا ہے۔ بہت سے ہنرمند پیشہ ور افراد ملک چھوڑ رہے ہیں۔ انٹرنیٹ سینسرشپ، نگرانی، اور فائر وال کی وجہ سے سست روی جیسے مسائل کی وجہ سے یہ مسئلہ مزید خراب ہوگیا ہے۔