پاکستانی سیاست گرداب میں۔۔۔!

مفاہمت اور مذاکرات سے زیادہ اختیارات کی جنگ

پاکستانی سیاست کا المیہ یہ ہے کہ یہ ہمیشہ سیاسی گرداب میں پھنسی رہی ہے۔ یہاں سیاست کا کھیل ہمیشہ بیک ڈور چینل سے کھیلا جاتا ہے، اور فرنٹ پر جو کچھ سیاست کے نام پر دکھایا جاتا ہے وہ حقیقی تصویر نہیں ہوتی۔ آج بھی قومی سیاست کا کھیل پردۂ اسکرین کے پیچھے کھیلا جارہا ہے جہاں اسٹیبلشمنٹ ایک طاقتور فریق کے طور پر موجود ہے، جو سیاست دانوں کو اپنی مرضی اور منشا کے مطابق کھلانا چاہتی ہے۔ حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات کا کھیل محض ایک سیاسی تماشا بنا ہوا ہے۔ مذاکرات کے نام پر جو کھیل کھیلا جارہا ہے، لگتا ہے کہ اس کا مقصد مذاکرات یا مفاہمت نہیں بلکہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانا ہے۔ پی ٹی آئی نے مذاکراتی کمیٹی کا بائیکاٹ کیا ہوا ہے اور ان کے بقول مذاکرات کا عمل اُس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک کہ جوڈیشل کمیشن نہ بن جائے۔ حکومت نے اگرچہ جوڈیشل کمیشن بنانے سے انکار نہیں کیا لیکن جوڈیشل کمیشن بن بھی نہیں رہا، اور حکومتی کمیٹی کے رکن عرفان صدیقی کے بقول اگر پی ٹی آئی مذاکرات کا حصہ نہیں بنتی تو پھر حکومت بھی جوڈیشل کمیشن بنانے سے انکار کرسکتی ہے۔ وزیراعظم شہبازشریف کے بقول پی ٹی آئی کی جانب سے مذاکرات سے گریز کوئی جمہوری عمل نہیں، پی ٹی آئی کو جمہوری رویہ اختیار کرنا چاہیے۔ لیکن یہ سب کچھ صرف پی ٹی آئی کیوں کرے؟ اب تک مفاہمت کے نام پر حکومت نے ایسا کیا کیا ہے جس پر حکومت کی تعریف کی جائے؟ ایسا لگتا ہے کہ مفاہمت کا عملی اختیار حکومت کے پاس ہے ہی نہیں، اور یہ اختیار حکومت کے مقابلے میں اسٹیبلشمنٹ کے پاس زیادہ نظر آتا ہے۔ قومی اسمبلی کے اسپیکر سردار ایاز صادق نے پی ٹی آئی کی مذاکراتی کمیٹی سے رابطہ کیا اور انہیں اجلاس میں شرکت کی دعوت دی ہے، لیکن پی ٹی آئی اجلاس میں شرکت سے انکاری ہے، اور ان کے بقول حکومت تاخیری حربے اختیار کرکے مذاکرات کو سبوتاژ کرنا چاہتی ہے۔

ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ ایک طرف مفاہمت کی بات کی جاتی ہے اور دوسری طرف پی ٹی آئی پر سختیاں بھی کی جارہی ہیں جس کی وجہ سے دونوں فریق میں اعتماد کی کمی کا مسئلہ سرفہرست ہے۔ حکومت کا مؤقف ہے کہ جو معاملات عدالت میں زیر بحث ہیں یا زیر سماعت ہیں ان پر وہ کسی بھی سطح پر جوڈیشل کمیشن نہیں بنا سکتی۔ البتہ حکومت نے پارلیمانی کمیٹی کی تجویز پیش کی ہے۔ لیکن اس سے پہلے بھی ماضی میں پارلیمانی کمیشن بنتے رہے ہیں جن کا کوئی خاص نتیجہ نہیں نکل سکا۔ ویسے بھی سب جانتے ہیں کہ حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات کی میز بنیادی طور پر حکومت سے زیادہ اسٹیبلشمنٹ نے سجائی ہے، اور حکومت کا کام وہ نہیں جو بظاہر دکھایا جارہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت کے اپنے اندر ایسے بہت سے لوگ موجود ہیں جو مذاکرات کے حامی نہیں لیکن مذاکرات کی کڑوی گولی اُن کو ہضم کرنا پڑرہی ہے۔ بعض وزرا کا خیال ہے کہ پی ٹی آئی سے مذاکرات کا عمل اُن پر زبردستی لاگو کیا گیا ہے اور اس کا مقصد حکومت سے زیادہ پی ٹی آئی کو سیاسی ریلیف دینا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت کے اندر بہت سے لوگ پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات سے پریشان ہیں یا اپنے سخت تحفظات رکھتے ہیں۔ حکومت کے بعض وزرا یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ نے ان کو پی ٹی آئی سے مذاکرات کے معاملے پر پورے طریقے سے اعتماد میں نہیں لیا، بلکہ بعض معاملات حکومت سے علیحدہ رکھ کر چلانے کی کوشش کی جارہی ہے۔

مسئلہ یہ ہے کہ جب سیاست تعطل یا ڈیڈلاک کا شکار ہو اور ملک میں مذاکرات اور مفاہمت کے نام پر سیاسی کھیل کھیلا جارہا ہو تو لکھنے والے کیا لکھیں؟ ظاہر ہے وہی کچھ لکھا جائے گا جو پردۂ اسکرین پر یا پسِ پردہ دکھانے کی کوشش کی جارہی ہو۔ اسی وجہ سے سیاست پر لکھنے والے مخمصے کا شکار ہیں۔ جن موضوعات پر لکھنا چاہیے اُن سے زیادہ حالاتِ حاضرہ پر لکھتے ہیں، اور وہی کچھ لکھنے کی کوشش کرتے ہیں جو بار بار دکھایا جاتا ہے۔ سیاست بنیادی طور پراسٹابلشمنٹ اور سیاسی شخصیات کے درمیان پھنس کر رہ گئی ہے۔ قومی، علاقائی اور عالمی سطح کے سنگین مسائل ہماری ترجیحات کا حصہ نہیں رہے، اور ہم اُن مسائل پر اپنی توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں جن کو ہماری ترجیحات کا حصہ نہیں ہوناچاہیے۔ گورننس، معیشت، سیکورٹی، سیاست اور جمہوریت سمیت آئین اور قانون کے معاملات بہت حد تک بگاڑ کا شکار ہیں۔ اگرچہ دعویٰ یہ کیا جارہا ہے کہ پاکستان درست ٹریک پر آگیا ہے اور معیشت کی گاڑی درست سمت چل رہی ہے۔ لیکن یہ حکمران طبقات کا بیانیہ ہے، جبکہ عام آدمی معیشت کے معاملے میں خاصا پریشان ہے، اور اُس کی پریشانی اُس کی معاشی بدحالی کے تناظر میں دیکھی جا سکتی ہے۔ بڑے بڑے معاشی اشاریے پیش کیے جارہے ہیں جو ظاہر کرتے ہیں کہ ملک میں آنے والے دنوں میں معاشی مشکلات کم ہوں گی۔ جو عام آدمی کے اشاریے ہیں اور جس مہنگائی اور بدحالی کا اُسے سامنا ہے اس میں کوئی بڑی تبدیلی دیکھنے کو نہیں مل رہی۔ اِس لیے حکمران طبقات کے بیانیے اور عام طبقات کے بیانیے میں بنیادی فرق ہے، اور حکمران طبقات اس بیانیے کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ مسئلہ محض موجودہ حکمرانوں کا نہیں بلکہ عمومی طور پر سب حکمران طبقات عوام سے دور رہتے ہیں، اور عوامی مسائل یا مشکلات کا حل ان کی ترجیحات کا حصہ نہیں ہوتا۔وجہ یہ ہے کہ حکمران طبقات اور عام آدمی میں جو خلیج ہے وہ ہمیشہ سے موجود رہی ہے۔ گیلپ کے سروے میں بھی اس بات کا انکشاف کیا گیا ہے کہ 64 فیصد پاکستانی اب بھی حکومتی دعووں کو درست نہیں سمجھتے کہ معاشی حالات درست ہو گئے ہیں یا مہنگائی میں کمی ہوئی ہے۔

جہاں تک حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات کی بات ہے، بنیادی سوال یہی ہے کہ حکومت ہو یا اسٹیبلشمنٹ… اُن کے پاس ایسی کیا جادو کی چھڑی ہے جسے وہ پی ٹی آئی کو دے کر اپنے لیے کوئی ریلیف لے سکتے ہیں؟ یا پی ٹی آئی کے پاس ایسا کیا آپشن ہے جو وہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ سے اپنے لیے مفاہمت کے نام پر کوئی نیا ریلیف لے سکے؟ مسئلہ ریلیف اور مفاہمت سے زیادہ سیاسی ڈکٹیشن اور اپنی اپنی شرائط پر ایک دوسرے کو راضی کرنے کا ہے، یعنی مفاہمت سے زیادہ سیاسی ڈکٹیشن کا عمل غالب ہے۔ ظاہر ہے کہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے پاس اختیارات ہیں تو وہ اپنا اختیار پی ٹی آئی پر زیادہ استعمال کرنے کی کوشش کریں گے۔ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ پی ٹی آئی کے اندر ایسے لوگوں کے ساتھ سہولت کاری کررہی ہیں جو ایک ہی وقت میں عمران خان کے ساتھ بھی ہیں اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بھی کھڑے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان کو بھی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اپنے کارڈ آزماتے ہوئے زیادہ سمجھ داری کا مظاہرہ کرنا پڑ رہا ہے یا اپنے لوگوں کی نگرانی کرنی پڑرہی ہے۔ خیبر پختون خوا میں علی امین گنڈا پور کی تبدیلی اور صوبائی صدارت سے ان کی علیحدگی ظاہر کرتی ہے کہ جو کچھ وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر کررہے تھے اس پر عمران خان کو اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا۔ عمران خان کسی بھی صورت میں نئے انتخابات کے مطالبے سے دست بردار نہیں ہوں گے، اور وہ اِس سال کے آخر یا اگلے سال کے شروع میں نئے انتخابات چاہتے ہیں۔ اس حکومت کو وہ کوئی لمبا ٹائم نہیں دینا چاہتے، اور یہ بات واضح طور پر وہ اسٹیبلشمنٹ کے سامنے باور کروا چکے ہیں کہ اگر اسٹیبلشمنٹ نئے انتخابات کے لیے تیار نہیں تو وہ بھی مذاکرات کا حصہ نہیں بنیں گے۔ عدالتی کمیشن بننا، چاہے وہ 9 مئی کا ہو یا 27 نومبر کا… عمران خان کو اندازہ ہے کہ اس سے کچھ نہیں نکل سکے گا اور نہ عدالتیں کوئی بڑا فیصلہ دے سکیں گی، لیکن وہ اس کمیشن کو ایک دباؤ کے طور پر حکومت کے خلاف استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عدالتی کمیشن کا دباؤ ڈال کر بنیادی طور پر وہ نئے انتخابات کا راستہ اختیار کرنا چاہتے ہیں۔ خود اسٹیبلشمنٹ یا حکومت بھی عدالتی کمیشن کی حامی نہیں، کیونکہ عدالتی کمیشن بننے سے مسائل اور زیادہ گمبھیر ہوں گے۔ اس لیے نئے انتخابات کا معاملہ سب کو سوٹ کرتا ہے، لیکن یہ انتخابات کب ہوں گے اس پر ابھی تک کوئی بڑا اتفاقِ رائے سامنے نہیں آیا۔ اسٹیبلشمنٹ دو برس تک نئے انتخابات کی حامی نہیں، لیکن یہ اُس کی خواہش ہوسکتی ہے، عملی طور پر نئے انتخابات کا راستہ ہی اختیار کرنا ہوگا۔ پی ٹی آئی اگرچہ مذاکرات سے انکار کررہی ہے لیکن یہ وقتی انکار ہوگا، اور آگے جاکر پی ٹی آئی دوبارہ مذاکرات کا حصہ بن سکتی ہے۔ لیکن یہ حکومت پر منحصر ہے کہ وہ پی ٹی آئی کو کس طرح سے ڈیل کرتی ہے۔ کیونکہ یہ تاثر عام ہے کہ حکومت کے اندر سے ایک گروپ مذاکرات کو خراب کرنا چاہتا ہے لیکن احتیاط کے ساتھ، کیونکہ وہ یہ الزام اپنے سر لینے کے بجائے پی ٹی آئی پر ڈالنا چاہتا ہے کہ مذاکرات کا راستہ پی ٹی آئی نے چھوڑا ہے۔

دوسری طرف سیاست سے ذرا ہٹ کر دیکھیں تو عدالتی نظام میں محاذآرائی کا کھیل دیکھنے کو مل رہا ہے۔ آئینی اور ریگولر بینچز کے ججوں میں تصادم بڑھ گیا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ کے بقول کمیٹیوں نے عدالتی حکم نظرانداز کیا ہے اور معاملہ فل کورٹ سنے۔ جبکہ چیف جسٹس مندوخیل کے بقول کیا فل کورٹ توہین کرنے والے بنائیں گے؟ چیف جسٹس نے واضح طور پر کہا ہے کہ وہ ججز کمیٹی میں نہیں جائیں گے۔ یہ عمل ظاہر کرتا ہے کہ جب سے آئینی اور ریگولر بینچز کی تشکیل ہوئی ہے، ججوں کے اپنے اندر بہت سے معاملات پر تنازعات دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ عدالت میںجج جس طرح سے ریمارکس دے رہے ہیں اس سے لگتا ہے کہ معاملات میں خرابی پیدا ہوگئی ہے، اور ماضی میں اس کی کوئی نظیر دیکھنے کو نہیں ملتی۔ ججوں کی جانب سے ایک دوسرے کے معاملات پر سوالات اٹھانے سے حالات مزید خراب ہوگئے ہیں۔ عدالتی تصادم کوئی نیا نہیں ہے بلکہ پچھلے چند سالوں سے حکومت، اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کے درمیان تصادم کی نئی نئی شکلیں دیکھنے کو مل رہی ہیں۔

حکومت سمجھتی ہے کہ عدلیہ اس کے سیاسی معاملات میں مداخلت کررہی ہے اور بعض جج براہِ راست حکومت کے مقابلے میں پی ٹی آئی کو سپورٹ کرتے ہیں۔ جبکہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے بہت سے جج واضح طور پر یہ کہہ چکے ہیں کہ انہیں اپنے عدالتی معاملات کو چلانے میں خاصے دباؤ کا سامنا ہے، اور دباؤ ڈالنے والوں میں حکومت کے ساتھ ساتھ اسٹیبلشمنٹ بھی غالب نظر آتی ہے۔ پی ٹی آئی کا یہ بھی گلہ ہے کہ ان کے خلاف جو سیاسی مقدمات ہیں ان میں اسٹیبلشمنٹ خاص طور پر ان کے لیے مشکلات پیدا کررہی ہے، ان کو سیاسی سرگرمیاں کرنے کی اجازت نہیں ہے اور انہیں عدالتی عتاب کا سامنا ہے۔

تیسری طرف حکومت نے میڈیا یا سوشل میڈیا کو قابو کرنے کے لیے پیکا ترمیمی بل قومی اسمبلی اور سینیٹ سے پاس کیا ہے۔ بل کی منظوری پر صحافتی تنظیموں نے خاصا احتجاج کیا ہے۔ میڈیا کے معاملات کو حکومت اور اسٹیبلشمنٹ نے جس طرح سے کنٹرول کیا ہے یا میڈیا کی بے بسی کے مناظر ہمیں دیکھنے کو مل رہے ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان میں آزادیِ اظہار ایک مشکل صورتِ حال سے دوچار ہے۔ صرف آزادیِ اظہار ہی نہیں بلکہ انسانی حقوق کی صورتِ حال پر بھی بہت سے سوالات ہیں۔ آئین اور قانون کی حکمرانی کے معاملات سب کے سامنے ہیں، اور جس طرح سے ملک کو چلایا جا رہا ہے اس سے ملک جمہوری تشخص برقرار نہیں رکھ سکے گا۔ یہ صورتِ حال بہت پیچیدہ ہے اور ہمیں اس کا حل تلاش کرنا ہے، لیکن یہ حل اسی صورت میں تلاش ہوگا جب ہم اس بات کا ادراک کریں گے کہ ہم سے غلطیاں ہورہی ہیں۔ اگر ہم بضد ہیں کہ ہم سے کوئی غلطیاں نہیں ہورہیں اور ہم درست ہیں تو پھر شاید ہم اپنی اصلاح نہیں کرسکیں گے۔ ہمیںمعاملات کو شخصیات سے ہٹ کر دیکھنا چاہیے اور بڑے تناظر یا بڑے فریم ورک میں قومی مسائل کا احاطہ کیے بغیر ہم کسی مثبت نتیجے پر نہیں پہنچ سکیں گے۔ قومی معاملات ہم سے تقاضا کرتے ہیں کہ ہم وہ کچھ کریں جو ریاست کے مفاد میں ہے، جبکہ اس کے برعکس ہم وہ کچھ کرنے کی کوشش کررہے ہیں جو ریاست سے زیادہ ہمارے اپنے مفادات کو تحفظ دیتا ہے۔ یہی وہ تضاد ہے جو پاکستان میں سیاست اور حکومت کے درمیان ہمیں درپیش ہے۔ جو لوگ قومی سیاسی راستہ تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں اُن کی ناکامی کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ ہماری سیاست کسی درست سمت میں نہیں ہے، جب بھی قومی سوالات اٹھائے جاتے ہیں تو اس پر سنجیدگی کا پہلو کم اور جذباتیت کا پہلو زیادہ غالب نظر آتا ہے۔ محاذآرائی، ٹکراؤ، تناؤ اور تصادم کی سیاست نے ہم سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے جس کی وجہ سے سیاست اور جمہوریت کا نظام جمود کا شکار ہے اور باہر نکلنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آرہا۔ جب بھی حکومت کچھ کرنے کا فیصلہ کرتی ہے یا اپنے بازو دکھاتی ہے تو اس کو بتادیا جاتا ہے کہ اس کا اصل اختیار کتنا ہے۔ کئی معاملات میں ہم نے وزیراعظم اور وزراء کی بے بسی دیکھی ہے، وہ بڑے بڑے عہدوں کے باوجود کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ یہ سوال بھی اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے ۔