جنگ بندی کے خاتمے کی اسرائیلی کوشش

قیدیوں کی حوالگی کی تقریب نے اسرائیل میں زلزلہ برپا کردیا ہے

حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی معاہدہ دوسرے ہفتے میں داخل ہوگیا ہے، کہ جس کے تحت حماس نے 4 فوجی خواتین کو 25 جنوری 2025ء کو ریڈ کراس کے حوالے کیا، لیکن قیدیوں کی یہ حوالگی گزشتہ ہفتے قیدیوں کی حوالگی سے بہت مختلف تھی۔ حماس نے اس کے لیے غزہ شہر کے وسط کا انتخاب کیا جہاں باقاعدہ اسٹیج لگاکر ان قیدیوں کو فوجی لباس میں ریڈکراس کے حوالے کیا گیا ان نوجوان فوجیوں کی عمریں 19 سے 20 سال تھیں۔ ان کے چہرے کی مسکراہٹ، بااعتماد چال اور اپنے قید کرنے والوں کو مسکراہٹوں کا تبادلہ اس بات کا عکاس تھا کہ حماس کا قیدیوں کے ساتھ کیسا رویہ رہا۔ قیدیوں کی اس حوالگی نے اسرائیل میں ایک زلزلہ برپا کردیا ہے کیونکہ اسٹیج بینرز پر اسرائیل کی اعلیٰ ترین خفیہ ایجنسیوں کے نام پیغام، اور اسرائیلی فوجی و سیاسی قیادت کی تصاویر اور نام بطور مجرم آویزاں کیے گئے تھے۔ اور اس پر ہی اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ چار قیدیوں کو اپنے حصار میں لیے حماس کے نوجوانوں کے ہاتھوں میں اسرائیلی فوج سے چھینی گئی رائفلز کی نمائش نے اس تقریب کو اسرائیل کی شکست کے طور پر پیش کیا۔ جبکہ ان قیدیوں کی حوالگی کے بعد 200 مزید فلسطینی قیدیوں کو رہا کردیا گیا جن کو عمر قید کی سزائیں ہوئی تھیں، اس پر اب اسرائیلی حکومت، عسکری قیادت اور بطور خاص میڈیا میں ایک زبردست تحریک جاری ہے کہ کس طرح اس جنگ بندی کو ختم کیا جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر ہر قیدی کی رہائی پر ایسی ہی تقریبات کا اہتمام کیا گیا تو نہ صرف اسرائیل کی جگ ہنسائی کا بندوبست ہوگا بلکہ عوام میں شدید شکست کا احساس مزید نمایاں ہوگا۔ اس ضمن میں اسرائیلی میڈیا میں تو واویلا جاری ہے لیکن اسرائیل کا حامی برطانوی میڈیا بھی اس میں اپنا کردار ادا کررہا ہے۔ برطانیہ کا قدیم ترین اور ایک بڑا اخبار The Sunday Telegraph جوکہ اسرائیل کا بے پناہ حامی ہے، اپنی 26 جنوری 2025ء کی اشاعت میں اداریہ بعنوان “Hamas Must be Defanged” (حماس کی طاقت کو ختم کرنا چاہیے) میں لکھتا ہے کہ:

The release of four female Israeli soldiers, taken hostage 15 months ago, from their captivity in Gaza was a rare moment of joy in more than a year of conflict. But the manner of their release highlights the barbaric nature of Hamas, and the need to ensure that it retains no control over the territory.

’’چار اسرائیلی خواتین فوجیوں کی رہائی، جو 15 ماہ قبل غزہ میں یرغمال بنائی گئی تھیں، ایک سال سے زیادہ جاری تنازع میں ایک نایاب لمحۂ مسرت کا باعث بنی۔ لیکن ان کی رہائی کا طریقہ کار حماس کی سفاکی کو نمایاں کرتا ہے اور یہ ضرورت اجاگر کرتا ہے کہ غزہ پر اس کا کوئی کنٹرول باقی نہ رہے۔‘‘

اخبار اس اداریے میں حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دیتا ہے اور اس کو غزہ میں دوبارہ طاقت حاصل کرنے سے روکنے پر بھی زور دے رہا ہے تاکہ اسرائیلی عوام پر مظالم کا سلسلہ ختم ہوسکے۔

مغرب کا یہ وہ میڈیا ہے جو اسرائیل کے دفاع میں سر تا پا ڈوبا ہوا ہے اور اسے اسرائیل کی جارحیت اور47 ہزار لوگوں کا غزہ میں قتل عام نظر ہی نہیں آرہا۔ حیرت انگیز طور پر ایسا ہی منظرنامہ اسرائیلی میڈیا میں بھی ہے۔ اسرائیل کا بڑا اخبار دی یروشلم پوسٹ ایک جانب سرخی لگاتا ہے: “The daughters have returned in their borders” (بیٹیوں کی اپنی سرحدوں میں واپسی)، تو دوسری جانب نامور اسرائیلی دفاعی تجزیہ نگارSeth J Frantzman اپنے تجزیے میں اس تقریب کے بعد لکھتے ہیں کہ :

Saturday’s spectacle is aimed at showing that Hamas is the one in charge and the IDF is the one that was defeated.

’’ہفتہ کے دن کا مظاہرہ یہ ظاہر کرنے کے لیے ہے کہ حماس ہی اصل میں اقتدار میں ہے اور اسرائیلی فوج (IDF) وہ ہے جو شکست کھا چکی ہے۔‘‘

قیدیوں کی حوالگی کے دن اور اس سے اگلے دن پورا اسرائیلی میڈیا خوشی سے زیادہ غم و غصّے کی حالت میں نظر آیا۔ ایک جانب اسرائیلی عوام کے اندر یہ امنگ جاگی ہے کہ ان کے قیدی اب واپس آسکتے ہیں، تو دوسری جانب اس تقریب کا بہانہ بناکر یہ پروپیگنڈا شروع کردیا گیا ہے کہ یہ جنگ بندی ختم کی جائے۔ اس کا واضح ثبوت اسرائیلی حکومت کی جانب سے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے فلسطینی مہاجرین کو شمالی غزہ جانے سے روکنا تھا۔ اس کے بعد ایک شدید بدمزگی پیدا ہوگئی اور مقتدر طاقتوں کی مداخلت کے بعد اس معاملے کو حل کیا گیا۔ لیکن یہ بات بہت واضح ہے کہ یہ کوئی عارضی مسئلہ نہیں بلکہ جنگ بندی کو اسرائیل کی جانب سے ختم کرنے کی کوشش ہے، اور آئندہ آنے والے دنوں میں جنگ بندی ختم کرنے کی کوششوں کو مزید تیز کیا جائے گا۔

اگر جنگ بندی ختم ہوئی تو اسرائیل کا ممکنہ منصوبہ کیا ہوسکتا ہے، اس ضمن میں بہت سی قیاس آرائیاں جاری ہیں، لیکن اب اسرائیلی میڈیا میں اس بات کو کھل کر بیان کیا جارہا ہے کہ متوقع امکانات کیا کیا ہیں۔ اس ضمن میں امریکی اسرائیلی صحافی و دانشور Dahlia Scheindlin جوکہ پی ایچ ڈی ہیں اور کئی معتبر جرائد و اخبارات میں لکھنے کے ساتھ ساتھ پولیٹکل کنسلٹنٹ بھی ہیں اور گزشتہ دو دہائیوں سے اسرائیل کے الیکشن میں پولیٹکل پارٹیز کی کنسلٹنسی بھی کرتی رہی ہیں، معتبر اسرائیلی اخبارHaartez میں ان کا تجزیہ بعنوان “How to end the Israeli-Palestinian con flict for good, now”(اسرائیل فلسطین تنازعے کو ہمیشہ کے لیے ختم کیا جاسکتا) شائع ہوا ہے جس میں انہوں نے تفصیلی طور پر مختلف امکانات پر روشنی ڈالی ہے۔ ان کے نزدیک اب Paradigm Shift ہی اس مسئلے کا متوقع حل ہے۔ اس تفصیلی تجزیے میں انہوں نے عوامی رائے عامہ کے مختلف سروے کو بھی شامل کرکے اس بات پر زور دیا ہے کہ اب اسرائیلی عوام کی اکثریت دو ریاستی حل کے خلاف ہے، لہٰذا یہ ممکن نظر نہیں آتا۔ اس کے علاوہ متوقع طور پر اسرائیل میں بہرحال اندرونی سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے الیکشن کا انعقاد ناگزیر ہے اور نئی حکومت بھی جنگ بندی کے اس معاہدے کو ختم کرنے کی مجاز ہوسکتی ہے۔ نئے امکانات کے تحت جنگ بندی ختم ہو، تمام قیدیوں کو مار دیا جائے اور حماس کی طاقت کو ختم کردیا جائے۔ لیکن اس معاملے کو وہ Paradigm Shift کی پالیسی کے تحت حل کرنے پر زیادہ توجہ دیتی نظر آتی ہیں کہ جس کے تحت امریکہ اس میں فیصلہ کن کردار ادا کرسکتا ہے۔ اس پالیسی میں ایران مخالف بلاک کا قیام کہ جہاں سعودی عرب و متحدہ عرب امارات پہلے مرحلے میں اسرائیل کو نہ صرف بطور ریاست تسلیم کریں بلکہ مغربی کنارے یعنی جہاں مسجد اقصیٰ واقع ہے اس کو اسرائیل کی ریاستی حدود میں بھی تسلیم کیا جائے۔ غزہ کو مختلف حصوں میں تقسیم کرکے ایک فلسطینی اتھارٹی قائم کردی جائے۔ اس کے لیے حماس کی قوت کا خاتمہ، ایران کی ناکہ بندی اور اہم مسلم ممالک کو اسرائیل کو نہ صرف بطور ریاست تسلیم کرنا بلکہ بیت المقدس مسجد اقصیٰ کو بھی اسرائیلی ریاست کا حصہ ماننا ہے۔

وہ لکھتی ہیں :

“This isn’t a prediction, but it is a possibility: Over the next six weeks, the Trump administration commits itself fully to the big Saudi normalization deal. The king dom and the

Americans together offer a coordinated rollout – maybe even delivered by these unsavory

national leaders, Trump and Crown Prince Mohammed bin Sal man – to drive home the

gravitas.

And what if it’s not just the two of them? The two sides can mobilizes the as-yet mostly

aspirational frame work known as the Global Alliance for Implementation of the Two State

Solution, established late last year by Saudi Arabia, the European Union and Nor way, with

85 countries represented at the third meeting held recently in Oslo. The EU would of course

provide tooth less but enthusiastic moral support to any two-state plan.

Get Qatar and Egypt, already deeply involved in brokering and implementing the ceasefire

terms, to leverage their influence in favor of this final-status political agreement for

Palestinian self-determination (wrapped up in the Saudi deal). These countries’support is

not theoretical: Israelis are well aware of their major role in helping get their host ages

home.

The United Arab Emirates could well join the band wagon of political but also material sup

port. That’s plausible enough – the U.A.E. is close to Saudi Arabia, and its prominent long

time diplomat Lana Nusseibeh wrote months ago that the coun try would participate in an

intervention to rehabilitate Gaza if the political conditions were right.”

’’یہ پیشگوئی نہیں، بلکہ ایک امکان ہے: اگلے چھ ہفتوں میں ٹرمپ انتظامیہ بڑے سعودی نارملائزیشن معاہدے کے لیے مکمل طور پر پُرعزم ہوجاتی ہے۔ سعودی عرب اور امریکہ ایک مربوط حکمت عملی پیش کرتے ہیں– شاید یہ اعلان صدر ٹرمپ اور ولی عہد محمد بن سلمان کے ذریعے کیا جائے– تاکہ اس کی اہمیت کو واضح کیا جا سکے۔

اور اگر یہ صرف دونوں تک محدود نہ ہو؟ دونوں فریق ’’دو ریاستی حل کے نفاذ کے عالمی اتحاد‘‘ کو متحرک کرسکتے ہیں، جو گزشتہ سال کے آخر میں سعودی عرب، یورپی یونین اور ناروے کے ذریعے قائم کیا گیا تھا، جس کی حالیہ تیسری میٹنگ اوسلو میں ہوئی، جہاں 85 ممالک کی نمائندگی تھی۔ یورپی یونین کسی بھی دو ریاستی منصوبے کے لیے زبانی حمایت دے سکتی ہے، اگرچہ غیر مؤثر ہو۔

قطر اور مصر، جو پہلے ہی جنگ بندی کی شرائط کو نافذ کرنے میں گہری شمولیت رکھتے ہیں، اپنی طاقت کو فلسطینی خودمختاری کے لیے اس حتمی سیاسی معاہدے کی حمایت میں استعمال کر سکتے ہیں (جو سعودی معاہدے میں لپٹا ہوا ہوگا)۔ ان ممالک کی حمایت نظریاتی نہیں ہے: اسرائیلی اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ ان کے یرغمالیوں کو واپس لانے میں ان ممالک کا اہم کردار رہا ہے۔

متحدہ عرب امارات بھی سیاسی اور مادی حمایت کے ساتھ اس قافلے میں شامل ہوسکتا ہے۔ یہ کافی ممکن ہے– یو اے ای سعودی عرب کے قریب ہے، اور اس کے معروف سفارت کار لانا نسیبہ نے مہینوں پہلے لکھا تھا کہ ملک ان حالات میں غزہ کی بحالی کے لیے مداخلت کرے گا، اگر سیاسی حالات درست ہوں۔‘‘

اس معاملے پر ماہرین کی رائے میں ٹرمپ کے برسراقتدار آتے ہی کام شروع ہوگیا ہے۔ اس ضمن میں ٹرمپ کی باضابطہ دھمکیاں، سابقہ دورِ صدارت میں یروشلم کو بطور اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنا، اور اب سعودی عرب کی جانب پیغامات اس بات کا ثبوت ہیں کہ غزہ کی جنگ بندی اگر چھ ہفتے برقرار رہی تب بھی یہ تینوں مراحل شاید نہ مکمل کرپائے۔ امریکہ، سعودی عرب اور دیگر اہم اسلامی ممالک اس معاملے میں کیا کردار ادا کرتے ہیں اب یہ ایک سوالیہ نشان ہے، لیکن اسرائیلی حکومت، فوج اور دانشوروں کو دیکھتے ہوئے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ اب اس خطے میں گریٹ گیم کی تیاریاں عروج پر ہیں جس کا مقصد بیت المقدس اور پورے مغربی کنارے کو اسرائیل کی تحویل میں دینا اور حماس کا مکمل خاتمہ ہے۔ دیکھیں آنے والا دور کیا خبر لے کر آتا ہے، لیکن بین الاقوامی طاقتوں کی تمام توجہ مشرق وسطیٰ پر ہے کہ جہاں یہ گریٹ گیم وہ کھیلنے جارہے ہیں۔