بعض باتوں کو بار بار دُہرانے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ تکرار سے تکلیف تو ہوتی ہے، مگر بات بالآخر دماغ میں بیٹھ جاتی ہے۔ جب کہ انگریزی الفاظ کی تکرار نے تو دماغ کا بھٹّا ہی بٹھا دیا ہے۔ اِن کالموں میں بار بار بتایا جاچکا ہے کہ دیگر زبانوں کی طرح انگریزی زبان سے بھی اُردو نے بے شمار الفاظ قبول کیے ہیں۔ صاحب! ’بے شمار‘ کا مطلب ہے ’بے حساب، اَن گِنِت، بے اندازہ اور بے حد‘۔ مراد یہ کہ بہت زیادہ۔ اُردو میں انگریزی الفاظ کی قبولیت دو طرح سے ہوئی۔ ایک یہ کہ جن انگریزی الفاظ کا تلفظ اُردو کے مزاج اور اُردو تلفظ کے ترنم سے ہم آہنگ تھا اُنھیں جوں کا توں قبول کرلیا گیا۔ مثلاً جج، نل، مشین، کاپی، نوٹ، ٹائی، کوٹ، کالر، کاج، بٹن، ووٹ، اسمبلی، فیشن اور موٹر وغیرہ۔ جب کہ بہت سے دوسرے انگریزی الفاظ کو اُردو نے اپنے تلفظ کے ترنم میں ڈھال کر اپنالیا۔ چناں چہ بوتل، لالٹین، لاٹ صاحب، میم صاحب، بشرٹ، پتلون، اَلمونیم اور اس کا بکس یا بکسا، میز کی دراز (Drawers) اور پلاس (Pliers)وغیرہ کا تلفظ تبدیل کرکے اُردو میں استعمال کیا گیا۔ انگریزی مہینوں کے ناموں میں سے مارچ، جون اور جولائی کو اُردو تلفظ کے ترنم کے مطابق ہونے کی وجہ سے جوں کا توں قبول کرلیا گیا، بقیہ مہینوں کا تلفظ اُردو کے مزاج کے موافق کرلیا گیا۔ چوں کہ اُردو اور اس کی ہم شیر زبانوں میں کسی لفظ کا آغاز ساکن حرف سے نہیں ہوتا، ہر لفظ کا پہلا حرف ہمیشہ متحرک ہوتا ہے، چناں چہ اِسکول، اِسٹول، اِسٹال اور اِسٹیشن وغیرہ کے تلفظ میں زیر کے ساتھ الف کا اضافہ کرکے زبان پر رواں کرلیا گیا۔ اِس املا اور اس تلفظ کو مقتدرہ قومی زبان پاکستان کی سند بھی حاصل ہے۔
انگریزی کے جو الفاظ اُردو ذخیرۂ الفاظ کا جزو بن چکے ہیں، وہ اُردو کا حصہ سمجھے جاتے ہیں۔ ایسے انگریزی الفاظ سے بننے والے مرکبات بھی اُردوکے قاعدے سے بنائے جاتے ہیں اور ان انگریزی الفاظ کی جمع بھی اُردو ہی کے قواعد کے تابع ہوتی ہے۔ مثلاً:
’’ضرورت مند خواتین میں سلائی مشینیں تقسیم کی گئیں۔‘‘
’’نئے ججوں نے اپنے عہدے کا حلف اُٹھا لیا۔‘‘
’’سرکاری اِسکولوں کے طلبہ کو کتابیں اور کاپیاں مفت فراہم کی جائیںگی۔‘‘
’’ماہِ فروری میں پندرہ مقامات پر پانی کی موٹریں نصب کی گئیں۔‘‘
’’اراکینِ قومی اسمبلی عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوتے ہیں‘‘۔وغیرہ وغیرہ
ان مثالوں میں ’’سلائی مشینیں‘‘ ، ’’ماہِ فروری‘‘ اور ’’قومی اسمبلی‘‘جیسے مرکبات اُردو قاعدے کے مطابق بنائے گئے ہیں، جب کہ مشینیں، ججوں، اِسکولوں، کاپیاں، موٹریں اور ووٹوں جیسے اسمائے جمع انگریزی قاعدے کے موافق نہیں بلکہ اُردو کے مزاج کے مطابق استعمال کیے گئے ہیں۔
اُردو میں جذب ہوجانے والے انگریزی الفاظ کے استعمال میں کوئی حرج ہے نہ اس پر اعتراض۔ لیکن ہمارے ذرائع ابلاغ میں اُردو کے ہر لفظ کو بے دخل کرکے اُس کی جگہ اُردو فقرے میں زبردستی انگریزی الفاظ ٹھونسنے کی جو رِیت چل پڑی ہے وہ سخت گراں گزرتی ہے۔ اس پھوہڑپن سے نہ صرف زبان کا حسن متاثر ہوتا ہے بلکہ ابلاغ میں بھی رکاوٹ پڑتی ہے۔ مثلاً ایک اُردو اخبار کی یہ سرخی آپ نے بھی دیکھی ہوگی:
’’مسنگ ماؤنٹینیرز کا سرچ آپریشن جاری ہے‘‘۔
یہی سرخی اگر یوں لگائی جاتی تو اُردو اخبار کی سُرخی کہے جانے کے قابل ہوجاتی:
’’گم شدہ کوہ پیماؤں کی تلاش کا عمل جاری ہے‘‘۔
ایک اور اخبار کے عدالتی نامہ نگار نے یہ سرخی بنائی:’’ہائی کورٹ نے کیس ڈسمس کردیا‘‘۔
اس سرخی میں صرف ’’نے‘‘ اور ’’کردیا‘‘ شامل کرکے اسے اُردو کی سرخی قرار دیا گیا ہے۔ یہ سرخی اگر اس طرح لگائی جاتی تو اُردو میں ہوجاتی کہ: ’’عدالتِ عالیہ نے مقدمہ خارج کردیا‘‘۔
ایک اور مثال دیکھ لیجے:’’پرائم منسٹر کے سیکیورٹی اسکواڈ کی گاڑی کو حادثہ‘‘۔
خبر بنانے والا صحافی گاڑی اور حادثہ جیسے الفاظ کے ساتھ ساتھ اگر وزیراعظم اور حفاظتی دستہ جیسے الفاظ سے بھی آگاہ ہوتا تو یہی سرخی یوں بناتا: ’’وزیراعظم کے حفاظتی دستے کی گاڑی کو حادثہ‘‘۔
اس طرح کی بے شمار مثالیں اخبارات کے مطالعے یا برقی نشریات کے مشاہدے سے مل جائیں گی۔ اخبارات کی خبروں، اداریوں، مضامین اور ٹیلی وژن چینل کی نشریات میں فقروں کے فقرے ایسے ملتے ہیں جن میں اُردو کے صرف حروفِ ربط استعمال کیے جاتے ہیں (کا، کی، کے، تھا، تھی، تھے، سے، میں، پر اور تک وغیرہ) بقیہ تمام الفاظ انگریزی کے ہوتے ہیں۔ کسی زمانے میں ایسے فقرے لوگوں کو ہنسانے کے لیے بنائے جاتے تھے۔
قومی اخبارات کے نام، ٹیلی وژن چینلوں کے نام اور ان چینلوں سے نشر ہونے والے پروگراموں کے نام بھی خالص انگریزی میں رکھے جانے لگے ہیں، جو قومی زبان میں اخبارات شائع کرنے والوں اور قومی زبان میں نشریات پیش کرنے والوں کی قومی زبان سے ناواقفیت کا اظہارہے۔ نشریاتی ادارے یا اخبارات اُردو کو ذریعۂ ابلاغ کے طور پر خود منتخب کرتے ہیں، اُنھیں یہ ثابت نہیں کرنا چاہیے کہ وہ اپنے کام کی قابلیت اور اپنے پیشے میں مہارت نہیں رکھتے۔ بعض نشریاتی ادارے اُردو خبروں کا خلاصہ پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں “Headline News is brought to you by….” اس سے شبہہ ہوتا ہے کہ اُن میں یہی جملہ اُردو میں بنانے کی اہلیت نہیں تھی، ورنہ بنا لیتے۔”Headline News”کو ’’خبروں کی سُرخیاں‘‘ یا ’’خاص خاص خبریں‘‘ کہا جائے تو ملک کے عام ناظر کی سمجھ میں بھی آجائے کہ کیا چیز پیش کی جارہی ہے۔ یہ بات بھی اُردو ہی میں بتائی جا سکتی ہے کہ اِس پیش کش میں کن کن تجارتی اداروں نے تعاون کیا ہے۔ اپنی نااہلی کا جواز تراشنے کے بجائے اُردو ذرائع ابلاغ میں کام کرنے والوں کو اپنے کام میں مہارت حاصل کرنے پر تو جہ دینا چاہیے۔ کہیں یہ حال نہ ہوجائے کہ ذرائع ابلاغ کے کارکنوں کو کوئی بات اُردو میں سمجھائی جائے تو سمجھ میں نہ آئے اور حالیؔ کہے جائے:
کوئی محرم نہیں ملتا جہاں میں
مجھے کہنا ہے کہ کچھ اپنی زباں میں
اُردو ابلاغیات پر انگریزی اصطلاحات کا غلبہ ہوگیا ہے۔ یہ غلبہ کیوں ہے؟ اس ’کیوں‘ کا جواب کسی سے نہیں ملتا۔ قوم کے لیے اُردو میں نشریات پیش کرنے والے چینلوں کے نام انگریزی میں رکھ دینا توعیب کی بات ہی نہیں رہی۔ نشریات کے عنوانات بھی بڑے اہتمام کے ساتھ خالص انگریزی میں رکھے جاتے ہیں۔ محسوس یہ ہوتا ہے کہ ہمارے ’اہلِ فکر و دانش‘ بالکل ہی بے ذہن اور بے زبان ہوگئے ہیں۔ اپنے ذہن سے سوچ سکتے ہیں نہ اپنی زبان میں کوئی نام رکھ سکتے ہیں۔ اس کوتاہی سے ابلاغی اداروں کے منتظمین کی صلاحیت پر حرف آتا ہے اور یہ تاثر ملتا ہے کہ ان اشخاص میں اُردو چینل چلانے کی اہلیت نہیں ہے۔ دنیا جہان کی خبر رکھنے والوں کو اپنی زبان ہی کی خبر نہیں۔ کسی سے کچھ کہیں تو کیسے کہیں؟ ہمارے ملک میں ابلاغیات کا جہاں بھی عجب جہان ہے۔ کوئی محرم نہیں ملتا جہاں میں۔