ڈاکوئوں کی بہیمانہ کارروائیوں کی وجہ سے ہمارے ہاری، کسان، تاجر، بچے، بوڑھے، مرد اور خواتین کوئی بھی محفوظ نہیں رہا ہے
سندھ کے اضلاع کندھ کوٹ کشمور، شکارپور، جیکب آباد اور گھوٹکی طویل عرصے سے شدید ترین بدامنی کی لپیٹ میں آئے ہوئے ہیں۔ ویسے تو پورا ملک اور سندھ ہی امن وامان کی بگڑتی صورتِ حال کی وجہ سے متاثر ہے لیکن خصوصیت کے ساتھ مذکورہ اضلاع میں تو بدامنی اپنی بدترین انتہا کو چھونے کے بعد مقامی باشندوں کے لیے ایک طرح سے ان کی زندگی ہی اجیرن بنانے کا باعث بن گئی ہے۔ بدامنی سے شدید طور پر متاثرہ ان اضلاع کے باشندے اب اپنی جان، مال، عزت اور آبرو کو ہمہ وقت خطرات میں گھرا دیکھ کر اور کسی قسم کی حکومتی عملداری کو موجود نہ پاکر نسبتاً محفوظ شہروں کی طرف نقل مکانی پر مجبور ہوچکے ہیں۔ تاجر طبقہ پنجاب کے شہروں، جب کہ ہندو برادری کے افراد آئے دن بڑی تعداد میں انڈیا کا رُخ کررہے ہیں جس کی وجہ سے سندھ کے بدامنی کے شکار ان اضلاع کی کاروباری، سماجی اور معاشرتی رونقیں بھی دن بہ دن ماند پڑتی جارہی ہیں۔ شاید ہی کوئی دن ایسا گزرتا ہو جب میڈیا کے توسط سے ہندو برادری کے خاندانوں کے خاندان، اور تجارت سے وابستہ افراد کے یہاں سے ہمیشہ کے لیے نقل مکانی کرکے چلے جانے کی اطلاعات سامنے نہ آتی ہوں۔
اس پس منظر میں جماعت اسلامی کی جانب سے 12 جنوری 2024ء بروز اتوار سندھ کے تیسرے بڑے شہر سکھر کے مقامی ہوٹل میں ’’آل پارٹیز کانفرنس‘‘ منعقد ہوئی۔ اس میں شرکت کے لیے سندھ بھر کی اہم دینی، سیاسی، سماجی تنظیموں، معروف شخصیات، تاجر رہنمائوں، وکلا اور ہر طبقۂ فکر سے وابستہ نمائندہ حضرات کو شرکت کی دعوت دی گئی۔ کانفرنس میں شریک سندھ کی مختلف سیاسی، سماجی، دینی، قوم پرست جماعتوں کے رہنمائوں اور وکلا، سول سوسائٹی، صحافیوں، اقلیتی نمائندوں سمیت ہر طبقۂ فکر سے وابستہ افراد کی معروف اور نمایاں شخصیات کے نمائندہ اجتماع نے سندھ میں حد درجہ بدامنی اور ڈاکو راج کو سندھ پیپلزپارٹی حکومت کی مکمل نااہلی اور ناکامی قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا کہ آئی جی سندھ قیامِ امن اور بحالیِ امن میں چونکہ ناکام ہوچکے ہیں لہٰذا انہیں فی الفور ان کے عہدے سے ہٹاکر فرض شناس اور قابل آئی جی سندھ مقرر کیا جائے۔ صوبے بھر میں امن کے قیام کے لیے بلاتفریق جرائم پیشہ عناصر کے خلاف سخت ترین کارروائی کی جائے۔ جرائم کی سرپرستی کرنے والوں اور مجرموں کے سہولت کاروں کو نشانِ عبرت بنانے کے لیے اچھی ساکھ کے حامل پولیس افسران ہر علاقے اور ضلع میں متعین کیے جائیں۔ عوام کو ڈاکو راج سے دائمی نجات دلانے کے لیے حکومتِ سندھ کی طرف سے فی الفور سنجیدہ نوعیت کے اقدامات کیے جائیں۔ اے پی سی میں ڈاکو راج اور قبائلی تصادم روکنے کے لیے امن کمیٹی کے قیام کا بھی اعلان کیا گیا۔
جماعت اسلامی سندھ کے امیر کاشف سعید شیخ کی زیر صدارت منعقدہ اے پی سی کے اس اجلاس میں شمالی سندھ میں قبائلی جھگڑوں، ڈاکو راج اور بدامنی کے خاتمے اور بحالیِ امن کے لیے ایکشن کمیٹی کے قیام کا اعلان کرتے ہوئے 28 جنوری کو ہر متاثرہ ضلع کے ایس ایس پی کے دفاتر کے سامنے دھرنوں، 16 فروری کو ببرلو خیرپورمیرس اور شکارپور میں انڈس ہائی وے پر بھی احتجاجی دھرنوں کے انعقاد کا اعلان کیا گیا۔ اگر بے حس حکمرانوں پر پھر بھی کوئی اثر نہ ہوا تو بالآخر بات وزیراعلیٰ ہائوس کے گھیرائو اور اسلام آباد کی جانب احتجاجی لانگ مارچ پر منتج ہوگی۔ اس موقع پر آل پارٹیز کانفرنس سے دورانِ خطاب امیر صوبہ کاشف سعید شیخ نے کہا کہ حکومت کی نااہلی کی وجہ سے سندھ کے بالائی تمام اضلاع بدامنی کی آگ میں بری طرح جل رہے ہیں۔ ظالم اور جابر ڈاکوئوں کی بہیمانہ کارروائیوں کی وجہ سے ہمارے ہاری، کسان، تاجر، بچے، بوڑھے، مرد اور خواتین کوئی بھی محفوظ نہیں رہا ہے۔ شدید بدامنی سے تنگ آکر اقلیتی برادری کے افراد بڑی تعداد میں اپنے اپنے آبائی علاقوں کو چھوڑ کر نقل مکانی پر مجبور ہوچکے ہیں۔ عوامی اور سیاسی سطح پر مسلسل احتجاج کے باوجود حکومت اور حکومتی ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ پولیس، رینجرز اور نفاذِ امن کے ذمہ دار دیگر اداروں پر ہمارا ہر سال اربوں روپے کا جو خرچ ہوتا ہے آخر اس کا فائدہ ہی کیا ہے! عوام غیر محفوظ ہیں، ڈاکوئوں کو کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے، ہر شخص کی جان، مال، عزت اور آبرو ہر وقت دائو پر لگی رہتی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ چوکیدار بھی چوروں کے ساتھ مل گئے ہیں ورنہ ہمارے اتنے پُرزور احتجاج کا کوئی تو اثر ہوتا۔ سندھ کے پانی پر پڑنے والے ڈاکے سے لے کر صوبے میں ڈاکو راج کے قیام تک پی پی پی کی بدعنوان اور نااہل حکومت ہر مکروہ عمل میں پورے طور سے برابر کی شریک اور ساجھے دار ہے۔
ملّی یکجہتی کونسل سندھ کے صدر اور جماعت اسلامی کے سینئر رہنما، سابق ایم این اے مولانا اسد اللہ بھٹو نے اپنے خطاب میں کہا کہ صدیوں سے پُرامن سرزمین سندھ کو جان بوجھ کر بدامنی کی آگ میں دھکیلا گیا ہے۔ اے پی سی میں ایکشن کمیٹی تشکیل دے کر یہاں کے مقامی منتخب عوامی نمائندوں کے ساتھ ملاقاتیں کرکے اسمبلی میں بحالیِ امن کے لیے ان سے آواز اٹھانے اور اپنا کردارادا کرنے کا مطالبہ کیا جانا چاہیے۔
جماعت اسلامی کے مرکزی قیم ممتاز حسین سہتو نے کہا کہ سندھ میں بدترین بدامنی ہے جو بے حد قابل مذمت ہے۔ کندھ کوٹ شہری اتحاد کے ڈاکٹر قمر چند نے کہا کہ ہم نے بدامنی کے خلاف تین دن تک احتجاج کیا لیکن حکمران گونگے، بہرے اور اندھے بن چکے ہیں۔ 12 لاکھ آبادی کا ضلع کندھ کوٹ کشمور بدامنی کا گڑھ بن گیا ہے۔
اس موقع پر اے پی سی سے سابق ایم این اے میاں عبدالحق عرف مٹھو، ایم ڈبلیو ایم کے رہنما علامہ مقصود احمد ڈومکی، ایس ٹی پی کے رہنما عبدالفتاح سمیجو،پی ٹی آئی کے اقبال بجارانی، جے یو آئی کے محمد صالح اندھڑ، سینئر صحافی نعمت کھوڑو،کیو اے ٹی سندھ کے مرکزی نائب صدر روشن کنرانی، قیم صوبہ سندھ محمد یوسف، جے یو پی کے حافظ محمد گھنور قادرری، درگاہ چیہو شریف کے عبداللہ شاہ، مسکین پور درگاہ کے حضور بخش حضوری، عوامی تحریک کے حاکم جتوئی، مرکزی اہل حدیث کے قاری محمد عثمان، سماجی کارکن محترمہ ناہید، سردار نذیر ببر، انتظار چھلگری، عبدالحئی سومرو، لاڑکانہ بار کے رہنما اسماعیل ابڑو، چیمبر آف کامرس کے رائو چند، آل پاکستان ہندو پنچایت اتحاد کے رہنما دنیش کمار، مسلم لیگ ق کے عبدالقادر چاچڑ اور سکھر پریس کلب کے صدر ظہیر خان لودھی نے بھی خطاب کیا۔ علامہ حزب اللہ جکھرو امیر ضلع سکھر اور صدر جمعیت اتحاد العلماء نے اے پی سی کا اعلامیہ پڑھ کر سنایا۔ نائب امیر صوبہ حافظ نصراللہ عزیز چنا اسٹیج سیکرٹری تھے۔ اس اے پی سی کے انعقاد پر سندھ کے پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا سمیت ہر عوامی حلقے میں جو پزیرائی نصیب ہوئی ہے وہ اس امر کا ثبوت ہے کہ اگر عوامی مسائل کو اجاگر کیا جائے تو اسے بہ نظر تحسین دیکھا جاتا ہے۔