غزہ جنگ بندی معاہدہ؟حماس کی فتح

ایران پاکستان چین و روس کا نیا بلاک؟

سال 2025ء کا آغاز ہی دھماکے دار انداز میں ہوا ہے۔ ایک جانب سال کے پہلے مہینے میں غزہ میں اسرائیل کے ہاتھوں نسل کُشی پر عارضی بند باندھا گیا، تو اس کے اگلے ہی دن 47 ویں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے عہدے کا حلف اٹھاتے ہی دھماکے دار اعلانات کردیے۔ اس پوری صورتِ حال میں محسوس یہ ہوتا ہے کہ سال 2025ء مزید دھماکوں کا سال ثابت ہوگا۔ یہ دھماکے نہ صرف بین الاقوامی سیاست بلکہ مقامی و قومی سیاست میں بھی ہوسکتے ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ میں تاحال غیر یقینی کے بادل منڈلاتے نظر آرہے ہیں، اس کی بنیادی وجہ اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ ہے جو ایک جانب اہلِ غزہ کے لیے 15 ماہ کے طویل عرصے کے بعد سکون کا پیام لایا، تو دوسری جانب اسرائیل میں حماس کے ہاتھوں گرفتار افراد کی رہائی کی سبیل پیدا ہوتے ہی اُن کے اہلِ خانہ کے چہروں پر مسکراہٹیں بھی نظر آئیں۔ یروشلم کا Hostage Square اب خاموش ہے اور اسرائیلی عوام کی نظریں اس جنگ بندی کے پہلے مرحلے کی تکمیل پر ہیں۔ اگر 42 روزہ عارضی جنگ بندی کا یہ مرحلہ کامیابی سے طے ہوجائے تو شاید مستقبل قریب میں اہلِ اسرائیل کو ایسی صورتِ حال کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ لیکن اسرائیلی میڈیا، پارلیمان، اور سیاسی جماعتوں میں اس وقت ماتم کی کیفیت ہے اور پارلیمان میں حکومتی حلیف جماعتوں نے بھی اس ڈیل کو ذلت آمیز و شرمناک قرار دیا ہے۔

اسرائیلی اخبار ’دی یروشلم پوسٹ‘ میں اسرائیلی فوج کے سابق بریگیڈیئر جنرل، دفاعی تجزیہ نگار اور اسرائیل ڈیفنس اینڈ سیکورٹی فورم کے چیئرمین Amir Avivi نے 20 جنوری 2025ء کی اشاعت میں اپنا تجزیہ”Hamas wins ceasefire, Israel must win war” کے عنوان سے تحریر کرتے ہوئے اس بات کا واشگاف اعلان کیا کہ حماس نے یہ جنگ جیت لی ہے۔ انہوں نے ماضی میں اسرائیلی فوجی گیلات شالت کے کیس کا حوالہ دے کر کہا کہ یہ معاہدہ ایسا ہی تباہ کن ہے جیسا 2011ء کا تھا جس میں گیلات شالت کے بدلے میں ایک ہزار فلسطینیوں کو اسرائیل کی قید سے رہائی ملی تھی جس میں حماس کے سابق سربراہ اور طوفان الاقصیٰ کے ماسٹر مائنڈ یحییٰ سنوار بھی شامل تھے۔ بڑے پیمانے پر حماس کے قیدیوں کی رہائی کی بدولت حماس کو قیادت کی نئی کھیپ میسر آئے گی جوکہ اسرائیل کے لیے مزید تباہی کا سامان لائے گی۔

اس پورے تجزیے میں وہ جابجا اس حقیقت کا اعتراف کرتے رہے کہ اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ یہ ڈیل کی جائے، لیکن اس ڈیل کو 42 دن کے اندر ہی ختم ہوجانا چاہیے تاکہ حماس کا مکمل خاتمہ کیا جاسکے۔

Seth J. Frantzman اسرائیلی دانشور، پی ایچ ڈی اور The Middle East centre for reporting and analytsis کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہیں۔ انہوں نے بھی اس ڈیل پر اپنا قلم اٹھایا اور ایک تفصیلی مضمون “How did Hamas survive the Gaza war?” تحریر کرتے ہوئے کھلے دل سے اس بات کا اعتراف کیا کہ اسرائیل اس جنگ میں شکست خوردہ ہے اور حماس کو ختم تو کیا، اس کی صلاحیتوں کو بھی کم نہ کیا جاسکا۔ Sethنے لکھا کہ 7 اکتوبر 2023ء کو حماس کے پاس تقریباً 30 ہزار فوجی موجود تھے، اس کے مقابل 3 لاکھ اسرائیلی فوج۔ پانچ ڈویژن فوجی نفری کو یہ 30 ہزار (جن میں سے بہت سے مار بھی دیے گئے) شکست سے دوچار کرگئے۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ اسرائیل اس پوری فوجی نفری کے ساتھ بھی غزہ شہر اور اس کے اطراف کے علاقوں میں داخل نہ ہوسکا۔ سالِ گزشتہ ماہ مارچ و اپریل کی عارضی جنگ بندی کے دوران حماس نے اپنے آپ کو دوبارہ منظم کیا اور اسرائیل کے لیے مشکلات پیدا کیں۔ اس طویل تجزیے میں موصوف اس بات کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوئے کہ اسرائیل کی شکست کی اصل وجہ سینٹرل غزہ اور غزہ شہر میں حماس کا مکمل کنٹرول تھا جس کو ختم نہ کیا جاسکا۔ اسرائیلی افواج کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے تحریر کیا کہ ان کے نزدیک حماس کے 25 مرکزی قائدین کو ہلاک کیا گیا جبکہ یہ غیر حقیقی ہے، تاہم اگر ان کو ہلاک کردیا گیا تو بھی حماس ان کی جگہ نئے لوگوں کو لانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

Hamas controls the two million people of Gaza. It recruits from a pool of around 300,000

young men. All Hamas has to do is recruit a small per cent of these men and it can continue

to replenish its ranks. The population of Gaza is young, more than half under age 18.

Hamas has a ready pool of recruits.

Each generation grows up under Hamas rule. They know nothing else. They don’t recall a

time without wars every year or two. They are used to Israel’s air strikes and walking

amongst the rubble. They don’t see an alternative, and Hamas preys on their misery

’’کیونکہ حماس بیس لاکھ لوگوں پر حکمرانی کرتی ہے جس سے وہ تین لاکھ نوجوانوں کو اپنے دائرے میں لاسکتی ہے۔ اس وقت غزہ کی آبادی کا نصف نوجوان اور 18 سال سے کم عمر ہے، اور جو بھی نسل حماس کے سائے میں جوان ہوگی وہ ان انسانی المیوں سے گزر کر یہ بات جان لے گی کہ حماس کا راستہ ہی واحد حل ہے۔‘‘

یہ محض ایک تجزیہ نہیں بلکہ حقیقت کا اعتراف ہے، جس کا اسرائیل کو نہ صرف اعتراف ہے بلکہ اس کی مکمل جنگی حکمت عملی نسل کُشی پر مبنی ہے۔ اسپتالوں، اسکولوں اور کیمپوں سے لے کر اسرائیل نے ہر اُس جگہ کو نشانہ بنایا جہاں بچوں کی موجودگی یقینی تھی۔ اس پندرہ ماہ کی منظم نسل کُشی میں 46788 افراد کو شہید کیا گیا جن میں 18000 سے زائد بچے شامل ہیں۔ اس کے مقابل یوکرین کی جنگ میں روس کے ہاتھوں 596 بچے ہلاک ہوئے۔ اس پوری صورتِ حال میں یہ بات مکمل طور پر واضح ہے کہ اسرائیل کو اس پندرہ ماہ کی جنگ میں نہ صرف شکستِ فاش ہوئی بلکہ وہ اب عالمی عدالت سے ایک مجرم وزیراعظم کی شناخت کے ساتھ اپنے دامن پر اور بھی کالے داغ لیے بیٹھا ہے۔ اس وقت مغرب میں اسرائیل کی حمایت میں اس کے قیام کے بعد سے ریکارڈ کمی واقع ہوئی ہے اور بہت سے مغربی ممالک نے اسرائیل کا ناطقہ ہی بند کردیا ہے۔ آئرلینڈ کی جانب سے فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنا، برطانوی وزیراعظم سر کیئر اسٹارمر کا غزہ میں انسانی نسل کُشی کا اعتراف، جنوبی افریقہ کی جانب سے عالمی عدالتِ انصاف میں اسرائیل کا مقدمہ لے جانا، بین الاقوامی و مغربی میڈیا میں اس جنگ کی کوریج کے دوران اسرائیلی مظالم کو دکھانا… یہ سب اسرائیل کے لیے اب ایک ڈراؤنا خواب ہے۔ یہ وہ حقیقت ہے کہ جس کا تصور شاید 7 اکتوبر 2023ء سے قبل ممکن نہ تھا۔ پندرہ ماہ کی مسلسل جنگ، اسرائیلی قبضے اور بدترین قتل عام کے باوجود جنگ بندی کے بعد جس شان سے حماس نے غزہ کا دوبارہ کنٹرول حاصل کیا وہ سب کے لیے ششدر کردینے والا تھا۔ کہیں سے ایسا محسوس ہی نہ ہوا کہ کسی برسر پیکار فوج کے تھکے ماندے دستے واپس اپنی جگہوں پر آرہے ہیں۔ ان کی اسرائیلی فوج کے قلب میں موجودگی نے یہ پیغام دیا کہ حماس کو پندرہ ماہ میں بھی کوئی زک نہ پہنچ سکی۔ یہ سب کچھ اسرائیلی حکومت کے لیے ناقابلِ قبول تھا۔ اسی لیے مغویوں کے تبادلے کے لیے اسرائیلی حکومت کی بھرپور کوشش تھی کہ اس کی میڈیا کوریج نہ ہو، تاہم حماس نے اس محاذ پر بھی اپنی کارکردگی دکھائی اور ہنستے مسکراتے مغویوں کی ویڈیوز جاری کرکے ایسا نفسیاتی وار اسرائیل پر کیا جس کی دھمک اسرائیل میں محسوس ہوئی۔ اس پورے تناظر میں ہر گزرتا دن اسرائیل کی شکست کو مزید گہرا کررہا ہے، اور اب میڈیا و اسرائیلی حکومت کے ردعمل کو دیکھتے ہوئے اس بات کا قوی امکان موجود ہے کہ اسرائیل اس پہلے مرحلے 42 روزہ عارضی جنگ بندی میں ہی اس معاہدے کو ختم کردے۔

اس ضمن میں نئی امریکی حکومت جوکہ اس ڈیل کا کریڈٹ لے رہی ہے، آڑے آسکتی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ اس وقت جبکہ وہ دوبارہ برسراقتدار آئے ہیں، فوری طور پر اپنی ناکامی کا کوئی ثبوت پیش نہیں کرنا چاہیں گے، لہٰذا اگر اسرائیل نے اس معاملے میں کوئی گڑبڑ کی تو اسرائیل و امریکہ کے معاملات خراب بھی ہوسکتے ہیں۔ اس وقت ڈونلڈ ٹرمپ کے تمام تر اعلانات امریکہ اور امریکی عوام کے گرد ہی گھوم رہے ہیں، وہ جنگوں کے خاتمے کی بات کرتے نظر آتے ہیں جس میں وہ بظاہر اپنے پچھلے دورِ حکومت میں کسی حد تک کامیاب رہے، لیکن ان کا ایک بیان خاصی اہمیت رکھتا ہے جس میں وہ تیسری عالمی جنگ کو شروع ہونے سے قبل ہی ختم کرنے کی بات کررہے ہیں۔ اس حوالے سے روس یوکرین کی جنگ سے لے کر دیگر امکانات پر بھی غور کیا جاسکتا ہے، لیکن مشرق وسطیٰ کی موجودہ صورتِ حال کو مدنظر رکھتے ہوئے ایران اور اس کے حوالے سے ایٹمی پابندیوں کو بھی زیر غور لانا ضروری ہے۔ عالمی اٹامک انرجی ایجنسی نے ایران پر یورینیم افزودگی کے حوالے سے 2015ء میں دس سال کے لیے پابندیاں عائد کی تھیں، اس معاہدے کو The Joint comprehensive plan of action JCPOA))کا نام دیا گیا جس میں ایران کے علاوہ اقوام متحدہ کے مستقل رکن ممالک برطانیہ، چین، روس، جرمنی اور فرانس نے دستخط کیے۔ اس معاہدے پر امریکہ، اسرائیل اور سعودی عرب نے شدید تنقید کی اور بالآخر امریکہ 2018ء میں اس معاہدے سے باہر آگیا۔ اُس وقت ڈونلڈ ٹرمپ ہی امریکی صدر تھے۔ بعد ازاں امریکہ نے ڈرون حملہ کرکے ایرانی افواج کے سرکردہ کمانڈر قاسم سلیمانی کو بغداد میں 3 جنوری 2020ء کو قتل کردیا۔ اس معاہدے کے تحت ایران کو یورینیم افزودگی کو ایک حد سے زیادہ لے کر نہیں جانا ہے، اس کے عوض ایران کو تجارتی پابندیوں سے عارضی طور پر کچھ سہولت فراہم کی جائے گی۔ اس طویل معاہدے کے حوالے سے ایران کسی حد تک بیرونی دنیا سے اپنے روابط قائم رکھنے میں کامیاب رہا ہے۔ اسرائیل اور امریکہ سمیت سعودی عرب اس معاہدے کا شدید مخالف رہا۔ سال 2025ء اس معاہدے کے اختتام کا سال ہے، اس طرح ایران کو ان جکڑبندیوں سے آزادی ملنے کی توقع ہے، جبکہ اس کے برعکس اب اس بات کی بھی توقع ہے کہ ایران یورینیم افزودگی کی وہ شرح حاصل کرچکا ہے جو ایٹمی دھماکے کے لیے درکار ہے۔ اس کا ایک مشاہدہ ایران کے اسرائیل پر حالیہ میزائل حملوں سے بھی ہوا ہے کہ جہاں اسرائیل کی حدود میں گرنے والے میزائل محض ایک جواب نہیں تھے بلکہ اس بات کا عندیہ بھی تھے کہ ایران ان ہی میزائلوں کی بدولت ایٹمی حملہ کرسکتا ہے۔

اعلیٰ ترین سفارتی تجزیہ نگار اور عالمی سیاست پر نظر رکھنے والے اسرائیل و ایران کی ان جھڑپوں میں ایران کی جانب سے ایک قدم پیچھے ہٹنے کو بھی اس وجہ سے جوڑ رہے ہیں کہ ایران کو اس معاہدے کے اختتام کا انتظار ہے جس کے بعد شاید ایران ایٹمی تجربہ کرسکے۔ روس اور چین کے بعد اب پاکستان بھی ایران کے نزدیک ہورہا ہے، اس کی بنیادی وجہ ایک جانب خطے کی صورتِ حال ہے تو دوسری جانب پاکستان بھارت کی جانب سے متوقع جارحیت سے اپنی ایک سرحد کو محفوظ بنانا چاہتا ہے۔ پاکستان کی بھارت سے بظاہر براہِ راست کشیدگی نہیں لیکن بنگلہ دیش کی حکومت کی تبدیلی اور بنگلہ دیش کے پاکستان سے مراسم کو بھارت ایک خطرہ تصور کررہا ہے۔ گزشتہ دنوں پاکستان کی خطے میں اہمیت ایک طویل عرصے کے بعد دوچند ہوئی ہے، ایک جانب بنگلہ دیش عسکری تعاون کے لیے پاکستان کی جانب ہاتھ بڑھا رہا ہے تو دوسری جانب 20 جنوری 2025ء کو عین اُس دن جب ڈونلڈ ٹرمپ حلف اٹھا رہے تھے ایرانی افواج کے چیف آف جنرل اسٹاف میجر جنرل محمد بغیری نے پاکستان کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عاصم منیر سے جی ایچ کیو میں ملاقات کی۔ پاکستان اور ایران کے درمیان فوجی سطح کی یہ ایک اہم ملاقات تصور کی جارہی ہے، خاص طور پر مشرق وسطیٰ کے حوالے سے اسرائیل اگر کسی کو خطرہ تصور کرتا ہے تو وہ ایران و پاکستان ہی ہیں۔ ایران کے ایٹمی معاہدے کی اس سال تکمیل، مشرق وسطیٰ کی عارضی جنگ بندی، ڈونلڈ ٹرمپ کے بطور امریکی صدر اور ایران کے حوالے سے ان کی سابقہ پالیسی کو دیکھتے ہوئے یہ بات کی جاسکتی ہے کہ شاید یہ سال خطے میں دھماکے دار سال ثابت ہو، جس کی بدولت اس خطے میں طاقت کے بدلتے توازن کے ساتھ شاید بین الاقوامی سیاست میں بھی اس کے اثرات محسوس ہوں۔ پاکستان اس پورے منظر نامے میں ایک بار پھر اہمیت کا حامل بن سکتا ہے، تاہم یہ اس پر منحصر ہے کہ صاحبانِ اقتدار اس کو اپنے حق میں کیسے استعمال کرتے ہیں۔ یہی شاید پاکستان کے آئندہ پانچ سالوں کا فیصلہ کردے۔