وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کی بھانجی لیبر پارٹی کی رکن پارلیمان اور وزیر ٹیولپ صدیق پر بنگلہ دیش کی حکومت نے باضابطہ طور پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ اپنی خالہ یعنی شیخ حسینہ واجد کے ساتھ منی لانڈرنگ میں ملوث ہیں
وطنِ عزیز پاکستان میں عمران خان اور بشریٰ بی بی کے خلاف منی لانڈرنگ، توشہ خانہ اور القادر ٹرسٹ کیس کے فیصلوں کے چرچے ہیں۔ اس سے ملتے جلتے ایک کیس کی بازگشت اب برطانیہ میں بھی سنائی دے رہی ہے لیکن اس کا تعلق پاکستان سے نہیں بلکہ بنگلہ دیش سے ہے۔ بنگلہ دیش کی سابق وزیراعظم شیخ حسینہ واجد جو اِن دنوں بھارت میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہی ہیں، کی بھانجی یعنی ان کی سگی بہن کی بیٹی اور لیبر پارٹی کی رکن پارلیمان اور وزیر ٹیولپ صدیق پر بنگلہ دیش کی حکومت نے باضابطہ طور پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ اپنی خالہ یعنی شیخ حسینہ واجد کے ساتھ منی لانڈرنگ میں ملوث ہیں، یہ رقم مختلف طریقوں سے برطانیہ میں لائی گئی اور ٹیولپ صدیق سمیت اُن کا خاندان اس دولت سے مستفید ہوتا رہا اور تاحال ہورہا ہے۔ بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے سربراہ اور نوبیل انعام یافتہ معیشت دان محمد یونس نے برطانوی میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ شیخ حسینہ واجد بنگلہ دیش کے عوام کی تقریباً 3.9 ارب پاؤنڈز رقم کی کرپشن میں ملوث ہیں اور یہ رقم بیرون ملک منتقل کی گئی ہے۔ اس ضمن میں اب برطانوی میڈیا میں باقاعدہ طور پر اس خبر کو اہمیت دی جارہی ہے کہ کیسے یہ رقم برطانیہ آئی اور کس طریقے سے یہ رقم خالہ و بھانجی نے برطانیہ میں قانونی بنوائی۔ اب تک کی تحقیقات کے مطابق برطانوی وزیر برائے اینٹی کرپشن ٹیولپ صدیق اور اُن کا خاندان بشمول والدہ اور بہن لندن کے مہنگے ترین علاقوں کی 6 پراپرٹیز میں رہائش پزیر ہیں جن کے بارے میں ذرائع کا دعویٰ یہ ہے کہ یہ ان کی ذاتی ملکیت ہیں، تاہم ان میں سے بعض مختلف افراد کے ناموں پر خریدی گئی ہیں۔
برطانوی سات لاکھ پاؤنڈ کی مالیت کا فلیٹ جوکہ لندن کے پوش علاقے کنگز کراس میں واقع ہے، ٹیولپ صدیق کو 2004ء میں بطور گفٹ بنگلہ دیشی بلڈر عبدل مطائف نے دیا، عبدل مطائف کا تعلق واضح طور پر شیخ حسینہ واجد کے ساتھ ہے۔ اس فلیٹ کو انتہائی کم کرائے پر ٹیولپ نے دے دیا اور بطور رکن پارلیمان اس کا کرایہ سالانہ محض 10 ہزار پاؤنڈ درج کیا گیا۔
865000 پاؤنڈ مالیت کا دوسرا فلیٹ لندن کے علاقے گولڈرز گرین میں ہے، اسی علاقے میں 13 لاکھ پاؤنڈ مالیت کا ایک گھر جس میں ٹیولپ صدیق کی والدہ اور شیخ حسینہ واجد کی بہن شیخ ریحانہ کرائے پر رہ رہی ہیں اس کی ملکیت شیخ حسینہ کی حکومت کے وزیر سلمان ایف رحمان کے نام پر ہے۔ امکان یہی ظاہر کیا جارہا ہے کہ یہ پراپرٹی بھی اس خاندان کی ملکیت میں ہے جبکہ حکومت کے ریکارڈ کے لیے کسی اور کے نام پر خریداری ظاہر کی گئی۔ لندن کے علاقے ایسٹ فنچلی میں 22 لاکھ پاؤنڈز مالیت کا مکان جس میں ٹیولپ صدیق خود رہائش پزیر ہیں، عوامی لیگ برطانیہ کے سرکردہ رہنما عبدالکریم کی ملکیت ہے اور اس مہنگے مکان کے کرائے کے بارے میں ٹیولپ صدیق نے کچھ بتانے سے گریز کیا۔ لندن کے علاقے Hampstead میں ساڑھے 6 لاکھ مالیت کا فلیٹ جوکہ ٹیولپ صدیق اور ان کے شوہر Christian Percy کی ملکیت میں ہے، اس کو ان کی بہن عزمانی نے بطور تحفہ دیا تھا، جبکہ یہ مکان عزمانی کو بھی بطور تحفہ معین غنی سے ملا تھا جوکہ بنگلہ دیش میں وکیل رہے اور شیخ حسینہ کے قریب تھے۔
لندن فنچلی کے علاقے میں ہی ایک اور فلیٹ جس کی مالیت ساڑھے 3 لاکھ پاؤنڈز ہے، بنگلہ دیش کے صنعت کار اور عوامی لیگ کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن قاضی ظفر اللہ کی ملکیت ہے، اس فلیٹ میں ووٹرز رجسٹر کے مطابق شیخ حسینہ واجد کی بہن شیخ ریحانہ اور ان کی بیٹی عزمانی 2009ء سے 2013ء تک رہائش پزیر رہیں۔
ان تمام 6پراپرٹیز کے متعلق اس وقت برطانیہ میں تحقیقات جاری ہیں کہ ان کو خریدنے کے لیے رقم کس طرح برطانیہ لائی گئی اور ان تمام پراپرٹیز کا براہِ راست یا بالواسطہ ٹیولپ صدیق سے کیا تعلق ہے؟ واضح رہے اس سے قبل بھی ٹیولپ صدیق کے خلاف پارلیمانی اسٹینڈرڈ کمیٹی نے تحقیقات کی تھیں جس میں یہ بات ثابت ہوئی تھی کہ وہ اپنی پراپرٹیز کے کرائے کی مد میں آمدن کو 14 ماہ سے ظاہر کرنے میں ناکام رہی ہیں، جس پر انہوں نے معذرت کی تھی۔ یہ بات بھی ریکارڈ پر موجود ہے کہ ٹیولپ صدیق اور ان کے شوہر نے 865000 مالیت کی پراپرٹی کو بینک قرض سے خریدا اور اس بڑی رقم کو محض پانچ سال کے عرصے میں ادا بھی کردیا۔ ان چھ پراپرٹیز کے حوالے سے اس وقت یہ بات حتمی طور پر کہنا ممکن نہیں کہ کیا یہ واقعی اس خاندان کی ملکیت ہیں، تاہم تمام شواہد اس جانب ہی اشارہ کررہے ہیں کہ کسی ڈیل کے نتیجے میں یہ رقوم بیرونِ ملک ادا کی جاتی رہی ہیں۔ اس سلسلے میں برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی نے سال 2019ء میں پاکستانی پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض کے 50 ملین مالیت کے ایک بڑے گھر سمیت 190 ملین پاؤنڈز کے اثاثے و رقم منجمد کرکے پاکستان کو واپس کی تھی جس کو عمران خان کی حکومت نے بددیانتی کرتے ہوئے ملک ریاض کو واپس کردیا تھا۔ اس حوالے سے القادر ٹرسٹ کیس پاکستان میں تاحال زیر سماعت ہے۔
بنگلہ دیش اور پاکستان کے سیاست دانوں کے اثاثے برطانیہ میں موجود ہونا کوئی انوکھی بات نہیں رہی۔ اس سے قبل محترمہ بے نظیر بھٹو کے خلاف سرے محل اسکینڈل،پرویز مشرف کے خلاف لندن پراپرٹیز و اکاؤنٹس کی موجودگی اور شریف برادران کے خلاف آیون فیلڈ اپارٹمنٹس جیسے اسکینڈلز چلے ہیں، تاہم ایک اہم ترین بات اس پورے تناظر میں یہ ہے کہ جہاں کہیں بھی بنگلہ دیش، شیخ حسینہ واجد کی حکومت کے مظالم و کرپشن کا تذکرہ آتا ہے وہاں میڈیا اس ضمن میں پوری تفصیلات کے ساتھ حقائق بیان کرکے اس کو ان پراپرٹی اسکینڈل سے جوڑ رہا ہے جو کہ تاحال ثابت شدہ نہیں۔ بنگلہ دیش کی حکومت کے دعوے پر برطانیہ کی حکومت اپنی تحقیقات کے بعد ہی کوئی پوزیشن لے سکتی ہے، تاہم جب پاکستان کے کرپشن کیسز، اور وہ کیسز جو کہ خود برطانیہ میں تحقیق کے بعد نہ صرف ثابت شدہ ہیں بلکہ ان رقوم کو برطانیہ نے پاکستان کو واپس بھی کیا ہے، کا تذکرہ آتا ہے تو ا ن میں عمران خان کا نام کہیں موجود نہیں ہوتا۔ اس ضمن میں اگر میڈیا کا جائزہ لیا جائے تو کنزرویٹو پارٹی کا حامی میڈیا اور اسرائیل کا حامی میڈیا اس میں یکساں پوزیشن لیتے نظر آتے ہیں۔ ایک جانب وہ بنگلہ دیش کے پراپرٹی اسکینڈل کو لیبر پارٹی سے جوڑنے کے ساتھ اس پر حملہ آور ہیں تو دوسری جانب وہ ایلون مسک کے ساتھ مل کر بھی مسلمانوں پر مسلسل خبروں کو غلط تناظر میں بیان کرکے حملہ آور ہیں۔ اس وقت پاکستان میں بھی ایک ایسا ہی کیس زیر سماعت ہے کہ جس کی بنیاد خود برطانوی حکومت نے فراہم کی تھی، لیکن حیرت انگیز طور پر اس کیس کو میڈیا میں کوریج یا تو دی نہیں جارہی، یا پھر اس کو غلط کیس کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔
بظاہر محسوس تو یہ ہورہا ہے کہ اس اسکینڈل کی وجہ سے ٹیولپ صدیق کو وزارت سے ہاتھ دھونا پڑیں گے اور لیبر پارٹی کو ایک اور دھچکہ پہنچے گا، تاہم یہ بات واضح ہے کہ 190 ملین پاؤنڈز کے مقابلے میں یہ اسکینڈل بہت چھوٹا ہے اور شاید ان پراپرٹیز کا براہِ راست تعلق ٹیولپ صدیق سے ثابت کرنا ممکن نہ ہو۔
اگر اس کیس کو برطانیہ میں جاری کرپشن و منی لانڈرنگ کے دیگر کیسز سے جوڑا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اس سے بڑے کرپشن و منی لانڈرنگ کے کیس تاحال برطانیہ میں شاملِ تحقیق ہیں یا ان پر تحقیقات مکمل ہوچکی ہیں، لیکن ان پر وہ میڈیائی شور سنائی نہیں دیتا جو اِس کیس پر ہے۔ بنگلہ دیش کے عوام کی لوٹی ہوئی رقوم کی واپسی ضرور ہونی چاہیے چاہے وہ برطانیہ میں ہوں یا بھارت میں.. اس ضمن میں بنگلہ دیش کی حکومت کے دعوے کو مکمل طور پر برطانوی میڈیا پیش نہیں کررہا جس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ شیخ حسینہ واجد اپنے ساتھ ایک بڑی رقم بھارت لے کر گئی ہیں۔
شاید کہ جلد ہی عمران خان کے القادر ٹرسٹ کیس کا فیصلہ بھی جاری کردیا جائے۔ اس پر برطانوی میڈیا کا کیا ردعمل ہوگا؟ کیا وہ اپنی حکومت کی جانب سے پیش کردہ شواہد کو اس کیس کے ساتھ منسلک کرے گا؟ اس سوال کا جواب میڈیا میں جاری تقسیم کو مزید واضح کردے گا۔