آرمی چیف کی سیاسی جماعتوں کے کارکنوں سے ملاقات
چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عاصم منیر نے خیبر پختون خوا میں امن و امان کے قیام کے حوالے سے پشاور میں سیاسی جماعتوں کے قائدین سے ملاقات میں کہا ہے کہ دشمن خوف پھیلانے کی کوشش کرے گا مگر ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے اور ملک میں امن خراب کرنے کی ہر کوشش کا فیصلہ کن اور بھرپور جواب دیا جائے گا۔ آئی ایس پی آرکی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اس موقع پر کور کمانڈر پشاور نے آرمی چیف کو ملک کی موجودہ سیکیورٹی صورتِ حال اور دہشت گردوں کے خلاف جاری انسدادِ دہشت گردی آپریشنز پر تفصیلی بریفنگ دی۔ بریفنگ میں وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی، گورنر خیبر پختون خوا فیصل کریم کنڈی اور وزیراعلیٰ خیبر پختون خوا علی امین گنڈاپور بھی موجود تھے۔ آرمی چیف نے پاک فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی قربانیوں اور عزم کو سراہتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہمارے سیکیورٹی اداروں کی مثالی کامیابیاں قوم کے لیے باعثِ فخر ہیں، ہماری فورسز نے بے مثال جرأت، پیشہ ورانہ مہارت اور قربانیوں کے ذریعے اہم دہشت گرد رہنماؤں کے خاتمے اور اُن کے نیٹ ورک اور انفرااسٹرکچر کو تباہ کرکے یہ پیغام دیا ہے کہ دہشت گردی کی ہمارے ملک میں کوئی جگہ نہیں۔ یہ جنگ جاری رہے گی اور ہم اسے منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔ جنرل عاصم منیر نے واضح پیغام دیا کہ ملک کے امن کو خراب کرنے کی ہر کوشش کا فیصلہ کن اور بھرپور جواب دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ دشمن خوف اور انتشار پھیلانے کی کوشش کرسکتا ہے لیکن ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ دشمن عناصر سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا اور وہ مزید بھاری نقصان اٹھائیں گے۔ بعد ازاں آرمی چیف نے خیبر پختون خوا کی مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے سیاست دانوں سے الگ ملاقات کی۔ شرکاء نے دہشت گردی کے خلاف ایک متفقہ سیاسی آواز اور عوامی حمایت کی ضرورت پر زور دیا۔
دوسری جانب کرم سے موصولہ اطلاعات کے مطابق خیبر پختون خوا حکومت نے کرم میں دونوں فریقوں کی جانب سے قائم کردہ بنکرز مسمار کرنے شروع کردیے ہیں۔ ضلعی انتظامیہ کی جانب سے لوئرکرم کے دو گاؤں میں بنکرز مسمارکرنے کا کام ہورہا ہے۔ دو مورچوں کو بموں سے اڑا دیا گیا ہے، مورچوں کی مسماری کے موقع پر آرمی، پولیس اور ایف سی کی بھاری نفری تعینات تھی۔ ڈپٹی کمشنر کرم اشفاق خان کے مطابق مورچوں کی مسماری کا عمل شروع ہوگیا ہے، دن بھر میں مختلف کارروائیوں کے دوران 4 بنکرزکو مسمار کیا گیا ہے، بنکرز ہٹانے کے لیے جرگہ مشران سمیت مقامی عمائدین سے بات چیت مکمل ہوئی۔ ضلعی انتظامیہ کے مطابق مورچوں کی مسماری کے موقع پر سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔ یاد رہے کہ مورچوں اور بنکرز کی مسماری کرم میں امن و امان کی بحالی کے سلسلے میں کوہاٹ امن معاہدے پر عمل درآمد کی کڑی ہے۔ مورچوں کی مسماری کے لیے پولیس، آرمی اور ایف سی کے جوانوں کی بڑی نفری خارکلی بالش خیل میں موجود ہے۔ سیکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ مزید بنکرز کو بھی مسمار کیا جائے گا۔ مشیر اطلاعات خیبر پختون خوا بیرسٹر محمد علی سیف نے اس حوالے سے کہا ہے کہ وزیراعلیٰ کی ہدایت پر امن معاہدے کے بعد ضلع کرم میں بنکرز کی مسماری کا باقاعدہ آغاز ہوچکا ہے۔ گرینڈ امن جرگہ اور مقامی امن کمیٹیوں کی نگرانی میں سیکیورٹی فورسز نے بنکرز کو مسمار کیا ہے، اس سلسلے میں کمشنر کوہاٹ معتصم بااللہ نے بنکرز کی مسماری کے لیے مقامی آبادی کو اعتماد میں لیا تھا، اپیکس کمیٹی اور امن معاہدے کی روشنی میں تمام بنکرز مسمار کیے جائیں گے۔ بیرسٹر سیف نے کہا کہ علاقے میں امن کی بحالی کے لیے بنکرز کا خاتمہ ناگزیر ہے۔
واضح رہے کہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے ایک ایسے وقت میں پشاور کا دورہ کرکے صوبے کی اہم سیاسی جماعتوں کے راہنمائوں سے ملاقات کی ہے جب ایک جانب صوبے میں بدامنی اپنے عروج پر ہے جس میں روزانہ کی بنیاد پر سیکیورٹی فورسز اور پولیس سمیت عام لوگوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے، جبکہ دوسری جانب صوبے میں اثررسوخ رکھنے والی تمام قابلِ ذکر جماعتوں بشمول مرکز اور صوبے میں برسر اقتدار مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کی جانب سے جاری بدامنی اور خونریزی کا ذمہ دار سیکیورٹی اداروں اور ماضی کی پالیسیوں کو قرار دیا جارہا ہے اور دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ میں پاکستان کے سیکیورٹی اداروں کے کردار کو بھی ہدفِ تنقید بنایا جارہا ہے، اسی طرح تیسری جانب آرمی چیف کی مختلف سیاسی جماعتوں کے قائدین سے یہ ملاقات ایسے وقت میں ہوئی جب افغان طالبان کے پاکستان کے متعلق تیور مسلسل بدلتے جارہے ہیں اور اس حوالے سے بات جہاں پاکستان کی جانب سے افغان سرزمین پر بمباری تک جا پہنچی ہے وہاں افغان طالبان نے پہلی دفعہ کھل کر یہ کہہ کر پاکستان کی مشکلات میں اضافہ کردیا ہے کہ ٹی ٹی پی ان کی مہمان ہے اور افغان حکومت کا پاکستان کے مطالبے پر اس کے خلاف کوئی کارروائی کرنا ناممکن ہے۔ اس حوالے سے ایک اور اہم پیش رفت طالبان حکومت کا پاکستان کو ریڈ کارڈ دکھاتے ہوئے غیر متوقع طور پر بھارت کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھانا ہے۔
واضح رہے کہ طالبان بھارت سردمہری کی برف اُس وقت پگھلنا شروع ہوئی جب بھارتی سیکریٹری خارجہ نے گزشتہ دنوں پہلے کابل کا دورہ کرکے افغان حکومت سے تعلقات استوارکرنے کی خواہش کا اظہار کیا، اور بعد ازاں اس ملاقات کے فالواپ میں افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی کے ساتھ دوحا قطر میں باقاعدہ ملاقات اور مذاکرات کیے گئے۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ شاید افغانستان اور بھارت کے بڑھتے ہوئے ان تعلقات ہی نے آرمی چیف کو خیبر پختون خوا میں افغانستان سے ہونے والی دراندازی کے خلاف جاری آپریشن، اور اس آپریشن میں ممکنہ تیزی پر صوبے کی سیاسی قیادت کے متوقع ردعمل کے تناظر میں یہاں کی سیاسی قیادت کو اعتماد میں لینا ضروری سمجھا ہے جس کا ثبوت آرمی چیف کی جانب سے صوبے میں جاری بدامنی میں دشمن ملک کے ملوث ہونے اور اس حوالے سے خدشات کا اظہارکرنا ہے۔ واضح رہے کہآئی ایس پی آر کی جانب سے جاری کردہ پریس ریلیز میں اُن جماعتوں اور ان کے سربراہان کے نام نہیں بتائے گئے جو اس ملاقات میں آرمی چیف کے ساتھ موجود تھے، البتہ آئی ایس پی آر کی ویب سائٹ پر جو تصاویرشیئرکی گئی ہیں ان میں اے این پی کے مرکزی صدر ایمل ولی خان، سابق وزراء اعلیٰ امیر حیدر خان ہوتی، پرویز خٹک اور محمود خان، قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب احمد خان شیرپائو، صوبائی صدر سکندر حیات شیرپائو، مسلم لیگ(ن) کے صوبائی صدر امیرمقام، جماعت اسلامی پاکستان کے مرکزی امیر حافظ نعیم الرحمٰن، نائب امیر پروفیسر ابراہیم خان اور جمعیت العلماء اسلام کے صوبائی امیر مولانا عطاالرحمٰن شامل ہیں۔ اس ملاقات کی دیگر تفصیلات تو سامنے نہیں آئیں اور نہ ہی اس میں شریک راہنمائوں کی طرف سے ان کے پارٹی مؤقف سامنے آئے ہیں کہ آیا انھوں نے صوبے میں امن و امان کی مخدوش ترین صورتِ حال پرآرمی چیف کے سامنے اپنا کیا مؤقف رکھا، اور صوبے میں بڑھتی ہوئی بدامنی سے نجات، نیز ٹی ٹی پی سے نمٹنے میں افغان حکومت کی بے اعتنائی اور اس کے نتیجے میں دگرگوں ہوتے ہوئے پاک افغان تعلقات، مزید یہ کہ وہاں بھارت کے بڑھتے ہوئے اثررسوخ اور اس کے پاکستان اور بالخصوص خیبر پختون خوا پر پڑنے والے اثرات کا مداوا کیسے ممکن ہے یا اس کے لیے کیا اقدامات کیے جا سکیں گے، نیز اس حوالے سے صوبے کی بااثرسیاسی جماعتوں کا کردار کیا ہوگا، اس حوالے سے کوئی بات واضح نہیں ہے جس کا صوبے کے عوام کوشدت سے انتظار ہے۔