پاکستانی سیاست کا کھیل تماشا طاقت کے مراکز کیا چاہتے ہیں؟

لوگ سیاست اور جمہوریت سے بیزاری کا اظہار کررہے ہیں اور معاملات سے لاتعلق ہوتے جارہے ہیں۔

پاکستانی سیاست کی کہانی بڑی عجیب ہے۔ بظاہر پردے کے سامنے ایک کھیل ہے، اور پردے کے پیچھے دوسرا کھیل جاری ہے۔ لوگ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اصل کھیل کیا ہے۔ طاقت کے مرکز میں جاری اقتدار کی لڑائی نے عوام کو سیاسی طور پر بالکل تنہا کردیا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے اس لڑائی کا تعلق براہِ راست عوام سے نہیں بلکہ طاقتور طبقات کی ذاتی جنگ سے جڑا ہوا ہے۔ اس طرز کی سیاست کو عمومی طور پر عوامی سیاست سے دور رکھ کر دیکھا جاتا ہے۔ ایسی سیاست عوام کو سوائے استحصال کے کچھ نہیں دیتی۔ لوگ خود کو تنہا محسوس کرتے ہیں اور ان کے مسائل میں مسلسل اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ جبکہ اس کے برعکس طاقتور طبقات اپنی ذاتی مفادات کی جنگ میں اس حد تک آگے چلے جاتے ہیں کہ ان کے سامنے ریاستی مفاد غیر اہم ہوجاتا ہے۔ اس وقت بھی اسلام آباد میں جاری سیاسی لڑائی میں آپ کو اقتدار کی لڑائی کا اصل منظرنامہ نظر آئے گا جہاں اسٹیبلشمنٹ، حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کے مدمقابل کھڑے ہیں، اور سب کی طاقت کا مرکز محض اقتدار اور طاقت کی سیاست ہے۔ ایسے میں عوام کس طرف جائیں، کس کی طرف دیکھیں اور کہاں اپنا سہارا تلاش کرنے کی کوشش کریں؟ اسلام آباد میں آنکھ مچولی کا کھیل حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ڈائیلاگ کی صورت میں جاری ہے، جبکہ ڈائیلاگ کا اصل ریموٹ کنٹرول اسٹیبلشمنٹ کے اپنے ہاتھ میں ہے، وہ جیسے چاہتی ہے اور جس حکمت سے چاہتی ہے ڈائیلاگ کو چلا رہی ہے۔ حکومت کا کام اس پورے کھیل میں سہولت کار کا ہے، لیکن حکومت مجبور ہے اور وہ ڈائیلاگ کی یہ کڑوی گولی جبراً کھا رہی ہے۔ کیونکہ مفاہمت اگر ہوتی ہے تو اس کا ایک بڑا نقصان خود موجودہ حکومت کو ہوگا جو اسٹیبلشمنٹ کے سہارے کھڑی ہے۔ اس لیے حکومت مفاہمت کے نام پر تاخیری حربے اختیار کرنا چاہتی ہے یا پی ٹی آئی پر دباؤ ڈال کر اپنی مرضی کا ایجنڈا اس پر مسلط کرنا چاہتی ہے۔ جبکہ اس کے برعکس اسٹیبلشمنٹ چاہتی ہے کہ عمران خان کو اگر ریلیف دینا بھی ہے تو اس کے لیے شرائط وہ خود طے کرے گی، عمران خان طے نہیں کریں گے۔عمران خان نے اپنی مزاحمت سے خود کو ایک مضبوط کردار کے طور پر پیش کیا ہے، اس لیے وہ آسانی سے سیاسی سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار نظر نہیں آتے۔اس پورے کھیل میں عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ ہی اہم ہیں،باقی سب لوگ ایک فرضی کردار ہیں۔سوال یہ بھی ہے کہ طاقت کے مراکز کیا چاہتے ہیں؟ کیا وہ عمران خان کو سیاسی ریلیف دینا چاہتے ہیں؟ یا عمران خان کو دیوار سے لگانے کا منصوبہ ابھی بھی ان کا ایجنڈا ہے؟کیونکہ ایسا لگتا ہے کہ عمران خان کو ریلیف تو دیا جا سکتا ہے لیکن انہیں مکمل طور پر سیاسی آزادی دینے کا منصوبہ زیر غور نہیں ہے۔ان کو پشاور جیل یا بنی گالہ منتقل کرنے کا منصوبہ بھی زیر بحث ہے۔لیکن عمران خان اس کے لیے تیار نہیں ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس سے ان کی سمجھوتے کی سیاست کا تاثر ابھرے گا اور ان کی عوامی حیثیت متاثر ہوگی۔

عمران خان یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اگر انہیں اسی طرح کا کمزور سمجھوتہ کرنا تھا تو پھر یہ ساری مزاحمت کیوں کی!ماضی کے مقابلے میں اِس دفعہ مفاہمت کی سیاست زیادہ پیچیدہ اور مشکل ہے کیونکہ ماضی میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) کے کئی ایسے سیاسی سمجھوتے تھے جو اُن کے لیے رکاوٹ بنا کرتے تھے، جبکہ عمران خان اس وقت سمجھوتوں کی سیاست سے خود کو آزاد رکھنے کی زیادہ بہتر پوزیشن میں ۔لیکن عمران خان کا المیہ یہ ہے کہ ان کی اپنی جماعت میں ایسے لوگ بڑی تعداد میں موجود ہیں جو اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کے ساتھ مفاہمت کی بنیاد پر آگے بڑھنا چاہتے ہیں،لیکن اس کے باوجود ان کی بھی جادوگری کام نہیں کر رہی اور حکومت اور اسٹیبلشمنٹ عمران خان کی رہائی میں زیادہ سنجیدہ نظر نہیں آتے۔یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی میں اسٹیبلشمنٹ کے حامی لوگوں کو بھی خاصی تنقید کا سامنا ہے، اور پی ٹی آئی کے لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ بھی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر کوئی ایسا کام نہیں کر سکے جس سے عمران خان کو کوئی بڑا ریلیف مل سکے۔بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان موجودہ حکومتی بندوبست کو دو سے تین برس کے لیے قبول کرنے کو تیار ہیں اور کیا شہبازشریف کی حکومت کو وہ تسلیم کرلیں گے؟کیا وہ نئے انتخابات کے مطالبے، یا انتخابات کی شفافیت اور تحقیقات کے مطالبے سے بھی دست بردار ہوجائیں گے؟ 9 مئی کے معاملے میں بھی عمران خان یکسو ہیں کہ جب تک عدالتی تحقیقات نہیں ہوں گی وہ ان الزامات کو قبول نہیں کریں گے۔ لیکن حکومت ہو یا اسٹیبلشمنٹ.. وہ عمران خان کے مطالبات پر زیادہ سنجیدہ نظر نہیں آتے اور نہ ہی 9 مئی کے حوالے سے عدالتی کمیشن بنانے کے لیے تیار ہیں۔ اسی وجہ سے ہمیں قومی سیاست میں ایک بڑا تعطل یا ڈیڈلاک نظر آرہا ہے، جس کے ٹوٹنے کے امکانات بہت محدود ہیں۔ جب بھی مفاہمت کا ایجنڈا کسی سیاسی ڈکٹیشن کی بنیاد پہ چلے گا اُس کی کامیابی کے امکانات خودبخود محدود ہوجائیں گے، اور جو طاقتور طبقات ہیں ان کی بالادستی غالب آجائے گی۔ اسی طرح ایسا بھی لگتا ہے کہ جیسے مفاہمت کے لیے دباؤ بیرونی ممالک کی طرف سے بھی آرہا ہے۔ ایسا لگتا ہے یورپین یونین اور امریکہ میں بھی عمران خان کی رہائی کے حوالے سے کافی جوش پایا جاتا ہے۔ اس کی ایک اور بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کا داخلی، علاقائی اور خارجی بحران مسلسل خرابی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ہم سیاست، معیشت اور سیکیورٹی کے سنگین مسائل سے دوچار ہیں۔داخلی سیاست کے ٹکراؤ نے ہمارے راستے محدود کر دیے ہیں،لیکن ہماری سیاسی مہم جوئی اور ایڈونچر کی سیاست جاری ہے اور ہم بار بار وہی غلطیاں کررہے ہیں جو ماضی میں ہماری سیاست کا حصہ رہی ہیں۔سیاست میں سیاسی حکمت عملیوں کے بجائے طاقت کے استعمال نے پوری قومی سیاست کو بگاڑ میں ڈال دیا ہے۔اس وقت قومی سیاست سیاسی اور جمہوری طور پر بہت کمزور بنیادوں پر کھڑی ہے اور ایسا لگتا ہے جیسے طاقت کے مراکز نے پوری قومی سیاست کو اپنے ہاتھ میں جکڑ لیا ہے۔سول سوسائٹی ہو، میڈیا ہو یا آزاد عدلیہ.. ان کا تصور دن بدن کمزور ہوتا جا رہا ہے۔عالمی سطح پر بھی ہمارے داخلی معاملات پر سنجیدہ سوالات اٹھائے جا رہے ہیں، اورخاص طور پر انسانی حقوق کی صورتِ حال پر بہت زیادہ تنقید دیکھنے کو مل رہی ہے۔لیکن شاید ہم پر طاقت کا نشہ چڑھا ہوا ہے اور ہم وہی کچھ کرنے کی کوشش کررہے ہیں جو صرف ہمیں سوٹ کرتا ہے اور ہمارے ذاتی مفادات کو تقویت دیتا ہے۔ایسے میں طاقت کے مراکز کی یہ سیاست قومی سیاست میں کیا نتیجہ دے سکے گی اس پر بھی سنجیدہ بحث جاری رہتی ہے۔کیونکہ جب سیاست ذاتیات تک محدود ہو جائے اور اس میں ریاستی مفاد غیر اہم ہو جائے تو پھر ریاست خود کو تنہا محسوس کرتی ہے۔اس سارے کھیل کی ذمہ داری کسی ایک فریق پر عائد نہیں ہوتی بلکہ سب نے اجتماعی طور پر اس خرابی میں اپنا اپنا حصہ ڈالا ہے۔اب جب کہ ہمیں اجتماعی طور پر مسئلے کا حل تلاش کرنا ہے تو ہم انفرادی سطح پر بیٹھ کر اپنی اپنی بولیاں بول رہے ہیں۔ اجتماعی دانش کا فقدان ہے اور سیاسی دشمنیوں کے اس کھیل نے سب کو بے لباس کردیا ہے۔ لوگ سیاست اور جمہوریت سے بیزاری کا اظہار کررہے ہیں اور معاملات سے لاتعلق ہوتے جارہے ہیں۔ خاص طور پر نئی نسل میں بغاوت کے پہلو نمایاں طور پر دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ نئی نسل کے لوگ خود کو غیر محفوظ سمجھ کر ملک سے باہر بھاگنے کی کوشش بھی کررہے ہیں کیونکہ ان کو اب ریاستی اور حکومتی نظام پر اعتماد نہیں ہے۔ دوسری طرف اگر دیکھیں تو ہمارے سیکیورٹی حالات اتنے بگڑ چکے ہیں کہ انتہاپسندی اور دہشت گردی ایک دفعہ پھر قومی سیاست پر غالب نظر آتی ہیں۔ افغانستان کے معاملات ہمارے کنٹرول میں نہیں ہیں، نہ وہاں بھارت سے ہمیں سپورٹ مل رہی ہے اورنہ عالمی برادری ہماری کوئی بہت زیادہ مدد کر رہی ہے۔ہمارا خیال تھا کہ افغانستان میں طالبان حکومت آنے کے بعد پاکستان کے حالات میں بہتری آئے گی۔لیکن یہ بھی ممکن نہیں ہوسکاٍ اور اب افغانستان اور پاکستان کے تعلقات میں بہت زیادہ خرابیاں نمایاں طور پر دیکھنے کو مل رہی ہیں۔معیشت کے بارے میں اگرچہ ہمارے بڑے بڑے دعوے ہیں لیکن اگر زمینی حقائق دیکھیں تو عام آدمی کی زندگی ابھی بھی معاشی طور پر بہت زیادہ مشکلات کا شکار ہے۔لوگوں کو معاشی بدحالی کا سامنا ہے اور انہیں لگتا ہے کہ آمدنی اور اخراجات میں عدم توازن نے ان کے معاشی معاملات کو بہت بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔

ان حالات میں طاقت کے مراکز ایک نیا سیاسی کھیل کھیلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔اس کھیل کی خاص بات یہ ہے کہ سب کو سمجھوتے کی سیاست کی طرف لایا جا رہا ہے۔سب کو یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ جیسے ان کے سامنے ایجنڈا رکھا جاتا ہے اس پر وہ عمل کریں اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر کام کرنے کی کوشش کریں،لیکن اگر وہ مزاحمت کی سیاست پر قائم رہتے ہیں اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ٹکراؤ کی پالیسی جاری رکھتے ہیں تو ان کی سیاسی مشکلات میں کسی قسم کی کمی واقع نہیں ہوگی۔ عمران خان کو بھی پیغام دیا گیا ہے کہ اگر وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر چلیں گے تو ان کے لیے سیاسی راستہ تلاش کیا جا سکتا ہے،وگرنہ دوسری صورت میں ان کے لیے سیاسی راستہ ملنا مشکل ہوگا۔ عمران خان کے فوری مطالبات ماننا اسٹیبلشمنٹ کے بس کی بات نہیں اور نہ اسٹیبلشمنٹ اس تاثر کو عام کرے گی کہ وہ عمران خان کے سامنے شکست کھا گئی ہے۔ فوری طور پر نئے انتخابات کے معاملے میں بھی اسٹیبلشمنٹ ابہام کا شکار ہے اور نئے انتخابات کے مقابلے میں دو سال کے قومی سیٹ اپ پر بات ہو رہی ہے۔لیکن عمران خان کسی بھی طرح دو برس کے سیٹ اپ کو ماننے کے لیے تیار نظر نہیں آتے۔اصل میں اسٹیبلشمنٹ یہ سمجھتی ہے کہ اِس وقت اگر اُس نے اپنی طاقت کے مرکز کی جو سیاست ہے اُس کو کمزور کیا تو اِس کا اثر مستقبل کی سیاست اور اسٹیبلشمنٹ کے کردار پر پڑے گا۔اس لیے اسٹیبلشمنٹ اس وقت زیادہ حساس ہے اور سیاسی جماعتوں کو بہت زیادہ اسپیس دینے کے بجائے معاملات کو اپنے کنٹرول میں رکھنا چاہتی ہے۔اس پوری لڑائی میں نقصان ملک کا ہو رہا ہے، ریاست کا ہو رہا ہے، اداروں کا ہو رہا ہے، پارلیمنٹ کا ہو رہا ہے اور عوام کا ہورہا ہے۔ ہمیں اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ یہ سارا بگاڑ کیوں پیدا ہورہا ہے اورکیا وجوہات ہیں جن کی وجہ سے آج پاکستان کا داخلی بحران سنگین صورت اختیار کرتا جارہا ہے۔اس لیے ہمارے پاس وقت بہت کم ہے، اور اگر اب بھی ہوش مندی کا مظاہرہ نہ کیا اور حالات کو اپنی خواہشات کے مطابق چلانے کی کوشش کی تو اس سے بحران کی نوعیت مزید گمبھیر ہوجائے گی۔اسٹیبلشمنٹ کو یہ بات سمجھنی ہوگی کہ حالات بدل گئے ہیں اور یہ ایک نیا پاکستان ہے جہاں لوگ سوالات اٹھا رہے ہیں،اوراسٹیبلشمنٹ پربھی بہت سے سوالات اٹھ رہے ہیں جن کا جواب اُن کو دینا ہوگا۔اس لیے جو غیر معمولی حالات ہیں ان میں آگے بڑھنے کے لیے غیر معمولی اقدامات کرنے ہوں گے، مصنوعی طریقے سے پاکستان میں تبدیلی کا عمل ممکن نہیں ہوسکے گا۔جذبات کے بجائے ہوش کے ساتھ سیاسی حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم ایک پائیدار ترقی کی طرف بڑھ سکیں۔خاص طور پر لوگوں کو حوصلہ اور امید دینی ہوگی تاکہ ان کا اعتماد ریاست، حکومت اور اداروں پر بحال ہوسکے۔

کیونکہ اعتماد کے فقدان نے ریاست کے آپشنز کو محدود کردیا ہے، اور یہی ایک سنجیدہ سوال ہے جس پر بحث ہونی چاہیے۔