قصہ یک درویش! کینیا میں اسلامک فائونڈیشن سے وابستگی

ایک دن کراچی میں برادر محترم سید منور حسن صاحب کے ساتھ قیام رہا، اور پھر وہاں سے بذریعہ پی آئی اے جدہ پہنچا۔ رائو محمد اختر صاحب نے جدہ ائیرپورٹ پر نہایت پُرتپاک استقبال کیا۔ ان کے ساتھ سعودیہ میں مقیم کئی دوستوں کے علاوہ مولانا گلزار احمد مظاہریؒ بھی ائیرپورٹ پر موجود تھے۔ مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ دونوں بزرگوں اور سبھی احباب نے مجھ عام کارکن کا بہت محبت اور اکرام کے ساتھ استقبال کیا۔ جدہ میں ایک دن قیام کے بعد اگلے روز وہاں سے احرام باندھ کر مکہ معظمہ کا سفر کیا اور مولانا گلزار احمد مظاہریؒ کی رفاقت میں زندگی کا پہلا عمرہ ادا کیا۔ اس پہلے عمرے کا اور پہلی بار بیت اللہ شریف میں داخل ہونے کا لطف آج تک رگ رگ میں رچا بسا ہے۔ پھر مولانا گلزار احمدمظاہریؒ ہی کے ساتھ مدینہ منورہ میں مسجد نبوی اور روضۂ اطہر پر حاضری کا شرف حاصل ہوا۔

آج تک وہ لمحات یادگار ہیں۔ میں نے اس سفر کا قدرے تفصیلی تذکرہ اپنی کتاب ’’مسافرانِ راہ وفا‘‘ میں مولانا گلزار احمد مظاہری مرحوم کے حالات از صفحہ 28تا38 میں لکھا ہے۔ مولانا مظاہری مرحوم کے جوشِ خطابت سے تو سال ہا سال لطف اندوز ہوتے رہے، مگر آپ کی شخصیت کا دوسرا عظیم الشان پہلو یہاں حرمین شریفین کی زیارت کے موقع پر دیکھا۔ مکہ میں بھی بیت اللہ کی زیارت اور خانہ کعبہ کے طواف کے دوران آپ کی آنکھوں سے اشکوں کا سیلِ رواں ازحد ایمان افروز تھا، مگر دیارِ حبیب کی جانب سفر کی تو کیفیت ہی اور تھی جس کا لفظوں میں احاطہ کرنا ممکن نہیں۔ جوں جوں منزل قریب آرہی تھی، عاشقِ رسولؐ کی رقت قلبی اور سوزوگداز میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا جارہا تھا۔ جب کافی فاصلے سے مسجد نبوی کے مینار نظر آئے تو ہچکی بندھ گئی جس نے مجھے بھی زار و قطار رلا دیا۔ اب مسجد نبوی اور روضۂ رسولؐ پر حاضری کا موقع ہے تو آنسو جاری ہیں، مگر آواز گم! گویا عملاً اس بات کا اظہار کہ ؎

ادب گاہسیت زیر آسماں از عرش نازک تر
نفس گم کردہ می آید جنید و بایزید ایں جا

حرمین شریفین کو پہلی نظر دیکھنے پر میری جو کیفیت تھی اسے بیان نہیں کرنا چاہتا، نہ کرسکتا ہوں۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ میرا جدہ میں پہلا قیام رائو محمد اختر صاحب کے گھر میں رہا۔ اس کے بعد جب بھی جدہ میں آنا ہوتا تو یہیں قیام کا شرف حاصل ہوتا۔ گھر کے سب چھوٹے بڑے جس محبت و عقیدت کے ساتھ برتائو کرتے، اسے دیکھ کر دل سے ان سب کے لیے دنیا و آخرت کی بھلائیوں کے لیے دعائیں نکلتیں۔ رائو صاحب کے بچے اس وقت چھوٹے تھے تو ہر ایک کی اپنی خوبیاں تھیں۔ عمر رائو، حسن رائو، احمد رائو اور بچیاں… سبھی اسکولوں میں زیر تعلیم تھے۔ یاسر رائو اُس وقت پیدا نہیں ہوا تھا۔ یہ بچے مجھ سے اتنے مانوس تھے کہ جیسے میرے اپنے بچے ہوں۔ اللہ سب کو بہترین اجر عطا فرمائے۔ جدہ میں یہ گھرانہ تحریکِ اسلامی کا مرکز تھا جہاں تحریک کے اکثر و بیشتر بزرگان و قائدین کا بار بار قیام رہا۔ رائو صاحب کی اہلیہ محترمہ گھر میں انتہائی لذیذ کھانے تیار کرتیں، اور جتنے بھی مہمان ہوتے نہایت خوش دلی کے ساتھ سب کی ضیافت کی جاتی۔

جب رائو صاحب کی فیملی پاکستان منتقل ہوگئی اور وہ خود کینیا چلے گئے تو ہمیشہ میرا قیام رائو محمد طاہر صاحب کے ہاں ہوتا۔ آپ کی اہلیہ محترمہ عزیزہ ساجدہ بھی بہت مہمان نواز خاتون ہیں۔ یہ مختصر گھرانہ تھا اور گھر کے تمام افراد بیٹی عزیزہ عائشہ، بیٹا عزیزم عبدالرحمٰن بہت ادب و احترام کے ساتھ ہر طرح کی خدمت کرتے تھے۔ یوں احساس ہوتا تھا کہ گویا اپنے گھر میں ہی ہوں۔ رائو طاہر صاحب دورِ طالب علمی میں ہمارے جونیئر ساتھی اور اسلامی جمعیت طلبہ کے رکن تھے۔ آپ کا تعلق ہارون آباد ضلع بہاولنگر سے ہے جب کہ رائو محمد اختر صاحب اوکاڑہ میں مقیم تھے۔ یہ دو راجپوت دوست بلاشبہ بڑی دلنواز شخصیتوں کے حامل تھے۔ رائو محمد اختر صاحب کو اللہ تعالیٰ کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے اور رائو طاہر صاحب کو اللہ سلامت رکھے، اب بھی ان سے مسلسل رابطہ رہتا ہے۔ ان دنوں اپنے بیٹے عبدالرحمٰن کے پاس سعودی عرب میں مقیم ہیں۔

کینیا کا ویزا وہاں پہنچنے پر لگ جاتا تھا۔ دیارِ مقدس میں ایک ہفتے کے قیام کے بعد سعودی ائیرلائن سے نیروبی کا سفر کیا اور نیروبی ائیرپورٹ پر اسلامک فائونڈیشن کے بزرگان نے انتہائی محبت و اپنائیت کے ساتھ خوش آمدید کہا۔ چیئرمین اسلامک فائونڈیشن عبدالحلیم بٹؒ، سیکرٹری جنرل ڈاکٹر محمد سعیدؒ، ناظم مالیات ملک خلیل احمد،ؒ جناب ضیا الدین سومراؒ (رکن مجلس انتظامیہ)، محمد اختر بھٹی، محمد اکرم بھٹی اور کچھ دیگر ساتھی بھی اس موقع پر موجود تھے۔ ان ساتھیوں نے بتایا کہ فائونڈیشن کے سینئر رکنِ مجلس جناب محمد لقمان صاحب بیرون ملک ہیں اور انھوں نے وہاں سے آپ کو سلام اور خوش آمدید کا پیغام بھیجا ہے۔

سید مودودیؒ کے قافلۂ سخت جان کے ہر مسلمان کو اللہ نے بے پناہ خوبیوں اور صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ چودھری غلام محمدؒ کراچی جماعت کے امیر اور مولانا مودودیؒ کے قریب ترین تحریکی ساتھیوں میں سے تھے۔ آپ کراچی کی امارت کے ساتھ شعبہ امور خارجہ میں بھی کلیدی کردار ادا کرتے تھے۔ آپ کے حالات ہم نے اپنی کتاب ’’عزیمت کے راہی‘‘ جلد ہشتم میں از صفحہ 37 تا54 لکھے ہیں۔ آپ سے آپ کی زندگی میں ملاقاتیں بھی ہوئی تھیں۔ آپ کی جماعت اسلامی کے امور خارجہ کے شعبے میں خدمات کا تذکرہ پہلے سے سن رکھا تھا۔ جنوری 1974ء میں پہلی مرتبہ جب میں کینیا پہنچا تو معلوم ہوا کہ قائد مرحوم و مغفور چودھری غلام محمد نے براعظم افریقہ اور بالخصوص افریقہ کے مشرقی حصے میں تحریک کے لیے بہت کام کیا ہے۔ یہاں چودھری صاحب مرحوم کے ساتھ اُن شخصیات کا تذکرہ بھی ضروری ہے جو افریقہ میں ان کے دست و بازو بن کر میدانِ عمل میں سینہ سپر رہیں۔

ان قیمتی ہیروں میں برصغیر سے تعلق رکھنے والے حضرات میں محمد بشیر دیوان مرحوم، عبدالحلیم بٹ مرحوم، محمد شفیع میر مرحوم، ڈاکٹر محمد سعید مرحوم، ضیاء الدین سومرا مرحوم، خلیل ملک مرحوم، جناب پروفیسر خورشید احمد، جناب رائو محمد اختر، جناب عبدالرحمٰن بزمی، جناب حاجی محمد لقمان مرحوم کے اسمائے گرامی بہت نمایاں ہیں۔ اسی طرح مقامی افریقی آبادی میں سے آزادی کے بعد کینیا کے پہلے چیف قاضی شیخ محمد قاسم مزروعی مرحوم، دوسرے چیف قاضی شیخ عبداللہ صالح فارسی مرحوم، بہت بڑے تاجر شیخ زبیدی مرحوم، ممبر پارلیمنٹ عثمان ارارو مرحوم، ممبر پارلیمنٹ وارورو (یوسف) کانجا مرحوم وغیرہ اس قافلے میں شامل رہے۔ اللہ ان سب کے درجات بلند فرمائے۔

اسلامک فائونڈیشن نیروبی اور اس کے تحت چلنے والے تعلیمی ادارے باقاعدہ رجسٹرڈ تھے۔ میرے کینیا پہنچنے کے وقت فائونڈیشن کے چیئرمین عبدالحلیم بٹ صاحب تھے۔ آپ نے میری میزبانی کا حق ادا کیا۔ آپ کچھ عرصے کے بعد اپنی فیملی کے ساتھ برطانیہ نقل مکانی کر گئے۔ ان کے بعد حاجی محمد لقمان صاحب کو چیئرمین منتخب کیا گیا۔ ڈاکٹر محمد سعید صاحب حسبِ معمول سیکرٹری جنرل اور خلیل احمد ملک صاحب ناظم مالیات کی ذمہ داری ادا کرتے رہے۔ بعد میں ڈاکٹر محمد سعید صاحب بھی چیئرمین منتخب ہوئے۔ مرکزی مجلس انتظامیہ میں چیئرمین، سیکرٹری اور خازن کے علاوہ بطور ارکان جناب محمد شفیع میر، جناب ضیا الدین سومرا، محترم عثمان ارارو، محترم یوسف وارورو کانجا، اور بعد میں محمد اختر بھٹی، عثمان عبدی اور راقم الحروف (بطورڈائریکٹر) شامل تھے۔ جناب محمد لقمان صاحب نے میرے کینیا سے واپس آنے کے بعد اپنی صحت کی وجہ سے چیئرمین کی ذمہ داری سے استعفیٰ دے دیا۔

محمد لقمان صاحب کے بعد رائو محمد اختر صاحب جو سعودی عرب سے مستقل طور پر کینیا منتقل ہوچکے تھے، چیئرمین منتخب ہوئے۔ رائو محمد اختر مرحوم بڑی دبنگ شخصیت کے مالک تھے۔ کئی سال تک یہ ذمہ داری نبھاتے رہے۔ اس کے بعد وہ اپنی زندگی کے آخری سالوں میں صحت کے مختلف مسائل کا شکار ہوئے تو انھوں نے بھی چیئرمین کی ذمہ داری سے معذرت کرلی۔ ان کے مشورے سے ان کے بعد برادرم محمد ایوب خالد چیئرمین منتخب ہوئے جو اب تک یہ ذمہ داری ادا کررہے ہیں۔ ان کے ساتھ نئی انتظامی کمیٹی بھی مصروفِ عمل ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سب ساتھیوں کو کامیابیوں سے نوازے اور پیش آمدہ مشکلات میں ان کی مدد فرمائے۔ آخری چند سال تنزانیہ سے پروفیسر ملک محمد حسین مرحوم کے کینیا آنے کے بعد ایک فلیٹ کرائے پر لیا گیا اور ہم دونوں کی رہائش مرکزی دفاتر قرآن ہائوس سے یہاں منتقل ہوگئی۔ یہ فلیٹ سر علی مسلم کلب سے ملحق تھا۔ اس کلب کا تذکرہ بھی آگے آئے گا۔

نیروبی میں میرا قیام کئی سال تک قرآن ہائوس میں رہا جہاں ساری رہائشی سہولیات مع کچن، باورچی اور دیگر عملہ فراہم تھیں۔ مجھے مولانا مودودیؒ مرحوم نے ایک سال کے لیے کینیا بھیجا تھا، مگر میرا قیام طویل سے طویل تر ہوتا چلا گیا یہاں تک کہ بارہ سال بعد اواخر نومبر 1985ء میں میاں طفیل محمدؒ امیر جماعت اسلامی پاکستان کے حکم سے واپسی ممکن ہوئی۔ کینیا میں قیام کے دوران بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا اور بھرپور جوانی کا دور یہاں کے منصوبوں کی تکمیل و دیکھ بھال کے لیے صرف ہوا۔ میری عمر اُس وقت 28سال تھی۔ میں اُس وقت دو بیٹوں محمد دائود ادریس اور ہارون ادریس کا باپ تھا۔ میری اکلوتی بیٹی عزیزہ سمیّہ ادریس میرے کینیا جانے کے ساڑھے تین ماہ بعد پیدا ہوئی۔ جب میں پہلی بار ایک سال اور ایک مہینے کے بعد پاکستان آیا تو باپ اور بیٹی کی ملاقات ہوئی جس کی شیرینی رگ و پے میں محفوظ ہے۔ ہر سال خیال ہوتا تھا کہ اب واپسی کا فیصلہ ہوجائے گا، اس لیے فیملی کو وہاں نہ لے جا سکا۔ ہر سال ڈیڑھ سے دو ماہ کے لیے پاکستان آنا ہوتا تھا۔

فائونڈیشن میں بطور ڈائریکٹر کام کرتے ہوئے مالیات کے مسائل کو بھی دیکھنا کارِدارد تھا۔ رائو محمد اختر صاحب سعودی عرب کے مخیر حضرات سے مسلسل رابطے میں رہتے تھے اور بالخصوص ماہِ رمضان میں عطیات جمع کرکے نیروبی ارسال کرتے تھے۔ اُس زمانے میں ان پابندیوں کا تصور بھی نہیں تھا جو آج کل مختلف فلاحی اداروں کو درپیش ہیں۔ میں بھی سال میں ایک بار ناروے، برطانیہ اور ایک بار خلیجی ممالک میں عطیات جمع کرنے کے لیے سفر کرتا تھا۔ سعودی عرب، کویت، امارات اور قطر میں زیادہ تر فنڈ ریزنگ ہوتی تھی۔ کبھی کبھار ایسی مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کہ جن کو یاد کرکے آج بھی دل تڑپ اٹھتا ہے۔ یہ بھی ایک یادگار بات ہے کہ اللہ کی غیبی مدد ایسے تمام مواقع پر یوں آئی کہ قرآن پاک کی سورہ طلاق کی آیات کی عملی تفسیر آنکھوں کے سامنے آگئی جس نے دل کو ہمیشہ بہت بڑا سہارا دیا۔

اللہ کا ارشاد ہے: وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَل لَّہٗ مَخْرَجًاO وَیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ وَمَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ فَہُوَ حَسْبُہٗ إِنَّ اللّٰہَ بَالِغُ أَمْرِہٖ قَدْ جَعَلَ اللّٰہُ لِکُلِّ شَیْئٍ قَدْرًا (سورۃ الطلاق: آیت 2۔3) ترجمہ: جو کوئی اللہ سے ڈرتے ہوئے کام کرے گا اللہ اس کے لیے مشکلات سے نکلنے کا کوئی راستہ پیدا کردے گا اور اسے ایسے راستے سے رزق دے گا جدھر اس کا گمان بھی نہ جاتا ہو۔ جو اللہ پر بھروسا کرے اس کے لیے وہ کافی ہے۔ اللہ اپنا کام پورا کرکے رہتا ہے۔ اللہ نے ہر چیز کے لیے ایک تقدیر مقرر کر رکھی ہے۔)

ایک مرتبہ ایسی ہی مشکلات تھیں۔ رائو صاحب سے رابطہ ہوتا تو وہ فرماتے کہ کچھ دیر بعد اعانتیں ملیں گی۔ قرآن ہائوس کی عمارت خاصی بڑی اور کئی منزلہ تھی مگر اس عمارت کا کرایہ تمام اداروں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے بالکل کافی نہیں تھا۔ پھر ایک عجیب مشکل یہ تھی کہ سب سے بڑے ادارے اسیولو کے ماہانہ راشن کی سپلائی وہاں کا ایک مقامی ایشین تاجر فقیر محمدکرتا تھا اور موصوف قادیانی تھا۔ دو مہینے کے بقایا جات ہوگئے تو اس نے اپنی اصلیت دکھانا شروع کی۔ سینٹر کے ناظم شیخ محمد سلفی صاحب بڑی پریشانی میں مجھ سے رابطہ کرتے۔ میں انھیں تسلی دیتا کہ کچھ انتظار کرو، ان شاء اللہ انتظام ہوجائے گا۔ اس دوران رائو صاحب نے ایک دن مجھ سے کہا کہ نیروبی میں حبیب بینک کے منیجر چودھری محمد اسلم تمھارے دوست اور عقیدت مند ہیں، ان سے کہو کہ وہ اوور ڈرافٹ دے دیں۔ ظاہر ہے کہ بینک اوورڈرافٹ بغیر سود نہیں دیتا تھا۔ (جاری ہے)