خیبر پختون خوا حکومت نے ڈپٹی کمشنر ضلع کرم کے قافلے پر فائرنگ کے واقعے کو فریقین کی جانب سے معاہدے کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اس تخریب کاری میں ملوث افراد کو گرفتار کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جبکہ ڈپٹی کمشنر پر حملے کے بعد کی صورتِ حال کے باعث لوئر کرم میں دفعہ 144 نافذ کردی گئی ہے جس کے تحت ضلع بھر میں جلسے، جلوس کرنے اور اسلحے کی نمائش پر پابندی لگا دی گئی ہے، جب کہ صوبائی حکومت نے شرپسندوں کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ اس حوالے سے گزشتہ روز وزیراعلیٰ خیبر پختون خوا علی امین گنڈاپور کی زیرصدارت ایک اہم اجلاس منعقد ہوا جس میں چیف سیکرٹری اور آئی جی پولیس سمیت عسکری حکام نے بھی شرکت کی۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ ڈپٹی کمشنر پر حملے میں ملوث ملزموں کو کسی صورت نہیں چھوڑا جائے گا، کرم اور ملحقہ علاقوں میں امن و امان ہر صورت برقرار رکھا جائے گا، جب کہ کرم کا امن خراب کرنے والے شرپسندوں کے خلاف کریک ڈائون ہوگا۔ اس سے قبل لوئر کرم میں پولیس اور فرنٹیئر کانسٹیبلری (ایف سی) کے اہلکاروں پر فائرنگ کا مقدمہ محکمہ انسدادِ دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے تھانے میں درج کرلیا گیا ہے۔ ایڈیشنل ایس ایچ او کی مدعیت میں درج کی گئی ایف آئی آر میں اقدام قتل سمیت دہشت گردی کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔
ادھر معلوم ہوا ہے کہ لوئر کرم کے علاقے بکن میں ڈپٹی کمشنر جاوید اللہ محسود کی گاڑی پر حملہ کرنے والوں کی شناخت ہوگئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق حملہ آوروں کے ساتھ سہولت کار بھی ملوث ہیں جن کی تعداد 5 ہے۔ حکام کے مطابق علاقے کے لوگ معاہدے کی خلاف ورزی کے ذمہ دار ہیں، اس لیے اس میں ملوث تمام افراد کو فوری طور پر گرفتار کیا جائے گا۔ بتایا جاتا ہے کہ اعلیٰ حکومتی سطح پر دہشت گردوں کے سروں کی قیمت مقرر کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے اور اس ضمن میں کسی بھی دہشت گرد سے کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی، اور نہ ان کی معاونت اور سہولت کاری کرنے والوں کو چھوڑا جائے گا۔ یاد رہے کہ ہفتہ کے روز ضلع لوئر کرم میں سرکاری گاڑیوں کے قافلے پر فائرنگ کے نتیجے میں ڈپٹی کمشنر کرم سمیت سات افراد زخمی ہوئے تھے۔ اس واقعے کے بعد ضلع کرم کے لیے 90 روز کے بعد امدادی سامان پر مشتمل قافلے کی روانگی کو موخر کردیا گیا ہے اور حالات ٹھیک ہونے کے بعد یہ قافلہ روانہ کیا جائے گا۔ ڈی سی کرم پر فائرنگ کے واقعے میں پولیس کو کریک ڈائون کے دوران اہم کامیابی ملی ہے۔ پولیس ذرائع کے مطابق ڈی سی پر فائرنگ کے واقعے میں مطلوب دو اہم شرپسندوں کو کرم سے گرفتار کرلیا گیا ہے۔ پولیس کے مطابق گرفتار شرپسند افراد ایف آئی آر میں بھی نامزد ہیں جبکہ انہیں حراست میں لے کر تفتیش کے لیے نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیا ہے، اس کے علاوہ کرم و مضافات میں دیگر ملزمان کی گرفتاری کے لیے کریک ڈائون کا سلسلہ جاری ہے۔
واضح رہے کہ ڈپٹی کمشنر جاوید اللہ محسود ہفتہ کے روز سرکاری گاڑیوں کے کانوائے میں کرم کے بدامنی سے متاثرہ علاقے میں خوراک اور ادویہ لے کر جارہے تھے۔ کوہاٹ میں ہونے والے امن معاہدے کے بعد ہفتہ کے روز 80 ٹرکوں پر مشتمل خوراک، روزمرہ استعمال کی اشیاء اور ادویہ لے کر سرکاری گاڑیاں قافلے کی شکل میں ٹل سے کرم کی طرف روانہ ہوئیں تو اس موقع پر سیکورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے۔ علاقہ بگن کے قریب مظاہرین کی جانب سے دھرنے کے باعث سڑک بند تھی جس پر ڈپٹی کمشنر کرم جاوید اللہ محسود سڑک کھلوانے اور مرکزی شاہراہ کلیئر کرانے مظاہرین کی طرف گئے۔ اُن کے ساتھ سیکورٹی اہلکار بھی تھے، تاہم اسی دوران نامعلوم شرپسندوں نے ڈپٹی کمشنر کی گاڑی پر فائرنگ شروع کردی، جس کے نتیجے میں ڈی سی جاوید اللہ محسود، ایف سی اہلکار رفیع اللہ، رضوان خان، ڈپٹی کمشنر کرم کے سیکورٹی گارڈ سمیت 7افراد زخمی ہوگئے۔ زخمیوں کو تحصیل اسپتال پہنچایا گیا جہاں ان کو ابتدائی طبی امداد دی گئی، بعد ازاں ڈپٹی کمشنر جاوید اللہ محسود کو فوجی ہیلی کاپٹر کے ذریعے سی ایم ایچ پشاور منتقل کردیا گیا جہاں ان کا علاج جاری ہے۔
صوبائی حکومت کے ترجمان بیرسٹر سیف نے لوئر کرم کے علاقے بگن میں حملے کے بعد کہا ہے کہ واقعے کے بعد 80 گاڑیوں کے قافلے کو عارضی طور پر روک دیا گیا ہے، حالات سنبھلتے ہی قافلہ دوبارہ روانہ کیا جائے گا۔ لوئر کرم کے علاقے بگن، اوچت، چارخیل سمیت ملحقہ علاقوں میں 21 نومبر کو مسافروں کے قافلے پر فائرنگ میں 50 افراد جاں بحق ہوگئے تھے، جس کے بعد کرم کے علاقے اپرکرم، بگن اور پاراچنار میں حالات کشیدہ ہوگئے تھے، اس دوران فریقین کے مابین مسلح تصادم میں کئی درجن افراد جاں بحق ہوئے۔ دو روز قبل ہی خیبر پختون خوا کی حکومت اور مقامی قبائلی عمائدین کی کوششوں سے فریقین میں امن معاہدہ ہوا تھا، جس کے بعد ہفتہ کی صبح صوبائی حکومت نے 80 ٹرکوں میں امدادی سامان کرم کے لیے روانہ کیا تھا، ڈپٹی کمشنر امدادی سامان کے قافلے کے لیے سڑکیں بحال کروانے گئے اور خود ہی فائرنگ کا نشانہ بن گئے۔
سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ امن کمیٹیوں کی ضمانت کے باوجود فائرنگ ہونا تشویش ناک ہے، صبح 10 بج کر 35 منٹ پر قافلہ روانہ ہونے سے قبل مذاکراتی ٹیم سڑک کھلوانے کے لیے مذاکرات کررہی تھی، اسی دوران 40 سے 50 مسلح شرپسندوں نے ڈپٹی کمشنر جاوید محسود اور سرکاری گاڑیوں پر فائرنگ کردی جس میں ڈپٹی کمشنر، پولیس کے 3 اور ایف سی کے 2 اہلکار زخمی ہوئے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ مقامی لوگ ان عناصر کے خلاف متحد نہ ہوئے تو نقصان ان کا اپنا ہوگا، عوام امن دشمنوں کو پہچانیں اور ان کے خلاف کھڑے ہوں، ایسی کارروائیاں جاری رہیں تو ادارے پوری قوت سے حرکت میں آکر ایکشن لیں گے۔ سرکاری ذرائع کے مطابق امن معاہدے کی ضمانت امن کمیٹیوں نے دی تھی، کمیٹیوں نے یقین دہانی کرائی تھی کہ امن خراب کرنے کی اجازت کسی کو نہیں دی جائے گی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ حملے نے نہ صرف قافلے کو روک دیا بلکہ عوام کو مزید مشکلات سے دوچار کردیا ہے۔ ذرائع نے مزید کہا کہ مقامی کمیٹیوں کے رہنماؤں سے وضاحت طلب کی جائے گی۔ شرپسند عناصر علاقے میں امن کے قیام میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں، یہ واقعہ امن معاہدے کی خلاف ورزی سمیت انسانی حقوق و عوامی مسائل مزید سنگین بنانے کا باعث ہے۔ سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ ایم پی اے ملک ریاض شاہین، ملک غنی، ڈاکٹر قادر، حاجی کریم، ملک سیف اللہ اور حاجی شریف ڈپٹی کمشنر پر حملے کے لیے جواب دہ ہیں۔
دریں اثناء وزیراعلیٰ خیبر پختون خوا علی امین گنڈا پور کی صدارت میں صوبائی حکومت کے اعلیٰ حکام کا ایک ہنگامی اجلاس وزیراعلیٰ ہاؤس میں منعقد ہوا۔ چیف سیکرٹری خیبر پختون خوا ندیم اسلم چودھری، انسپکٹر جنرل پولیس اختر حیات خان اور دیگر حکام نے اجلاس میں شرکت کی۔ اجلاس میں بگن واقعے کے بعد کی صورتِ حال کا جائزہ لیا گیا۔ اجلاس میں کرم میں ڈپٹی کمشنر کرم اور سیکورٹی اہلکاروں پر فائرنگ کے واقعے کا سخت نوٹس لیتے ہوئے قرار دیا گیا کہ امن معاہدے کے بعد متعلقہ علاقے کے لوگ معاہدے کی خلاف ورزی کے ذمہ دار ہیں۔ اجلاس میں طے پایا کہ فائرنگ کے واقعے میں ملوث افراد کو قانون کے حوالے کیا جائے گا۔