قرضوں میں پھنسے ملک کا نیا نعرہ’’ اڑان پاکستان‘‘

معروف کالم نگار اور دانش ور ڈاکٹر اسلم پرویز عمرانی نے بروز اتوار 5 جنوری 2025ء کو کثیر الاشاعت سندھی روزنامہ ’’پنھنجی اخبار‘‘ کراچی کے ادارتی صفحے پر اپنے تحریر کردہ زیر نظر کالم میں جو اظہار خیال کیا ہے اس کا ترجمہ قارئین کی معلومات اور دل چسپی کے لیے پیش خدمت ہے۔

’’ہمارے ملک میں بڑے سیاسی نعروں کا رواج ہے۔ حکومت کے دہشت گردی کے خلاف مہمات کے نعرے ہوں یا میثاقِ جمہوریت یا میثاقِ معیشت کے نعرے… دہشت گردی کے خلاف چلائی جانے والی مہمات آپریشن المیزان، آپریشن زلزلہ، آپریشن شیر دل، آپریشن راہِ حق، آپریشن راہِ نجات، آپریشن ردالفساد اور اب چین کے مطالبے پر 2024ء سے آپریشن عزمِ استحکام بھی شروع کردیا گیا ہے، تاہم ان سب آپریشنوں کے باوجود بھی 2024ء میں پے در پے ہونے والے دہشت گردی کے واقعات چونکا دینے والے ہیں۔ میثاق جمہوریت نے بھی، جمہوریت کے بجائے نئے ہائبرڈ نظام کو جنم دیا ہے جس میں سیاسی مخالفین کو ملٹری کورٹس سے سزائیں دی جارہی ہیں۔ میثاقِ معیشت تو تاحال سیاسی حلقوں اور حصے داروں کے درمیان نہیں ہوسکا ہے، لیکن اسٹیبلشمنٹ کے زیر سایہ وزیراعظم شہبازشریف نے معیشت کے بارے میں ’’اُڑانِ پاکستان‘‘ پروگرام شروع کرنے کا اعلان ضرور کرڈالا ہے۔ اس منصوبے میں بھی باتیں بڑی بڑی کی گئی ہیں لیکن ان پر عمل درآمد آخر کس طرح سے ہوپائے گا؟ کون سے وسائل مہیا کیے جائیں گے؟ کون کروائے گا؟ اور یہ کب سے شروع کیا جائے گا؟ اس بارے میں صورتِ حال فی الوقت واضح نہیں ہے، سوائے اس امر کے کہ سندھ اور بلوچستان کے وسائل پر ہمارے اصل حکمرانوں نے اپنی میلی آنکھیں گاڑ رکھی ہیں۔ اس پروگرام کی بنیاد مسلم لیگ (ن) کی ترقیاتی منصوبہ بندی کے ایجنڈے پر استوار کی گئی ہے جس میں غیر ملکی کاروبار، انفارمیشن ٹیکنالوجی، ماحول اور ماحولیاتی تبدیلیاں، توانائی اور اس کا انفرا اسٹرکچر، اور سب کے لیے انصاف کے پانچ نکات شامل ہیں۔ پروگرام کے مطابق دس برس میں یعنی 2035ء تک معیشت کو ایک کھرب امریکی ڈالر سالانہ تک پہنچانا مقصود ہے جس میں نصف سے زائد رقم انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) اور زراعت سے حاصل ہوگی جس میں آئی ٹی سے 25 ارب امریکی ڈالر اور زراعت سے 13 ارب ڈالر حاصل کرنے کا ہدف شامل ہے۔ ہمارے ملک میں وقتاً فوقتاً انٹرنیٹ کا رفتار سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے کم یا سیاسی احتجاج کے مواقع پر مکمل طور پر بند کردی جاتی ہے، جس کی وجہ سے نہ صرف آئی ٹی کے کاروبار سے وابستہ افراد بلکہ عوام اور منتخب عوامی نمائندے بھی ازحد تنگ ہیں۔ اس وقت بھی قومی اسمبلی کی انفارمیشن ٹیکنالوجی کے بارے میں قائم شدہ اسٹینڈنگ کمیٹی میں حکومتی نمائندوں سمیت اراکین یہی واویلا کرنے میں مصروف ہیں کہ ان کے علاقوں میں انٹرنیٹ کی رفتار کم ہے اور ہر پانچ منٹ کے بعد انٹرنیٹ کی رفتار کو بریک لگ جاتا ہے۔ پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی کے چیئرمین نے جو ریٹائرڈ میجر جنرل بھی ہیں، اس میٹنگ میں کمیٹی کے اراکین کو وضاحت دیتے ہوئے بتایا کہ سمندر میں موجود تاروں کو نقصان تو پہنچا ہے لیکن ہمارا ادارہ وفاقی حکومت کی وزارتِ داخلہ، قانون یا عدالتوں کی ہدایات پر بھی انٹرنیٹ بند یا پھر اس کی رفتار کم کردیا کرتا ہے۔ جس ملک میں سینیٹ اور قومی اسمبلی کے ارکان تک انٹرنیٹ کے بارے میں شکایات کا طومار باندھتے اور شور شرابا کرتے دکھائی دیں، وہاں انفارمیشن ٹیکنالوجی، ٹیلی کام اور اس سے وابستہ، یا متعلقہ کاروبار سے سالانہ 5 ارب ڈالر کے بجائے 25 ارب ڈالر کمانے کے خواب دیکھنا حقیقت کے یکسر برعکس ہے اور اس حوالے سے دعوے کرنا بھی دیوانے کی بڑ ہی قرار پائے گا۔

انفارمیشن ٹیکنالوجی کے کاروبار کو بڑھانے کے لیے انٹرنیٹ کی رفتار کو بڑھانا پڑے گا اور اسے سیاسی مصلحتوں سے آزاد کرنا بھی ناگزیر ہے، اور اگر ایسا نہ کیا گیا تو اس شعبے کے ماہرین اور کاروباری افراد کو ملک میں رکھنا ایک طرح سے ناممکن ہوجائے گا۔ اس وقت تو زمینی صورتِ حال یہ ہے کہ آئی ٹی کے کاروبار سے وابستہ اکثر افراد اپنے کاروبار کو متحدہ عرب امارات اور ترکیہ میں منتقل کررہے ہیں۔ دوسری جانب کئی یورپی ممالک اور آسٹریلیا نے اپنے ہاں کاروبار کے لیے ڈیجیٹل نقل مکانی کی نئی ویزا پالیسی تشکیل دی ہے جس کی بنا پر ایسے کاروباری افراد کو فوری ویزے مہیا کردیے جاتے ہیں تاکہ وہ ان کے ممالک میں جاکر انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ذریعے کاروبار کرسکیں اور ان کی معیشت بہتر ہوسکے۔ ایسے میں ہم کہاں کھڑے ہیں؟ یہ ہمارے لیے سوچنے کی بات ہے۔

اس کے بعد دوسرے نمبر پر زراعت سے اپنی آمدنی کو 13 ارب ڈالر تک پہنچانے کی بات سمجھ میں آتی ہے، کیوں کہ گزشتہ سال آمدنی 5 ارب ڈالر سے بڑھ کر 8 ارب ڈالر تک پہنچی ہے جس کا سبب چاول، مکئی، تل، گوشت، سبزیوں اور پھلوں کی ایکسپورٹ میں اضافہ تھا جس میں چاولوں کے غیر ملکی کاروبار میں تقریباً 2 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا ہے۔ اس کے دو اہم سبب تھے، ایک تو ہندوستان نے باسمتی چاول کے سوا، چاول کی دیگر تمام اقسام ایکسپورٹ کرنے پر پابندی عائد کردی تھی تاکہ اس کے ہاں کے عام افراد کو بھی سستا چاول میسر آسکے جس کی وجہ سے عالمی منڈی میں چاول کی قیمت اور طلب میں اضافہ ہوا تھا۔ دوسرا سبب یہ تھا کہ موسموں نے بھی آبادگاروں اور کاشت کاروں کا ساتھ دیا تھا جس کی وجہ سے فصلوں کی ریکارڈ پیداوار ہوئی تھی۔ امسال ہندوستان نے چاول کی ایکسپورٹ پر عائد پابندی ختم کردی ہے جس کی وجہ سے عالمی منڈی میں بھی دام گر گئے ہیں۔ اس برس موسم گزشتہ برس کے مقابلے میں خراب رہا ہے اور کھاد کی قیمتوں میں اضافے اور فصلوں کے نرخ کم ہوجانے کی وجہ سے آبادگاروں نے بھی کھاد اور زرعی ادویہ کا استعمال کم مقدار میں کیا ہے۔ البتہ سبزیوں، پھلوں اور گوشت کی برآمد میں اضافہ ہوا ہے جس کی قیمت ہمارے ہاں کے غریب صارفین ادا کررہے ہیں۔ ایکسپورٹ ہی کی وجہ سے مقامی منڈیوں میں آلو، پیاز اور ٹماٹر مہنگے ہوئے ہیں، اور فروٹ تو غریب اور متوسط طبقے کے افراد محض دیکھ کر ہی دل خوش کرسکتے ہیں۔ گوشت میںگائے کا گوشت ہڈی والا 600 روپے سے بڑھ کر 1200 روپے تک جا پہنچا ہے، اور بغیر ہڈی کا گوشت 1400 روپے سے شروع ہوتا ہے۔ حکومت کا قیمتوں پر کوئی کنٹرول نہ ہونے کی وجہ سے ہر دکان دار اپنی مرضی کا مالک ہے۔ بکرے کا گوشت تو صرف عیدِ قرباں ہی پر کھانے کو مل سکتا ہے اور وہ بھی صرف خوش نصیب افراد کو۔ وطنِ عزیز میں تو اب صورتِ حال یہ ہوچکی ہے کہ بکرے کا گوشت متوسط طبقے کے افراد خریدنے کی استطاعت ہی نہیں رکھتے اور انہیں قصاب سے اس کا ریٹ تک معلوم کرنے کی ہمت نہیں ہوپاتی۔ اس صورت میں انہیں اپنے دل کی تکلیف بڑھنے کا احتمال یا پھر قصاب کے ہاتھوں اپنی بے عزتی کا خطرہ محسوس ہونے لگتا ہے۔ حکومت کا زراعت کے بارے میں 13 ارب ڈالر کا اندازہ بھی اس کے اسٹیبلشمنٹ کے ’’گرین انیشیٹو کمپنی‘‘ کے تخمینوں پر مشتمل ہے جس میں نئی زمینوں کو کارپوریٹ زراعت کے تحت بیرونی ممالک کی مدد سے آباد کیا جائے گا۔ ان زمینوں کو جو بھی پانی ملے گا وہ کسی نہ کسی آبادگار اور صوبے کے جائز حصے میں سے کم ہوگا اور آباد زمینوں کو بھی برباد کرنے کا باعث ہوگا۔ یہ بنیادی طورپر سندھ کے چھوٹے آباد گاروں کو بھی برباد کرنے کا منصوبہ ہے۔ اس کی وجہ سے ماحولیاتی آلودگی میں بھی اضافہ ہوگا۔ اس منصوبے کے سیاسی پہلو بھی ہیں۔ سندھ کے چھوٹے آبادگاروں کی معاشی تباہی کی وجہ سے سیاسی بے چینی اور احتجاج میں بھی اضافہ ہوگا جس کی وجہ سے امن وامان کی صورتِ حال اور زیادہ خراب ہوگی۔ بلوچستان اور کے پی کے میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کے ساتھ ساتھ اگر سندھ میں بھی عوامی سطح پر احتجاج کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوگیا تو حکومت کے لیے صورتِ حال پر قابو پانا بے حد مشکل ہوجائے گا۔ جہاں تک زراعت میں اور زیادہ زرمبادلہ کمانے کا سوال ہے تو وہ زراعت میں ویلیوایڈیشن یا اسے اچھی کوالٹی کے برانڈ میں تبدیل کرکے بھی کمایا جاسکتا ہے۔ میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ جاپان کے جزیرہ ہوکائیڈو کے مختلف گوٹھوں میں کارپوریشن کے بجائے چھوٹے آبادگار باہمی تعاون سے اپنی مقامی پیداوار سے مختلف اشیا تیار کرکے اور انہیں عالمی سطح پر فروخت کرنے کے بعد منافع کماتے ہیں جو آبادگاروں، کوآپریٹو (شراکت داروں) پرخرچ، اور ان کی مزید ترقی کے حصول کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

ہندوستان کا دودھ ’’امول‘‘ شراکت داروں کی امدادِ باہمی اور چھوٹے گوالوں کی مدد سے ٹرین بھر کر ممبئی پہنچتا ہے اور اس کی وجہ سے گجرات کی عورتوں اور آبادگاروں نے غربت سے چھٹکارا حاصل کرلیا ہے۔ لہٰذا یہ ضروری نہیں ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے صوبوں کے مابین اختلافات پیدا کرنے والے اور ماحولیاتی تباہی کا سبب بننے والے اس گرین انیشیٹو پر عمل درآمد کرکے صوبوں کی زمینوں پر قبضے کی وجہ سے ملکی صورتِ حال خراب کی جائے۔

اسی ’’اُڑان پاکستان‘‘ میں بیرونی سرمایہ کاری کو بڑھانے کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔ اس وقت پاکستان میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری چین کی جانب سے کی گئی ہے جس کے کارکنان اور انجینئرز بم دھماکوں کی دہشت گردی کا شکار ہورہے ہیں۔ اس لیے چین کے سفیر اور چینی رہنمائوں نے واضح طریقے سے پاکستان کے حکمرانوں اور اسٹیبلشمنٹ کو بتایا ہے کہ مزید چینی سرمایہ کاری کے لیے ملک میں امن و امان کی صورتِ حال کو بہتر بنایا جائے اور پاکستان کے اندر اس کے پراجیکٹس کو دہشت گردی سے محفوظ رکھا جائے۔ پاکستان کے حکمرانوں اور اسٹیبلشمنٹ نے آپریشن ’’عزمِ استحکام‘‘ کے بڑے بڑے اعلانات تو کیے ہیں لیکن عملاً تاحال اس کے کوئی خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوسکے ہیں۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر کے وفود نے بھی دورے کیے ہیں اور پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے اعلانات بھی کیے ہیں لیکن ہر ایک کی نظر ملک میں تیزی سے بڑھتی ہوئی دہشت گردی، سیاسی ٹکرائو اور احتجاج پر ہے۔ ملک کی بیرونی آمدنی کو بڑھانے کے لیے پاکستان کی صنعتی پیداوار بڑھانے اور اس کی مارکیٹنگ کی ضرورت ہے۔ جولائی تانومبر ملکی ٹیکسٹائل اور گارمنٹس کی ایکسپورٹ میں اضافہ بنگلہ دیش کے سیاسی احتجاج اور اُسے دیے گئے عالمی آرڈرز رد ہونے کی وجہ سے ہوا، اور دسمبر 2024ء سے دوبارہ ایکسپورٹ میں کمی واقع ہونا شروع ہوگئی ہے۔ ہماری ایکسپورٹ کا بڑا مسئلہ پیداواری لاگت ہے۔ دنیا کی مہنگی ترین بجلی ہماری ہے، سامان بننے سے لے کر اس کی ایکسپورٹ تک کا سارا سلسلہ کرپشن اور نااہلی کا شکار ہے، لہٰذا آئندہ چار برس میں ایکسپورٹ کو 60 بلین ڈالر تک لے جانا اُسی وقت ممکن ہوگا جب حکمران اور اسٹیبلشمنٹ بہت ساری چیزوں کو بہتر بنائیں گے۔ انہیں سندھ اور بلوچستان کے جزائر کو بیچنے، ان کی زمینوں، معدنیات اور وسائل پر قبضہ کرنے کے بجائے ملک سے دہشت گردی اور سیاسی ٹکرائو کا خاتمہ کرنا پڑے گا۔ بجلی کے شعبے میں لائن لاسز اور بے تحاشا کرپشن کو ختم کرکے اس حوالے سے نئی پالیسی تشکیل دینی پڑے گی تاکہ بجلی کی قیمت عوام اور صنعت کاروں کے لیے کم کی جاسکے۔ ترقی کے نئے ماڈل کا انتخاب بھی ناگزیر ہوچکا ہے جس میں سارے صوبے، وہاں کے باشندے، سرمایہ کار، آبادگار، مزدور، محنت کش اور متوسط طبقہ ملکی ترقی میں اپنا اپنا کردار ادا کرسکیں۔‘‘