عصرِ حاضر کی چند نعمتیں ایسی ہیں جو شدید نوعیت کی زحمتیں رکھتی ہیں۔سوشل میڈیا نے اِس معاملے میں دیگر تمام معاملات کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
سوشل میڈیا آج کی سب سے بڑی زمینی حقیقت کا درجہ رکھتے ہیں۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں ممکن بنائی جانے والی پیش رفت نے سوشل میڈیا کو جنم دیا ہے۔ ڈیسک ٹاپ پبلشنگ کا تصور آج ہماری زندگی کا ایک نمایاں حصہ ہے کیونکہ اِس سے ہماری زندگی خطرناک حد تک متاثر ہورہی ہے۔
سوشل میڈیا نے ہر فرد کو اپنی مرضی کا مواد پوری دنیا کے سامنے رکھنے یا پیش کرنے کی بھرپور آزادی فراہم کردی ہے۔ اب کوئی بھی شخص اپنے گھر سے ریڈیو اور ٹی وی چینل چلا سکتا ہے، اخبار جاری کرسکتا ہے، جریدہ شایع کرسکتا ہے، ویب سائٹ لانچ کرکے اپنی مرضی کا مواد اپ لوڈ کرسکتا ہے، چھوٹے موٹے خاکے تیار کرکے اپ لوڈ کرسکتا ہے، ڈرامے تیار کرکے اپنی آڈینس کے سامنے رکھ سکتا ہے۔ ڈیسک ٹاپ پبلشنگ نے میڈیا سے متعلق ہر معاملے کوبدل کر رکھ دیا ہے۔ اس کے ذریعےلوگ گھر بیٹھے اچھی خاصی کمائی بھی کررہے ہیں، تاہم بیشتر کا یہ حال ہے کہ وہ صرف بگاڑ پیدا کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔
مغرب نے شخصی آزادی کا تصور دیا اور اُسے پروان بھی چڑھایا۔ شخصی آزادی کا بنیادی تصور ہر مذہب کی تعلیمات اور ہر معاشرے کی بنیادی روایات کا حصہ رہا ہے، تاہم مغرب نے اِس رائی کو پربت بناکر ایک دنیا پر مسلط کردیا ہے۔
شخصی آزادی کے نام پر تمام اخلاقی اقدار کو بالائے طاق رکھتے ہوئے خالص بے لگام زندگی بسر کرنا اور بے حیائی کے سارے کام کھل کر کرنا اب مغربی معاشرے کی انتہائی بنیادی قدر ہے۔ جدید ترین علوم و فنون میں اپنی بے مثل مہارت اور معاشی برتری کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے مغرب نے اپنے سیاسی، معاشی اور معاشرتی نظریات کو بھی باقی دنیا پر تھوپنے میں کبھی دیر نہیں لگائی۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے حوالے سے غیر معمولی پیش رفت نے مغرب کو انتہائی نوعیت کی برتری کا حامل بنادیا ہے۔
جب ڈیسک ٹاپ پبلشنگ نہیں آئی تھی تب بھی مغرب غیر معمولی برتری کا حامل تھا۔ جدید ترین پرنٹنگ اور پبلشنگ میں مغرب کی برتری نے پوری دنیا کو ثقافتی سطح پر خوب متاثر کیا اور کم و بیش ڈھائی سو سال کے دوران یہ برتری باقی دنیا کو اپنی گرفت میں لیے رہی ہے۔
ڈیسک ٹاپ پبلشنگ نے تو گویا ایک بے مثل جن کو بوتل سے باہر نکال دیا ہے۔ ایک دور تھا کہ انسان کو اخبار اور جریدہ شایع کرنے کے لیے غیر معمولی سطح پر افرادی قوت درکار ہوا کرتی تھی اور سرمایہ بھی بڑے پیمانے پر مطلوب رہتا تھا۔ اخبارات و جرائد کی اشاعت بہت بڑے دردِ سر کا درجہ رکھتی تھی۔ دیگر ذرائعِ ابلاغ نہ ہونے کی بدولت اخبارات و جرائد معاشرے پر غیر معمولی اثرات کے حامل ہوتے تھے۔ حکومتیں اُن سے لرزاں و ترساں رہا کرتی تھیں۔ اخبارات میں شایع ہونے والی خبریں اور مضامین حکومتوں کے لیے دردِ سر ہوا کرتے تھے۔ تب میڈیا مالکان واقعی بادشاہ گر کا سا درجہ رکھتے تھے۔
وہ زمانہ تو کب کا جاچکا۔ اب معاملہ یہ ہے کہ کل تک عوام تک کوئی بات پہنچانا میڈیا مالکان کی مرضی کا معاملہ ہوا کرتا تھا۔ اب اپنی جگہ ہر شخص میڈیا مالک ہے۔ ڈیسک ٹاپ پبلشنگ نے معاملات کو انوکھی شکل دینے کے ساتھ ساتھ بے لگام بھی کردیا ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے چونکہ کوئی بھی شخص کچھ بھی اپ لوڈ کرسکتا ہے، اس لیے بے لگامی کا عنصر بھی انتہائی طاقتور ہوچکا ہے۔ کچھ بھی اپ لوڈ کرنے کی آزادی نے عجیب گل کھلائے ہیں۔ لوگ اپنی مرضی سے کوئی بھی چیز تیار کرتے ہیں اور دنیا کے سامنے رکھ دیتے ہیں۔ اس رجحان نے نئی نسل کو غیر معمولی مہارت سے بھی ہم کنار کیا ہے۔ نوجوان سوچنے بھی لگے ہیں۔ ہاں، سوچ میں کجی زیادہ ہے۔ وڈیوز، آڈیوز، میمز اور دیگر مواد اِتنے بڑے پیمانے پر تیار اور پیش کیا جارہا ہے کہ روکنا کسی بھی حکومت کے بس کی بات نہیں۔ کوئی حکومت انٹرنیٹ پر یا مخصوص ویب سائٹس پر پابندی تو عائد کرسکتی ہے لیکن مواد کی تیاری نہیں روک سکتی۔ انٹرنیٹ بند کرنا کسی بھی حکومت کے لیے انتہائی نوعیت کا اقدام ہے کیونکہ زندگی کا ہر معاملہ انٹرنیٹ سے جُڑا ہوا ہے۔ اِسے بند کرنے کا مطلب ہے معاشرے کو اور معیشت کو ساکت کردینا، حکومت کے ہاتھ پاؤں باندھ دینا۔ انٹرنیٹ کے ذریعے ہر انسان، ہر گروپ، ہر حکومت اور ہر ادارہ باقی دنیا سے رابطے میں رہتا ہے۔ انٹرنیٹ کی بندش کسی بھی اعتبار سے مکمل طور پر فائدے کا سَودا نہیں۔
سوشل میڈیا کا جن بوتل سے باہر آچکا ہے اور اِسے بوتل میں دوبارہ بند کرنا ممکن نہیں، مگر ہاں اِسے کسی حد تک قابو میں کرنے کی کوشش کی جاسکتی ہے اور کی جانی چاہیے۔ دنیا بھر میں حکومتیں سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنے کی کوششیں کررہی ہیں اور اس حوالے سے مختلف طریقے اختیار کررہی ہیں۔ اُنہیں اندازہ ہے کہ سوشل میڈیا کے سیلاب کے آگے بند باندھنا آسان کام نہیں، اس لیے اس حوالے سے حکمتِ عملی تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ ہمارے ہاں کسی بھی علاقے میں احتجاج وغیرہ کو کنٹرول کرنے کے لیے کنٹینرز لگاکر اُس علاقے یا علاقوں کو بند کرنے کا رجحان انتہائی شکل میں موجود ہے، مگر ایسے اقدامات سوشل میڈیا کے لیے اختیار نہیں کیے جاسکتے۔ سائبر اسپیس کی اپنی اہمیت ہے جسے کسی بھی طور نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ سائبر اسپیس کو بند کرکے مسائل حل نہیں کیے جاسکتے۔ سوال ضابطوں کی تیاری اور اُن کے ذریعے معاملات کو کنٹرول کرنے کا ہے۔ جتنے بھی ضابطے تیار کیے جائیں اُن کا اطلاق بھی معقولیت کے ساتھ ہونا چاہیے۔
سوشل میڈیا کے معاملات میں سب سے بڑی قباحت یہ ہے کہ لوگ اختلافِ رائے کرتے کرتے اہانت کی منزل تک پہنچنے میں دیر نہیں لگاتے۔ سوشل میڈیا پر جو کچھ بھی اپ لوڈ کیا جاتا ہے اُسے ڈیلیٹ اور ایڈٹ بھی کیا جاسکتا ہے مگر کسی متنازع معاملے میں ایسا کرنے تک بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے، نقصان پہنچ چکا ہوتا ہے۔ سوشل میڈیا کی رسائی چونکہ بہت زیادہ ہے اس لیے اِس پر اپ لوڈ کیا جانے والا منفی یا گمراہ کن مواد بہت تیزی سے اپنے اثرات مرتب کرتا ہے، اور جب تک اصلاحِ احوال کے حوالے سے کچھ کیا جاتا ہے تب تک بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے اور اِتنا بگاڑ پیدا ہوچکا ہوتا ہے کہ خاصی کوشش کرنے پر بھی معاملات درست نہیں ہوپاتے۔
سوشل میڈیا کے ذریعے شر انگیزی روکنے کے لیے دنیا بھر میں حکومتیں حکمتِ عملی اپناتی اور تبدیل کرتی رہتی ہیں۔ یہ سب کچھ اب ناگزیر ہوچکا ہے۔ حالات اچانک بدل جاتے ہیں بلکہ بیشتر اوقات پلٹا کھا جاتے ہیں۔ اچانک ایسی صورتِ حال پیدا ہوجاتی ہے کہ کسی کی سمجھ میں فوری طور پر کچھ نہیں آتا کہ کریں تو کیا کریں! ایسے میں جامع حکمتِ عملی تیار کرنا لازم ہے تاکہ اچانک ابھرنے والی کسی بھی صورتِ حال کا سامنا ڈھنگ سے کیا جاسکے۔
پاکستان میں بھی سوشل میڈیا کے معاملات انتہائی خطرناک شکل اختیار کرچکے ہیں۔ ایک طرف تو انفرادی نوعیت کا مواد ہے اور دوسری طرف اجتماعی سطح کا مواد۔ کسی کو اپنے ’’نظریات‘‘ پیش کرنے کا شوق ہے اور کوئی حکومت کو راہ دکھانے پر تُلا رہتا ہے۔ کوئی اپنے مذہب یا مسلک کو بالکل درست ثابت کرنے کی خاطر دوسروں کی تذلیل پر کمربستہ دکھائی دیتا ہے، اور کسی کو سیاست کے حوالے سے اپنی ’’بصیرت‘‘ پر ناز ہے۔ کوئی ذاتی ذوق و شوق کی دکان کھولے بیٹھا ہے، تو کوئی کسی کی طرف سے دیے جانے والے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے میدان میں آیا ہوا ہے۔
زیادہ سے زیادہ hits اور likes کے لیے لوگ کچھ بھی کر گزرنے کو تیار رہتے ہیں۔ اور پھر followers کی تعداد بڑھانے کی دوڑ بھی لگی ہوئی ہے۔ اپنے اپنے یوٹیوب اور انسٹاگرام چینلز کو جلد از جلد مانیٹائز کرانے کے لیے لوگ دن رات زیادہ سے زیادہ اور متنازع مواد اپ لوڈ کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔ کسی چیز کی بھرپور خرابی کے بارے میں اچھی طرح باخبر ہونے کے باوجود لوگ صرف شہرت اور دولت کے چکر میں کسی بھی حد سے گزرنے کو بے تاب رہتے ہیں۔
اِس وقت باقی دنیا کی طرح پاکستان میں بھی سوشل میڈیا نے ایک قیامت سی برپا کر رکھی ہے۔ جدید ترین ٹیکنالوجیز بنیادی طور پر اس لیے ہوتی ہیں کہ لوگ زندگی آسانی سے بسر کریں، کاروباری سرگرمیوں میں آسانی پیدا ہو، روزمرہ معاملات کسی دشواری کے بغیر نپٹائے جاسکیں۔ مگر دنیا بھر میں ٹیکنالوجیکل پیش رفت لوگوں کے لیے دردِسر بنتی جارہی ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے بہت سے معاملات میں معلومات بھی حاصل کی جاسکتی ہیں، لوگوں کی راہ نمائی بھی کی جاسکتی ہے، اور ایسا ہو بھی رہا ہے۔ مگر منفی معاملات بہت زیادہ ہیں۔ معاشرے کو گمراہ کرنے والا مواد زیادہ اپ لوڈ کیا جارہا ہے۔ حکومتیں پریشان ہیں کیونکہ ایجنڈے کے تحت اُن کے خلاف بہت کچھ لکھا اور بَکا جارہا ہے۔ یوٹیوبرز کو حکومتیں بھی اپنے لیے استعمال کررہی ہیں اور وہ حکومتوں کے خلاف بھی استعمال ہورہے ہیں۔ سوشل میڈیا پورٹلز کے ذریعے سیاسی جماعتیں اپنے اپنے ایجنڈے کے تحت اس طور کام کررہی ہیں کہ ایک دوڑ سی لگی ہوئی ہے، ایک جنگ سی ہورہی ہے۔ سائبر اسپیس کو میدانِ جنگ میں تبدیل کیا جاچکا ہے۔
پاکستان ہو یا اور کوئی ملک، سوشل میڈیا کے ذریعے حکومتوں کی کھال اتارتے اتارتے لوگ ریاستی اداروں کے بھی لتے لینے لگتے ہیں۔ یہ ہے بنیادی مسئلہ۔ حکومت پر تنقید اور ریاست پر تنقید میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ اب سائبر اسپیس کی لڑائی بین الریاستی ہوچکی ہے۔ سیاسی، معاشی، معاشرتی اور مذہبی نظریات کی بنیاد پر ریاستیں اپنی اپنی سوشل میڈیا ٹیموں کے ذریعے سائبر اسپیس میں جنگ لڑرہی ہیں۔ ریاستیں اپنے اپنے معاملات کو درست ثابت کرنے کے لیے سوشل میڈیا سے بھرپور مدد لے رہی ہیں۔ اندرونی سطح پر سیاسی جماعتیں سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے اپنے بیانیے کو زیادہ سے زیادہ پھیلا رہی ہیں۔
سوشل میڈیا کی رسائی چونکہ فوری ہے اور عام آدمی تک ہے اس لیے اِس کے ذریعے بدگمانی اور غلط بیانی کو پھیلانا اور معاشرے پر منفی اثرات مرتب کرنا بہت آسان ہے۔ پاکستان جیسے ممالک میں لازم ہوچکا ہے کہ سوشل میڈیا کے ذریعے معاشرے کو غلط بیانی اور بدگمانیوں کی دلدل میں دھکیلنے والوں کو لگام دی جائے۔