اہلِ غزہ کی دہشت… اسرائیلی فوج میں خودکشی کا رجحان بڑھ گیا

جاتے جاتے صدر بائیڈن کی جانب سے اسرائیل کو مہلک اسلحے کا تحفہ

تعطل کے بعد 3 جنوری سے قطر میں امن مذاکرات کا دوبارہ آغاز ہوگیا۔ پہلا دور مکمل ہونے پر اسرائیلی وفد نے وزیراعظم نیتن یاہو کو بتایا کہ دوسرے فریق کا رویہ غیرلچک دار ہے، مزاحمت کار عارضی فائر بندی پر راضی نہیں اور وہ پائیدار جنگ بندی کے ساتھ اسرائیلی فوج کے انخلا پر اصرار کررہے ہیں۔ امریکی آن لائن خبر رساں ایجنسی Axiosکے مطابق معاہدے پر اتفاق کے لیے مزاحمت کار مصر اور قطر کی جانب سے شدید دبائو میں ہیں۔ یہ دراصل نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی دھمکی کا اثر ہے۔ جناب ٹرمپ نے سالِ نو کے پیغام میں کہا تھا ’’بہتر ہے کہ وہ (اہلِ غزہ) یرغمالیوں کو جلد رہا کردیں، 20 جنوری تک قیدی رہا نہ ہوئے تو بہت برا ہوگا‘‘۔ واشنگٹن مزاحمت کاروں سے براہِ راست رابطے میں نہیں، اس لیے قطری اور مصری حکام کے ذریعے دھمکایا جارہا ہے۔ اہلِ غزہ کو انجامِ بد سے ڈرانے کے ساتھ اسرائیل کو اسلحے کی فراہمی بھی تیز کردی گئی ہے۔ اِس ہفتے صدر بائیڈن نے 8 ارب ڈالر مالیت کا مزید اسلحہ اسرائیل بھیجنے کا حکم، توثیق کے لیے کانگریس کو بھیج دیا۔ بکتربند گاڑیاں، فوجی ہیلی کاپٹر، توپ کے گولے، بمبار طیارے، فضا سے فضا میں مار کرنے والے میزائل، اسلحہ بردار ڈرون اور 500پائونڈ کے بم اس فہرست میں شامل ہیں۔

غزہ شدید سردی کی لپیٹ میں ہے، اس بار موسم سرما کی بارش میں شدت بھی کچھ زیادہ تھی۔ گفتگو کا آغاز بیس روز کے جمعہ بطران سے، جس نے 29 دسمبر کو اپنی والدہ کی شفیق بانہوں میں دم توڑدیا۔ بارش کی وجہ سے ننھے بطران اور اس کی ماں کے کپڑے گیلے اورخیمہ گرچکا تھا۔ خاتون اپنے بچے کو سینے سے لگائے یخ بونداباندی کے دوران کھلے آسمان تلے ٹہلتی رہی کہ شاید مامتا کی حرارت بچے کو ٹھٹھرنے سے بچا لے۔ بدنصیب خاتون کا کہنا ہے کہ تھوڑی دیر بعد مجھے ایسا لگا جیسے کسی نے میرے سینے پر برف کی کوئی ڈلی رکھ دی ہے، یہ میرے بچے کا سر تھا۔ جمعہ کا برف کی طرح ٹھنڈا جسم سر سے پیر تک نیلا تھا۔ یہ غزہ میں ایک ہفتے کے دوران ٹھٹھر کر جان سے گزرنے والا چھٹا بچہ ہے۔

28 دسمبر کو ہونے والی طوفانی بارش سے خیمے گرگئے اور سارا سامان کیچڑ میں ڈوب گیا۔ سخت پابندیوں کی وجہ سے امدادی سامان کی تقسیم ضرورت سے پہلے ہی بہت کم تھی، اب راستے دلدل بن جانے کی وجہ سے رہی سہی امداد معطل ہوچکی ہے۔ لاکھوں لوگ گیلی زمین پر 10 ڈگری سینٹی گریڈ(50F) درجہ حرارت میں کھلے آسمان تلے بیٹھے ہیں۔ ہر طرف کیچڑ اور پانی ہے۔ کمبل، جیکٹ اور سوئیٹر بھیگ کر ناقابلِ استعمال ہوچکے ہیں۔ اس صورتِ حال پر اہلِ غزہ دنیا کی بے حسی کا کیا شکوہ کریں کہ جشنِِ سال نو پر کراچی کے گورنر ہائوس میں آتش بازی کا عالمی ریکارڈ قائم ہوا، اور ریاض و دبئی سے اسلام آباد و لاہور تک ہر جگہ یہی حال رہا۔

تاہم مختلف مقامات پر یکجہتی کے مظاہرے بھی ہوئے۔ اسلام آباد میں حافظ نعیم الرحمان نے غزہ ملین مارچ کی قیادت کی۔ استنبول میں لاکھوں لوگ اہلِ غزہ کی حمایت میں سڑکوں پر نکلے۔ نیویارک کے مشہورِ زمانہ ٹائمز اسکوائر پر غزہ نسل کُشی کے خلاف مظاہرہ ہوا۔ ہسپانوی جزائر کنیری (Canary Islands) میں فٹبال اسٹیڈیم کے باہر مظاہرہ ہوا اور لوگوں نے اسرائیلی پرچم کو آگ لگادی۔ پہلی بار اسرائیل میں بھی غزہ خونریزی کو نسل کُشی کہاگیا۔ تل ابیب کے فوجی ہیڈکوارٹر پر مظاہرے میں شرکا ’’غزہ میں نسل کُشی بند کرو‘‘ کے پلے کارڈ لیے کھڑے تھے۔ حاضری ایک درجن سے بھی کم تھی لیکن مٹھی بھر سلیم الفطرت اسرائیلیوں کی جرات قابلِ تحسین ہے۔

دنیا بھر میں نسل کشی کے ذمہ داروں کا تعاقب جاری ہے۔ ایک ماہ قبل بیلجیم میں اسرائیل کے عسکری اتاشی موسیٰ تیترو (Moshe Tetro)کے خلاف جنگی جرائم کی شکایت کردی گئی تھی جس کی تحقیقات جاری ہیں۔ اب خبر ہے کہ تعطیل پر برازیل آنے والے ایک اسرائیلی فوجی کے خلاف وفاقی عدالت نے جنگی جرائم کی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔ عدالت نے یہ حکم جنگی جرائم کے مرتکبین کا پیچھا کرنے والی تنظیم ہند رجب فائونڈیشن کی درخواست پر کیا۔ فائونڈیشن نے ایسی ہی دُہائی سری لنکا کی عدالت کو بھی دی ہے جہاں مبینہ طور پر غزہ میں ڈیوٹی دینے والے سپاہی چھٹیاں گزارنے آئے ہیں۔ (حوالہ: Metrópoles برازیل)

سالِ نو کے آغاز پر مزاحمت کاروں نے طاقت کا مظاہرہ کیا اور غزہ کی سرحد سے جڑے قصبے نیتیقّوت (Netivot)پر دو میزائل داغ دیے۔ کوئی نقصان تو نہ ہوا کہ امریکی دفاعی نظام نے دونوں میزائل غیر مؤثر کردیے، لیکن بدحواسی اور پناہ گاہوں کی طرف دوڑ لگاتے ہوئے کئی افراد زخمی ہوگئے۔ تین دن پہلے صحرائے نقب (Negev)میں سیدروت (Sderot) کی طرف 5 میزائل پھینکے گئے۔ یہ تمام میزائل بھی امریکی آئرن ڈوم نے غیر مؤثر کردیے۔ وسطی غزہ میں اسرائیلی ہیلی کاپٹر پر Shoulder launched طیارہ شکن میزائلوں سے حملہ کیا گیا۔ جدید دفاعی نظام نے میزائلوں کو ہیلی کاپٹر تک پہنچنے سے پہلے ہی تباہ کردیا، لیکن طیارہ شکن اسلحے کے استعمال سے اسرائیل میں پریشانی کی لہردوڑ گئی ہے۔

طیارہ شکن میزائل سے اپنی فوج کا خوف دور کرنے کے لیے البریح، جبالیہ، المواصی اور بیت حنون پر شدید بمباری کی گئی جس سے سیکڑوں عورتیں اور بچے جاں بحق ہوئے۔ اسرائیلی فضائیہ کے ایک اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ دسمبر کے مہینے میں غزہ پر1400 فضائی حملے کیے گئے۔ یعنی 21 کلومیٹر لمبی اور 8 کلومیٹر چوڑی پٹی پر ہر تیس منٹ میں ایک حملہ ہوا۔ اس ماہ اسرائیلی فوج کا خاص ہدف غزہ کے بچے کھچے اسپتال تھے۔ کمال عدوان، الاہلی اور وفا اسپتالوں پر متعدد بار بمباری کی گئی۔ کمال عدوان اسپتال سے بے دخل کیے جانے والے مریضوں کو اسپتال کے ملبے پر بٹھاکر فلمبندی کی گئی اور یہ منظر قومی نشریاتی رابطے پر اسرائیل بھر میں دکھایا گیا، جس کے ساتھ وزیردفاع کا یہ انتباہ نشر ہورہا تھا کہ اگر قیدی رہا نہ ہوئے توغزہ کا حشر اس سے بھی برا ہوگا۔ طبی مراکز پر اسرائیلی حملوں کی مذمت کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے کہا کہ اسپتالوں اور ان کے اردگرد اسرائیلی حملوں نے غزہ کے صحتِ عامہ کے نظام کو ’’مکمل تباہی کے دہانے‘‘ پر پہنچا دیا ہے۔ یہ کارروائی جنگی اور انسانیت کے خلاف جرائم کے مترادف ہے۔ رپورٹ میں حملے کے نئے رجحان کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اسرائیلی افواج نے اسپتالوں کا محاصرہ کرکے انھیں زبردستی خالی کرایا، جس کے نتیجے میں مریض مر گئے یا مارے گئے۔

صرف عالمی ادارے ہی نہیں، غزہ میں اسرائیلی فوج کی وحشیانہ کارروائی پر خود ان کے اپنے تحقیقاتی ادارے انگلیاں اٹھا رہے ہیں۔ فوج کی ایڈووکیٹ جنرل، میجر جنرل عفت تومر یروشالمی (Yifat Tomer-Yerushalmi نے جنوبی کمان کے سربراہ میجر جنرل ہارون فنکلمین (Yaron Finkelman)کے نام ایک خط میں کہا ہے کہ بمباری اور دوسری مہلک کارروائی سے پہلے شہری آبادی کے حجم کا درست اندازہ لگانے کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جارہی۔ ایک مثال دیتے ہوئے میجر جنرل صاحبہ لکھتی ہیں ’’آپریشن سے پہلے فوج نے تخمینہ لگایاکہ بیت لہیہ(شمالی غزہ) کے علاقے میں 3000 شہری ہیں جبکہ اصل تعداد 14000 تھی۔‘‘

طاقت اور ظلم و جبر کے مقابلے میں اہلِ غزہ کے پُرعزم صبر سے اسرائیلی فوج دبائو میں نظر آرہی ہے۔ سپاہیوں میں خودکشی کا رجحان بڑھ گیا ہے۔ ٹائمز آف اسرائیل میں شایع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق 7 اکتوبر 2023ء کے بعد سے 7 اکتوبر2024ء تک 28 اسرائیلی فوجیوں نے خودکشی کرلی۔ غزہ حملے سے پہلے فوجیوں میں خودکشی کی وارداتیں اوسطاً 10 سالانہ تھیں۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوجیوں کو لمبی اور دوبدو جنگ کا تجریہ نہیں۔ ان کا دار و مدار فضائیہ پر ہے اور اس باب میں امریکی ٹیکنالوجی ناقابلِ تسخیر سمجھی جاتی ہے، لیکن اِس بار اسرائیلی فوجی ڈھائی سو دنوں سے غزہ کی دلدل میں ہیں۔ فوجی حکام نے بتایا کہ reserveدستوں سے وابستہ ہزاروں فوجیوں نے شدید دماغی دبائو کی بنا پر غزہ جانے سے انکار کردیا ہے۔

یمن سے بھی میزائل حملوں کا سلسلہ جاری ہے۔ اسرائیل کے ساتھ امریکہ اور ان کے یورپی حریف یمن کے مختلف علاقوں پر تقریباً ہرروز ہی حملے کررہے ہیں، لیکن اس سے یمنیوں کی عسکری صلاحیت متاثر ہوتی نظر آرہی ہے نہ ہی فلسطینیوں کی حمایت میں کسی کمی کا کوئی شائبہ ظاہر ہوتا ہے۔ میزائل و ڈرون حملوں سے اب تک کوئی بڑا نقصان تو نہیں ہوا لیکن 70لاکھ اسرائیلیوں کی زندگی اجیرن ہوگئی ہے۔ حملوں کے لیے رات کے تیسرے پہر کا انتخاب کیا جارہا ہے جب سائرن کے شور سے پورے وسطی اسرائیل میں دہشت پھیل جاتی ہے۔ اکثر لوگ سوتے وقت بھی گرم کپڑے پہنے رہتے ہیں کہ کیا خبر سرد رات میں کس وقت دوڑ لگانی پڑجائے۔ اسرائیلی وزارتِ صحت کا کہنا ہے کہ خوف اور گہری نیند میں بار بار اٹھنے سے بچوں اور نوجوانوں میں بے خوابی کی شکایات بڑھ گئی ہیں۔

عام لوگوں کے ساتھ وزرا اور حکومتی اہلکار بھی خوف کا شکار ہیں۔ گزشتہ ہفتے خفیہ ایجنسی شاباک (Shin Bet)نے تفصیلی جائزے کے بعد کہا کہ کنیسہ(پارلیمان)، عدالتوں اور سرکاری عمارتوں پر حملوں کا خطرہ مزید بڑھ گیا ہے، لہٰذا وزیراعظم نیتن یاہو کے خلاف کرپشن کے مقدمے کی کارروائی زیرزمین محفوظ ’’نامعلوم‘‘ مقام پر ہی جاری رہنی چاہیے۔ کچھ حلقے اعتراض کررہے ہیں کہ خفیہ مقام پر سماعت کی وجہ سے کارروائی کی شفافیت متاثر ہورہی ہے۔

غزہ اور غربِ اردن کے ساتھ شام و لبنان میں بھی اسرائیلی جارحیت عروج پر ہے۔ گزشتہ ہفتے اسرائیلی فوج جنوبی شام میں قنیطرہ صوبے کے شہر مدینہ السلام میں داخل ہوگئی اور چھاپہ مار دستے نے سرکاری عمارتوں کی تلاشی لی۔ صنعتی شہر عذرا پر اسرائیل کی بمباری سے متعدد افراد جاں بحق ہوئے۔ اس کے علاوہ اسرائیلی طیاروں نے دمشق کے مضافاتی علاقے پر بھی بم برسائے۔ دوسری طرف جنوبی لبنان کے شہر عتیرون میں سیکڑوں رہائشی مکانات کو آگ لگادی گئی اور عیتالشعب میں بمباری سے مکانات تباہ کردیے گئے۔

آخر میں غزہ کے ایک نوشتۂ دیوار کا ذکر: منہدم عمارتوں کے ملبے اور ڈھانچہ بنی ایک کار پر کسی باہمت شخص نے لکھ دیا ’’ہمارے لیے جنت میں ایسے مکانات ہیں جو کبھی تباہ نہیں ہوں گے‘‘۔

آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر Masood@MasoodAbdaliپربھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔