بھارت میں مسلمانوں پر ظلم و تشدد کی المناک داستان علی گڑھ میں تاریخی جامع مسجد پر قبضے کی کوشش
بھارت جو کہ خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلاتا ہے، آج ہندوتوا کے نظریے کی لپیٹ میں آچکا ہے۔ مودی حکومت کے قیام کے بعد اقلیتوں، بالخصوص مسلمانوں کے خلاف ظلم و ستم کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے۔ ہندوتوا کے نظریے.. جسے ونایک دامودر ساورکر نے پیش کیا تھا.. کا مقصد بھارت کو صرف ہندوؤں کی ریاست بنانا ہے۔ اس نظریے نے مودی حکومت کے زیرِ سایہ بھارتی سیاست کو ایک نئے انتہا پسندانہ موڑ پر پہنچا دیا ہے۔
نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی حکومت ہندوتوا نظریے کو فروغ دے کر ایک ایسے بھارت کی تشکیل کی راہ پر گامزن ہے جہاں مسلمانوں کو ان کے مذہبی حقوق سے محروم کیا جارہا ہے، اور یہ سب ”قانونی“ کارروائیوں کے پردے میں ہورہا ہے۔
ہندوتوا نظریے کے تحت مسلمانوں کو بھارت کی تاریخ اور ثقافت کا حصہ ماننے کے بجائے ان کے وجود کو ہی مشکوک قرار دے دیا گیا۔ 2014ء میں مودی حکومت کے قیام کے بعد یہ نظریہ محض خیالات تک محدود نہ رہا بلکہ اسے عملی جامہ پہنایا جانے لگا۔ مسلمانوں کو سماجی، معاشی، اور مذہبی طور پر نشانہ بنانے کے لیے منظم مہمات شروع ہوئیں، جن میں انتہا پسند ہندو تنظیمیں جیسے آر ایس ایس، بجرنگ دل، اور ہندو سینا پیش پیش ہیں۔
بھارتی عدالتی نظام اور انتظامیہ کے گٹھ جوڑ کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ دہلی کی جامع مسجد اور علی گڑھ کی تاریخی جامع مسجد جیسے اہم مذہبی مقامات کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ حال ہی میں علی گڑھ کی جامع مسجد کے خلاف عدالت میں ایک درخواست دائر کی گئی، جس میں دعویٰ کیا گیا کہ یہ مسجد دراصل ہندو قلعہ تھی اور اس پر مسلمانوں نے ”ناجائز قبضہ“ کررکھا ہے۔ یہ درخواست تاریخی حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کی ایک خطرناک مثال ہے، کیونکہ یہ مسجد 1724ء میں مغل شہنشاہ محمد شاہ کے دور میں تعمیر کی گئی تھی اور 1728ء میں مکمل ہوئی۔
بھارتی سپریم کورٹ نے مذہبی مقامات کی حیثیت کو تبدیل کرنے پر پابندی عائد کررکھی ہے، لیکن اس کے باوجود ہندو تنظیمیں اور انتہاپسند گروہ مسلسل مساجد کے خلاف جھوٹے دعوے کررہے ہیں۔ علی گڑھ کی جامع مسجد کے بعد اب دہلی کی جامع مسجد کے سروے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ ہندو سینا کے رہنماؤں نے دعویٰ کیا ہے کہ جامع مسجد دہلی کے نیچے ہندو مندروں کی باقیات دفن ہیں، اور ان کی بازیابی کے لیے مسجد کی جگہ کو مندر میں تبدیل کیا جانا چاہیے۔
مودی حکومت کے دور میں گاؤ رکھشا (گائے کی حفاظت) کے نام پر مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے متعدد واقعات سامنے آئے۔ ماضی میں یعنی 2015ء میں دادری کے محمد اخلاق کو گائے کا گوشت رکھنے کے شبہ میں ہجوم نے قتل کردیا تھا، 2017ء میں راجستھان کے پہلو خان اور جھاڑکھنڈ کے علیم الدین انصاری کو گائے کے کاروبار کے شبہ میں ہجوم نے بے دردی سے قتل کیا تھا۔
2020ء کے دہلی فسادات میں مسلمانوں کو بڑے پیمانے پر نشانہ بنایا گیا۔ ان کے گھروں، دکانوں، اور مساجد کو نذرِ آتش کیا گیا، اور 53 افراد ہلاک ہوئے، جن میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ 2023ء کے ہریانہ فسادات میں نوح ضلع میں مسلمانوں کی بستیاں نشانہ بنیں، جہاں مسلمانوں کو بے دخل کرکے ان کے مکانات مسمار کردیے گئے۔
مودی حکومت کے دور میں ہندوتوا نظریہ ایک سیاسی ایجنڈا بن چکا ہے۔ مساجد کو نشانہ بنانے کو دیکھا جائے تو بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر سے لے کر تلنگانہ میں 400 سال قدیم مسجد کی مسماری تک، یہ اقدامات بھارتی جمہوریت کے دعووں کی قلعی کھولتے ہیں۔ 1992ء میں ایودھیا میں واقع 16ویں صدی کی بابری مسجد کو ہندو انتہاپسندوں نے شہید کردیا، جن کا دعویٰ تھا کہ یہ مسجد بھگوان رام کی جنم بھومی پر تعمیر کی گئی تھی۔ اس واقعے کے بعد فسادات میں ہزاروں افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اسی طرح اکتوبر 2021ء میں بنگلہ دیش سے متصل ریاست تریپورہ میں مسلم مخالف تشدد کے دوران متعدد مساجد پر حملے کیے گئے اور انہیں نقصان پہنچایا گیا۔ مسلمانوں کی املاک کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ بنارس کی گیان واپی مسجد کے بارے میں 2021ء سے یہاں کے ہندو گروپ دعویٰ کررہے ہیں کہ یہ مندر کی جگہ پر تعمیر کی گئی ہے۔
ایک اور واقعے میں مارچ 2019ء میں تلنگانہ کے دارالحکومت حیدرآباد میں انتظامیہ نے سڑک کی توسیع کے نام پر 400 سال قدیم مسجد کو شہید کردیا تھا۔ نومبر 2024ء میں اترپردیش کے شہر سنبھل میں جامع مسجد کے سروے کے موقع پر ہونے والے تصادم میں کم از کم 4 افراد ہلاک ہوئے۔ یہ فسا دیا خود ساختہ تنازع اس دعوے کے بعد شروع ہوا کہ مسجد ایک مندر کی جگہ پر تعمیر کی گئی تھی۔
مساجد کو مسمار کرنے کی دھمکیاں تسلسل سے جاری ہیں۔ ستمبر 2024ء میں بی جے پی کے وزیر گری راج سنگھ نے دھمکی دی کہ بھارت میں موجود تین لاکھ سے زائد غیر قانونی مساجد کو اگر گرانا پڑا تو وہ ایسا ضرور کریں گے، انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ قبر کے لیے اگر تین ہاتھ زمین چاہیے تو گانا ہوگا ”وندے ماترم“۔ اہم بات یہ ہے کہ اس موقع پر اسٹیج پر بی جے پی کے صدر امت شاہ موجود تھے۔
پھر ابھی دسمبر 2024ء میں اتر پردیش کے فتح پور ضلع میں 185 سال پرانی مسجد کے بڑے حصے کو انتظامیہ نے منہدم کردیا، جبکہ دو دن بعد عدالت میں اس معاملے کی سماعت ہونی تھی۔
یہ واقعات بھارت میں مساجد پر حملوں اور ان کی مسماری کی تاریخ کی چند مثالیں ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ 1947ء سے ہندوستان کے مسلمان ہندو ریاست کے نشانے پر ہیں۔
مودی حکومت کے دوران اقلیتوں کی فلاح و بہبود کے لیے بنائی گئی اسکیموں کے فنڈز میں کمی کی گئی یا انہیں مکمل طور پر ختم کردیا گیا۔ مسلمانوں کو روزگار کے مواقع سے محروم کرکے ان کے معاشی حالات مزید خراب کیے جارہے ہیں۔ حجاب پر پابندی اور مسلم خواتین کو نشانہ بنایا جارہا ہے، کرناٹک میں 2022ء میں حجاب پر پابندی کا نفاذ ایک واضح مثال ہے کہ کس طرح مسلمانوں کی مذہبی آزادی کو محدود کیا جارہا ہے۔ آن لائن پلیٹ فارمز جیسے ”سُلی ڈیلز“ اور ”بُلی بائی“ کے ذریعے مسلم خواتین کو ہراساں کرنا عام ہوچکا ہے۔ اسی طرح 2019ء میں نافذ کیے گئے شہریت ترمیمی قانون کے تحت مسلمانوں کو شہریت کے حق سے محروم کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس قانون کے خلاف ملک بھر میں مظاہرے ہوئے، جنہیں ختم کرنے کے لیے دہلی فسادات جیسے واقعات کا سہارا لیا گیا تھا۔
برصغیر کی تاریخ ایک تلخ حقیقت سے عبارت ہے۔ اقلیتوں، خاص طور پر مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک اور ان کے خلاف بھارت میں جاری حالات اس حقیقت کو مزید تقویت دیتے ہیں کہ 1947ء میں برصغیر میں دو قومی نظریے کی بنیاد پر پاکستان کا قیام ضروری تھا۔ مسلمانوں کے ساتھ روا رکھا جانے والا امتیازی سلوک اور ان کے حقوق کی پامالی بھارتی سماج کی اس تاریخی حقیقت کا تسلسل ہے جس میں اقلیتوں کو دوسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا ہے۔ بی جے پی کے رہنما اور ہندوتوا تنظیمیں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر کرتی ہیں۔ مسلمانوں کو ”لو جہاد“ اور ”زمین جہاد“ جیسے جھوٹے الزامات کے ذریعے نشانہ بنایا جاتا ہے۔
مودی حکومت کے دور میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم نے نہ صرف بھارت کے سیکولر آئین کو پامال کیا بلکہ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا ایک نیا باب کھولا۔ ان مظالم کے نتیجے میں بھارت میں اقلیتوں کے لیے زندگی ناقابلِ برداشت بن گئی ہے۔
اقوام متحدہ، امریکہ اور دیگر عالمی تنظیمیں بھارت میں اقلیتوں پر ہونے والے مظالم پر کبھی کبھی تشویش کا اظہار تو کرتی ہیں، لیکن عملی اقدامات کا فقدان واضح ہے۔
بھارت میں مسلمانوں کے خلاف جاری مظالم پر پاکستان سمیت پوری مسلم دنیا کو بھرپور آواز اٹھانی چاہیے۔ بھارتی حکومت کی مسلم دشمن پالیسیوں کے خلاف عالمی فورمز پر مقدمہ دائر کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ مسلمانوں کے خلاف جاری مظالم اور ان کے مذہبی مقامات کو نشانہ بنانے کے واقعات اس بات کا ثبوت ہیں کہ ہندوتوا نظریہ جمہوریت، سیکولرزم اور انسانی حقوق کے تمام اصولوں کی نفی کرتا ہے۔ اگر عالمی برادری نے اس پر فوری توجہ نہ دی تو یہ نہ صرف بھارت کے اندر مذہبی ہم آہنگی کو مزید بگاڑ دے گا بلکہ خطے میں کشیدگی کو بھی بڑھا دے گا۔ یہ وقت ہے کہ عالمی طاقتیں اور ادارے بھارت کو اس انتہاپسندانہ راستے سے روکنے کے لیے عملی اقدامات کریں جس کے امکانات کم ہیں۔