گروہ کے بجائے افراد کی حاکمیت کے دور کا آغاز
برطانیہ میں جاری حالیہ سیاسی مہم جوئی ایک نیا رخ اختیار کرنے جارہی ہے اور اس کا سبب برطانیہ کی اندرونی سیاست نہیں بلکہ بیرونِ ملک سے برطانیہ کی سیاست میں براہِ راست مداخلت کا ایک نیا آغاز ہے۔ اس سے قبل سالِ گزشتہ میں ہونے والے مسلم مخالف فسادات میں بھی بیرونی ہاتھ موجود رہا، جس کے خلاف برطانوی حکومت نے سخت ترین اقدامات کا فیصلہ کیا۔ سالِ گزشتہ کے فسادات میں سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ نے غیر معمولی کردار ادا کیا جس کی بدولت یہ فسادات پورے برطانیہ میں پھیل گئے۔ برطانوی حکومت کی اپنی رپورٹس میں سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس کے مالک ایلون مسک کو جھوٹی خبریں پھیلانے کا مجرم قرار دیا گیا اور کہا گیا کہ برطانیہ اس پر بھی غور کررہا ہے کہ کس طرح امریکی شہری ایلون مسک کو برطانیہ میں قانونی طور پر چارج کیا جائے۔ ایکس نے فسادات میں نہ صرف جھوٹی خبروں کو پھیلانے میں مدد دی بلکہ وہ افراد خاص طور پر ٹومی رابنسن جوکہ سفید نسل پرست ہیں اور متشدد نظریات کے حامل ہیں، کا اکاؤنٹ جوکہ انھی الزامات کی وجہ سے بند تھا اسے اس دوران نہ صرف ایکس نے کھولا بلکہ اس کے علاوہ دیگر متنازع افراد کے اکاؤنٹس بھی کھول دیے جس کے سبب برطانوی معاشرے میں شدید خلفشار پھیلا اور جھوٹی خبروں کا بازار گرم ہوا، مسلمانوں کے کاروبار، گھروں اور مساجد پر متعدد حملے کیے گئے، تاہم حکومت کے غیر معمولی ردعمل کے باعث نہ صرف ان فسادات کو کچل دیا گیا بلکہ ان فسادات میں ملوث افراد کو فوری طور پر عدالتوں کی جانب سے سزائیں بھی سنائی گئیں۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ ان فسادات کا آغاز اُس وقت ہوا جب نئی برطانوی حکومت نے سابقہ برطانوی حکومت کی طرح فلسطین کے مسئلے پر پالیسیوں میں کچھ تبدیلی کی تھی۔ ان پالیسیوں میں سے اہم ترین پالیسی فلسطین مخالف مظاہروں پر پابندی کے خلاف تھی جس کے باعث سابق وزیر داخلہ سوئیلا براومین فلسطین مخالف مظاہروں کو یہود مخالف مظاہروں سے جوڑنے کی کوشش کرتی رہیں تاکہ ان پر پابندی عائد کی جاسکے۔ اسی طرح سابق وزیر کمیونٹی مائیکل گوو نے برطانوی پارلیمان میں کھڑے ہوکر تمام اہم مسلمان مفکرین کو شدت پسند قرار دے کر شدت پسندی کی نئی تعریف و پالیسی بنانے اور اس کو نافذ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ تاہم لیبر پارٹی کی حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد ان پالیسیوں میں تبدیلی محسوس کی گئی جس کا بنیادی سبب برطانوی سماج میں بڑھتی ہوئی خلیج کو کم کرنا تھا۔ لیبر پارٹی کی حکومت کا یہ اقدام اس لیے بھی اہم ترین تھا کیونکہ حالیہ انتخابات میں لیبر پارٹی کے مسلم اکثریتی حلقوں سے لیبر پارٹی کو شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تھا اور مسئلہ فلسطین کی گونج ان انتخابات میں نمایاں طور پر سنی گئی۔
اب ڈونلڈ ٹرمپ کی امریکی انتخابات میں کامیابی اور ایلون مسک کو اُن کی جانب سے امریکہ میں کلیدی کردار دینے کے بعد امریکی سیاست و ریاست ایک نئی تبدیلی کی جانب جارہی ہیں جہاں ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ وہ ٹیکنالوجی کے بڑے کھلاڑی ایلون مسک کو امریکی حکومت میں اصلاحات کا بڑا کردار دیں گے، اس کے لیے نیا ادارہ Department of Government efficiency (DOGE) کے نام سے تشکیل دیا جائے گا۔ بظاہر یہ کردار بہت سے اداروں کی تعمیرنو، نظام میں اصلاحات اور محکموں کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے ہوگا، لیکن دراصل اس کا بنیادی کام امریکی اداروں کی تعمیرنو و اصلاحات سے زیادہ امریکی اسٹیبلشمنٹ کو کمزور کرنا ہے۔ اس ضمن میں ایک اور بڑی تبدیلی جوکہ شاید ڈونلڈ ٹرمپ کے برسراقتدار آنے کے بعد نظر آئے وہ ابلاغ کے محاذ پر اطلاعات کی ایسی رسائی ہوگی کہ جس کا تصور اس سے قبل امریکی سماج میں نہ تھا۔ امریکی ابلاغی ادارے ابھی تک کسی نہ کسی حد تک مختلف قسم کے قوانین کے تحت کام کرتے ہیں۔ بظاہر ایلون مسک کا نعرہ کہ ’سچائی پر کوئی قدغن نہ ہو‘ پُرکشش ہے، لیکن اس کے نتیجے میں سماج میں سچ و جھوٹ کی تفریق، اہم و غیر اہم کی بحث لایعنی قرار پائے گی، یعنی جو کچھ بھی پسند کیا جائے چاہے وہ جھوٹ ہی کیوں نہ ہو، وہی اہم اور اہم ترین ہوجائے۔ اگر وہ سچ بھی ہو تو ترجیحات کا تعین اور اس سچ کی فریمنگ اس انداز سے ہوکہ اس سے زیادہ اہم ترین اور بڑے سچ اس کے آگے جگہ نہ پاسکیں۔ اس تناظر کا جاننا اس لیے اہم ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے انتخابی نعرے، ان کے سابقہ دورِ حکومت کے اقدامات، اور ایلون مسک کو سمجھا جاسکے۔ ایلون مسک ڈونلڈ ٹرمپ کے برسرِ اقتدار آنے سے قبل ہی براہِ راست برطانوی سیاست میں مداخلت کررہے ہیں، اس ضمن میں گزشتہ دس دنوں سے وہ براہِ راست برطانوی حکومت کو نہ صرف موردِ الزام ٹھیرا رہے ہیں بلکہ اب تو مسک نے براہِ راست ایک پول بھی اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے شروع کردیا ہے جس کا بنیادی سوال
America should liberate the people of Britain from their tyrannical government
’’امریکہ کو برطانوی عوام کو ان کی ظالمانہ حکومت سے آزاد کرانا چاہیے‘‘ ہے۔
تادم تحریر یہ پول جاری ہے اور اس پر اب تک پندرہ لاکھ سے زائد لوگ اپنا ووٹ کاسٹ کرچکے ہیں۔
اس سے قبل ایلون مسک نے اچانک ہی ایک ایسی مہم شروع کی جس کا براہِ راست تعلق برطانوی سماج سے تھا۔ ایلون مسک نے برطانیہ میں مقیم مسلمانوں اور خاص طور پر پاکستانیوں کو نشانہ بنایا اور یہ بیانیہ پروان چڑھایا کہ پاکستانی مسلمان برطانیہ میں نوعمر بچوں کو جنسی طور پر استعمال کرنے میں سرفہرست ہیں۔ اس کو برطانیہ میں grooming Gang کا نام دیا گیا، یعنی ایسا گروہ جو کم عمر بچوں کو جنسی طور پر استعمال کرے یا اس جانب راغب کرے۔ گوکہ برطانوی سماج میں بلا روک ٹوک جنسی تعلق قائم کیا جاسکتا ہے اور اس کو باقاعدہ قانونی تحفظ حاصل ہے، تاہم یہ گروہ ایسے افراد پر مشتمل ہوتا ہے جوکم عمر بچوں کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرتے یا ان کو اس جانب راغب کرتے ہیں۔ اس حوالے سے ایک متنازع رپورٹ اور اس کی بنیاد پر بننے والی ڈاکومنٹری فلم کو ایلون مسک نے براہِ راست اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے نہ صرف شیئر کیا بلکہ برطانوی وزیراعظم سر کیئر اسٹارمر کو مخاطب کرکے کہا کہ اس کے خلاف کارروائی کی جائے۔ جبکہ ایسے گروہوں کے خلاف برطانوی حکومت پہلے ہی کارروائی کرچکی ہے۔ ایلون مسک کے اکاؤنٹ سے جو اعداد و شمار جاری کیے گئے اور جو رپورٹ نشر کی گئی وہ پورا سچ نہ تھا، بلکہ یہ ڈس انفارمیشن کی بدترین شکل تھی۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ برطانوی حکومت کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق برطانیہ کے ہر علاقے میں ایسے گروہ موجود ہیں اور ان کا تعلق ہر رنگ و نسل ہے۔
Centre of expertise on child sexual abuse کی رپورٹ بعنوان “Child sexual abuse in 2022/2023 Trends in official data”
جوکہ ماہ فروری 2024ء میں شائع ہوئی، یہ ایک سرکاری دستاویز ہے جس کے مطابق اس وقت برطانیہ میں وہ بچے جو کسی سرکاری تحفظ میں جنسی تعلق یا ہراسانی کی وجہ سے موجود ہیں ان میں 79 فیصد سفید فام ہیں، ایشیائی بچے 8 فیصد ہیں، جبکہ گھریلو طور پر نامناسب دیکھ بھال یا نظرانداز کرنے کی وجہ سے سرکاری تحفظ میں سفید فام بچے کُل تعداد کا 75 فیصد ہیں، جبکہ ایشیائی بچے 7 فیصد ہیں۔
وہ بچے جو کسی نہ کسی طور پر تحفظ کے مستحق تھے اب وہ سرکار کے پاس ہیں، ان میں سفید فام بچے کُل تعداد کا 69 فیصد ہیں، جبکہ ایشیائی 8 فیصد ہیں۔
برطانوی حکومت کی ایک اور رپورٹ بعنوان
“Group based child sexual exploration Characteristic of Offending”
جوکہ وزارتِ داخلہ نے دسمبر 2020ء میں جاری کی، اس میں Key Findings میں صفحہ نمبر 8 پر واضح طور پر درج کیا گیا کہ
“Research has found that group based CSE offenders are most commonly white.”
اور حوالے کے طور پر دو تحقیقات کو یہاں درج کیا گیا۔
سال 2015ء میں ایک اور تحقیق کے مطابق کہ جس میں گروپ یا گروہ کی جانب سے بچوں کے جنسی استحصال کا جائزہ لیا گیا، واضح طور پر درج کیا گیا کہ ان گروہوں میں 42 فیصد سفید فام، 14 فیصد ایشیائی اور 17 فیصد سیاہ فام نسل سے تعلق رکھنے والے افراد شامل تھے۔ واضح رہے کہ برطانیہ میں تحقیقات کے مطابق ایسے گروہوں میں دیگر نسل کے افراد شامل نہیں ہوتے، یعنی اگر وہ سفید فام افراد کا گروہ ہے تو اس میں سفید فام افراد ہی اس جرم میں بطور گروہ ملوث ہیں۔
ان تمام سرکاری رپورٹس اور اعداد وشمار کے باوجود ایلون مسک کی یہ مہم دراصل مشرقِ وسطیٰ میں ہونے والی تبدیلیوں اور فلسطینیوں پر ہونے والے اسرائیلی مظالم سے توجہ ہٹانے اور ظالم و مظلوم کا فرق مٹانے کی ایک ایسی مہم جوئی ہے جس کا بنیادی مقصد برطانیہ میں سیاسی طور پر مستحکم ہوتے ہوئے مسلمانوں کو بدنام کرنا، ان کو متشدد اور جنسی استحصالی گروہ کے طور پر پیش کرنا، اور دنیا میں ہونے والے مظالم خاص طور پر فلسطین میں جاری نسل کُشی پر سے میڈیا کی توجہ ہٹانا تھا جس میں وہ اس وقت تک بہت کامیاب رہے۔ عین اُس وقت جب ایلون مسک جوکہ سچ اور حق کے دعوے دار اور آزادیِ اظہارِ رائے کے چیمپئن کے طور جانے جاتے ہیں، یہ مہم جوئی کررہے تھے تو اسرائیل غزہ میں آخری اسپتال کو اپنے میزائلوں سے مریضوں سمیت تباہ کررہا تھا۔ عین اُس دن جب کمال عدوان اسپتال تباہ ہوا، ایلون مسک مسلمان سابق رکن پارلیمنٹ لارڈ نذیر کے خلاف ٹوئٹ کررہے تھے۔ ایلون مسک کی ایک پوسٹ بھی الاقصیٰ ٹی وی چینل کے اُن مظلوم صحافیوں کے نام نہ آسکی جو اس اسپتال کی کوریج کے دوران محفوظ مقام پر ٹی چینل کے نام کی وین جس پر واضح طور پر درج تھا، کے اندر بیٹھے اسرائیل کے میزائل کا نشانہ بن گئے۔
ایلون مسک کی یہ سوشل میڈیا مہم جوئی اس حد تک برطانوی میڈیا پر اثرانداز ہوئی کہ حکومت سے لے کر اپوزیشن اور ہر قسم کا میڈیا اس کے حق میں یا مخالف خبروں میں لگ گیا اور غزہ میں انسانی المیے کی خبر کوئی خبر نہ رہی۔ حد تو یہ ہے کہ برطانیہ کے صفِ اوّل کے اخبارات کے سرِ ورق سے بھی اب غزہ کی خبر غائب اور پانچ سال پرانی رپورٹ کی خبر اب خبر بن گئی۔
ایک جانب ایلون مسک لارڈ نذیر کو مجرم قرار دیتا ہے تو دوسری جانب وہ اُس وقت تک برطانوی جیل میں اپنے جرم کی سزا کاٹنے والے ٹومی رابنسن کو بطور ہیرو پیش کرتا ہے اور متواتر اپنے اکاؤنٹ سے اُس کی ویڈیوز پوسٹ کررہا ہے جس میں وہ مسلمانوں کو اپنا ہدف قرار دے رہا ہے۔ ٹومی رابنسن جس جرم میں سزا کاٹ رہا ہے وہ بھی ایک ایسا ہی جھوٹا الزام تھا جس میں اُس نے ایک ویڈیو میں ایک شامی مہاجر کو اسکول کی بچیوں پر حملہ کرنے کا مجرم قرار دیا تھا، بعد ازاں عدالت میں رابنسن نے اعتراف کیا کہ وہ ویڈیو غلط تھی۔ اور عدالت نے اس جرم میں اسے 18 ماہ کی سزا سنائی ہے۔ واضح رہے ٹومی رابنسن ہی وہ فرد ہے جو لندن میں ہونے والے فلسطین کے حق میں مظاہروں کے مدمقابل اسرائیل کی حمایت میں ہونے والے مظاہروں کو نہ صرف درست قرار دیتا رہا بلکہ 11 نومبر 2023ء کو فلسطین کی حمایت میں ہونے والے مظاہرے کو اپنے حامیوں کے ساتھ بزور قوت روکنے کی کوشش بھی کی جس کو پولیس نے ناکام بنادیا تھا۔
اس تمام صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے محسوس یہ ہورہا ہے کہ ٹرمپ اقتدار میں آنے سے قبل ہی برطانوی حکومت کو اپنے مکمل زیر اثر لانا چاہتے ہیں۔ اس میں بظاہر ایلون مسک کا کردار اہم ہے، کیونکہ وہ اب دنیا میں ایک ایسا نظام قائم کرنے کی کوشش کریں گے جس میں ابلاغ سے لے کر حکومت اور اسٹیبلشمنٹ سب کچھ، کسی ایک گروہ یا چند افراد کے ہاتھوں کے بجائے دو یا تین افراد کے پاس ہو۔ اس ضمن میں سرمایہ دارانہ نظام کے ایک نئے باب کا آغاز ہوگا جس میں گروہوں کے بجائے اب افراد کی بالادستی ہوگی۔
یہ سب کچھ دنیا کو ایسا تبدیل کردے گا کہ جس کا شاید ابھی اندازہ کرنا ممکن ہی نہیں، سرمایہ، ٹیکنالوجی، ابلاغی طاقت اور سیاست سب کچھ اس طرح تبدیل ہوگا کہ ایک فرد کا حکم ہی سب کے لیے کافی ہوگا، جہاں اظہارِ آزادی رائے کے نام پر اپنی رائے، اپنا بیانیہ اور اپنے سیاسی نظریات ہی پوری قوم کے نظریات و بیانیہ قرار پائیں گے۔ سرمایہ دارانہ نظام کی ایک نئی شکل وضع ہوگی جس کا اعلان ڈونلڈ ٹرمپ نے کینیڈا کے وزیراعظم جسٹسن ٹروڈو کے استعفیٰ کے بعد یوں کیا :
- Many people in Canada LOVE being the 51st State. The United States can no longer suffer the massive Trade Deficits and Subsidies that Canada needs to stay afloat. Justin Trudeau knew this, and resigned If Canada merged with the U.S., there would be no Tariffs, taxes would go way down, and they would be TOTALLY SECURE from the threat of the Russian and Chinese Ships that are constantly surrounding them. Together, what a great Nation it would be!
’’کینیڈا میں بہت سے لوگ ’’51ویں ریاست‘‘بننے کو پسند کرتے ہیں۔ امریکہ اب مزید بڑے تجارتی خساروں اور ان سبسڈیز کو برداشت نہیں کر سکتا جن کی کینیڈا کو اپنی معیشت کو برقرار رکھنے کے لیے ضرورت ہوتی ہے۔ جسٹن ٹروڈو کو یہ بات معلوم تھی، اور اسی لیے انہوں نے استعفیٰ دے دیا۔ اگر کینیڈا امریکہ کے ساتھ ضم ہوجاتا، تو کوئی ٹیرف نہ ہوتا، ٹیکس بہت کم ہوجاتے، اور وہ روسی اور چینی جہازوں کے خطرے سے مکمل طور پر محفوظ ہوتے جو ان کے اردگرد مسلسل موجود رہتے ہیں۔ دونوں ملک مل کر کتنی عظیم قوم بن سکتے ہیں!‘‘
یعنی یہ عالمگیر حکومت کا خواب امریکی حکومت کے نام پر ذاتی حکومت کا ہوگا۔ دنیا نئے عالمی نظام کی جانب جارہی ہے، سرمایہ دارانہ نظام کا نیا انداز جس کی پہلی قسط ٹرمپ کے برسراقتدار آنے کے بعد نظر آئے گی۔ اس کی راہ میں مزاحم قوتوں و حکومتوں اور اجتماعی ضمیر کے کس بل نکالنے کا کام شروع کیا جاچکا ہے۔ آنے والا وقت کیا نیا دکھائے گا اس کے سب منتظر ہیں، لیکن یہ بات تقریباً حتمی ہے کہ سچ کے نام پر جھوٹ، اخلاقیات کے نام پر بداخلاقی، اور آزادیِ رائے کے نام پر نئی ابلاغی جکڑبندیوں کا آغاز ہوا چاہتا ہے۔