بلوچستان ضمنی انتخابات:فارم 47 کی کامیابی

دراصل صوبے میں پیپلز پارٹی اور نون لیگ نوازی جارہی ہیں
8فروری2024ءکے عام انتخابات کا تماشا دیکھنے کے باوجود سیاسی جماعتیں ضمنی انتخابات میں حصہ لے لیتی ہیں اور الیکشن کمیشن سے منصفانہ انتخابات کی امید وابستہ کرلیتی ہیں۔ حالانکہ اچھی طرح معلوم ہے کہ نتائج بہرحال ماضی کی طرح مرتب کردہ سامنے آئیں گے، اور مرتب اُن کی ہدایت پر کیے جاتے ہیں جو اختیار اور اقتدار کی کلید رکھتے ہیں۔ بلوچستان کے اندر تو مرضی ہی اُن کی چلتی ہے اور سیاسی عمل محض جلسوں، نعروں اور احتجاج تک ؐمحدود رہ گیا ہے۔ بعض جماعتوں کی پارلیمانی حیثیت ختم کردی گئی ہے، بعض کو اسپیس دے دی گئی۔ جے یو آئی البتہ بہتر حصہ رکھتی ہے۔ انتظامی افسران کے ذریعے انتخابات نے شفافیت کی رہی سہی امید بھی ختم کردی۔

فارم 47 کے ذریعے سیاہ دھاندلی کا رونا رویا جارہا تھا کہ 5جنوری کو بلوچستان اسمبلی کے حلقہ پی بی 45 کوئٹہ کے ضمنی انتخاب میں پھر فارم45کے بجائے فارم 47 میں من پسند نتیجہ اخذ کیا گیا۔ یہ ضمنی الیکشن 15پولنگ اسٹیشنز پر ہوا۔ پیپلز پارٹی کے علی مدد جتک 8 فروری 2024ء کے عام انتخابات میں جتوائے گئے تھے۔ نتیجہ الیکشن ٹریبونل میں چیلنج ہوا۔ ٹریبونل نے دوبارہ انتخابات کا حکم دیا۔ علی مدد جتک فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ گئے۔ کورٹ نے اسٹے دیا، بعد ازاں انتخابات کا حکم دیا۔ اس حلقے پر جمعیت علماء اسلام کے عثمان پرکانی جیت گئے تھے۔ بدقسمتی سے ضمنی الیکشن بھی انتظامی افسران کے تحت کرایا گیا۔ ہونا یہ چاہیے تھا کہ مخالف امیدوار کورٹ سے رجوع کرتے تاکہ عدلیہ کے ذریعے انتخابات ہوتے۔ اس ضمنی انتخاب میں فارم 45 کچھ اور بولتا ہے جبکہ فارم 47 کے ذریعے کرشمہ کچھ اور نمودار ہوا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پولنگ ختم ہونے کے ساتھ ہی انتظامیہ نے ریڈ زون اور ڈپٹی کمشنر کے دفتر کے اردگرد کنٹینر لگاکر راستے بند کردیے، کیوں کہ انہیں اپنے عمل اور کرتوت کا پتا تھا کہ گنتی ختم ہوتے ہی مخالف امیدوار احتجاج کے لیے نکل آئیں گے، اور ایسا ہی ہوا۔ جونہی نتیجہ مرتب ہوا، جمعیت علماء اسلام کے کارکنوں نے ڈپٹی کمشنر کے دفتر کا رخ کرلیا۔ جمعیت علماء اسلام نے اگلے دن 6جنوری کو صوبے بھر میں شٹر ڈاؤن ہڑتال کی کال دے دی۔ ڈپٹی کمشنر کے دفتر کے باہر دھرنا تو الیکشن کی رات کو ہی شروع ہوگیا تھا۔ نتیجہ پیش ازیں وزیراعلیٰ ہاؤس سے آیا اور فارم 47 بھی پی ڈی ایف ورژن میں وزیراعلیٰ ہائوس سے پھیلایا گیا۔ ہونا یہ چاہیے تھا کہ انتخاب سے پہلے موجودہ ڈپٹی کمشنر سعد بن اسد کی موجودگی پر بھی اعتراض ہوتا۔ جمعیت علماء اسلام نے8جنوری کو صوبے بھر میں قومی شاہراہوں کو بند کرکے احتجاج کیا۔ جے یو آئی بلوچستان کے امیر سینیٹر مولانا عبدالواسع نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے امیدوار علی مدد جتک نے 68 ووٹ لیے جسے فارم47میں کامیاب کرایا گیا ہے۔ جمعیت علماء اسلام نے 20جنوری کو پاک افغان سرحد چمن کی بندش اور 9 سے17 فروری تک بلوچ بیلٹ میں سرحدوں کی بندش کے خلاف احتجاج اور مظاہروں کا اعلان بھی کردیا ہے۔ ادھر حب کے سردار صالح محمد بھوتانی نے علی حسن زہری کی جیت کو دوبارہ سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا ہے۔

دراصل صوبے میں پیپلز پارٹی اور نون لیگ نوازی جارہی ہیں۔ خاص کر پیپلز پارٹی کو 8 فروری 2024ء کے عام انتخابات سے قبل کے گٹھ جوڑ کے تحت زیادہ اہمیت دی گئی ہے اور بلوچستان میں آصف علی زرداری کی حاکمیت قائم کرادی گئی ہے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت صوبے کے اندر ہر بے اعتدالی و بے ایمانی میں مصروف ہے۔ قانون اور نظام سے وزرا، مشیروں اور پارٹی وابستگان کو بالاتر رکھا گیا ہے۔ یہ لکڑبھگڑ جنہیں جیالے کہا جاتا ہے صوبے کو نو چ رہے ہیں۔ کسی سیکریٹری یا انتظامی افسر کی مجال نہیں کہ ان کے سامنے قانون کی بات کرے۔ ایسی مثالیں موجود ہیں کہ کسی محکمے کے سیکریٹری نے وزیر و مشیر کا حکم اس بنا پر نہ مانا کہ ماورائے قانون و ضابطہ ہے، تو لکڑ بھگے وزیراعلیٰ کے پاس شکایت لے گئے، اور وزیراعلیٰ نے بغیر تحقیق و کاونٹر چیک کے افسران کو کرسی سے ہٹادیا۔ وزیراعلیٰ اتنی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ ان سیکریٹری صاحبان کا مؤقف اور استدلال سنیں، اور مسلط چیف سیکریٹری بھی ہر حکم کی تعمیل کے لیے ہمہ وقت آمادہ اور تیار رہتا ہے۔ بیوروکریسی کو اپنی مدت پوری کرنے نہیں دی جاتی۔ غرض 5جنوری کو جیسے ہی جے یو آئی کا احتجاج شروع ہوا تو کوئٹہ بھر میں موبائل فون سروس بند کردی گئی اور پچیس لاکھ سے زائد کی آبادی کو مشکلات کا شکار کیا گیا۔ اگلے چوبیس گھنٹوں تک نیٹ ورک بند رہا۔