غیر متوازن شخصیات عہد حاضر کا مسئلہ ایک قدیم ہندی’’ کہانی‘‘ کی روشنی میں

یہ کہانی ہم ایک بار پہلے بھی آپ کو سنا چکے ہیں، لیکن اُس وقت یہ کہانی نوازشریف کے مستقبل کو بیان کرنے پر صرف ہوکر ضائع ہوئی تھی، تاہم آج اس کی اصل معنویت پر بات ہوگی۔

کہتے ہیں کہ کسی زمانے میں تین برہمن تھے۔ بلا کے عالم، فاضل اور آپس میں گہرے دوست۔ مگر ان کے پاس Common sense نہیں تھا۔ ان کا ایک دوست اور بھی تھا جس کے پاس علم و فضل تو نہ تھا لیکن وہ Common sense کی دولت سے مالامال تھا۔ برہمن دوست اپنے علم پر نازاں تھے، البتہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ اس امر کے شاکی ہوتے گئے کہ ان کے علم و فضل کی قدر نہیں ہورہی۔ چنانچہ انھوں نے سوچا کہ ان کے علم کی قدر بادشاہ کے دربار میں ہوسکتی ہے۔ اس خیال کے تحت انھوں نے ایک روز رختِ سفر باندھا اور بادشاہ کے دربار کے لیے رنجِ سفر کھینچا۔ ان کا چوتھا دوست اس صورتِ حال پر بہت ملول ہوا۔ اسے اپنے دوستوں کے جدا ہوجانے کے خیال سے دکھ ہوا اور اس نے کہا کہ یارو! جاتے ہو تو مجھے بھی ساتھ لے چلو، میں یہاں تنہا رہ کر کیا کروں گا! عالم فاضل برہمن اپنے کم علم دوست کی بات پر مسکرا دیے اور کہا: ”مگر تُو بادشاہ کے دربار میں کیا کرے گا؟ تیرے پاس تو نہ علم ہے، نہ فضل ہے۔“ اُس نے کہا: ”ٹھیک ہے، مگر آخر میں تمھارا دوست ہوں۔“ قصہ کوتاہ عالم فاضل برہمن اسے ساتھ لے جانے پر آمادہ نہ ہوئے، لیکن اس بے علم شخص کو اُن سے اتنی محبت تھی کہ وہ انکار سننے کے باوجود چھپتا چھپاتا اُن کے پیچھے لگ لیا۔ دو چار کوس کے بعد برہمنوں نے جو پیچھے مڑ کر دیکھا تو اپنے لاعلم دوست کو بھی ساتھ پایا۔ وہ اس پر سخت برہم ہوئے مگر بالآخر ان میں سے ایک کو اپنے دوست پر رحم آہی گیا۔ اس نے کہا کہ دوستو ! ہر چند کہ یہ شخص ہم پر بار ہوگا لیکن بہرحال یہ ہمارا دوست ہے، اور پھر یہ بھی سوچنے کا مقام ہے کہ یہ کس محبت سے ہمارے پیچھے چلا آرہا ہے، چنانچہ اس کی لاعلمی کو نظرانداز کرو اور اسے اپنے ساتھ لے چلو۔ تقریر کارگر ہوئی اور چاروں دوست ایک ساتھ منزلِ مقصود کی جانب روانہ ہوئے۔ چلتے چلتے دوپہر ہوگئی۔ بھوک، پیاس اور تھکن محسوس ہوئی تو ظہرانے اور سستانے کے لیے ایک باغ میں قیام کیا۔ ناگہاں ایک عالم فاضل برہمن کی نظر باغ میں جابجا بکھری ہوئی ہڈیوں پر پڑی۔ اس نے ہڈیوں کا معائنہ کیا اور کہا کہ ہرچند کہ یہ ہڈیاں خاصی پرانی ہوچکی ہیں لیکن میں اپنے علم کی بنیاد پر کہہ سکتا ہوں کہ یہ کسی شیر کی ہڈیاں ہیں، اور نہ صرف یہ بلکہ اگر آپ لوگ کہیں تو میں اپنے علم کا یہ کمال بھی دکھا سکتا ہوں کہ تھوڑی سی دیر میں ان ہڈیوں کو باہم جوڑ کر شیر کا مکمل ڈھانچہ تیار کرسکتا ہوں۔ دوسرے عالم فاضل برہمن نے یہ بات سنی تو کہنے لگا کہ میرے علم کا زور ایسا ہے کہ میں دیکھتے ہی دیکھتے اس ڈھانچے پر گوشت اور چمڑی چڑھا دوں گا۔ تیسرے عالم فاضل برہمن نے یہ بات توجہ سے سنی اور کہا کہ اس کمال کی کیا حیثیت ہے؟ میں اپنے علم کے زور سے شیر کو زندہ کرسکتا ہوں۔

چوتھا دوست یہ گفتگو دھیان سے سن رہا تھا۔ اس نے اپنے عالم دوستوں کے تیور دیکھے تو کہنے لگا کہ بے شک تمھارے علم کا کوئی ثانی نہیں، لیکن تم جو کچھ کہہ رہے ہو اس پر عمل نہ کر بیٹھنا ورنہ بڑا نقصان ہوسکتا ہے۔ عالم فاضل دوست اپنے لاعلم دوست کی بات پر قہقہہ مار کر ہنس پڑے اور کہنے لگے کہ اسی لیے تو ہم تجھے ساتھ لانے سے گریزاں تھے۔ تُو جہاں جائے گا ہمارے لیے بدنامی کا باعث ہوگا۔

اس کے بعد علم کے عملی مظاہرے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ پہلے دوست نے دیکھتے ہی دیکھتے بکھری ہوئی ہڈیوں سے شیر کا مکمل ڈھانچہ کھڑا کردیا۔ دوسرے دوست نے پلک جھپکتے ہی اس پر گوشت اور چمڑی چڑھا دی۔ تیسرا دوست اپنا کمال دکھانے پر آمادہ ہوا ہی تھا کہ چوتھے نے کہا کہ ذرا ٹھیرو، میں درخت پر چڑھ جاؤں پھر تم اپنا کمال دکھانا۔ تینوں عالم ایک بار پھر اپنے دوست کے اظہارِ جہل پر ہنس دیے۔ بہرحال چوتھا دوست درخت پر چڑھ گیا تو تیسرے نے اپنا کمال دکھایا۔ مُردہ شیر زندہ ہوگیا۔ ظہرانے کا وقت تھا، شیر نے تینوں برہمنوں کو مار گرایا اور پیٹ بھر کر ایک جانب کو چل دیا۔ شیر چلا گیا تو چوتھا درخت سے اترا، اپنے دوستوں کے حال پر کفِ افسوس ملا اور گھر کی راہ لی۔

بظاہر یہ ایک سیدھی سادی کہانی ہے لیکن دراصل اس میں ایک ایسی حقیقت مضمر ہے جو بڑی قیمتی ہونے کے باوجود نظرانداز ہوکر رہ گئی ہے۔ یہ کہانی نہ تو علم و فضل کی مذمت میں لکھی گئی ہے اور نہ اس سے Common sense کی فوقیت اور برتری ظاہر کرنا مقصود ہے، بلکہ اس کہانی میں صرف اس حقیقت کی جانب اشارہ کیا گیا ہے کہ انسان کی صلاحیتوں میں سے کسی ایک صلاحیت کی ترقی دوسری صلاحیتوں کی کمزوری کا سبب بن جاتی ہے۔ یہاں تک کہ کسی ایک صلاحیت کا غیر معمولی فروغ جان لیوا بھی ثابت ہوسکتا ہے۔ عالم فاضل برہمن دراصل ذہن کی غیر معمولی ترقی کی علامت ہیں۔

یہ ایک عام تجربے اور مشاہدے کی بات ہے کہ کچھ لوگ اتنے فلسفی اور دانش ور ہوجاتے ہیں کہ وہ جذبات اور جذبے کی زبان سمجھتے ہی نہیں۔ اس کے برعکس کچھ لوگوں میں جذبات اتنے فروغ پا جاتے ہیں کہ منطق اور عقل کی زبان ان کے لیے خلائی مخلوق کی زبان بن کر رہ جاتی ہے۔ حالانکہ درکار بات یہ ہے کہ انسان کی تمام صلاحیتیں ایک ساتھ اور ہم آہنگ ترقی کرتی رہیں، اس کے بغیر انسان کا ”انسان“ بننا ناممکن ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ دنیا کا مشکل ترین کام ہے، اس لیے اچھے اچھے اس بھاری پتھر کو چوم کر چھوڑ دیتے ہیں، مگر فی زمانہ تو مسئلہ کچھ اور ہی ہوگیا۔

ایک وقت تھا کہ کچھ چیزیں بنیادی اور اہم ترین سمجھی جاتی تھیں اور انھیں ایک آئیڈیل کی حیثیت حاصل تھی۔ لیکن ان کے حصول میں حائل مشکلات کو دیکھتے ہوئے ان کا رُخ کم ہی لوگ کرتے تھے، لیکن فی زمانہ مسئلہ یہ ہوگیا ہے کہ لوگوں کو یہ بھی معلوم نہیں کہ بنیادی چیزیں کیا ہیں اور ثانوی باتیں کون کون سی ہیں۔ چنانچہ اس امر میں حیرت کی کوئی بات نہیں کہ آج کل لوگ انسانی وجود کی ہم آہنگ ترقی کے تصور سے بھی واقف نہیں۔ چونکہ وہ اس تصور سے واقف ہی نہیں اس لیے اس تصور کے آئیڈیل بننے کا سوال ہی نہیں اُٹھتا، اور جب یہ سوال ہی نہیں اُٹھتا تو اس کے حوالے سے کسی احساسِ زیاں کے پیدا ہونے کی بھی کوئی صورت نہیں ہوسکتی۔ احساسِ زیاں عمل کا ایک مؤثر محرک ہے۔

ہم آہنگ یا غیر ہم آہنگ ارتقا کا مسئلہ بالآخر تہذیبی سطح پر ظاہر ہوکر رہتا ہے۔ آج جس چیز کو مغرب کا بحران کہا جارہا ہے وہ مغربی انسان کے غیر ہم آہنگ ارتقا ہی کا شاخسانہ ہے۔ مغربی انسان اور مغربی تہذیب بعض اجزا میں سمٹ کر رہ گئے ہیں اور اس پر طرہ یہ ہے کہ وہ انھی اجزا کو سب کچھ سمجھتے ہیں اور انھیں ایک ایسی کلیّت پر اصرار ہے جو سرے سے کلیّت ہے ہی نہیں۔

کہانی میں چوتھے دوست کے حوالے سے کامن سینس کی اصطلاح استعمال ہوئی ہے۔ کامن سینس کا ترجمہ عقلِ عام، فہمِ عام یا حسِ عام وغیرہ کیا جاتا ہے، اور اس سے کچھ ایسا مفہوم اخذ کیا جاتا ہے کہ یہ ایک ایسی چیز ہے جو عام طور پر سب لوگوں میں پائی جاتی ہے۔ کامن سینس کے یہ مفاہیم درست نہیں، اس لفظ کا بہترین ترجمہ حسِ مشترک ہے۔ اور یہ ایک ایسی حس ہے جو تمام حسوں میں شریک و شامل ہے۔ یا یوں کہنا چاہیے کہ یہ ایک ایسی صلاحیت ہے جو انسان کی تمام صلاحیتوں پر محیط ہے اور ان میں شامل ہے۔ اس لیے انگریزی میں یہ بات کہی گئی ہے کہ کامن سینس کافی Un Common ہے۔ ظاہر ہے کہ فی زمانہ حسِ مشترک عام ہو ہی نہیں سکتی۔ ایک زمانہ تھا کہ انسان ٹکڑوں میں تقسیم ہورہا تھا، اور ایک زمانہ یہ ہے کہ وہ ریزوں میں تقسیم ہورہا ہے۔ اب ذرا سوچیے ریزوں میں حسِ مشترک کا پیدا ہونا کتنا مشکل ہے، خاص طور پر اُن ریزوں میں جو جدید تعلیم کے سوتوں سے فیض یاب ہوتے ہیں اور جو مذہب کا گہرا کیا، اوسط درجے کا شعور بھی نہیں رکھتے۔