لکھنے کے شوق اور عادت کی بدولت ذہن سُکون پاتا ہے۔ خیالات کو مرتب رکھنے میں لکھنے کا ذوق و شوق خاصی معاونت کرتا ہے۔ اچھا خط (ہینڈ رائٹنگ) مزاج کی نفاست کو بھی ظاہر کرتا ہے
وہ بھی کیا زمانہ تھا جب، یعنی آج کی حیران کن ٹیکنالوجیز کی آمد سے بہت پہلے، ہم سب سبھی کچھ یعنی اپنے تمام معاملات لکھ کر محفوظ کیا کرتے تھے۔ گھروں میں جرنل کے جرنل (جو عرفِ عام میں رجسٹر کہلاتے ہیں) ہوا کرتے تھے۔ جرنل بھرتے جاتے تھے اور نئے جرنل لائے جاتے تھے۔ اسکول سے کالج تک سبھی، لکھ کر ہوم ورک کرتے تھے اور امتحانات کی بھرپور تیاری بھی اِسی طور کی جاتی تھی۔
آج یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ گزرے ہوئے ادوار میں اساتذہ لکھنے پر زیادہ زور کیوں دیتے تھے اور ہوم ورک بھی بہت زیادہ کیوں دیا کرتے تھے۔ کوئی بھی بچہ جو کچھ لکھتا تھا وہ تیزی سے یاد ہوجاتا تھا۔ لکھنے کی بڑی خوبی یہ ہے کہ جو کچھ لکھا جاتا ہے وہ ذہن نشین ہوتا جاتا ہے۔ آج بھی جو لوگ لکھنے کے عادی ہیں وہ بہت سی باتوں کو زیادہ آسانی سے یاد رکھنے کے قابل ہوجاتے ہیں۔
لکھنے کا عمل اپنے اندر ایک انوکھی کشش اور افادیت رکھتا ہے۔ لکھنے والوں کے مزاج میں آپ کو شائستگی اور بُردباری بھی ملے گی اور وہ معاملات کو بہتر طور پر سمجھنے والے بھی نظر آتے ہیں۔ لکھنے کی عادت انسان میں ٹھہراؤ اور سنجیدگی پیدا کرتی ہے۔ جو لوگ تختی لکھا کرتے تھے وہ ایک خاص ذہنی سانچے میں ڈھلتے تھے۔ لکھنے کی عادت اُن کے مزاج کو بدل دیتی تھی۔ لکھنے کی صورت میں بہت کچھ ذہن میں انڈیلا جاتا تھا اور پھر لکھنے ہی کے ذریعے بہت کچھ ذہن سے باہر بھی آتا تھا۔
لکھنے کا عمل تاریخ کے ہر دور میں انتہائی دل کش اور مفید رہا ہے۔ یہ لکھنے کی عادت ہی تو تھی جس کی بدولت ہر عہد کی دانش ہم تک پہنچ پائی۔ لکھنے والے اگر لکھنے کے عادی اور شوقین نہ ہوتے تو گزرے ہوئے ادوار کا پورا احوال ہم تک نہ پہنچ پاتا۔ سوال صرف کسی مصنف کی اپنی تحریر کا نہیں بلکہ اُس کے عہد کی پوری تاریخ کے بیان کا ہے۔ جو شخص اپنے خیالات رقم کرتا تھا وہ دراصل اپنے عہد کی فکری یا علمی تاریخ ہی کے مختلف پہلوؤں کے ساتھ ساتھ سیاسی اور سماجی معاملات کو بھی ضبطِ تحریر میں لارہا ہوتا تھا۔ اِس صورت میں وہ زمانہ کاغذ پر منتقل ہوجاتا تھا، اور یوں اُسے محفوظ رکھنا قدرے آسان ہوجاتا تھا۔
آج ہر شخص کے لیے اپنے تمام معاملات اور معمولات کو لکھ کر محفوظ کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ ورڈ پروسیسر کی مدد سے اب ہر بات کو ٹائپ کرکے محفوظ کرنا چنداں دشوار نہیں۔ کمپیوٹرز نے یہ مرحلہ انتہائی آسان کردیا ہے۔ نئی نسل لکھنا بھول سی گئی ہے۔ ترقی یافتہ دنیا میں اسائنمنٹس اور امتحانی پرچے کمپیوٹرز کے ذریعے لینا ممکن ہوچکا ہے۔
ہم ایک ایسی دنیا میں جی رہے ہیں جس میں سبھی کچھ ٹیکنالوجیز کی نذر ہوچلا ہے۔ ٹیکنالوجیز کا جادو ہر سر پر چڑھ کر بول رہا ہے۔ اور کیوں نہ بولے؟ ٹیکنالوجیز نے زندگی کو آسان کردیا ہے۔ اب کسی بھی معاملے میں ہاتھ سے کچھ لکھنے کی ضرورت بالکل محسوس نہیں ہوتی۔ جو لوگ ٹائپ نہیں کرپاتے اُن کے لیے وائس ٹو ٹیپ کی سہولت موجود ہے، یعنی جو کچھ بھی لکھنا یا ٹائپ کرنا ہے وہ صرف بول دیجیے، ٹائپ خودبخود ہوتا جائے گا۔ اس صورت میں بولے ہوئے کو الفاظ کی شکل میں لکھنا یعنی کاغذ پر منتقل کرنا تو ممکن ہوچکا ہے تاہم حقیقت یہ ہے کہ حُسنِ تحریر کہیں راہ میں رہ گیا ہے۔
یہ حقیقت کسی بھی طور نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ لکھنے کا مزا اب بھی ہے اور اچھا خاصا ہے۔ لوگ لکھنا بھول سا گئے ہیں مگر سچ یہ ہے کہ جو لوگ لکھنے کے عادی ہیں وہ آج بھی اپنے خیالات کو بہت عمدگی سے ضبطِ تحریر میں لاتے ہیں اور اُن کا لکھا ہوا انتہائی معیاری ہوتا ہے۔ ٹائپ کرنے کی صورت میں انگلیاں بھی تیزی سے چلتی ہیں اور خیالات بھی ذہن کے پردے پر بہت تیزی سے ابھرتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ لکھنے کا عمل تیز اور میکانیکی ہوگیا ہے۔ ٹائپ کرنے کی صورت میں ذہن کو رُکنے کا موقع نہیں مل پاتا، اور یوں جملے کی ساخت بہتر بنانے کے بارے میں سوچنے کی گنجائش نہیں رہتی۔ اس کے نتیجے میں تحریر میکانیکی ہوچکی ہے، یعنی لوگ جو کچھ لکھتے (یعنی ٹائپ کرتے) ہیں اُس میں زیادہ دم نہیں ہوتا۔ ایسا لگتا ہے کہ لکھنے کے نام پر معاملہ بھگتایا گیا ہے، محض جان چھڑائی گئی ہے۔
ہاتھ سے لکھنے کی صورت میں انسان ٹھہر ٹھہر کر بہت سے معاملات کے بارے میں سوچتا ہے، اُن کے مختلف پہلوؤں پر غور کرتا ہے، اور یوں اُس کے لکھے ہوئے میں تھوڑی بہت گہرائی اور گیرائی پیدا ہوجاتی ہے۔ اچھی تحریر کی ایک بڑی خوبی ہوتی ہے مکمل توازن اور ٹھہراؤ۔ کسی بھی تحریر میں معقول ٹھہراؤ موجود ہو تو اُس سے مستفید ہونے والوں کو بھی خاصا لطف محسوس ہوتا ہے۔
نفسی امور کے ماہرین ایک زمانے سے اس بات پر زور دیتے رہے ہیں کہ انسان کو لکھنے کی عادت پروان چڑھانی چاہیے اور جو کچھ بھی اُس پر گزرتی ہے وہ رقم کی جانی چاہیے۔ عام آدمی کے ذہن میں یہ خیال راسخ ہوچکا ہے کہ لکھنے والے لازمی طور پر الگ یا منفرد ذہنی سانچے کے حامل ہوتے ہیں، یعنی ہر آدمی لکھاری نہیں ہوسکتا۔ ٹھیک ہے کہ ہر آدمی لکھاری نہیں ہوسکتا، تاہم وہ لکھنے کے فن میں تھوڑی بہت مہارت تو پیدا کر ہی سکتا ہے۔ یہ مہارت ناگزیر ہے کیونکہ اُس کا تعلق بہت حد تک ہمارے ذہنی سُکون سے ہے۔
اب تحقیق سے یہ ثابت ہوا ہے کہ لکھنے والوں کے ذہن خاصے پُرسکون رہتے ہیں، اُن کی شخصیت میں توازن پیدا ہوتا ہے، خیالات میں محض توازن ہی نہیں بلکہ ندرت بھی پیدا ہوتی ہے۔ یہ سب کچھ شخصیت کا حُسن بڑھانے میں غیر معمولی حد تک معاون ثابت ہوتا ہے۔ محققین کہتے ہیں کہ جو لوگ غیر معمولی مطالعے کے ذریعے کوئی ٹھوس موضوع منتخب کرکے اُس پر لکھتے ہیں اور اپنے خیالات کو متوازن انداز سے ضبطِ تحریر میں لاتے ہیں۔ وہ تو خیر لکھنے کے عمل سے بہت کچھ پاتے ہیں تاہم جو لوگ باضابطہ لکھاری نہیں ہوتے وہ بھی اگر چاہیں تو اپنے ذہن کو متوازن اور پُرسکون رکھنے میں قلم اور کاغذ کے ذریعے خیالات کو ضبطِ تحریر میں لانے کی عادت سے خاصی مدد لے سکتے ہیں۔
نفسی امور کے محققین اور ماہرین کہتے ہیں کہ تحریر کی عادت یا معمول بیشتر معاملات میں ذہن کو پُرسکون رکھنے کے حوالے سے جادو کا سا اثر رکھتا ہے۔ جو لوگ اپنے خیالات کو باقاعدگی سے ضبطِ تحریر میں لاتے رہتے ہیں وہ ذہن کو اچھے خاصے بوجھ سے نجات دلاتے رہتے ہیں۔ ہمارے ذہن ہر وقت سوچتے رہتے ہیں، خیالات پیدا ہوتے رہتے ہیں، اور اگر اُنہیں بروقت کاغذ پر منتقل نہ کیا جائے تو ذہنوں میں اچھی خاصی الجھن پیدا ہوجاتی ہے۔ نئے خیالات کی پیدائش اور افزائش کے لیے لازم ہے کہ جو کچھ اس وقت ذہن میں موجود ہے اُسے باہر لایا جائے۔ جوکچھ ذہن میں ہے وہ کسی کو سُناکر بھی ذہن کا بوجھ اُتارا جاتا ہے، مگر لکھنے کی بات ہی کچھ اور ہے۔ باقاعدگی سے اور باضابطہ طور پر لکھتے رہنے سے ذہن کو سُکون ملتا رہتا ہے۔ یہ عمل ذہن میں خیالات کو ترتیب دینے کی ضرورت پوری کرتا ہے۔ بہت سے لوگ باقاعدگی سے ڈائری لکھتے ہیں۔ یہ عمل اُن کے اذہان کو متوازن رکھنے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔
ترقی یافتہ ممالک میں ڈیڑھ دو سو سال سے لوگ پڑھنے اور لکھنے کے شوقین رہے ہیں۔ اِن ممالک کے کلچر میں پڑھنے کے ساتھ ساتھ لکھنے کو بھی غیر معمولی اہمیت دی جاتی رہی ہے۔ بچوں کو اسکول کی ابتدائی جماعتوں ہی میں لکھنے کے عمل کی طرف مائل کیا جاتا رہا ہے۔ مغرب کی ترقی یافتہ دنیا میں لکھنے کے عمل کو پروان چڑھانے کے نتیجے میں منظم اور متوازن معاشرے کی تشکیل آسان ثابت ہوتی رہی ہے۔ باقاعدگی سے لکھنے کی عادت اور مشق انسان کو اس قابل بناتی ہے کہ لوگ اُس کے بارے میں سوچیں، اُسے سمجھنے کی کوشش کریں اور اُس کا وہ احترام کریں جو بنتا ہے۔
یہ تصور ذہنوں سے نکالنا ہوگا کہ لکھنا ہر آدمی کا معاملہ نہیں ہوتا، اور یہ کہ یہ عادت یا مشق اُن کے لیے ہونی چاہیے جو تصنیف و تالیف کو کیریئر کے طور پر اپنانا چاہتے ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ ایک دور تھا کہ لوگ ٹائپنگ سیکھا کرتے تھے اور ٹائپسٹ کہلاتے تھے۔ اب کمپیوٹر استعمال کرنے والے بیشتر افراد ٹائپ کرتے ہیں کیونکہ یہ بنیادی ضرورت ہے۔ آج کی دنیا میں ٹائپسٹ ہونا کوئی کیریئر نہیں۔ یہ ناگزیر معاملہ ہے۔ بالکل ایسا ہی معاملہ لکھنے کا بھی ہے۔ لکھنا صرف اُنہیں نہیں آنا چاہیے جو مصنف بننا چاہتے ہیں، بلکہ یہ تو ہر انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔ اچھا لکھنے کی مہارت انسان کا اعتماد بھی بڑھاتی ہے اور اُس میں تہذیب و شائستگی کا گراف بھی بلند ہوتا ہے۔
لکھنے کا لطف وہی لوگ جانتے ہیں جو لکھتے ہیں، یعنی لکھنے کی مشق جاری رکھتے ہیں۔ یہ شخصیت کو منظم رکھنے کا عمل ہے۔ خیالات کو مربوط رکھنا مقصود ہے تو کاغذ اور قلم سے اپنا رشتہ قائم کیجیے۔ یہ دو چیزیں آپ کے مزاج کی نفاست میں غیر معمولی اضافہ کریں گی۔ ہر دور کا انسان لکھنے کے ذریعے اپنی تطہیر و تہذیب کرتا آیا ہے۔
اچھا لکھنے کے لیے پڑھنا بھی لازم ہے۔ ہم جہاں اور بہت کچھ کرتے ہیں، بہت سی مدات میں خرچ کرتے ہیں وہاں کتابوں پر برائے نام بھی خرچ نہیں کرتے۔ معاشرے کا مجموعی مزاج یہ ہوچلا ہے کہ پڑھنے لکھنے سے کچھ نہیں ہوتا، جبکہ ہمارے آس پاس ہی ایسے بہت سے لوگ ہوتے ہیں جو پڑھنے لکھنے کے عادی ہونے کی بنیاد پر اچھی زندگی بسر کررہے ہوتے ہیں۔ لکھنے کی صلاحیت اور عادت اُنہیں دوسروں سے ممتاز بناتی ہے۔ وہ اپنے اپنے شعبوں میں آسانی سے قبول کیے جاتے ہیں کیونکہ اُن کی شخصیت الگ ہی دکھائی دیتی ہے۔ دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو پڑھنے لکھنے کو اپنے مزاج اور معاملات کا حصہ بنانے سے گریز کرتے ہیں۔ اُن کا ذہنی انتشار نمایاں ہوتا ہے۔ وہ اپنے بیشتر معاملات میں فوری اور بے ترتیب طرز ہائے عمل اختیار کرتے ہیں۔ ذہنوں کے بے ترتیب ہونے کے باعث اُن کی پوری شخصیت میں عدمِ ترتیب کا نظارہ بہت آسانی سے کیا جاسکتا ہے۔
مغرب کی بہت سی جامعات میں کی جانے والی جدید تحقیق بتاتی ہے کہ لکھنے کا عمل انسان کو فضول معاملات میں الجھنے سے محفوظ رکھتا ہے۔ آج بھی کاغذ پر قلم چلانے کا لطف برقرار ہے۔ متواتر مشق کی صورت میں انسان اپنا خط خوبصورت اور دل کش بنانے میں کامیاب ہوچکا ہو تو لکھنے کے عمل سے عجیب ہی مسرت نصیب ہوتی ہے۔ اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والا احساسِ طمانیت انسان کو منظم رکھتا ہے اور اُس کا مزاج معاشی معاملات کو مربوط رکھنے میں زیادہ آسانی سے کامیاب رہتا ہے۔