قصہ یک درویش!تفہیم القرآن کے اشاریے کا کام

ایک نمازی بابا محمد علی ٹھیکیدار تھے جن کا تذکرہ اس سے پہلے بچپن کے واقعات میں ہوچکا ہے۔ موصوف میرے ساتھ اُس وقت سفر کرتے تھے جب کہ میں اپنی سائیکل پر اسکول کی طرف جارہا ہوتا اور وہ اپنی سائیکل پر ٹھیکیداری کے لیے نہری بنگلے کی طرف رواں دواںہوتے۔ دوستی اُس زمانے میں ہی پیدا ہوگئی تھی، مگر بعد میں تو بہت ہی زیادہ قریبی تعلق قائم ہوگیا۔ وہ بار بار تایا جان سے پوچھتے: ’’حافظ صاحب جی! حافظ ادریس کو کیا ہوگیا ہے؟ اس طرح تو کبھی پہلے اس کی حالت نہیں دیکھی۔‘‘

تایا جان نے انھیں بتایا کہ مشرقی پاکستان میں جو ہماری فوجوں نے ہتھیار ڈالے ہیں اُس کے نتیجے میں اِس کے ہزاروں بنگالی ساتھی جن سے اِس کا قریبی تعلق ہے، مصیبت اور امتحان میں گرفتار ہوگئے ہیں۔ نہ معلوم کتنے شہید ہوگئے اور کتنے ظلم کی چکی میں جیلوں میں پس رہے ہیں۔ ان محبوب تحریکی دوستوں کو یاد کرکے اس کی یہ کیفیت ہوئی ہے۔ ان دنوں کی یادیں اب بھی دل کو تڑپا دیتی ہیں۔

عبدالمالک شہید کے بعد کتنے ہی ساتھی شہادت کی وادی میں اتر گئے۔ شاہ جمال چودھری، مصطفیٰ شوکت عمران، محمد یونس، مطیع الرحمان نظامی، معین الدین چودھری، غلام سرور… جماعت کے تمام قائدین جو بعد میں پھانسی کے پھندے پر لٹکائے گئے، یہ سبھی شہدا اور غازیانِ اسلام بار بار آنکھوں کے سامنے آجاتے۔ اللہ سب کے درجات بلند فرمائے۔ ان سطور کی تحریر کے وقت ظلم کی دیوی حسینہ واجد کو اللہ نے بالآخراقتدار سے محروم کرکے جس ذلت و رسوائی سے دوچار کیا ہے ، دنیا بھر کے ظالم اس سے عبرت حاصل کریں۔ مگر ہماری یہ ایسی سوچ ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے ’’ایں خیال است و محال است و جنوں‘‘۔ ہر ظالم سمجھتا ہے کہ میرا قلعہ مضبوط ہے، مگر مالکِ حقیقی کا حکم آجائے تو کہیں پناہ نہیں ملتی۔

گجرات میں رکنیتِ جماعت کی منظوری کے بعد مجھے نظمِ جماعت کی طرف سے شعبہ دعوت و تربیت کی ذمہ داری سونپی گئی جس کے دوران پورے ضلع میں دور دراز دیہاتوں اور قصبوں تک جانے اور پروگراموں کو منظم کرنے کے مواقع ملے۔ یہ بہت مفید تجربات تھے۔ دوستوں کا ایک وسیع حلقہ قائم ہوا۔ اُس وقت منڈی بہاء الدین بھی ضلع گجرات کی ایک تحصیل ہوا کرتی تھی۔ یوں بہت وسیع و عریض علاقے میں بسوں، تانگوں پر اور کبھی بائیسکل پر یا پیدل سفر کرنا پڑتا۔ بہرحال اس دورِ جوانی میں کسی طرح کی کوئی مشکلات محسوس نہیں ہوتی تھیں۔ گجرات شہر کے رکنِ جماعت صوفی محمد اسلم پنجابی کے زبردست شاعر تھے۔ آپ بھی اکثر میرے دوروں میں ہم سفر ہوا کرتے تھے۔ ان کی پنجابی نظمیں بزرگ رکن جماعتِ اسلامی عبداللہ شاکر مرحوم کی طرح بہت پُرتاثیر ہوتی تھیں۔

صوفی محمد اسلم مرحوم کے حالات ہماری کتاب ’’چاند اور تارے‘‘ میں صفحہ 200 سے لے کر 206تک محفوظ ہیں۔ آپ کے پنجابی کلام میں سے کچھ حصہ آپ کی وفات کے بعد ’’کوڑے سچ‘‘ یعنی تلخ صداقتیں کے نام سے چھپا ہے۔ یہ کتاب 165صفحات پر مشتمل ہے جسے رکن جماعت حافظ زبیر احمد صاحب (گجرات) نے فاران پبلشر سے شائع کروایا تھا۔ اس دور کے ساتھیوں میں چودھری نثار احمد، مظہر اکبر، ملک رفیع الدین، سجاد الرحمان، سید زین العابدین، سید صابر علی اور ایک جونیئر ساتھی خالد ہمایوں جو آج کل بہت معروف صحافی ہیں، اور کئی دیگر احباب ہماری ادبی و تفریحی مجالس کی رونق ہوا کرتے تھے۔

اس تحریکی ذمہ داری کے ساتھ جماعت اسلامی کے ضلعی ہیڈکوارٹر سے نکلنے والے ہفت روزہ رسالے ’’الحدید‘‘ کی ادارت بھی میرے ذمے لگ گئی۔ اُس دور میں اس رسالے میں اداریہ، مضامین، رپورٹیں اور خبریں دلچسپ انداز میں چھپتی تھیں اور پورے ضلع میں جماعتی حلقوں اور بعض تعلیمی اداروں اور ادبی حلقوں میں رسالہ بڑے شوق سے پڑھا جاتا تھا۔ ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ اُس زمانے میں پیپلز پارٹی کی حکومت اپنے مخالف اخبارات و رسائل کو انتقام کا نشانہ بناتی تھی۔ ان کے ڈیکلریشن منسوخ ہوجاتے تھے اور بعض اوقات صحافی جیلوں میں ڈال دیے جاتے تھے۔

مشہور صحافی صلاح الدین شہید ایڈیٹر ہفت روزہ ’’تکبیر‘‘ کراچی، الطاف حسن قریشی صاحب ایڈیٹر ماہنامہ’’اردو ڈائجسٹ‘‘ لاہور، مجیب الرحمٰن شامی صاحب ایڈیٹر ہفت روزہ ’’زندگی‘‘ لاہور اور دیگر حکومت مخالف نظریات کے حامی صحافی خاصی مشکلات سے دوچار تھے۔ دیگر رسالوں کے ساتھ شامی صاحب کا رسالہ ہفت روزہ ’’زندگی‘‘بھی انتقام کی زد میں آیا تو ہم نے ’’الحدید‘‘ اپنے ڈیکلریشن کے ساتھ اُن کو دے دیا۔ یاد نہیں اس کے کتنے ایڈیشن لاہور سے نکلے، کیوںکہ اس کے کچھ ہی عرصے بعد مجھے بیرونِ ملک جانا پڑا۔

1970ء میں، میں نے ایم اے اسلامیات میں داخلہ لیا تھا، مگر جیل سے امتحان دینے کے بجائے میں نے یہی سوچا کہ رہائی کے بعد پرائیویٹ طالب علم کے طور پر امتحان دے دوں گا۔ چناںچہ 1971ء میں ایم اے اسلامیات کا امتحان دیا۔ اس عرصے میں گجرات اور لاہور کے درمیان مسلسل آمد و رفت رہتی تھی۔ ایک روز اچھرہ میں سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے نماز مغرب کے بعد فرمایاکہ سنتیں پڑھ کر تھوڑی دیر کے لیے میرے دفتر میں آجائو۔ میں آپ کے دفتر میں گیا تو حسبِ معمول آپ نے بڑی محبت سے پوچھا کہ آج کل بہت زیادہ مصروفیت تو نہیںہے؟ میں نے عرض کیا کہ مصروفیت تو ہے، مگر آپ فرمائیںکیا حکم ہے۔ آپ نے فرمایا کہ تفہیم القرآن جلد پنجم کی تفسیر چھپ چکی ہے، مگر ابھی اس کی جلد بندی نہیں ہوئی، کیوںکہ اشاریہ (انڈیکس) ابھی تیار کرنا ہے۔ میری مصروفیات بھی بہت ہیں اور صحت وہمت بھی جواب دے گئی ہے۔

میں نے ابھی کچھ نہیں کہا تھا کہ تھوڑے سے توقف کے بعد فرمانے لگے ’’میں نے ایک دو حضرات کو اشاریے کا کام کرنے کی ذمہ داری سونپی تھی، مگر وہ میرے اطمینان کے مطابق کام نہ کرسکے۔ اب آپ کو یہ کام سونپنا چاہتا ہوں۔‘‘ مولانا کی یہ گفتگو سن کر میری عجیب کیفیت ہوگئی۔ ایک طرف مولانا کا اعتماد میرے لیے بہت باعثِ فخر تھا اور دوسری طرف یہ خیال ذہن میں موجزن تھا کہ دیگر لوگ (نہ اُس وقت مولانا نے بتایا کہ وہ کون تھے اور نہ آج تک معلوم ہوا ہے) یہ کام نہ کرسکے تو میں کس کھیت کی مولی ہوں! بہرحال ہمت کرکے میں نے عرض کیا کہ مجھے آزمائشی طور پر کام کرنے دیں، اگر اچھا اور معیاری ہوا تو مکمل کرلوں گا اور اگر اس میں خامیاں ہوئیں تو دو صورتیں ہوسکیں گی کہ یا تو کسی زیادہ تجربہ کار ساتھی کو یہ ذمہ داری سونپی جائے، یا آپ مجھے کچھ طریقہ سلیقہ سمجھائیں کہ میں کام میں بہتری لا سکوں۔

آپ نے فرمایا کہ تمھارا خیال بالکل ٹھیک ہے۔ اس جلد کی پہلی دو سورتیں سورۃ محمدؐ اور سورۃ الفتح کے مطبوعہ صفحات کی یہ کاپیاں لے لو اور ان پر طبع آزمائی کرو۔ پھر آپ نے پوچھا کہ کیا تم نے پہلی جلدوں کا انڈیکس دیکھا ہے؟ میں نے عرض کیا: بہت گہرائی سے تو نہیں دیکھا مگر وقتاً فوقتاً حسبِ ضرورت کئی بار دیکھتا اور استفادہ کرتا رہا ہوں۔ آپ نے سارے عنوانات جو اشاریے میں شامل کرنے ضروری ہیں، ان کا مختصر تعارف کروایا اور پھر کام شروع کرنے کے لیے حکم دے دیا۔ میں نے اللہ کا نام لے کر ساتھ والے دفتر میں جو مولانا کے دفتر سے جانبِ مغرب واقع تھا اور جہاں کبھی میاں طفیل محمدؒ صاحب بیٹھا کرتے تھے، کام شروع کیا اور دوسرے دن دونوں سورتوں کا انڈیکس مکمل کرکے شام کے وقت مولانا کی خدمت میں اپنی کارکردگی لے کر حاضر ہوا۔

آپ نے توجہ سے ان دونوں سورتوں کے صفحات کو دیکھا اور میری چند صفحات پر مشتمل تحریر بصورتِ اشاریہ غور سے ملاحظہ فرمائی۔ آپ نے ایک آدھ جگہ اصلاح فرمائی اور پھر ارشاد ہوا کہ کام اطمینان بخش ہے، اب ساری جلد کا کام جتنی جلدی ممکن ہوسکے مکمل کردو تاکہ جلد بندی کے بعد جلد پنجم قارئین تک پہنچ سکے۔ اللہ تعالیٰ کی مدد اور مولانا کی رہنمائی اور دعائوں سے ہفتے عشرے کے اندر اندر میں نے یہ سارا کام مکمل کرلیا اور ایک دو بار اس پر نظرثانی کے بعد مولانا کی خدمت میں پیش کیا تو آپ بہت خوش ہوئے اور تحسین کے انمول کلمات سے نوازا۔ میرے لیے یہ معمولی کام بھی ایک بڑا اعزاز ہے۔

تین سالوں میں 1971ء تا 1973ء بہت سے تجربات سے گزرنا پڑا۔ میں حیران ہوتا ہوںکہ اتنے مختصر وقت میں اتنے سارے کام کیسے ممکن ہوگئے! ضلع گجرات کے دیہات و قصبات کے دورے، ’’الحدید‘‘ کی ادارت، اور تھوڑا بہت تصنیفی کام۔ سیرت النبیؐ کے بعد سیرتِ صحابہؓ کا مطالعہ اور اپنی تقاریر میں اس کے حوالے میرا بچپن ہی سے ذوق تھا۔ دورِ طالب علمی میں ان موضوعات پر بہت مرتبہ تقاریر کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ اکثر دوست اور بزرگان مطالبہ کرتے تھے کہ صحابہؓ کے حالات پر مضامین لکھوں۔ چناںچہ صحابہؓ کے حالات پر مضمون لکھنے کا سلسلہ 1971ء میں شروع ہوا۔ پہلا مضمون جو ہفت روزہ ’’آئین‘‘ میں چھپا وہ حضرت مصعب بن عمیرؓ کے حالات پر تھا۔ اس مضمون کے چھپنے کے بعد بعض بزرگان اور کئی ایک دوستوں نے تحسین کے ساتھ یہ اصرار کیا کہ اس سلسلے کو جاری رکھا جائے۔

مولانا فضل معبود مرحوم (رکن مرکزی مجلس شوریٰ از پشاور)، مولانا خان محمد ربانی (امیر جماعت اسلامی ملتان)، مولانا سلمان طاہر (حیدرآباد)، شیخ ظہور احمد (امیر جماعت اسلامی ضلع گجرات)، شیخ محمد انور (امیر جماعت اسلامی ضلع گوجرانوالہ)، مولانا محمد سلطان (مرکز جماعت اسلامی پاکستان، ذاتی معاون مولانا مودودیؒ)، برادرم تسنیم عالم منظر، برادرم عبدالوحید سلیمانی اور برادرم ظفرجمال بلوچ سبھی کے بار بار توجہ دلانے پر میں نے اس سلسلے کو آگے بڑھایا۔ جب 20 صحابہؓ کرام کے حالات قلم بند ہوگئے تو انھیں کتابی صورت میں شائع کرنے کا فیصلہ ہوا۔

یہی میری پہلی تصنیف تھی۔ اس کتاب کا نام ’’روشنی کے مینار‘‘ رکھا گیا۔ اسے گجرات کے ایک ناشر میاں سلطان احمد خوش نویس نے اپنے ادارے ’’مکتبہ ظفر‘‘ کے زیر اہتمام 1972ء میں شائع کیا۔ اس کے بعد اس کتاب کے کئی ایڈیشن البدر پبلی کیشنز لاہور نے شائع کیے۔ پھر یہ مقبول عام کتاب مکتبہ احیائے دین کی طرف سے شائع ہوتی رہی۔ اس کے ایڈیشن جو اب تک چھپے ہیں تقریباً پچیس کے لگ بھگ ہیں۔ اسی زمانے میں قرآنی دعائوں پر مشتمل کتاب ’’رحمان کے سائے میں‘‘ بھی مرتب کی۔ اس کے بھی بہت سے ایڈیشن چھپ چکے ہیں۔ اُس دور میں قلم و قرطاس کا جو رشتہ قائم ہوا بیرونِ ملک سفر کے بعد بھی جاری رہا۔

اسلامی جمعیت طلبہ میں کام کرتے ہوئے جماعت اسلامی کی پوری قیادت سے براہِ راست قریبی تعلق قائم ہوچکا تھا۔ ان دنوں میں خاصا مصروف تھا، مگر قائدینِ جماعت کو میری مصروفیات کا پوری طرح علم نہیں تھا۔ اس دور میں سید اسعد گیلانیؒ امیر جماعت اسلامی صوبہ پنجاب تھے۔ آپ نے قاصد بھیج کر مجھے گائوں سے ملاقات کے لیے لاہور بلایا۔ ہمارے دوست اور رکن اسلامی جمعیت طلبہ مرزا عبداللطیف لاہور سے یہ پیغام لے کر میرے گائوں آئے۔ پیغام ملنے کے بعد میں ان کے ساتھ لاہور پہنچا تو معلوم ہوا کہ گیلانی صاحب سیالکوٹ کے دورے پر ہیں اور اُس روز ان کا پروگرام نارووال میں ہے۔ اُس زمانے میں نارووال سیالکوٹ کی ایک تحصیل ہوا کرتی تھی۔ میرے پاس وقت کم تھا، میں قدرے پریشان ہوا۔ مولانا مودودیؒ کے بیٹے اور ہمارے دوست محمد فاروق مودودی نے 5-اے ذیلدار پارک اچھرہ میں مجھے، صفدر چودھری صاحب اور مرزا لطیف صاحب کو آپس میں گفت و شنید کرتے ہوئے دیکھا تو پوچھا کیا معاملہ ہے؟

محمد فاروق صاحب آزاد منش نوجوان تھے اور ہمارے ساتھ خاصے بے تکلف تھے۔ ہم نے بتایا تو فرمانے لگے کہ ہر بات کو مسئلہ کشمیر نہ بنادیا کرو۔ یہ کون سا مشکل کام ہے؟ ابا جی کو آج کہیں جانا آنا نہیں ہے، ان کی گاڑی فارغ کھڑی ہے، میں ابھی اسٹارٹ کرتا ہوں اور سیالکوٹ چلے جاتے ہیں، پیٹرول ڈلوانا آپ لوگوں کی ذمہ داری ہے۔ چناںچہ فاروق صاحب کے ساتھ مولانا محترمؒ کی گاڑی میں ہم تینوں روانہ ہوئے۔ راستے میں ایک پیٹرول پمپ سے گاڑی میں پیٹرول بھی ڈلوایا اور چائے بسکٹ سے اپنے پیٹ بھی بھرنے کا موقع ملا۔ سفر جاری تھا اور ہر طرح کے چٹکلے بھی لطف دے رہے تھے۔ ایک جگہ ریلوے لائن اور سڑک کے درمیان تنگ سی پٹی میں کسانوں کا گڑ بنانے والا بیلنا لگا ہوا تھا، کسانوں نے تازہ تازہ گُڑ دھوپ میں بچھی ہوئی چٹائیوں اور چادروں کے اوپر سجایا ہوا تھا۔
فاروق صاحب نے پوچھا کہ یہ کیا ہورہا ہے؟ جب انھیں میں نے بتایا تو کہنے لگے جی چاہتا ہے کہ کچھ گُڑ کھائیں اور گنے کا رس بھی پئیں۔ ہم نے کہا چلو یہ کام کون سا مشکل ہے۔ صفدر صاحب نے گرہ لگائی ’’ فاروق بھائی یہ کوئی مسئلہ کشمیر یا مسئلہ فلسطین نہیں ہے!‘‘میں نے کہا: گاڑی روکو، تمھاری خواہش پوری کردیتے ہیں۔
(جاری ہے)