قصہ یک درویس! جیل میں نماز تراویح

قسط نمبر41

جیل کے اندر اس ایک سال کے عرصے میں مختلف مرحلوں سے گزرنا پڑا۔ سخت گرمیوں کے موسم میں ایک بار شدید بخار ہوگیا۔ جیل کے میڈیکل ڈاکٹر سے چیک اپ کرایا تو انھوں نے کہا کہ ملیریا بخار ہوگیا ہے۔ آپ نے دوائیں لکھنے کے ساتھ یہ بھی لکھ دیا کہ قیدی کو کم از کم ایک ہفتے کے لیے اسپتال میں داخل کردیا جائے۔ چناں چہ اسپتال میں ایک ہفتہ بہت سکون سے گزرا۔ ڈاکٹر صاحب کا نام تو یاد نہیں، مگر ان کا دوستانہ رویہ اور شیریں کلامی اب تک یاد ہے۔ انھوں نے فرمایا کہ اگر آپ کو مزید یہاں رہنا پسند ہو تو اس کی گنجائش موجود ہے۔ میں نے کہا کہ اگر یہ میرا استحقاق ہے تو مجھے مزید ایک دو ہفتے یہاں قیام کی اجازت دے دیجیے۔ چناںچہ مزید پندرہ دن اسپتال میں قیام رہا، تاہم اس دوران ڈاکٹر صاحب کی اجازت سے اسپتال سے نکل کر مختلف بیرکوں میں اپنے دوست احباب سے ملاقاتوں کا اہتمام کرتا رہا۔

الحمدللہ! اب تک یہاں میرے دوستوں کا وسیع حلقہ پیدا ہوگیا تھا جن میں ہر علاقے کے لوگ شامل تھے۔ یہ لوگ مختلف کیسوں میں یا تو حوالاتی تھے، یا سزا یافتہ قیدی۔ اکثر لوگ باہمی خاندانی دشمنیوں کی وجہ سے قتل مقاتلے کے کیسوں میں ملوث تھے۔ ان میں سے سجاول وٹو اور اس کے عزیز و رشتے دار مراد وٹواور شیرا وٹو وغیرہ اب تک یاد ہیں۔ سجاول کا تعلق تاندلیانوالہ ضلع فیصل آباد کے کسی گائوں سے تھا۔ کئی سال بعد جب میں بیرونِ ملک سے واپس آکر مرکزِ جماعت میں ذمہ داری ادا کررہا تھا تو سجاول بھی رہا ہوگیا۔ جیل سے رہا ہونے کے بعد موصوف مجھ سے ملنے کے لیے منصورہ آتا رہتا تھا۔ کچھ عرصہ پہلے ذاتی دشمنی کی وجہ سے قتل ہوگیا۔ بہت باصلاحیت شخص تھا، مگر خاندانی اور جاہلی دشمنیوں کی بھینٹ چڑھ گیا۔ ہمارے معاشرے میں اس طرح بے شمار قیمتی جانیں ضائع ہوجاتی ہیں۔

دیگر دوستوں میں راجا فضل کریم شاد، حاکم علی عرف حاکو (خوشاب)، مبارک شاہ (میانوالی)، صوبیدار غلام نبی، تنویر شاہ اور بشیر احمد (سیالکوٹ)، محمد حسین سڈل (ٹوبہ)، محمد نواز ساہی (منڈی بہا الدین) اور بلوچ قیدی بابا جی منگل خاں اور عبدالحق بھی بہت محبت کرنے والے احباب تھے۔ معلوم نہیں ان میں سے کتنے اپنی منزل کو پہنچ گئے اور کتنے دنیا میں باقی ہیں۔ نہ کسی سے رابطہ رہا، نہ کوئی خیر خبر ملی، صرف فضل کریم شاد اور سجاول وٹو مرحوم جیل کے بعد بھی ملتے رہے۔ اب دونوں پیارے ساتھی دنیا سے جا چکے ہیں۔ اللہ مغفرت فرمائے۔ سجاول وٹو مرحوم کے ایک چھوٹے بھائی فرید وٹو وکیل تھے۔ اُن سے بس ایک ہی مرتبہ فیصل آباد یا جڑانوالہ میں وکلا کے کسی پروگرام میں ملاقات ہوئی تھی۔ وہی پہلی اور آخری ملاقات تھی۔ فرید صاحب نے بڑی اپنائیت کے ساتھ بتایا تھا کہ وہ میرے مرحوم دوست سجاول کے بھائی ہیں۔ میں نے خاندان کی خیروعافیت پوچھی تو بتایا کہ اللہ کا شکر ہے، سب کچھ ٹھیک ہے۔

ساہیوال سینٹرل جیل میں اب کوئی اجنبیت نہیں تھی۔ اکثر و بیشتر قیدی مجھ سے اتنے مانوس ہوگئے تھے کہ وہ بڑی محبت اور احترام کے ساتھ ملتے جیسے مدتوں کی دوستی یا قریبی تعلق داری ہو۔ اسی طرح جیل کا عملہ بھی بہت عزت سے پیش آتا تھا۔ اس دوران ملک بھر میں انتخاباتِ عام کی مہم زوروں پر تھی۔ یہ مہم تقریباً آٹھ نو ماہ جاری رہی تھی۔ جماعت اسلامی نے ملک کے دونوں حصوں، مشرقی و مغربی پاکستان میں خاصی سیٹوں پر اپنے نمائندے کھڑے کیے ہوئے تھے۔ ساہیوال میں بھی جماعت انتخاب میں حصہ لے رہی تھی۔ ملک کے معروف صحافی اور شعلہ نوا خطیب جناب شورش کاشمیری جماعت کے باقاعدہ رکن اور کارکن تو نہیں تھے، مگر جماعت کے زبردست حامی اور مولانا مودودیؒ کے مدّاح تھے۔ جماعت اسلامی کے مختلف انتخابی اور عوامی جلسوں میں شرکت فرمایا کرتے تھے۔ ساہیوال میں بھی ایک جلسے میں ان کو مدعو کیا گیا۔ اس پروگرام کے مطابق وہ ساہیوال آئے جہاں رات کو جلسۂ عام تھا۔ یہ اتوار کا دن تھا۔

عصر کے قریب میرے پاس جیل کا ایک کارندہ آیا، اس نے پیغام دیا کہ میری ملاقات آئی ہے۔ میں نے کہا کہ آج تو اتوار ہے، اتوار کو کیسے ملاقات آئی ہے؟ چھٹی کے دن کسی ملاقات کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ اس نے کہا کہ جناب آپ کے ملاقاتی جو آئے ہیں ان کی آمد سے جیل کے در و دیوار ہل کر رہ گئے ہیں۔ داروغۂ جیل جناب عثمانی صاحب خود اپنے گھر سے دفتر میں آگئے ہیں اور آپ کے ملاقاتی سے بڑے ادب و احترام سے گفتگو کررہے ہیں۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ یہ ملاقاتی کون ہے۔ میں کارندے کے ساتھ ڈیوڑھی میں پہنچا اور پھر داروغہ صاحب کے دفتر میں داخل ہوا تو دیکھ کر حیران رہ گیا کہ حضرت شورش کاشمیری وہاں تشریف فرما تھے۔

مجھے دیکھتے ہی شورش صاحب بڑی محبت سے اٹھ کر میری طرف بڑھے اور اپنے مخصوص انداز میں میرے ساتھ بغل گیر ہوگئے۔ ان کا وہ محبت بھرا معانقہ میں کبھی نہیں بھول سکتا۔ سپرنٹنڈنٹ صاحب نے چائے، نمکو، کیک اوربسکٹ منگوائے اور شورش صاحب سے معذرت کی کہ وہ کوئی زیادہ خدمت نہیں کرسکے۔ شورش صاحب نے قہقہہ لگایا اور پھر فرمایا: عثمانی صاحب! کوئی بات نہیں، اس جیل میں میری بہت زیادہ خدمت کی جاتی رہی ہے (مرحوم کا اشارہ اُن عقوبتوں اور سختیوں کی طرف تھا جن سے ساہیوال جیل میں قید کے دوران مسلسل ان کو سابقہ پیش آتا رہا۔ آپ نے اپنی کتابوں میں بھی ان کا تذکرہ کیا ہے)۔

چائے کے دوران شورش صاحب نے فرمایا کہ ابھی تمھارے بارے میں عثمانی صاحب مجھے بتا رہے تھے کہ تم بہت عجیب بلکہ ’’ضدی‘‘ نوجوان ہو۔ معافی اور رہائی کی پیش کش کو تم نے مکمل طور پر ٹھکرا دیا ہے۔ پھر ہنستے ہوئے فرمانے لگے کہ میں نے عثمانی صاحب کو بتایا ہے کہ سید مودودیؒ کی فکر جس شخص کے دل و دماغ میں رچ بس جائے وہ اللہ کے سوا کسی کے سامنے جھکنا گوارا نہیں کرسکتا۔ شورش صاحب نے اپنے بھی واقعات سنائے اور کئی امور پر گھنٹہ بھر کی اس انتہائی شیریں نشست میں روشنی ڈالتے رہے۔ مرحوم کی عزیمت و استقامت اپنی مثال آپ تھی۔

جماعت اسلامی ساہیوال کے بزرگ رہنما چودھری بشیر احمد مرحوم اور ایک آدھ اور جماعتی ساتھی بھی شورش صاحب کے ہمراہ تھے۔ وہ سب بھی بڑی محبت و اپنائیت کے ساتھ گلے ملے۔ مزید اللہ تعالیٰ ان سب لوگوں کے درجات بلند فرمائے۔ میری رہائی کے بعد ایک مرتبہ پاک ٹی ہائوس کی ادبی مجلس میں شورش صاحب اور بعض دیگر احباب بیٹھے تھے کہ میں بھی وہاں پہنچ گیا۔ شورش صاحب نے نہایت محبت بھرے انداز میں جیل میں مجھ سے مذکورہ بالا ملاقات کا تذکرہ کیا، جس سے سب دوست بہت محظوظ ہوئے۔

جیل میں ماہِ رمضان المبارک 1390ھ کی آمد سے قبل میں فکرمند تھا کہ اپنی چکی میں بند ہوں گا تو قرآن پاک تراویح میں سنانے کا اہتمام نہیں ہوپائے گا۔ قیدی دوست فضل کریم شاد صاحب نے تجویز پیش کی کہ میں ایک درخواست لکھ کر سپرنٹنڈنٹ صاحب سے اجازت لے لوں کہ مجھے ایک بیرک میں رمضان کے دوران منتقل کردیا جائے تاکہ وہاں تراویح میں قرآن سنانے کا اہتمام ہوسکے۔ ہر بیرک کا ایک نمبر ہوتا تھا۔ مجھے یاد نہیں کہ اس بیرک کا نمبر کیا تھا۔ بہرحال فضل کریم صاحب اور ان کے بہت سارے دیگر ساتھی اس بیرک میں مقیّد تھے۔ میں نے درخواست دی تو مجھے اس بیرک میں منتقل کردیا گیا۔ اس بیرک میں قیدیوں کی تعداد ایک سو کے لگ بھگ تھی۔ اس ماہِ رمضان میں جو یکم نومبر 1970ء کو شروع ہوا، میں نے پورا قرآن نماز تراویح میں سنایا اور ہر روز خلاصۂ مضامینِ قرآن بھی بیان کرتا رہا۔

بیرک میں مقیم قیدیوں کی ایک بڑی تعداد نماز تراویح میں شریک ہوتی تھی۔ بعض آٹھ تراویح پڑھ کر اپنے اپنے بستر پر چلے جاتے، جب کہ بعض پوری تراویح پڑھنے کے بعد جاتے۔ پندرہ بیس نمازی ایسے تھے جو باقاعدہ خلاصہ سنتے تھے۔ بیرک کے اندر نماز تراویح کے لیے جس انداز میں صفیں بچھانے کا اہتمام کیا گیا وہ بھی بڑا کمال تھا۔ جگہ کی کمی کے باوجود بڑے سلیقے کے ساتھ صفیں بچھائی جاتیں اور سب لوگ ان پر کھڑے ہوجاتے، کچھ نمازی اپنی ذاتی جاء نماز لاکر بچھا لیتے۔ وہ رمضان واقعی یادگار تھا۔

قرآن کی ہر سورت اور ہر آیت کا لطف اب تک یاد ہے مگر جس روز سورۂ یوسف کی تلاوت ہوئی، اس کا تو ایسا سماں تھا کہ جسے الفاظ میں بیان کرنا میرے لیے ممکن نہیں ہے۔ اسی طرح آخری تراویح میں قرآن کی تکمیل اور دعا کے لمحات کی بھی ایک منفرد شان تھی۔ اللہ ان سب ساتھیوں کو اپنی بے پایاں رحمتوں سے نوازے جو اِن سارے مراحل کا حسن تھے۔ ایک خوش گوار اور یادگار بات یہ ہے کہ یہ نمازی بریلوی، دیوبندی، اہلِ حدیث ہونے کے باوجود نماز تراویح میں یکساں شوق و محبت کے ساتھ شرکت فرماتے تھے۔ مغرب اور فجر کی نمازیں بھی باجماعت ادا ہوتی تھیں۔

انتخاباتِ عام کی انتخابی مہم سال بھر جاری رہی۔ شیڈول کے مطابق ملک بھر میں قومی اسمبلی کا الیکشن 10دسمبر 1970ء کو ہوا اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات 17دسمبر کو منعقد ہوئے۔ انتخابات کے نتائج سے معلوم ہوچکا تھا کہ مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کو بہت بڑی کامیابی ملی ہے، اور مغربی پاکستان میں بحیثیتِ مجموعی پیپلز پارٹی کا پلہ بھاری ہے۔ انتخابی نتائج آنے پر بھٹو صاحب نے جماعت اسلامی کو نشانۂ تنقید بناتے ہوئے یہ بھی کہہ دیا تھا کہ میں فکس اپ کردوں گا! خیر ہمیں ایسی دھمکیوں سے کیا لینا دینا تھا۔

ان انتخابات میں جماعت اسلامی کو مرکز میں صرف 4 اور ہر صوبائی اسمبلی میں (بشمول مشرقی پاکستان) سوائے بلوچستان کے صرف ایک ایک نشست پر کامیابی ملی۔ اس صورتِ حال پر میں اور میرے جیل میں قیام کے دوران ہمارے حلقے میں شامل ہونے والے تمام قیدی بھائی بھی خاصے غم زدہ تھے۔ میں نے اپنے سب ساتھیوں کو حوصلہ دینے کی مقدور بھر کوشش کی اور پیپلزپارٹی کے حامیوں سے ٹکرائو کے بجائے انھیں مبارک باد اور خیرسگالی کا پیغام دیا۔ اس پر فریقین کے ہر شخص کا مثبت تاثر سامنے آیا۔ 17دسمبر کی رات کو تقریباً دس بجے جیل حکام بیرک کے تالے کھول کر میرے پاس آئے اور کہا کہ آپ کی رہائی کے احکامات آچکے ہیں۔

یہ پیغام سن کر میں نے کہا: ٹھیک ہے میں کل چلا جائوں گا۔ انھوں نے جواب دیا کہ جیل قواعد و ضوابط کے مطابق ہمارے لیے تو آپ کو ایک گھنٹہ بھی مزید رکھنا کسی صورت ممکن نہیں۔ جیل میں حکام کی اپنی مجبوریاں تھیں اور میرے لیے رات کے وقت اچانک جیل سے نکلنے کے اپنے مسائل تھے۔ بحث و تکرار کے دوران میں نے ان سے کہا: رات کے اس وقت میں کہاں جائوں گا؟ انھوں نے کہا: آپ پریشان نہ ہوں، ہم آپ کے لیے ملازمین میں سے کسی کے گھر رہائش کا بندوبست کردیں گے۔ بیرک کے اکثر قیدی جو سو رہے تھے، اس بحث مباحثے کے نتیجے میں جاگ اٹھے۔ افسران نے یہ بھی کہا کہ دفتر کے کسی کمرے میں آپ کے لیے بستر لگا دیتے ہیں۔

میں نے کہا: مجھے یہ تجویز ہرگز منظور نہیں۔ انھوں نے کہا: پھر آپ کے لیے ہم تانگہ منگوا دیتے ہیں اور آپ ریلوے اسٹیشن یا بس اسٹاپ سے ٹرین یا بس میں سفر کرکے اپنے گھر چلے جائیں۔ میں نے سوچا کہ اب مزید تکرار اور بحث سے کچھ حاصل نہ ہوگا، اس لیے اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ صاحب سے کہا: چلیں ٹھیک ہے، تانگہ منگوائیے اور میرا تھوڑا بہت جو ضروری سامان ہے وہ بھی اس میں رکھوا دیجیے۔ چناں چہ اس رات دوستوں سے ملتے ملاتے اور جیل سے نکلتے نکلتے گیارہ بج گئے۔ 1970ء میں ساہیوال جیسے شہر میں دسمبر کی راتوں میں دس بجے کے بعد ایسا سناٹا چھا جاتا تھا جسے محاورے میں کہا جاتا ہے ’’یہاں تو جن پھر گیا ہے‘‘۔

جب میں جیل سے نکل کر تانگے میں بیٹھا تو کوچوان نے پوچھا ’’جناب کہاں جائیں گے؟‘‘ میں نے جماعت اسلامی کے دفتر چوک بیری والا کا پتا بتایا۔ تقریباً ساڑھے گیارہ بجے ہم دفتر جماعت کے باہر پہنچ گئے۔ ایک ہو کا عالم تھا، دروازہ کھٹکھٹایا تو قدرے تاخیر سے دروازہ کھلا۔ ناظم دفتر سید منور حسین بخاری صاحب آنکھیں ملتے ہوئے دروازہ کھول کر حیران و پریشان ہوکر میری طرف دیکھنے لگے۔ خیر علیک سلیک اور معانقے کے بعد انھوں نے مجھ سے پوچھا ’’آپ اس وقت کیسے آئے ہیں؟‘‘ میں نے ازراہِ مذاق سرگوشی کے انداز میں کہا ’’شور نہ کیجیے، میں جیل سے نکل کر تانگے میں بیٹھا اور وہاں سے بھاگ آیا ہوں‘‘۔ یہ سن کر وہ قدرے مزید گھبرا گئے۔ پھر کہنے لگے ’’پیر اشرف صاحب کو بھی بتادوں تاکہ کوئی خطرہ ہو تو پیش بندی کی جا سکے‘‘۔ میں نے کہا ’’نہیں پیر صاحب کو تکلیف نہ دیں، میرے پیر آپ ہی ہیں۔‘‘(جاری ہے)