پیپلز پارٹی صوبے میں گندی سیاست کررہی ہے
بلوچستان میں امن و امان کی صورت حال واقعی ابتر ہے۔ اسے درست کرنے کا نسخہ ریاست اور حکومت کے پاس موجود نہیں۔ ہوتا تو گزشتہ دو عشروں میں ان کی کوئی تدبیر کارگر ثابت ہوجاتی۔ اس کے برعکس بلوچ مسلح گروہ مضبوط ہوئے ہیں، اور ان کی کارروائیوں کا دائرہ ماضی کی نسبت مزید علاقوں تک پھیل چکا ہے۔ کالعدم بلوچ لبریشن آرمی نے متعدد خودکش حملے کرائے۔ خودکش حملوں کے عنصر نے ریاست اور حکومتوں کو مزید مشکل اور الجھن میں مبتلا کردیا ہے۔ صوبے میں پیپلز پارٹی اور نون لیگ کی حکومت سے وابستہ وزراء، مشیر، پارلیمانی سیکریٹریز اور ارکانِ اسمبلی کی ترجیح فوائد ہیں، جن کے حصول میں وہ مگن ہیں۔ صوبے کے وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی تعلیم یافتہ اور باصلاحیت شخص ہیں، وہ اس منصب پر بٹھائے گئے ہیں۔ جب وزیراعظم شہبازشریف اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی موجودگی میں ایپکس کمیٹی نے بلوچستان میں بھرپور اور جامع آپریشن کا اعلان کردیا تو آپریشن آپریشن کی تکرار سرفراز بگٹی بھی کرتے رہے، بلکہ سرفراز بگٹی کا موقف ہی فوجی کارروائی ہے۔ ظاہر ہے سیاسی و سماجی حلقوں میں اس پر تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ فوجی آپریشن کی مخالفت مختلف فورمز پر ہونے لگی تو اس ذیل میں سرفراز بگٹی نے سوال رکھا کہ جو سیاسی لوگ یا جماعتیں آپریشن کی مخالفت کررہی ہیں وہ آپریشن کے علاوہ کوئی تجویز دیں کہ کس طرح صوبے میں امن قائم کیا جائے اور دہشت گردی سے نمٹا جائے۔ گویا سرفراز بگٹی یہ سمجھتے ہیں کہ آپریشن کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے، اور دعویدار ہیں کہ حکومت صوبے میں فلاح و بہبود، نوجوانوں کو روزگار کی فراہمی، انہیں ہنرمند بنانے اور صوبے کی ترقی و خوشحالی کے لیے کامیابی سے کام کررہی ہے۔ یعنی اُن کی دانست میں اچھی حکمرانی کا ماحول قائم ہے۔ جبکہ درحقیقت ان سب کا ہنوز فقدان ہے۔ یقیناً مسلح گروہ ریاست سے کسی صورت بات نہیں کریں گے۔ چند اشخاص شاید کرلیں، مگر کالعدم بی ایل ایف اور بی ایل اے کسی صورت آمادہ نہیں۔ اس کے علاوہ نوجوان ریاست اور حکومت سے مطمئن نہیں۔ 8 فروری 2024ء کے عام انتخابات کے بعد پارلیمانی سیاست پر رہا سہا اعتبار اور اعتماد بھی اٹھ چکا ہے۔ حکومت عوام کے ووٹوں سے منتخب نمائندوں کے ذریعے قائم ہوتی اور اچھی حکمرانی کی حقیقی صورت ہوتی تو عوام میں پائی جانے والی بیزاری اور دوری میں قدرے کمی آتی۔ یہاں تو سب سے بڑا سوال ہی صوبے کی حکومت پر اٹھایا جاتا ہے۔ لوگ باخبر ہیں کہ یہ حکومت اور اس میں موجود نمائندوں کی اکثریت دھاندلی سے جتواکر ان پر مسلط کی گئی ہے۔ خود سرفراز بگٹی کی جیت مشتبہ ہے۔ الیکشن کمیشن آزاد نہیں ہے۔ این اے262 پر 16جنوری کو ضمنی انتخاب کا اعلان کیا گیا مگر سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو معطل کردیا۔ اس سے پہلے تحریک انصاف کے عادل بازئی اور دائود شاہ نے کاغذاتِ نامزدگی جمع کرائے، جب لسٹ آویزاں ہوئی تو اس میں ان کے نام ہی شامل نہ تھے۔ عادل بازئی مسلم لیگ ن کی درخواست پر ڈی سیٹ کردیے گئے تھے۔ مسلم لیگ ن کا دعویٰ ہے کہ عادل بازئی الیکشن کے بعد شامل ہوگئے تھے، بعدازاں دوبارہ تحریک انصاف کی طرف گئے۔ عادل بازئی فروری کے عام انتخابات میں تحریک انصاف کی حمایت سے کامیاب ہوئے تھے۔ انہیں زیر کرنے کے لیے طرح طرح کے حربوں کا استعمال شروع ہوا۔ ان کی جائدادوں کو نقصان پہنچایا گیا۔ اب بتایا جائے جب رویّے اور چلن اس طرح ہو تو عوام ان حکومتوں اور اداروں پر اعتما کیسے کریں گے؟
پیش ازیں بلاشبہ صوبے میں گورننس بری ہے۔ وزیراعلیٰ دیانت اور میرٹ کی بات کرتے ہیں لیکن خود ان کا عمل برعکس دکھائی دیتا ہے۔ پی ڈی ایم اے کی کنجی سرفراز بگٹی کے ہاتھ میں ہے۔ پی ڈی ایم اے بازپرس اور محاسبے سے آزاد ادارہ ہے۔ یہ نجی طور پر غیر متعلقہ لوگوں کو یورپ اور امریکہ کے طویل دوروں پر بھیجتا ہے۔ لوگوں کو نقد رقومات، پیٹرول اور راشن دیتا ہے۔ یہ نوازنے کے طریقے ہیں۔ مستفید ہونے والوں میں صحافی بھی شامل ہیں تاکہ ہمنوا رہیں۔ سرفراز بگٹی نے وزارتِ اعلیٰ کی کرسی سنبھالنے کے ساتھ ہی پی ڈی ایم اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر فیصل طارق کو اپنا ڈائریکٹر پولیٹکل افیئرز، پبلک ریلیشنز مقرر کردیا۔ اس طرح یہ شخص دہرے مزے لے رہا ہے۔
غرض فوجی آپریشن کا شور9نومبر کو کوئٹہ ریلوے اسٹیشن پر کالعدم بلوچ لبریشن آرمی کی جانب سے خودکش حملے کے بعد شروع ہوا، جس میں فورسز کو نشانہ بنایا گیا۔ 30افراد جاں بحق ہوئے جن میں بیس سے زائد سیکیورٹی فورسز کے اہلکار تھے۔ پھر کہا گیا کہ ٹارگٹڈ آپریشن کیا جائے گا۔ حالاں کہ ٹارگٹڈ اور انٹیلی جنس بنیادوں پر آپریشن دو عشروں سے زائد عرصے سے ہورہے ہیں، مگر حالات میں بہتری نہیں لائی جاسکی ہے۔ حالات موافق بنانے کے لیے سب سے پہلے سیاسی عمل کو شفاف بنانے کی ضرورت ہے۔ اس کی راہ میں رکاوٹوں سے اجتناب برتنا ہوگا۔ انتخابات میں دھاندلی اور من پسند لوگوں کو لانے کی پالیسی ترک کرنا ہوگی۔ بلوچستان میں انتخابات شفاف ہوں گے، سیاسی جماعتوں کو ان کے سیاسی حق سے محروم نہ کیا جائے گا تو رفتہ رفتہ نوجوانوں کی سمت تبدیل ہوتی جائے گی۔ ان کا اسمبلیوں پر اعتماد بحال ہوگا۔ سردست بلوچستان کو رجواڑا بنانے کی پالیسی ترک کرنا ہوگی۔
پیپلز پارٹی صوبے میں گندی سیاست کررہی ہے۔ ”حب“ میں بھوتانی خاندان کے مقابلے میں سندھ سے آئے علی حسن زہری کو مسلط کردیا گیا ہے۔ اس شخص کو بااختیار بنایا گیا ہے۔ اس کی بیوی ثمینہ ممتاز ”باپ“ پارٹی کے ٹکٹ پر سینیٹر بنی ہیں اور حالیہ سینیٹ انتخابات میں بہن بھی بلوچستان سے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر سینیٹر بننے میں کامیاب ہوئی ہیں۔ پیپلز پارٹی نے 30 نومبر 2023ء کو کوئٹہ کے ایوب اسٹیڈیم میں یوم تاسیس کا انعقاد مقتدرہ کے کہنے پر کیا تھا۔ 8 فروری 2024ء کے انتخابات میں اُس کے کئی امیدوار فارم47کے تحت کامیاب کرائے گئے ہیں۔ بلوچستان کی موجودہ حکومت ڈھائی ڈھائی سال کے فارمولے کے تحت قائم ہے۔ سرفرازبگٹی اپنے ڈھائی سال پورے کریں گے تو اس کے بعد وزارتِ اعلیٰ کی کرسی نون لیگ کو دی جائے گی۔ مگر بلوچستان کے عوام پر ان رویوں اور پالیسیوں کا انتہائی منفی اثر پڑرہا ہے۔