غزہ میں نئی قبضہ بستیاں تعمیر ہوں گی؟
جنگی جرائم مقدمات کا خطرہ، اسرائیلی فوجیوں کو بیرونِ ملک جانے سے روک دیا گیا
انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اسرائیل کو غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کُشی کا مجرم قراردے دیا۔ 5 دسمبر کو ادارے کی معتمدِ عام محترمہ اینس کیلیمرد (Angnes Callamard) کی جانب سے جاری ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غزہ پر حملے کے دوران میں اسرائیل نے منظم منصوبہ بندی کے ساتھ اہم بنیادی ڈھانچے کو تباہ کیا اور خوراک و ادویہ کے علاوہ ضروری انسانی امداد کی فراہمی روک کر فلسطینیوں کو تباہ کرنے کی کوشش کی۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اسرائیل پر1951ء کے نسل کُشی کنونشن کی خلاف ورزی کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیلی عسکری اقدامات کا مقصد غزہ کی فلسطینی آبادی کو ’’سست اور سوچی سمجھی موت‘‘ کے عذاب میں مبتلا کرنا ہے۔ رپورٹ کو اشاعت کے لیے جاری کرتے ہوئے محترمہ کیلیمرد نے کہا ’’ہمارے ان افسوس ناک نتائج کو بین الاقوامی برادری کے لیے خطرے کی گھنٹی کے طور پر کام کرنا چاہیے، یہ صریح نسل کُشی ہے جسے فوری طور پر بند ہونا ضروری ہے۔‘‘
حسبِ توقع اسرائیل اور اُس کے امریکی و یورپی سرپرستوں نے اس رپورٹ کو مسترد کردیا۔ ایمنسٹی پر الزام لگاتے ہوئے اسرائیلی وزارتِ خارجہ نے ایک بیان میں کہا: ’’قابلِ مذمت اور جنونی تنظیم، ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ایک بار پھر سفید جھوٹ پر مبنی من گھڑت رپورٹ پیش کی ہے‘‘۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل اسرائیل نے بھی رپورٹ کو مبالغہ آمیز قرار دیا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی اسرائیلی شاخ کا کہنا تھا کہ مقامی افراد کو تحقیقات سے علیحدہ رکھ کر معاملے کو مشکوک بنادیا گیا ہے۔
امریکی وزارتِ خارجہ کے ترجمان ویدانت پٹیل نے واشنگٹن میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے فرمایا کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں لگائے گئے الزامات خودساختہ، بلا ثبوت اور بے بنیاد ہیں، چنانچہ امریکہ نے غزہ نسل کُشی کے بارے میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کو یکسر مسترد کردیا ہے۔ جرمن وزارتِ خارجہ کے ترجمان سباشین فشر (Sebastian Fischer) بہت دور کی کوڑی لائے۔ وہ صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے بولے: ’’جب تک ’نیت‘کے بارے میں ناقابلِ تردید ثبوت نہ مل جائے نسل کُشی ثابت نہیں ہوتی۔ غزہ میں اسرائیل کے کسی بھی قدم سے ثابت نہیں ہوا کہ یہ سب کچھ نسل کُشی کی ’نیت‘ سے کیا جارہا ہے‘‘۔ کچھ ایسا ہی مؤقف اطالوی وزیر خارجہ و نائب وزیراعظم انتونیو تیجانی کا تھا۔ روم میں اپنی جماعت کی پارلیمانی پارٹی سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے ارشاد فرمایا: ’’جو کچھ غزہ میں ہورہا ہے وہ غلط ہے، لیکن اسے نسل کُشی نہیں کہا جاسکتا۔‘‘
امریکی و یورپی رہنمائوں کی ہٹ دھرمی کے باوجود دنیا بھر میں اسرائیلیوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔ اسرائیلی فوج نے غزہ نسل کشی کے الزامات میں ملوث اپنے 30 فوجیوں کو غیر ملک سفر سے پرہیز کی ہدایت کی ہے۔ قبرص، سلوانیہ اور ہالینڈ جانے والے 8 فوجی افسروں کو فوری طور پر ملک واپس آنے کا حکم دے دیا گیا ہے، اس لیے کہ ان لوگوں کے خلاف مقامی وکلا نے جنگی جرائم کے پرچے کٹوا دیے تھے۔ دوسرے ممالک کے لیے عازمِ سفر تمام فوجیوں سے کہا گیا ہے کہ ٹکٹ خریدنے سے پہلے اسرائیلی وزارتِ قانون سے مشورہ کرلیں۔
بیلجیم میں اسرائیل کے عسکری اتاشی کے خلاف جنگی جرائم کی شکایت کردی گئی ہے۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے کرنل موسیٰ تیترو (Moshe Tetro)کے خلاف تحریری شکایت وزارتِ داخلہ اور وزارتِ انصاف کو جمع کرائی ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ غزہ تعیناتی کے دوران کرنل صاحب امدادی سامان کی فراہمی میں رکاوٹ ڈال کر جنگی جرائم کے مرتکب ہوئے ہیں۔ خط میں کہا گیا ہے کہ اگر اس مکتوب کا تسلی بخش جواب جلد موصول نہ ہوا تو عدالت سے رجوع کیا جائے گا۔ آسٹریلیا نے فلسطینیوں سے بدسلوکی اور قبضہ گردی کی حمایت پر اسرائیل کی سابق وزیرانصاف ایلے شکر (Ayelet Shaked)کو ویزا دینے سے انکار کردیا۔
بیرونِ ملک اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے دبائو کے باوجود غزہ میں اسرائیلی کارروائیوں میں کمی کے کوئی آثار نہیں، بلکہ لبنان سے راکٹ حملے رک جانے کے باعث اسرائیلی فضائیہ نے اپنی پوری طاقت غزہ میں جھونک دی ہے۔ شمال میں بیت لاہیہ سے جنوب میں رفح تک پوری پٹی شدید بمباری کی لپیٹ میں ہے۔ بار بار جبری نقل مکانی کی بنا پر سارا غزہ عملاً سڑکوں پر ہے۔ غربِ اردن، وادیِ اردن اور مشرقی بیت المقدس کا بھی یہی حال ہے جہاں فوج کے ساتھ قبضہ گردوں نے لوٹ مار و قتلِ عام کا بازار گرم کررکھا ہے۔
وزیر اندرونی سلامتی اتامر بن گوئر غزہ سے فلسطینیوں کی بے دخلی اور وہاں نئی قبضہ بستیوں کے قیام پر مُصر ہیں۔ گزشتہ ہفتے وزیراعظم سے ملاقات کے بعد اسرائیلی ریڈیو پر انہوں نے کہا: ’’بن یامین نیتن یاہو نے غزہ سے فلسطینیوں کی ’نقل مکانی‘ پر ’’کچھ کھلے پن‘‘ کا مظاہرہ کیا ہے‘‘۔ بن گوئر کا کہنا تھا کہ ’’دشمن کی شکست صرف اسی صورت مکمل ہوگی جب ہم اُن سے علاقہ چھین لیں‘‘۔ انتہا پسند، غزہ میں اسرائیلی بستیاں تعمیر کرنے کے لیے، نامزد امریکی سفیر مائک ہکابی کے ذریعے نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے رابطے میں ہیں۔ جناب ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر غزہ کے صاف و شفاف ساحل پر سیاحوں کے لیے آراستہ و پیراستہ Beach Front تعمیر کرنے کا خیال ظاہر کرچکے ہیں، بلکہ کہا جارہا ہے کہ خلیجی و عرب شیوخ اس نفع بخش کاروبار میں سرمایہ کاری کے لیے دامادِ اوّل سے رابطے میں ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے انتخابی مہم کے دوران غزہ میں پائیدار امن کا وعدہ کیا تھا، لیکن اُن کی حالیہ بات چیت سے ایسا لگتا ہے کہ اُن کی ساری دلچسپی اسرائیلی قیدیوں کی رہائی میں ہے۔ گزشتہ ہفتے اسرائیل کی خاتونِ اوّل محترمہ سارہ نیتن یاہو اپنے بیٹے یائر کے ساتھ امریکہ آئیں جہاں جناب ٹرمپ نے اپنے پُرتعیش گالف کورس میں انھیں پُرتکلف عشائیہ دیا۔ سارہ بی بی کے لیے کوشر (یہودی حلال) ڈشوں کا خصوصی بندوبست کیا گیا تھا۔ ملاقات کی جو تفصیل یروشلم پوسٹ میں شایع ہوئی اس کے مطابق سارہ نیتن یاہو نے ڈونلڈ ٹرمپ کو اسرائیل کے خلاف اہلِ غزہ کی ’’سفاکی‘‘ سے آگاہ کیا اور قیدی رہا کرانے کے لیے مدد کی درخواست کی۔ دوسرے دن اپنے سوشل چبوترے TRUTHپر جناب ٹرمپ نے فرعونیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ’’اسرائیلی قیدیوں کو میرے حلف اٹھانے سے پہلے رہا کردو، ورنہ اس کے ذمہ داروں کو نشانِ عبرت بنادیا جائے گا‘‘۔ اس کا اہلِ غزہ کی طرف سے بہت ہی شائستہ جواب آیا کہ ’’مستضعفین، نسل کُشی کے آغاز سے ہی مستقل جنگ بندی کے لیے ایک ایسے معاہدے کے خواہش مند ہیں جس میں قیدیوں کا مکمل تبادلہ شامل ہو، لیکن نیتن یاہو نے ان تمام کوششوں کو سبوتاژ کردیا۔ اہلِ غزہ سلامتی کونسل کی قرارداد 2735 پر فوری عمل درآمد کے لیے پُرعزم ہیں جو 2 جولائی 2024ء کو منظور ہوئی تھی۔‘‘ (حوالہ: نیوزویک)
اس ضمن میں ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق جناب ڈونلڈ ٹرمپ نے قطر کو حکم دیا ہے کہ مزاحمت کار رہنمائوں کو دوحہ واپس بلاکر مذاکرات فوراً شروع کیے جائیں۔ کچھ عرصہ پہلے قطر نے صدر بائیڈن کے حکم پر اہلِ غزہ کی سیاسی قیادت کو ملک سے نکال دیا تھا۔ سرکاری اعلان کے مطابق ’معزز مہمانوں‘ کو نکالا نہیں گیا، لیکن چونکہ قطر نے مذاکرات سے ہاتھ اٹھالیے تھے اس لیے یہ لوگ ترکیہ چلے گئے تھے۔ معلوم نہیں فلسطینی رہنما کب تک واپس قطر آئیں گے، لیکن ڈونلڈ ٹرمپ بضد ہیں کہ 20 جنوری کو ان کے حلف اٹھانے سے پہلے قیدی رہا کردیے جائیں۔ جبکہ اہلِ غزہ کہتے ہیں کہ اسرائیلی فوج کی پسپائی سے پہلے قیدی رہا نہیں ہوں گے۔ یعنی ایک طرف قصاب، دوسری جانب مضبوط اعصاب۔
امریکہ کی لاممنوعہ ولا مقطوعہ امداد کے باوجود، معصوم فلسطینی بچوں کا لہو اسرائیلی معیشت پر کساد بازاری کی شکل میں اپنا رنگ دکھا رہا ہے۔ شمالی اسرائیل کے اکثر علاقوں میں کاروباری سرگرمیاں 14 ماہ سے معطل ہیں، اور اب یہی صورتِ حال باقی اسرائیل کے بازاروں میں بھی نظر آرہی ہے۔ ٹائمز آف اسرائیل کی ایک رپورٹ کے مطابق روزمرہ کے سامان کے ساتھ سبزیوں اور پھلوں کی خریداری میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔ جریدے نے شام چار بجے یروشلم میں واقع ماہان یہودا سبزی بازار کی ایک تصویر اس تبصرے کے ساتھ شایع کی ہے کہ ’’عام حالات میں اس وقت یہ بازار کھچاکھچ بھرا ہوتا ہے، جبکہ اب ویرانی کا منظر بہت واضح ہے‘‘۔ بینک آف اسرائیل (اسٹیٹ بینک) کے مطابق غزہ نسل کُشی پر اسرائیل کا خرچ 67 ارب ڈالر سے تجاوز کرچکا ہے۔ ماہرینِ اقتصادیات کا خیال ہے کہ 2024ء کے دوران معیشت کی شرح نمو 0.6 فیصد سے کم رہی اور اگلے برس بھی بہتری کی کوئی امید نہیں۔
آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.com اور ٹویٹر Masood@MasoodAbdali پربھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔