ایک صدی کو بیان کرنا بلبلے سے ٹیبل ٹینس کھیلنے کے مترادف ہے۔ خاص طور پر اس صورت میں جب کوئی ایسی بات کہنا مقصود ہو جس سے صدی کے تمام نہ سہی، اکثر مظاہر کی تعبیر ہوسکے۔ مگر ناممکن کی جستجو انسان کی زندگی کا ایک اہم حصہ ہے، اس لیے ہمیں ٹامس مان کا یہ فقرہ ہمیشہ یاد رہتا ہے کہ ”بیسویں صدی میں انسان کی تقدیر سیاسی اصطلاحوں میں لکھی جائے گی“۔ ٹامس مان کوئی عارف یا صوفی نہیں تھا، وہ محض ایک ادیب تھا، مگر اس کے باوجود اُس نے ایک فقرے میں پوری صدی کو بیان کرکے رکھ دیا۔ اس بیان سے اختلاف تو کیا جاسکتا ہے اور اس کے محدودات کی نشاندہی بھی کی جاسکتی ہے، لیکن ٹامس مان کو داد دیے بغیر بھی نہیں رہا جا سکتا۔
ٹامس مان نے جو بات کہی ہے خوب کہی ہے، لیکن اُس نے جو کچھ کہا ہے وہ بجائے خود ایک اور گہری بات کا عکس ہے، اور یہ وہ بات ہے جس کے ذریعے بیسویں صدی کو زیادہ شدت، زیادہ گہرائی اور زیادہ وسعت کے ساتھ بیان کیا جاسکتا ہے۔ یہ بات اصلاً تو صرف اتنی ہے کہ بیسویں صدی ظاہر پرستی کی صدی ہے، لیکن اس کی مزید وضاحت کے لیے کہا جاسکتا ہے کہ یہ صدی Reality سے Appearence کی جانب سفر سے عبارت ہے۔ یہ رجحان نیا نہیں، حقیقت اور مجاز کی بحث بہت پرانی ہے۔ لیکن بیسویں صدی میں یہ رجحان جس طرح ایک ایک شے میں جلوہ گر ہوا، اس کی مثال نہیں ملتی۔
اب ذرا ٹامس مان کی بات کو ایک بار پھر دیکھ لیجیے، اُس نے کہا ہے کہ بیسویں صدی میں انسانی تقدیر سیاسی اصطلاحوں میں لکھی جائے گی۔ اس کا ایک مفہوم یہ ہے کہ انسان کا تناظر سراسر سیاسی ہوجائے گا۔ ہوا بھی یہی ہے، لیکن سیاست ہمارے یہاں اگر مابعدالطبیعیات سے منسلک ہے تو دوسری جانب وہ ایک ایسے اسٹیٹ کرافٹ کے سوا کچھ نہیں ہے جس کا کسی مذہب، کسی عقیدے اور کسی اخلاقی تصور سے کوئی علاقہ نہیں، اور یہ صورتِ حال بجائے خود مجاز پرستی کی علامت ہے۔ جمہوریت یقیناً بیسویں صدی کی دین نہیں لیکن اس صدی سے پہلے جمہوریت ایک خیال، ایک نظام اور ایک بغاوت تھی، لیکن بیسویں صدی میں ایک ”عقیدہ“ بن گئی اور تہذیب کے جو معیارات متعین ہوئے اُن میں سے ایک معیار جمہوریت کا بھی ہے۔ یعنی جو ریاستیں جمہوریت پر عمل کررہی ہیں وہ مہذب ہیں، اور جو جمہوریت پر عمل نہیں کررہی ہیں انھیں غیر مہذب سمجھا جاتا ہے۔ اقبال نے جمہوریت کے بارے میں ایک اہم بات کہی ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ
جمہوریت اک طرزِ حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
بندوں کو تولنے کا عمل یقیناً ”معیار“ سے متعلق ہے، اور گننے کا عمل مقدار سے… اور معیار حقیقت (Reality) ہے جبکہ مقدار مجاز (Appearence)۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ٹامس مان کی بات کو یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ بیسویں صدی میں انسانی تقدیر مجازی اصطلاحوں میں لکھی جائے گی۔ لیکن بات یہ ہے کہ ٹامس مان جس کلچر کا حصہ تھا اُس میں حقیقت اور مجاز کے روایتی تصورات فرسودہ قرار پا چکے تھے، اسی لیے اُس نے سیاست کی بات کی ہے۔ لیکن اس تناظر میں سیاست ایک محدود مثال ہے۔
بیسویں صدی کا اہم ترین مظہر سائنس اور ٹیکنالوجی اور ان کا غیر معمولی فروغ ہے۔ اس فروغ کے بارے میں بہت سی باتیں کہی گئی ہیں لیکن ان میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ صورتِ حال انسان کی غیر معمولی صلاحیتوں اور غیر معمولی ذہانت کی آئینہ دار ہے۔ اس بات کا مفہوم بہ الفاظِ دیگر یہ ہے کہ انسان جتنا ذہین اب ہوا ہے، پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ انسان کی معلوم تاریخ کے تناظر میں یہ خیال مضحکہ خیز سے بھی بدتر نظر آتا ہے، لیکن بہرحال اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کا فروغ انسانی تاریخ میں غیر معمولی بات ہے، لیکن بات یہ ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کو حالیہ صدیوں اور خاص طور پر بیسویں صدی میں جو غیر معمولی فروغ حاصل ہوا تھا، ایسا فروغ اس سے پہلے کبھی حاصل ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ اس کی ایک بہت اہم وجہ ہے، اور وہ یہ کہ انسان حقیقت سے اتنا دور اور مجاز سے اتنا قریب تاریخ میں کبھی نہیں رہا جتنا کہ حالیہ صدیوں اور بالخصوص بیسویں صدی میں رہا ہے۔ مگر اس بات کے معنی کیا ہیں؟ اس بات کے معنی دراصل یہ ہیں کہ حقیقت اور مجاز دو حقائق ہیں، اور ان حقائق کے باہمی تعلق کی نوعیت یہ ہے کہ انسان حقیقت سے جتنا قریب ہوگا مجاز سے اتنا ہی دور ہوگا، اور مجاز سے اس کی قربت جتنی بڑھے گی حقیقت سے اس کی دوری میں اتنا ہی اضافہ ہوگا۔ اس بات سے یہ بات ازخود نکلتی ہے کہ انسان کی توجہ جہاں مرکوز ہوگی، کمال وہیں پیدا ہوگا۔ توجہ حقیقت پر ہوگی تو اس دائرے میں کمالات رونما ہوں گے، اور توجہ مجاز پر زیادہ ہوگی تو کمالات اس دائرے میں زیادہ وقوع پذیر ہوں گے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو سائنس اور ٹیکنالوجی کا فروغ حقیقت کی قیمت پر مجاز کی ترقی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ جن لوگوں کو یہ بات مشکل لگے وہ چند حتمی اور سامنے کی مثالوں سے اس بات کو سمجھ سکتے ہیں۔
اگرچہ یہ کوئی کلیہ نہیں ہے لیکن اکثر دیکھا گیا ہے کہ ”پہلوان“ زیادہ ذہین نہیں ہوتے۔ ان میں جذبات کی یا تو قلت ہوتی ہے یا پھر ان کے جذبات بے حد کمزور ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جسم کا ”فروغ“ یا ”ترقی“ ذہن اور جذبات کی ترقی کو روک دیتی ہے۔ اس کے برعکس یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جن لوگوں کی ذہنی صلاحیتیں زیادہ جلا پا جاتی ہیں وہ جسمانی طور پر توانا نہیں ہوتے، اور ایسے لوگوں میں بھی جذبات ٹھٹھر کر رہ جاتے ہیں۔ اگرچہ یہ بھی کوئی کلیہ نہیں، لیکن بہرحال یہ حقیقت ہے کہ تخلیقی قسم کے لوگ معروف معنوں میں ”عملی“ نہیں ہوتے۔ انسان کی تمام صلاحیتوں کا فروغ اور توازن و ہم آہنگی کوئی خواب نہیں، لیکن ایسے لوگ بہت کم ہوتے ہیں۔ اکثر لوگوں کا حال یہ ہوتا ہے کہ ان کی کوئی ایک صلاحیت، ان کی کوئی ایک فیکلٹی ان کی دوسری صلاحیت اور دوسری فیکلٹی کو یا تو کھا جاتی ہے یا کمزور کردیتی ہے۔ یہ اُصول معاشروں، تہذیبوں اور علوم و فنون پر بھی منطبق ہوتا ہے اور حقیقت اور مجاز کے تصورات پر بھی۔ یہاں تک کہ مختلف مذاہب کے پیروکار اپنے مذاہب کے مختلف تصورات کے ساتھ بھی یہی سلوک کرتے ہیں۔ عیسائیت اور ہندوازم اس کی بہت بڑی بڑی مثالیں ہیں۔ تو بہرحال گفتگو یہ تھی کہ جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی عصرِ حاضر کی غیر معمولی مجاز پرستی کا نتیجہ ہے، اور یہ مجاز پرستی حقیقت کی قیمت پر بروئے کار آئی ہے۔ خیر سائنس کا معاملہ جو بھی رہا ہو لیکن یہ بہرحال مادے سے متعلق سمجھی جاتی ہے، اس لیے اس کی مجاز پرستی سمجھ میں آتی ہے۔ لیکن ادب کے ساتھ کیا ہوا؟ اس کے دائرے میں بھی یہ ہوا کہ انہدام کا ایک غیر معمولی عمل شروع ہوا۔ ادب کے دائرے میں حقیقت پسندی کی تحریک اس حوالے سے ایک دلچسپ مظہر کی حیثیت رکھتی ہے۔ بظاہر یہ تحریک حقیقت پسندی کی تحریک تھی لیکن مسئلہ یہ تھا کہ اس تحریک میں حقیقت کی معنویت کچھ سے کچھ ہوگئی۔ چنانچہ داستان کی عظیم روایت کی گردن یہ کہہ کر ماری گئی کہ اس میں مافوق الفطرت جھاڑ جھنکاڑ کے سوا کچھ نہیں۔ ہمارے یہاں غزل کے بارے میں کہا گیا کہ اس میں گل و بلبل کے قصوں کے سوا کیا ہے! اور ان قصوں کی اب ہمیں ضرورت نہیں۔ ادب کی دوسری اصناف کے بارے میں بھی کچھ اسی قسم کا طرزعمل اختیار کیا گیا۔ یہاں ہمیں ان رجحانات کے نتائج سے بحث نہیں، لیکن بات یہ ہے کہ حقیقت سے انحراف اور مجاز سے چمٹنے کا رجحان ادب پر بھی چھاپہ مار کر رہا۔ اس صورتِ حال کے خلاف ردعمل ظاہر ہوا، مگر چھاپے کے خلاف ردعمل ظاہر کرنے والے رپٹ ہی درج کراتے رہ گئے۔ لیکن یہ ایک الگ قصہ ہے۔
حقیقت اور مجاز بنیادی طور پر مذہبی اصطلاحیں ہیں، لیکن خود مذہب بھی مخصوص معنوں میں مجاز پرستی سے محفوظ نہیں رہا۔ یہ مذہب کے دائرے میں فلاں اور فلاں کی عقل پرستی، اور یہ انکارِ حدیث کا فتنہ، اور یہ فرقہ بندیاں… کسی نہ کسی صورت میں اسی رجحان کا شاخسانہ ہیں۔ مسلمانوں کی مذہبیت اپنی جگہ، لیکن یہ مسئلہ اتنا گمبھیر اور اتنا گہرا ہے کہ اسے بچوں کے نام رکھنے کے عمل تک میں دیکھا اور دکھایا جاسکتا ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ اس صدی میں زیربحث رجحان کے سوا اور کوئی رجحان موجود نہیں رہا۔ دُنیا میں کئی اور تغیرات بھی آئے ہیں، لیکن بہرحال زیربحث رجحان کی حیثیت مرکزی اور بنیادی ہے اور اس کے ذریعے ہم بیسویں صدی کے اکثر مظاہر کی تشریح و تعبیر کرسکتے ہیں اور اس کی روح کو گرفت میں لے سکتے ہیں۔ گو اس میں اختلاف کی گنجائش ہے۔