شام کا انقلاب:قصاب شام،بشارالاسد کا فرار

پانچ دہائیوں سے مسلط فوجی بادشاہت کا خاتمہ

8 دسمبر کو روسی وزارتِ خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ صدر بشارالاسد پُرامن منتقلیِ اقتدار کی ہدایت دے کر ملک چھوڑ گئے ہیں۔ بعد میں روس کی انٹرفیکس نیوز ایجنسی نے بتایا کہ بشارالاسد کو روس نے انسانی بنیادوں پر پناہ دے دی ہے۔ دوسری جانب انقلابی تحریک ہیئۃ تحریر الشام (HTS)کے امیر اور عبوری انقلابی کونسل کے سربراہ ابومحمد الجولانی نے اعلان کیا ہے کہ بشارالاسد کے مقرر کردہ وزیراعظم محمد غازی الجلالی کے تمام اختیارات برقرار ہیں۔ فوج سمیت تمام ریاستی ادارے تا حکم ثانی وزیراعظم کے احکامات کے تحت کام جاری رکھیں گے اور صوبائی و شہری نظم و نسق بھی معمول کے مطابق رہے گا۔ اس تبدیلی کا سب سے مثبت پہلو یہ ہے کہ انقلابی دستوں نے شہروں میں فاتحانہ داخلے کے ساتھ ہی عام معافی کا اعلان کردیا جس کی وجہ سے اتنی بڑی تبدیلی بلا خون بہائے آگئی۔ یہ وضاحت ضروری ہے کہ تبدیلیِ اقتدار کا آخری مرحلہ تو پُرامن رہا لیکن اس تبدیلی کی بنیادوں میں 1982ء کے حماہ قتلِ عام سے اب تک لاکھوں شامیوں کے لہو کے علاوہ مریم صفت پاک باز بچیوں کی عصمتیں بھی شامل ہیں۔ شام میں طلوع ہونے والی اس صبح کے لیے اخوانیوں کی کئی نسلوں نے جان، مال اور عزت و آبرو کی بے مثال قربانی دی ہے۔

ڈھائی کروڑ نفوس پر مشتمل شام، عرب دنیا کا سیاسی قبرستان کہلاتا تھا۔ جاسوسی کا نظام اس قدر مضبوط و مربوط کہ شاید’’دیواروں کے کان‘‘ کا محاورہ شام میں تخلیق کیا گیا ہے۔ تاریخی اہمیت کے حامل اس ملک میں گزشتہ پانچ دہائیوں سے مسلط ’’فوجی بادشاہت‘‘ کے بانی، صدر بشارالاسد کے والد حافظ الاسد تھے۔ مصر کے حسنی مبارک کی طرح حافظ الاسد نے بھی اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز فضائیہ سے کیا اور برق رفتاری سے ترقی کرتے ہوئے صرف دس سال میں فضائیہ کے سربراہ مقرر ہوگئے۔ مصری اور شامی فضائیہ کی بدترین کارکردگی نے 1967ء میں عربوں کو اپنی تاریخ کی سب سے شرمناک شکست سے دوچار کیا اور صرف 6دنوں میں اسرائیل نے بیت المقدس سمیت جولان کی پہاڑیوں اور صحرائے سینا کے بڑے حصے پر قبضہ کرلیا۔ تاہم انتہائی مہارت کے ساتھ حافظ الاسد نے اس شرمناک شکست کی ذمہ داری اُس وقت کے شامی صدر نورالدین الاتاسی (العطاشی) کے سر تھوپ دی۔ فروری 1971ء میں انھوں نے ایک ’’اصلاحی انقلاب‘‘ کے ذریعے حکومت سنبھالی اور اپنے بھائی رفعت الاسد کو خفیہ پولیس کا سربراہ مقرر کیا۔ دونوں بھائیوں کا خیال تھا کہ شام کی ترقی کے لیے مذہبی عناصر کی مکمل بیخ کنی ضروری ہے۔ دوسرے عرب ممالک کی طرح شام میں بھی اخوان المسلمون نوجوانوں میں خاصی مقبول تھی۔ دارالحکومت دمشق کے شمال میں واقع حماہ، حلب اورحمص کے شہر اخوان کے گڑھ سمجھے جاتے تھے۔

جون 1980ء میں صدر حافظ الاسد پر دمشق میں ایک قاتلانہ حملہ ہوا جس میں وہ بال بال بچے۔ رفعت الاسد نے اس کا الزام اخوان پر لگادیا اور خواتین سمیت پانچ ہزار سے زیادہ اخوانی کارکن گرفتار کرلیے گئے۔ ان لوگوں کو برہنہ کرکے بڑے بڑے شہروں سے گھما کر صحرا میں واقع تدمر جیل میں بند کردیا گیا۔ تمام مردوں کو پھانسی دے دی گئی جبکہ خواتین کی بے حرمتی کرنے کے بعد ان کی انکھیں پھوڑ کر گھروں کو واپس بھیج دیا گیا۔ رفعت الاسد نے ایک امریکی صحافی سے بات کرتے ہوئے فخریہ کہا کہ وہ تدمر کے قصاب ہیں اور انھوں نے اپنے ہاتھوں سے ایک ہزار اخوانیوں کے گلے میں پھانسی کے پھندے ڈالے ہیں۔ 2 فروری 1982ء کو رفعت الاسد کی قیادت میں تیس ہزار شامی افواج نے حماہ کا محاصرہ کرلیا۔ شہر کی بجلی کاٹ دی گئی جبکہ شہر کو پانی کی سپلائی روک دی گئی۔ اس دوران شہریوں کے خلاف زہریلی گیس بھی استعمال کی گئی۔ تین ہفتوں کی مسلسل بمباری کے بعد ٹینکوں اور بھاری توپ خانے کی مدد سے شامی فوج شہر میں داخل ہوئی اور حماہ کے ایک ایک گھر کو مکینوں سمیت منہدم کردیا گیا۔ تین مہینے سے زیادہ جاری رہنے والے اس آپریشن میں سرکاری اعدادو شمار کے مطابق پچاس ہزار افراد ہلاک ہوئے، جبکہ ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ جاں بحق ہونے والوں کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ تھی۔ اس آپریشن سے سارا شام دہشت زدہ ہوگیا، اور اس کے بعد حافظ الاسد کو عوام کی جانب سے کسی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔

حافظ الاسد اپنے بڑے بیٹے باصل الاسد کو اپنے بعد صدارت کے لیے تیار کررہے تھے، لیکن باصل ایک حادثے میں جاں بحق ہوگئے، چنانچہ ماہر امراضِ چشم بشارالاسد شام طلب کرلیے گئے جو اُس وقت لندن میں اپنا مطب چلا رہے تھے۔ ملک واپس آتے ہی وہ فوج میں بھرتی ہوئے اور تربیت مکمل ہوتے ہی جنرل بنادیے گئے۔ حافظ الاسد کے انتقال کے وقت بشار 34 سال کے تھے جبکہ دستور کی رو سے شامی صدر کی کم سے کم عمر چالیس برس تھی، چنانچہ قومی اسمبلی نے آئین میں فوری طور پر ترمیم کرکے صدر کے لیے کم سے کم عمر چونتیس سال کردی، اور ڈاکٹر بشارالاسد شام کے صدر منتخب ہوگئے۔

تیونس میں انقلاب کے بعد مصر، الجزائر،کوئت، لیبیا، یمن، اور بحرین کی طرح شام میں بھی مظاہروں کی بازگشت سنائی دی، مگر خفیہ پولیس کی مؤثر پیش بندیوں کی بنا پر کوئی عوامی سرگرمی سامنے نہ آئی۔ 15 مارچ 2011ء کو اردن سے ملحقہ شہر درعا کے ہائی اسکول کی دیوار پر اللہ، السوریہ(شام) اور آزادی کا نعرہ لکھا پایا گیا۔ جلد ہی یہ نعرہ نوشتۂ دیوار بن گیا۔ اس ناقابلِ معافی جسارت پر خفیہ پولیس حرکت میں آئی اور دو سو بچیوں سمیت پانچ سو طلبہ کو گرفتار کرلیا گیا۔ ان طلبہ کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ معصوم بچیوں کی بے حرمتی کی گئی اور پچاس بچوں کی اُن انگلیوں کو کاٹ دیا گیا جن سے انھوں نے نعرے لکھے تھے۔ اس تشدد کے خلاف سارے ملک میں احتجاج ہوا، اور اب اللہ، شام اور آزادی کے نعروں کے ساتھ ’’ارحل یا بشار‘‘ بھی عام ہوگیا۔

بشارالاسد کا کہنا تھا کہ شامی عوام کے خلاف اخوان المسلمون اور کرد انتہا پسندوں نے اتحاد کرلیا ہے جنہیں صہیونی سامراج اور ترکی کے اسلام پسندوں کی حمایت حاصل ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ترک سرحد پر واقع القامشلی سے کرد بنیادپرست، دیرالزور کی عراقی سرحد سے القاعدہ کے مسلح دہشت گرد، اور مصر و اردن سے اخوان کے جنونی حماہ میں جمع ہورہے ہیں۔ حافظ الاسد نے اخوانیوں کے قتلِ عام کی ذمہ داری اپنے بھائی رفعت الاسد کو سونپی تھی۔ بشارالاسد نے اپنے باپ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اس کام کے لیے اپنے بھائی اور ریپبلکن گارڈ کے سربراہ ماہرالاسد کو چن لیا۔ لیکن مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی، یعنی تشدد کے ساتھ مظاہروں میں شدت آگئی۔

جب تشدد سے کام نہ بنا تو صدر بشارالاسد نے اس معاملے کو فرقہ وارانہ اور ’نظریاتی‘ رنگ دے دیا اور ایران کو دہائی دی کہ یہ علویوں اور شیعوں کے خلاف سنیوں کا غدر ہے، اور ماسکو کو باور کرایا کہ امریکہ نواز خلیجی ریاستیں شام سے روسی اڈے ختم کرانا چاہتی ہیں۔ ایرانی حکومت سازش کو نہ سمجھ سکی اور پورے عزم کے ساتھ بشارکی پشت پر آکھڑی ہوئی۔ شامیوں کا کہنا ہے کہ ایرانی پاسدارانِ انقلاب اسلامی (IRGC) کے سپاہی شامی فوجوں کے شانہ بشانہ مظاہرین کے قتلِ عام میں شریک تھے۔ عینی شاہدین نے بتایا کہ حماہ کے البدر اسپتال پر حملہ کرنے والے سپاہی فارسی بول رہے تھے۔ شامی حزبِ اختلاف نے IRGC اور حزب اللہ پر حزب الاسد ملیشیا کو تربیت دینے کا الزام لگایا۔ تاہم تہران اور حزب اللہ دونوں نے ان الزامات کی سختی سے تردید کرتے ہوئے اسے صہیونی و امریکی پروپیگنڈا قرار دیا۔ اسی دوران القاعدہ اور ISISکا ’مصنوعی‘ ظہور ہوا جسے کچلنے کے لیے امریکی فوج نے دیرالزور میں تیل کے میدانوں کے قریب ڈیرے ڈال دیے۔ ترکیہ کی کرد علیحدگی پسند جماعت PKKکے عسکری جتھے YPGنے ترک فوجوں پر حملے شروع کردیے، جواب میں ترک فوجی کارروائی نے تشدد کی لہر کو مزید بڑھادیا۔ یہ خونریزی 13 سال جاری رہی جس میں لاکھوں بے گناہ لقمۂ اجل بنے، لاتعداد بے گھر ہوئے اور اربوں ڈالر کا مالی نقصان ہوا۔

بدھ 27 نومبر کو HTS نے مشرقی ادلب اور مغربی حلب کے بڑے علاقے پر قبضہ کرلیا۔ عسکری تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ بشار اقتدار کے پشت پناہ لبنانی جنگجو اسرائیل کی جانب سے دبائو میں تھے جس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے HTSنے چشم کشا حملہ کرکے سرکاری فوج کو سراسیمہ کردیا اور بشار کے سپاہی مقابلہ کیے بغیر فرار ہوگئے۔ انقلابیوں نے فرار ہوتی فوج کا تعاقب کیا اور دودن میں پورے حلب پر HTS کا قبضہ ہوگیا۔ انقلابیوں کے سربراہ نے عام معافی کا اعلان کرتے ہوئے پیش قدمی جاری رکھی۔ دوسرے دن رستن اور تلبسیہ سرنگوں ہوتے ہی سرکاری فوجوں نے حمص خالی کردیا۔ 7 دسمبر کی دوپہر HTS کا ہراول دستہ دمشق پر دستک دے رہا تھا۔ اسی دوران جنوب میں درعا اور السویدہ میں سرکاری فوج نے ہتھیار ڈال دیے۔ تمام بڑے شہروں پر قبضے کے بعد بشارالاسد کے لیے دمشق سے نکل کر کہیں اور ٹھکانہ بنانے کی گنجائش باقی نہ بچی تھی، چنانچہ وہ اہلِ خانہ کے ہمراہ روس فرار ہوگئے اور خوں آشام الاسد اقتدار کا سورج 53 سال بعد غروب ہوگیا۔

بلاشبہ شام میں آنے والی پُرامن تبدیلی عوامی امنگوں کی ترجمان ہے جس کے لیے اخوانی 1982ء سے قربانی دے رہے تھے۔ اس جدوجہد میں جانی ومالی نقصانات کے ساتھ بعثی درندوں نے ہزاروں مریم صفت خواتین اور بچیوں کو بے آبرو کیا۔ اوباشوں کے مجمع میں پاک باز بچیوں کو بے لباس کرنے اور اُن کی اجتماعی عصمت دری کو بشارالاسد کی سرپرستی حاصل تھی۔ ستم ظریفی کہ جیلوں کے خفیہ تہہ خانوں میں اب بھی سیکڑوں مظلوم ایڑیاں رگڑ رہے ہیں کہ ان کوٹھریوں تک رسائی کا علم رکھنے والے سرکاری محافظ فرار ہوگئے ہیں اور ان تک پہنچنے کا راستہ کسی اور کو معلوم نہیں۔

بہیمانہ تشدد اور فرقہ وارانہ نفرت کا بیج بوکر بھی صدر بشارالاسد اپنا اقتدار نہ بچاسکے، لیکن اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی شیعہ سنی خلیج اہلِ غزہ کے لیے سخت نقصان دہ ہے۔ راکٹ حملوں کی صورت میں لبنان سے ملنے والی بلا واسطہ کمک اب معطل ہوگئی ہے۔ دوسری جانب ڈونلڈ ٹرمپ ہر قیمت پر قیدیوں کی رہائی چاہتے ہیں۔ فوجی انخلا کے بغیر قیدیوں کی رہائی غزہ کو غربِ اردن سے بدتر قبضہ بستی میں تبدیل کرسکتی ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم HTSکو مبارک باد دینے مقبوضہ جولان میں جبل الغرام تک گئے اورکامیابی کا سہرا اپنے سر باندھتے ہوئے کہا کہ ’’الاسد کا زوال ایران اور حزب اللہ کے خلاف ہمارے حملوں کا براہِ راست نتیجہ ہے‘‘۔ ایسے ہی خیالات کا اظہار امریکی قائدین نے بھی کیا ہے۔

لیکن ’’ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ‘‘۔ دمشق پر HTSکے قبضے سے ایک رات قبل اسرائیلی وزیردفاع کی زیرصدارت عسکری حکمت پردازوں کا ہنگامی اجلاس ہوا، جس کے بعد تل ابیب نے اپنے تحفظات سے واشنگٹن کے علاوہ مصر اور اپنے خلیجی ’’دوستوں‘‘ کو آگاہ کردیا تھا۔ اجلاس میں شریک ایک اہلکار نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بیٹھک کی جو تفصیل بیان کی اس کے مطابق اسرائیل کے لیے نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن والی کیفیت ہے کہ شام میں ایران کا زوال ایک نئی اسلامی قوت کے کمال و اقبال کا راستہ ہموار کررہا ہے یعنی out of the frying pan into the fire

خوشی و مسرت کے مصنوعی اظہار کے ساتھ اسرائیلیوں نے جارحانہ پیش بندی بھی کرنی شروع کردی ہے۔ اتوار کی رات بمباری کرکے گولہ بارود کے ذخائر، اسلحہ فیکٹریوں، فوجی اڈوں اور عسکری تنصیبات کو تباہ کردیا گیا، جن میں درعا کا مرکزی اسلحہ ڈپو، المزۃ فضائی مرکز اور السویدہ میں الخلخلہ عسکری فوجی اڈہ شامل ہیں۔ دوسرے روز صبح سویرے اسرائیلی فوج نے شام میں جبل حرمون (جبل الشیخ) پر قبضہ کرلیا۔ یہ پہاڑی سلسلہ شام و لبنان کی سرحد ہے۔ شام کے 10 کلومیٹر علاقے پر قبضے کا جواز فراہم کرتے ہوئے اسرائیلی فوج نے کہا کہ کارروائی کا مقصد بدامنی پھیلانے کے لیے شام آنے والے ایران نواز لبنانی دہشت گردوں کا راستہ روکنا ہے۔

آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.com اور ٹویٹر Masood@MasoodAbdaliپربھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔