مقبوضہ جموں وکشمیر میں 1990ء کے بعد سے بالعموم اور 5 اگست 2019ء کے بعد بالخصوص گرفتار کیے گئے ہزاروں کشمیری قیدی جن میں خواتین، بچے، بزرگ اور نوجوان شامل ہیں، بھارتی زندانوں میں بدترین حالات سے دوچار ہیں۔ 5 اگست 2019ء کے ظالمانہ اقدامات اور فیصلے سے پہلے بھارتی قابض حکومت نے مقبوضہ جموں وکشمیر کے مختلف اضلاع، شہروں، قصبوں، گاؤں اور دیہات سے 19 ہزار سے زائد شہریوں کو گرفتار کیا تھا جن میں سے ایک بڑی تعداد کو بھاری رشوتیں وصول کرنے اور اذیت دینے کے بعد رہا کیا گیا، لیکن چھ برس گزرنے کے باوجود اب بھی 4200 سے زائد کشمیری شہری آزادی، حقِ خودارادیت، انصاف اور انسانی حقوق مانگنے کی پاداش میں بھارتی جیلوں میں قید ہیں، جن میں 6 خواتین اور ایک بڑی تعداد نوعمر کشمیری نوجوانوں کی ہے۔ ان قیدیوں میں سے 25 کے قریب کشمیری عمرقید یا طویل عرصے کی قید کاٹ رہے ہیں، جبکہ محمد یاسین ملک کو سزائے موت دیے جانے کی سازشیں سامنے آرہی ہیں۔ بھارتی حکومت ہزاروں کشمیری شہریوں کو قید رکھنے، پھانسیاں دینے، جعلی انکاؤنٹرز میں شہید کرنے، ان کے اہلِ خانہ کو اذیتوں سے دوچار کرنے کے عمل کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کررہی ہے۔ ان حالات میں اقوامِ متحدہ سمیت انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں ایمنسٹی انٹرنیشنل، ایشیا واچ، ہیومن رائٹس واچ، یونائیٹڈ نیشن ہیومن رائٹس کمیٹی، انٹرنیشنل ریسکیو کمیٹی اور یورپی یونین سمیت دنیا بھر کی انسان دوست تنظیموں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ حکومتِ ہند کی جانب سے مقبوضہ جموں وکشمیر کے ایسے ہزاروں شہریوں جن کو بدترین کالے قوانین AFSPA, POTA, TADA, UAPA, PSA کے تحت گرفتار کرکے مختلف جیلوں میں مقید رکھا گیا ہے، کی رہائی کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔
نریندر مودی کی قیادت والی بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت محمد یاسین ملک سمیت دیگر اہم راہنماؤں کو سزائے موت دینے کی سازشیں کررہی ہے۔ کشمیری آزادی پسند راہنماؤں، انسانی حقوق کے کارکنوں، سیاسی مذہبی جماعتوں کے قائدین اور صحافیوں مسرت عالم بٹ، محمد یاسین ملک، شبیر احمد شاہ، ڈاکٹر عاشق حسین، سیدہ آسیہ اندرابی، فہمیدہ صوفی، ناہیدہ نسرین، شبروزہ بیگم، ثوبیہ بانو، انشاء جان، حنا بشیر، ظفر اکبر بٹ، نعیم احمد خان، مشتاق الاسلام، ڈاکٹر محمد طارق، حیات ڈار، عمر عادل ڈار، نثار احمد راتھر، امیر حمزہ، ڈاکٹر حمید فیاض، ایاز اکبر، سیف اللہ پیر، محمد یوسف فلاحی، بلال احمد صدیقی، مولوی بشیر احمد عرفانی، شاہد السلام، شاہد یوسف، شکیل یوسف، نور محمد فیاض، غلام قادر بٹ، محمد شفیع شریعتی، ڈاکٹر طارق ڈار، معراج الدین کلوال، فاروق احمد ڈار، مظفر احمد ڈار، ایڈووکیٹ میاں عبد القیوم، ایڈووکیٹ نظیر احمد رونگھا، ایڈووکیٹ محمد اشرف بٹ، ایڈووکیٹ زاہد علی، سرجان برکاتی، حیات احمد بٹ، عبدالاحد پرہ، سلیم ننجھی، بشیر احمد قریشی، جاوید احمد خان، محمود ایوب خان، مرزا نثار حسین، محمد لطیف وازہ، علی محمد بھٹ، عبدالغنی گونی، ڈاکٹر شفیع خان، محمد فیروز خان، محمد پرویز میر، غلام محمد بھٹ، محمد ایوب ڈار، برکت علی خان، عبدالحمید تیلی، محمد اقبال خان، غلام قادر بھٹ، خرم پرویز، آصف سلطان، سجاد گل سمیت چار ہزار سے زائد شہریوں کو قید کررکھا ہے۔ بھارتی حکومت نے ان قیدیوں کو مشکلات اور اذیتوں سے دوچار کرنے کے لیے وادی کشمیر سے بہت دور اندرونِ بھارت مختلف ریاستوں کی جیلوں تہاڑ جیل دلی، نینی جیل الٰہ آباد، گوہاٹی سینٹرل جیل، رائے پور سینٹرل جیل، سینٹرل جیل انبالہ، رانچی جیل، جودھپور سینٹرل جیل، جے پور سینٹرل جیل، ہریانہ سینٹرل جیل، آگرہ سینٹرل جیل اتر پردیش، لکھنؤ سینٹرل جیل یوپی، بنارس سینٹرل جیل اترپردیش، ڈم ڈم سینٹرل جیل کولکتہ، سینٹرل جیل جھجھر ہریانہ، سینٹرل جیل بنگلور کرناٹک سمیت جموں وکشمیر کے اندر قائم سینٹرل جیل کوٹ بھلوال جموں، سینٹرل جیل سرینگر، کپواڑہ، بارہ مولہ، اسلام آباد، راجوری اور پونچھ کی سب جیلوں سمیت دیگر جیلوں میں قید کر رکھا ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کی دلی سرکار نے کشمیری قیدیوں اور ان کے لواحقین کو تکلیفوں سے دوچار کرنے کے لیے اسیرانِ کشمیر کو 1000 کلومیٹر دور تک گرم ترین جیلوں میں قید کررکھا ہے۔ جیلوں میں کشمیری قیدیوں کو سخت ترین حالات کا سامنا ہے جہاں انہیں کشمیری ہونے کی وجہ سے جیل عملے کی جانب سے بدترین تشدد اور تعصب کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ کشمیری قیدیوں کو جان لیوا بیماریوں میں بھی علاج معالجے کی کوئی سہولت دستیاب نہیں۔ لاغر اور کمزور پڑچکے کشمیری قیدی بھارت کی جیلوں میں صاف ستھری خوراک اور پینے کے پانی سے مسلسل محروم رکھے جارہے ہیں۔
1955ء میں اقوامِ متحدہ نے سیاسی قیدیوں کے ساتھ جیل کے اندر سلوک کے لیے اصول مرتب کیے۔ اس کے 60 سال بعد یعنی 2015ء میں ان اصول و ضوابط میں ترمیم کرتے ہوئے انہیں مزید بہتر بنایا گیا۔ دسمبر 2015ء میں اقوامِ متحدہ نے ایک تاریخی قرارداد کے ذریعے افریقہ سے تعلق رکھنے والے سیاسی راہنما نیلسن منڈیلا کے نام سے منسوب منڈیلا رولز متعارف کرائے، جس کے بعد اس امید کا اظہار کیا گیا کہ دنیا بھر میں جیلوں میں قید سیاسی قیدیوں کے حالات میں سدھار آئے گا۔ اقوامِ متحدہ کے ان ترمیم شدہ اصولوں کے مطابق سیاسی قیدیوں کی عزت و وقار کا احترام لازمی ہے۔ بحیثیت انسان قیدیوں کے ساتھ عزت و احترام کا سلوک کیا جائے گا اور ان کے ساتھ تشدد، غیر انسانی رویوں، توہین آمیز سلوک سے ہر صورت اجتناب برتا جائے گا۔ ریاست میں قیدیوں کی صحت کا برابری کی سطح پر خیال رکھا جائے گا اور یہ ریاست کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ قیدیوں کو صاف ستھری خوراک اور معیاری طبی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنائے۔
اقوامِ متحدہ کے ضابطوں اور اصولوں کو روندتے ہوئے بھارتی حکومت اور افواج کشمیری قیدیوں کو بری طرح کچلنے کی کوشش کررہی ہیں۔ بھارتی جیلوں میں قید کشمیری اسیران کے لواحقین کو اپنے پیاروں سے ملنے کے لیے بھارت کے اندرون تک مشکل ترین سفر سے گزرکر بھی بغیر ملاقات خالی ہاتھ لوٹنا پڑتا ہے۔ مہنگے اور طویل ترین سفر کے باوجود کشمیری شہری اپنے پیاروں سے ملاقات سے محروم رکھے جارہے ہیں۔ بھارتی حکومت کشمیری آزادی پسند راہنماؤں محمد مقبول بٹ اور محمد افضل گورو کو سیاسی مفادات کے لیے پھانسی دے چکی ہے۔ معروف آزادی پسند کشمیری راہنما محمد اشرف خان صحرائی، سید الطاف شاہ، غلام نبی گندنہ، الطاف احمد کچھے اور غلام محمد بٹ بھارتی جیلوں میں علاج معالجے کی سہولیات نہ ملنے کی وجہ سے دورانِ قید وفات پا گئے تھے۔
جبکہ حریت کانفرنس کے سابق چیئرمین سید علی شاہ گیلانی دورانِ نظربندی داعیِ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ بھارتی فوج نے آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والے نوجوان ضیاء مصطفیٰ کو کوٹ بھلوال جیل سے نکال کر جعلی فوجی مقابلے میں شہید کیا۔ بھارتی حکومت کشمیر میں جاری تحریکِ آزادی کو کچلنے کے لیے کشمیری قیادت کو جیلوں میں ہی قتل کرنے کے عزائم رکھتی ہے۔ اس ساری صورتِ حال پر بات کرتے ہوئے حریت پسند راہنما اور پاسبان حریت نامی تنظیم کے سربراہ عزیز احمد غزالی نے کہا ہے کہ وقت کی ضرورت ہے کہ کشمیری قیدیوں کی رہائی کے لیے ریاست کے اندر اور دنیا بھر میں مؤثر انداز میں آواز اٹھائی جائے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ سیزفائر لائن کے دونوں طرف کے کشمیری شہری، دنیا بھر میں مقیم کشمیری اور حکومتِ پاکستان بھارتی جیلوں میں قید کشمیری قیدیوں کی رہائی کے لیے دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے کردار ادا کریں۔ کشمیری قیدیوں کی رہائی اور اُن کی حالتِ زار کی طرف عالمی برادری اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی توجہ مبذول کرانے کے لیے دارالحکومت میں قیدیوں کی تصویری نمائش کا انعقاد کیا جائے گا۔ انہوں نے کشمیر کے مظلوم ترین طبقے یعنی بھارتی جیلوں میں ظلم و تشدد کا شکار قیدیوں کی رہائی کے لیے اقوامِ متحدہ سے مطالبہ کیا کہ وہ اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرے۔