اسرائیل میں دو دنیائیں آباد ہیں، ایک دنیا قدامت پرست مذہبی یہودیوں کی دُنیا ہے، اور دوسری دُنیا سیکولر یہودیوں کی دُنیا ہے۔
نیوزویک کے ایک شمارے میں ”ایک اسرائیل کے اندر دو اسرائیل“ کی دلچسپ کہانی شائع ہوئی ہے۔ یہ کہانی نئی نہیں، کیونکہ یہ کم و بیش ہر ملک اور ہر معاشرے کی کہانی ہے، لیکن اس کے باوجود اس کے بعض پہلو ایسے ہیں جو اسے انفرادیت سے ہم کنار کرتے نظر آتے ہیں۔
اس کہانی کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ ایک اسرائیل میں دو دنیائیں آباد ہیں، ایک دنیا قدامت پرست مذہبی یہودیوں کی دُنیا ہے، اور دوسری دُنیا سیکولر یہودیوں کی دُنیا ہے۔ پہلی دنیا بہت چھوٹی سی اور موخر الذکر دنیا بہت وسیع اور کشادہ ہے، اور اہم بات یہ ہے کہ قدامت پرست دنیا کے نوجوانوں کی ایک بہت بڑی تعداد اپنے عقائد اور اپنی دُنیا کے خلاف بغاوت کرکے سیکولر دنیا کا حصہ بن رہی ہے۔ اس بغاوت کا ایک خاص پہلو یہ ہے کہ اسرائیل کی حکومت اس رجحان کی حوصلہ افزائی کررہی ہے اور اس نے قدامت پسندی کے دائرے سے سیکولرازم کے دائرے کی جانب مراجعت کرتے ہوئے نوجوانوں کی دیکھ بھال کے لیے ”خصوصی فنڈ“ مختص کررکھا ہے۔
اس سلسلے میں ایک نوجوان Noam کے حالات و واقعات شائع کیے گئے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اُس کے گھر میں ریڈیو، ٹیلی ویژن اور سیکولر اخبارات کا داخلہ ممنوع تھا اور اس کے بعض رجحانات کے پیش نظر ایک مذہبی رہنما نے اس کے ٹیلی فون ٹیپ کرنے کا بندوبست کیا ہوا تھا۔ اس مذہبی رہنما نے اسے ایک بار بتایا کہ اگر اس نے گناہوں کا سلسلہ جاری رکھا تو اسے سرطان ہوجائے گا۔ اس نوجوان کی شادی بھی ہوئی اور بقول اُس کے اُس نے اپنی شریکِ حیات کو پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا اور جس سے شادی سے قبل اُسے صرف ایک بار دس منٹ کی ملاقات کی اجازت دی گئی تھی۔ لیکن Noam کی بے تابی اسے متحرک رکھے ہوئے تھی اور وہ انٹرنیٹ کے ذریعے ”باہر کی دنیا“ کے بارے میں مسلسل ”معلومات“ حاصل کرتا رہا، اور بالآخر ایک رات وہ اپنی بیوی کو چھوڑ کر ”آزادی“ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا، اور اب وہ مذہبی قدامت پسندی کے دائرے کے باہر سیکولر ازم کی آزاد فضا میں سانس لیتا ہے۔ وہ کلب جاتا ہے، شراب پیتا ہے اور ایک سیکولر یونیورسٹی میں کلاسیکی ادب کا طالب علم ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اسرائیل میں ایسے خاندان بھی پیدا ہوگئے ہیں جو مذہبی قدامت پسندی سے بغاوت کرکے آنے والے ”بے سہارا“ نوجوانوں کو عارضی سہارا فراہم کرتے ہوئے اپنے درمیان رہنے کی اجازت دے دیتے ہیں۔ Noam بھی ایک ایسے ہی خاندان کے ساتھ رہا ہے۔ اس نوجوان کے مطابق پہلی سیکولر کتاب جو اُس کے زیر مطالعہ آئی وہ دوستو وسکی کا ناول ”جرم وسزا“ تھی، جسے اس نے ”باتھ روم“ میں پڑھا اور ختم کیا۔
مفرور Noam کی یہ کہانی جیسا کہ ہم نے عرض کیا ہے کسی خاص انفرادیت کی حامل نہیں، کیونکہ ایسی کہانیاں ہر مذہبی معاشرے میں دستیاب ہیں۔ خود ہمارے یہاں بھی اِدھر اُدھر ایسے کردار مل جاتے ہیں، لیکن اس کے باوجود اسرائیلی نوجوان کے حالات و واقعات کی جو تفصیلات ہیں اُن میں ایک اضافی قسم کی شدت موجود ہے۔
یہودیوں سے ہمیں نفرت تو بہت ہے لیکن اُن کے بارے میں ہماری معلومات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ورنہ تو یہ کوئی راز نہیں ہے کہ یہودیوں کی مذہبی شدت پسندی مشہورِ زمانہ ہے اور وہ کتابِ مقدس کے سلسلے میں لفظی تشریح و تعبیر سے آگے بڑھنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ ان کی مذہبی روایت کا یہ ایک خاص پہلو ہے کہ ان کے یہاں کچھ لوگ کتابِ مقدس پڑھنے کے لیے وقف ہوجاتے ہیں اور وہ ساری زندگی صبح سے شام تک کتابِ مقدس پڑھتے رہتے ہیں۔
یہودیوں کے تین مسائل بہت گمبھیر ہیں، ایک تو یہ کہ وہ ہنوز خود کو خدا کی منتخب قوم سمجھتے ہیں، اور اس خیال سے ایک خاص طرزِ احساس اور طرزِ عمل پیدا ہوتا ہے جس میں ہر طرح کی شدت پسندی کی گنجائش در آتی ہے۔ یہودیوں کا دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ یہودیت ایک نسلی مذہب ہے اور کوئی یہودیت اختیار کرکے یہودیت کے دائرے میں داخل نہیں ہوسکتا۔ اس مسئلے سے ان کا تیسرا مسئلہ پیدا ہوا ہے اور وہ یہ کہ یہودیوں کی تعداد دنیا میں بہت کم ہے اور دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے مقابلے میں یہ تعداد مسلسل کم ہورہی ہے۔ یہودیوں کے تناظر کے دائرے سے باہر ان کے ساتھ کیا حادثہ پیش آچکا ہے؟ اس کی تفصیل قرآن مجید میں موجود ہے، اور جو کچھ قرآن میں موجود ہے اس کی بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ یہودی ذہن ایک گہرے احساسِ جرم (Guilt) میں مبتلا ہے، اور ان تمام چیزوں نے مل کر وہ ذہنیت پیدا کی ہے جسے صہیونی ذہنیت کہا جاتا ہے، اور فساد پھیلانا اور سازش کرنا جس کا طرہ امتیاز ہے۔ اگر اجتماعی ذہن کوئی چیز ہے تو وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ جتنی پیچیدگی یہودی ذہن میں ہے اتنی پیچیدگی کسی بھی مذہب کے ماننے والوں میں تلاش نہیں کی جاسکتی، ہندوؤں کے ذہن میں بھی نہیں، حالانکہ ہندو ذہن بہت پیچیدہ ذہن ہے۔ لیکن ان باتوں سےNoam کے حالات و واقعات کا کیا تعلق ہے؟
بے شک دو دُنیائیں ہندوؤں کے یہاں بھی ہیں اور مسلمانوں میں بھی۔ عیسائی دنیا اور بدھوں کی دنیا بھی دو دنیاؤں کے تناظر سے خالی نہیں۔ لیکن ان دنیاؤں میں ایسے مناظر نایاب ہیں کہ مذہبی رہنماؤں کو نوجوانوں کی مذہبیت کے تحفظ کے لیے اُن کے ٹیلی فون ٹیپ کرنے کی ضرورت محسوس ہونے لگے، یا نوجوان جرائم پیشہ افراد کی طرح مفرور ہوجائیں اور رات کی تاریکی میں سرحدیں عبور کرتے پھریں۔ یہ طرزِعمل صرف اُس وقت اختیار کیا جا سکتا ہے جب آپ کو اندیشہ ہو کہ آپ مٹ رہے ہیں، فنا ہورہے ہیں اور باقی نہیں رہیں گے۔
مسلمانوں کی بہت سی اجتماعی کمزوریاں اکثر زیر بحث رہتی ہیں۔ ان کمزوریوں کے بہت سے اسباب ہیں، لیکن ایک اہم سبب یہ ہے کہ مسلمان خود کو بساطِ عالم پر پھیلتا ہوا دیکھتے ہیں اور وہ شعوری یا لاشعوری طور پر محسوس کرتے ہیں کہ ان کا ایک مستقبل ہے۔ اس کے برعکس یہودیوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنے مستقبل کو ہر حوالے سے غیر محفوظ سمجھتے ہیں، اور اس کی ایک وجہ اُن کی تعداد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہر حیلے، ہر بہانے، ہر سازش اور ہر طریقے سے دنیا کو اپنے قبضے میں رکھنے کے لیے کوشاں ہیں اور اب تک ان کی کوششیں بارآور ثابت ثابت ہوئی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ان کا خوف، ان کی تشویش اور ان کی ”حکمت عملیاں“ دیکھنے کی چیز ہیں۔