کم تر بُرائی؟

حضرت عبادہ بن صا مت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
’’جو اللہ کو ملنا چاہتا ہے اللہ بھی اس کو ملنا چاہتا ہے جو اللہ کا ملنا برا جانے اللہ بھی
اس کے ملنے کو برا جانے‘‘۔(جامع ترمذی جلد اول باب الجنائز:1066)

نظری حیثیت سے تو ہر صحیح اصول قائم کرنے کے لیے اور ہر غلط چیز ترک کرنے اور مٹا دینے کے لائق ہے ، لیکن عملی زندگی میں خیروشر کی کش مکش کے درمیان انسان کو بہت سے مواقع پر ایسے حالات سے بھی سابقہ پیش آجاتا ہے، جن میں ایک چھوٹی بھلائی پر اصرار کرنے سے ایک بڑی بھلائی کا نقصان ہوتا ہے ، یا ایک چھوٹی بُرائی ترک کرنے سے ایک بڑی بُرائی لازم آتی ہے۔ ایسے مواقع پر شریعت ِ اسلامیہ میں جو حکمت معتبر ہے، اس کا تقاضا یہ ہے کہ بڑی بُرائی سے بچنے کے لیے چھوٹی بُرائی کو گوارا کیا جائے،اور چھوٹی بھلائی کی خاطر بڑی بھلائی کو نقصان نہ پہنچنے دیا جائے۔ اس معاملے میں مَیں صرف عقل کو کسوٹی بنانے کا قائل نہیں ہوں کہ آدمی جب چاہے عملی ضروریات کی بنا پر اسلام کے اصول و قواعد اور احکام میں سے جس کی بندش سے چاہے نکل جائے۔ میں اس حکمت کا قائل ہوں، جو خود اسلام کے دیے ہوئے معیار سے جانچ کر یہ دیکھتی ہے کہ کس چیز کی خاطر کس چیز کو کہاں اور کس حد تک قربان کرنا ناگزیر ہے۔ اس کی مثالیں اگر قرآن، حدیث،آثارِ صحابہ اور فقہا و محدثین کی تصریحات میں تلاش کی جائیں تو ان کا شمار مشکل ہوگا۔ یہاں صرف چند مثالیں پیش کروں گا:

۱- اسلام میں توحید کے اقرار کی جیسی کچھ اہمیت ہے ، کسی جاننے والے سے پوشیدہ نہیں۔ یہ حق پرستی کا اوّلین تقاضا اور ہر مومن سے دین کا سب سے پہلا مطالبہ ہے۔ نظری حیثیت سے دیکھا جائے تو اس معاملے میں قطعاً کسی لچک کی گنجایش نہ ہونی چاہیے۔ ایک مومن کا کام یہ ہے کہ چاہے اس کے گلے پر چھری رکھ دی جائے اور خواہ اس کی بوٹیاں کاٹ ڈالی جائیں، وہ توحید کے اقرار و اعلان سے ہرگز نہ پھرے۔ مگر قرآن ایسے حالات میں، جب کہ ایک شخص کو ظالموں سے جان کا خطرہ لاحق ہوجائے، یا اسے ناقابلِ برداشت اذیت دی جائے، کلمۂ کفر کہہ کر بچ جانے کی اجازت دیتا ہے، بشرطیکہ وہ دل میں عقیدۂ توحید پر قائم رہے: مَنْ كَفَرَ بِاللہِ مِنْۢ بَعْدِ اِيْمَانِہٖٓ اِلَّا مَنْ اُكْرِہَ وَقَلْبُہٗ مُطْمَىِٕنٌّۢ بِالْاِيْمَانِ (النحل ۱۶:۱۰۶) [جو شخص ایمان لانے کے بعد کفر کرے (وہ اگر) مجبور کیا گیا ہو، اور دل اس کا ایمان پر مطمئن ہو (تب تو خیر ہے)]۔ یہ چاہے عزیمت کا مقام نہ ہو مگر رخصت کا مقام ضرور ہے، اور یہ رخصت اللہ تعالیٰ نے خود عطا فرمائی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ شریعت کی نگاہ میں مسلمان کی جان کی قیمت اقرارِ توحید سے زیادہ ہے، حتیٰ کہ اگر ان دونوں میں سے ایک کو قربان کر نا ناگزیر ہوجائے، تو شریعت اقرارِ توحید کی قربانی گوارا کرسکتی ہے، لیکن کیا جان بچانے کے لیے کفر کی تبلیغ بھی کی جاسکتی ہے؟ کسی دوسرے مسلمان کو قتل بھی کیا جاسکتا ہے؟ اسلامی حکومت کے خلاف جاسوسی کی خدمت بھی انجام دی جاسکتی ہے؟ اس کا جواب لازماً نفی میں ہے، کیوں کہ یہ اپنی جان کی قربانی کی بہ نسبت بہت زیادہ قیمتی چیزوں کی قربانی ہوگی جس کی اجازت کسی حال میں نہیں دی جاسکتی۔

۲- اسلام میں شراب، خنزیر، مُردار، خون ، اور مَا اُھِلَّ بِہٖ لِغیراللہ کو اسی طرح قطعاً حرام کیا گیا ہے، جس طرح زنا ، چوری، ڈاکے اور قتل کو حرام کیا گیا ہے۔ لیکن اضطرار کی حالت پیدا ہوجائے تو جان بچانے کے لیے پہلی قسم کی حرمتوں میں شریعت رخصت کا دروازہ کھول دیتی ہے، کیوں کہ ان حُرمتوں کی قیمت جان سے کم ہے۔ مگر خواہ آدمی کے گلے پر چھری ہی کیوں نہ رکھ دی جائے، شریعت اس بات کی اجازت کبھی نہیں دیتی کہ آدمی کسی عورت کی عصمت پر ہاتھ ڈالے، یا کسی بے قصور انسان کو قتل کردے۔ اسی طرح خواہ کیسی ہی اضطرار کی حالت طاری ہوجائے، شریعت دوسروں کے مال چرانے اور رہزنی و ڈاکا زنی کرکے پیٹ بھرنے کی رخصت نہیں دیتی۔ کیوں کہ یہ بُرائیاں اپنے نفس کو ہلاکت میں ڈالنے کی بُرائی سے شدید تر ہیں۔

۳- راست بازی و صداقت شعاری اسلام کے اہم ترین اصولوںمیں سے ہے اور جھوٹ اس کی نگاہ میں ایک بدترین بُرائی ہے، لیکن عملی زندگی کی بعض ضرورتوں اور بعض حالات میں اس کے وجوب [لازم ہونے] تک کا فتویٰ دیا گیا ہے۔ صلح بین الناس اور اَزدواجی تعلقات کی درستی کے لیے اگر صرف صداقت کو چھپانے سے کام نہ چل سکتا ہو تو ضرورت کی حد تک جھوٹ سے بھی کام لینے کی شریعت نے صاف اجازت دی ہے۔ جنگ کی ضروریات کے لیے تو جھوٹ کی صرف اجازت ہی نہیں ہے بلکہ اگر کوئی سپاہی دشمن کے ہاتھ گرفتار ہوجائے اور دشمن اس سے اسلامی فوج کے راز معلوم کرنا چاہے، تو ان کا بتانا گناہ اور دشمن کو جھوٹی اطلاع دے کر اپنی فوج کو بچانا واجب ہے۔ اسی طرح اگر کوئی ظالم کسی بے گناہ کے قتل کے درپے ہو، اوروہ غریب کہیں چھپاہوا ہو، تو سچ بول کر اس کے چھپنے کی جگہ بتا دینا گناہ اور جھوٹ بول کر اس کی جان بچا لینا واجب ہے۔(رسائل و مسائل، سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ماہنامہ ترجمان القرآن ، شعبان ۱۳۷۷ھ/مئی ۱۹۵۸ء، جلد۵۰،عدد۲، ص ۱۱۷- ۱۱۸)

دو مختلف نظاموں میں کچھ چیزیں مشترک ہوتے ہوئے بھی، وہ الگ الگ نظام ہوتے ہیں۔ ان دونوں نظاموں کی تفصیلات کا جائزہ لیتے ہوئے ان میں بیش تر چیزیں ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہوں، مگر اس کے باوجود ہم انھیں ایک نظام نہیں کہہ سکتے۔ دو مختلف نظاموں کا کسی ایک یا چند اُمور میں ایک دوسرے سے متفق ہو جانا بھی کبھی اُن کے ایک ہونے کی دلیل قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یہی حال اسلام اور مغربی جمہوریت کا ہے۔

اس ضمن میں یہ چیز ذہن نشین رہے کہ کسی نظام کا اصل جوہر طریق نہیں بلکہ وہ اصولی و مقصدی روح ہوتی ہے، جو اُس کے اندر جاری و ساری رہتی ہے اور اسی روح کے متعلق ہم حکم لگاسکتے ہیں۔

ان گزارشات کے بعد اب آپ مغربی جمہوریت اور اسلامی جمہوریت کے فرق پر غور فرمائیں:

(الف) مغربی جمہوریت میں حاکمیت جمہور کی ہوتی ہے اور اسلام میں حاکمیت اللہ تعالیٰ کی تسلیم کی جاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مغربی جمہوریت میں کسی چیز کے حق و ناحق کا فیصلہ کرنے کا آخری اختیار اکثریت کو حاصل ہے ، مگر اسلام میں یہ حق صرف باری تعالیٰ کو پہنچتا ہے، جس نے اپنا آخری منشا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے دنیا پر واضح فرما دیا۔ یہ اختلاف کوئی معمولی نہیں بلکہ اس کی بنا پر یہ دونوں نظام بنیادوں سے لے کر کاخ و ایوان تک ایک دوسرے سے مختلف ہوجاتے ہیں۔

(ب) اسلامی جمہوریت میں خلافت ایک امانت ہے، جو ہرمسلمان کو سونپی جاتی ہے، اور تمام مسلمان محض انتظامی سہولت کے لیے اُسے ارباب حل و عقد کے سپرد کردیتے ہیں۔ مغربی جمہوریت میں اصحابِ اقتدار صرف اپنی پارٹی [یا منتخب ایوان] کے سامنے جواب دہ ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس اسلامی ریاست میں عوام کے نمایندے خدا اور خلق دونوں کے سامنے جواب دہ ہیں۔

(ج) یہ عرض کر دینا بھی ضروری ہے کہ اسلامی نظام صرف ایک طریق انتخاب تک محدود نہیں ہے بلکہ زندگی کے سارے معاملات میں اپنا ایک مخصوص نقطۂ نظر اور زاویۂ نگاہ پیش کرتا ہے۔ اس کا مطالبہ یہ ہے کہ کتاب اللہ اور سنت رسولؐ اللہ کو آخری سند مان کر اپنی پوری انفرادی اور اجتماعی زندگی کو ان کے مطابق ڈھالا جائے، پاکستان میں ’قراردادِ مقاصد‘ کے ذریعے اس اصول کو تسلیم تو کیا گیا ہے، مگر افسوس کہ اس کے نفاذ کے راستے میں ہرطرح کی رکاوٹیں ڈالی جارہی ہیں۔ (’رسائل و مسائل‘ ترجمان القرآن، جلد۴۹، عدد۳، ربیع الاوّل ۱۳۷۷ھ، دسمبر ۱۹۵۷ء،ص ۱۸۳-۱۸۴)