موت سے واپسی

شورش کاشمیری کے شعور نے جس دور میں آنکھ کھولی وہ صحافت و خطابت اور شعر و سخن کے لحاظ سے سماوی رفعتوں کو چھو رہا تھا۔ قیامِ پاکستان کے بعد نظریۂ پاکستان، نظریۂ اسلام اور جمہوریت ہی ان کا اوّلین ہدف تھے، یہی صفات ان کو اپنے وقت میں ایک اعلیٰ صحافتی اقدار کا علَم بردار بنائے ہوئے تھیں۔ حق گوئی اور بے باکی کے ساتھ وجاہت، خطابت، شاعری کے ایزاد سے شورش کاشمیری تشکیل پاتے ہیں۔ وہ ایک فرد نہیں بلکہ لکھنے پڑھنے والوں کے ایک عہد کا نام ہے۔ شورش کاشمیری کا شمار عہد ساز شخصیات میں ہوتا ہے۔ ایسے بے باک اور جرأت مند صحافی اب کہاں…!!

انہوں نے ہر حکومت کے غلط اقدامات کو تنقید کا نشانہ بنایا، ہر غلط کار سیاست کو آئینہ دکھایا، جس کی پاداش میں کئی بار پسِ دیوارِ زنداں کیے گئے، لیکن ان کے پائے استقامت میں کبھی لرزش نہیں آئی۔

ایوب خان کے دورِ استبداد میں انہوں نے 232 دن قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ سرکاری مہمان کے طور پر جیل میں ان پر جو کچھ بیتی اسے انہوں نے سپردِ قلم کردیا۔ یہ داستان چشم کشا بھی ہے اور سبق آموز بھی جو زیر نظر کتاب ’’موت سے واپسی‘‘ کے عنوان سے منصہ شہود پر آئی ہے۔

شورش کاشمیری کی قید وبند کے دوران حکومت کی طرف سے جو سختیاں اختیار کی گئیں اور انہیں موت کے منہ تک لے جانے کے لیے جو رستے ہموار کیے گئے،’’موت سے واپسی‘‘ ان کارروائیوں کی داستان ہے۔ طویل بھوک ہڑتال شوگر کا انتہائی درجے کا مریض کس طرح برداشت کرتا رہا ؟یہ محض عشقِ رسولؐ کا معجزہ اور حق گوئی و بے باکی ہے۔

ختمِ نبوت، ادب اور صحافت سے شغف رکھنے والوں کے لیے ان کی کتب نایاب تحفہ ہیں۔

بابائے کتب علامہ عبدالستار عاصم کو بہت زیادہ خراجِ تحسین ہے۔ علامہ جادوگر آدمی ہیں جنہوں نے شورش کاشمیری کی کتابوں کو ازسرنو شائع کرنے کا عزم کیا۔ زیرنظر کتاب ’’موت سے واپسی‘‘ اس سلسلے کی پہلی کڑی ہے، جسے نئی آب و تاب اور سج دھج کے ساتھ معروف اشاعتی ادارے قلم فائونڈیشن نے بڑے اہتمام کے ساتھ شایع کیاہے۔ انتہائی خوب صورت سرورق، املا اور طباعت کی غلطیوں سے پاک یہ ایک عمدہ اور لائقِ تحسین پیش کش ہے۔ علامہ عبدالستار عاصم کی مہارتِ کمال کی یہ آئینہ دار کتاب ہے۔ علامہ صاحب تیز تر گامزن منزلِ ما دورنیست۔