راندیر (ضلع سورت، بھارت) میں پیدا ہونے والے امام المحدثین مولانا وصی احمد محدث سورتی ؒ (1836ء۔1916ء) حدیث و فقہ کے جید عالم اور اپنے زمانے کی معروف علمی شخصیت تھے۔آپ کا سلسلۂ نسب حضرت علیؓ کے غیر فاطمی بیٹے محمد بن حنیفہ ؒ سے ملتا ہے، اسی لیے آپ اپنے نام کے ساتھ ’’حنفی‘‘ اور ’’حنیفی‘‘ لکھا کرتے تھے۔ آپ کی عملی زندگی کا آغاز 1857ء کے جہادِ آزادی کے بعد سورت سے ہجرت اور دہلی میں قیام سے ہوتا ہے۔
مولانا وصی احمد سورتی کے اساتذہ میں مولانا لطف اللہ علی گڑھی اور مولانا احمد علی محدث سہارنپوری جیسے استادانِ کامل شامل تھے۔ آپ کو مولانا شاہ فضل الرحمٰن گنج مرادآبادی کی صحبت سے مستفید ہونے اور بیعت و خلافت سے سرفراز ہونے کا شرف بھی حاصل ہوا۔ آپ نے مدرسۃ الحدیث پیلی بھیت (اتر پردیش، ہند) قائم کیا اور وہیں تقریباً 40 سال تک درسِ حدیث دیتے رہے، اور علما، فقہا، مفسرین اور محدثین کی ایک بڑی جماعت تیار کی۔
محدث سورتی کے بہت سے تلامذہ صاحبِ فضل و کمال ہوئے جن میں مفتی امجد علی انصاری اعظمی (مصنف: بہار شریعت)، علامہ سید محمد محدث کچھوچھوی (مصنف: تفسیر اشرفی)، پروفیسر علامہ سید سلیمان اشرف بہاری (مصنف: النور)، علامہ سید ظفرالدین محدث بہاری ؒ (مصنف: صحیح البہاری)، علامہ ضیاء الدین مہاجر مدنی، مولانا عبدالاحد محدث پیلی بھیتی، مولانا عبدالعزیز خاں محدث بجنوری، مولانا سید خادم حسین محدث علی پوری، مولانا عبدالحق محدث پیلی بھیتی، مولانا مشتاق احمد کان پوری، مولانا نثار احمد کان پوری، مولانا ضیاء الدین پیلی بھیتی اور مفتی عبدالقادر لاہوری بالخصوص قابلِ ذکر ہیں۔
آپ نے اصولِ حدیث اور مسائل فقہ کو عام کرنے اور عوام کے عقائد کی اصلاح کے لیے متعدد مذہبی کتابوں پر حواشی لکھے اور مختلف مسائل پر فتاویٰ رسائل کی صورت میں شائع کرائے۔ آپ کی تصنیفات، تالیفات اور تعلیقات میں حاشیہ مدارک، حاشیہ بیضاوی (قلمی)، حاشیہ جلالین (قلمی)، تعلیقات سنن نسائی، حاشیہ شرح معانی الآثار، تعلیقات شروح اربعہ ترمذی، شرح السنن ابی داؤد (قلمی)، شرح مشکوٰۃ المصابیح (قلمی)، افاداتِ حصن حصین، التعلیق المجلی لما فی منیۃ المصلّی جیسی مایہ ناز کتابیں شامل ہیں جن کے حواشی و تعلیقات سے گزشتہ ایک صدی سے طالبانِ علومِ دینیہ استفادہ کررہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔
محدث سورتی علم و معرفت کے میدان ہی کے شہسوار نہ تھے بلکہ سیاست میں بھی آپ نے اہم کردار ادا کیا۔ برطانوی عہدِ حکومت میں ملک و ملت کو نقصان پہنچنے کے پیشِ نظر آپ نے اکابر علماء کے ایک وفد کی قیادت فرمائی جس نے مسلسل تین ماہ پورے ملک کا دورہ کرکے دینی اور مذہبی مدارس کا ایک نظام قائم فرمایا۔ سیاسی اور مذہبی گھٹن کے دور میں علماء کی یہ جماعت امید کی پہلی کرن ثابت ہوئی، کیونکہ اس جماعت کا پورے ہندوستان میں جس طرح استقبال کیا گیا اور جماعت کو اپنے مقاصد میں جو کامیابی حاصل ہوئی اس نے محکوم مسلمانوں کے حوصلے جوان کردیے۔ تحریکِ اصلاحِ ندوۃ العلماء میں بھی آپ نے اہم کردار ادا کیا۔ آپ نے جوقومی و ملّی خدمات انجام دیں اس کا ذکر کئی مقامات پر مولانا احمد رضا خان فاضلِ بریلیؒ نے بھی بہت توصیفی انداز میں کیا ہے اور محدث سورتی ؒ کو فاضلِ کامل، کوہِ استقامت و کنزِ کرامت اور ہمارے دوست اور محبوب کہہ کر مخاطب کیا ہے۔
پیشِ نظر کتاب مولانا وصی احمد محدث سورتیؒ کے احوال اور ان کے کارناموں پر مشتمل پہلی کتاب ہے، جسے ممتاز مؤرخ، محقق، دانشور، قائداعظم اکادمی کے سابق ڈائریکٹر اور نبیرہ محدث وصی احمد سورتی، خواجہ رضی حیدر صاحب نے تالیف و ترتیب دیا ہے۔ یہ تذکرہ علم و تحقیق کی پاسداری، زبان و بیان کی سلاست و شائستگی اور اصولِ تذکرہ نویسی کے اعتبار سے ایک مثالی تذکرہ ہے۔ مولانا وصی احمد سورتیؒ کے اذکار سے تاریخ کے اوراق ایک عرصے سے خالی تھے۔ یہ اہلِ قلم پر ایک قرض تھا جسے خواجہ رضی حیدر نے بحسن و خوبی ادا کیا ہے۔
اس تذکرے کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ اس کی تالیف میں خواجہ صاحب نے صرف اور صرف معروضی حقائق اور تاریخی سچائیوں کو پیش ِ نظر رکھا ہے اور خو د کو عصبیتوں، مخصوص فکری اور ذہنی رویوں سے بالا رکھا ہے۔ کسی بھی مقام اور کسی بھی مرحلے پر اس تذکرے کو غلط بیانیوں، ستائشِ بے جا اور مصلحتوں سے آلودہ نہیں ہونے دیا۔ کیونکہ خواجہ صاحب کے نزدیک علماء کی حیات اور ان کے علم و فکر پر قلم اٹھاتے ہوئے بہت صادق رہنے کی ضرورت بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ اس میں کوتاہی یا غلو عاقبت میں عذاب سمیٹنے کے مترادف ہے۔
امام المحدثین مولانا وصی احمد محدث سورتی کا یہ تذکرہ ایک جامع اور مستند تذکرہ ہے جس کے تمام پہلوؤں کا بہت خوبی کے ساتھ خواجہ صاحب نے احاطہ کیا ہے۔ اس میں محدث سورتی کے خاندانی حالات، تعلیم، بیعت و خلافت، تدریس، خدمات، اسفار، معمولات اور وصال کا تفصیلی بیان بھی ہے اور آپ کی اولاد و امجاد، براردِ خورد، تلامذہ، معاصرین اور تصانیف کا تذکرہ بھی۔ اس ضمن میں کئی ایسی شخصیات کے بھی تفصیلی حالات اس کتاب میں ملتے ہیں جن کے بارے میں دیگر ماخذ میں بہت کم معلومات ملتی ہیں۔