بہت زیادہ پانی نکالنے سے زمین کا گردشی محور کھسک رہا ہے جو روئے ارض کے ماحول کو شدید نقصان سے دوچار کر رہا ہے
ہر دور کا انسان اپنے مفاد یعنی زیادہ سے زیادہ سہولت کے قدرت کے نظام میں پائی جانے والی ہر چیز سے چھیڑ چھاڑ اور کھلواڑ کرتا آیا ہے۔ اس کے نتیجے میں جو خرابیاں پیدا ہوئی ہیں اُن کا نشانہ وہ خود بھی بنا ہے۔ آج بھی کچھ ایسا ہی چل رہا ہے، بلکہ معاملات بہت زیادہ بگڑے ہوئے ہیں۔
انسان نے اپنے معاشی مفادات کے حصول کے لیے جو کچھ بھی کیا ہے، جو کچھ بھی بویا ہے وہ کُھل کر سامنے آرہا ہے۔ اپنی سہولت کی خاطر جب سوچے سمجھے بغیر کچھ کیا جائے گا تو اُس کے نتیجے میں خرابی ہی پیدا ہوگی اور ماحول کی گراوٹ میں اضافہ ہی ہوگا۔
ہم ایک زمانے سے سُن رہے ہیں کہ آلودگی کے ہاتھوں دنیا بھر میں صحتِ عامہ کے مسائل انتہائی حدوں کو چھو رہے ہیں۔ ترقی پذیر اور پس ماندہ ممالک میں فضائی آلودگی اِتنی بڑھ چکی ہے اب اِسے ہلاکت خیز بھی کہا جاسکتا ہے، اور سچ یہی ہے کہ بعض ملکوں میں فضائی آلودگی ہلاکت خیز ہی ہے۔
دنیا بھر میں پینے کے صاف پانی کی تواتر سے فراہمی اب ایک بڑا مسئلہ ہے۔ بعض ملکوں میں تو یہ زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ پاکستان اور بھارت جیسے ممالک میں لوگوں کے لیے صاف پانی کا حصول اب انتہائی پریشان کن معاملہ ہے۔ پانی فروخت بھی اِتنا ہورہا ہے کہ عام آدمی اپنی ضرورت کے مطابق وافر مقدار میں پانی حاصل نہیں کر پارہا۔
پاکستان، بھارت، بنگلا دیش، نیپال اور افریقا کے پس ماندہ ترین ممالک میں لوگ پینے کا صاف پانی کنویں کھود کر یا بورنگ کرواکے نکالتے ہیں۔ زمین سے پانی اس قدر نکالا جارہا ہے کہ اب بعض خطوں میں تو زیرِزمین پانی کی سطح خطرناک حد تک گرچکی ہے۔ بھارت اور پاکستان میں زرعی مقاصد کے لیے بھی پانی بلا دریغ نکالا جارہا ہے۔ بہت سے علاقوں میں تو معاملہ یہ ہے کہ ٹیوب ویل آن کرکے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ پانی بلا ضرورت نکلتا اور بہتا رہتا ہے۔ اس طرح ضرورت سے کہیں زیادہ پانی استفادے کے بغیر ہی ضایع ہوجاتا ہے۔ یہ انتہائی گمبھیر مسئلہ ہے جس کا حل فوری طور پر سوچا جانا چاہیے مگر نہیں سوچا جارہا۔
کبھی آپ نے سوچا ہے کہ اگر زمین سے بہت بڑے پیمانے پر پانی نکالا جاتا رہے تو کیا ہوتا ہے؟ قدرت نے ہر معاملے میں توازن رکھا ہے۔ جب ہم کسی بھی معاملے میں حد سے گزرتے ہیں تو توازن بگڑتا ہے اور اِس کے نتیجے میں ماحول کی گراوٹ بڑھتی ہے۔ معاملات اُس وقت اور بھی خطرناک ہوجاتے ہیں جب بگاڑ تو پیدا ہوتا ہی رہے اور اُس کے تدارک کے لیے کچھ نہ کیا جائے۔ زیرِزمین پانی نکالنے کے معاملے میں ایسا ہی ہورہا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ زمین کا محور 31.5 انچ جھک گیا ہے۔ اور یہ نمایاں تبدیلی زیرِزمین پانی بہت بڑے پیمانے پر نکالنے کے نتیجے میں رونما ہوئی ہے۔ اس معاملے میں بھارت کو زیادہ ذمہ دار قرار دیا جارہا ہے۔ تازہ ترین تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ تحقیق کی مدت کے دوران انسانوں نے زمین سے 2150 جیگا ٹن پانی کھینچ نکالا ہے۔
جیو فزیکل ریسرچ لیٹرز میں شایع ہونے والی تحقیق کے مطابق زمین کے گردشی قطب کی تبدیلی میں زمین سے بڑے پیمانے پر پانی نکالے جانے کے عمل کا بھی اہم کردار رہا ہے۔ اِس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انسان روئے ارض پر جو کچھ بھی کررہا ہے اُس کا نظامِ قدرت پر کس قدر اثر مرتب ہوتا ہے۔
سیول نیشنل یونیورسٹی کے تحت کی جانے والی تحقیق کی سربراہی کی ویون سیو نے کی۔ تحقیق 1993ء سے 2010ء کے دوران کی گئی۔ اس دوران زمین سے بہت زیادہ پانی نکالے جانے کے باعث زمین کا گردشی قطب کم و بیش 80 سینٹی میٹر کھسک گیا۔
تحقیق سے معلوم ہوا کہ اِس مدت کے دوران بھارت سمیت کئی ممالک میں زمین سے بہت بڑے پیمانے پر پانی نکالا گیا۔ مجموعی طور پر 2150 جیگا ٹن پانی نکالا گیا جس کے نتیجے میں سمندر کی سطح میں 0.24 انچ کا اضافہ ہوا۔ یوں زمین کی مجموعی ساخت تبدیل ہوئی اور زمین کا گردشی قطب 4.36 سینٹی میٹر سالانہ کی رفتار سے کھسک گیا۔
قطبین یعنی زمین کے گردشی محور کی حرکت زمین کے مرکزی حصے میں رونما ہونے والی تبدیلیوں پر منحصر ہے۔ زمین میں موجود پانی دھیرے دھیرے سفر کرتا ہوا سمندر میں جا ملتا ہے۔ جب اس نظام میں تبدیلی رونما ہوتی ہے تب زمین کا گردشی محور کھسکنے لگتا ہے۔
جنوبی کوریا کی یونیورسٹی کی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ زیرِزمین پانی کی مقدار بہت کم ہوجانے سے زمین کے گردشی محور پر جو اثرات مرتب ہوتے ہیں اُن کے بارے میں پچھلے اندازے غلط تھے۔ اب تک یہ سمجھا جاتا رہا ہے کہ قطبین پر برف کے پگھلنے کی رفتار ہی کا زمین کے گردشی محور کی تبدیلی سے کوئی بنیادی تعلق ہے۔
ویسے تو خیر دنیا بھر میں زمین سے پانی نکالا جاتا رہا ہے اور نکالا جارہا ہے، تاہم تحقیق سے یہ ثابت ہوا ہے کہ اس معاملے میں شمالی امریکہ اور شمال مغربی بھارت باقی دنیا پر واضح سبقت لے چکے ہیں۔ ان دونوں خطوں میں زمین سے پانی نکال کر ضرورت پوری کرنے کو ترجیح دی جاتی رہی ہے۔ ماہرین کہتے ہیں سوال محض پانی نکالنے کا نہیں بلکہ بہت زیادہ پانی نکالنے کا ہے۔ اس کے نتیجے میں زیرِزمین بہت سی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں اور معاملات بگڑتے ہیں۔ حکومتیں بھی جانتی ہیں کہ ماحول کو مختلف طریقوں سے نقصان پہنچایا جارہا ہے۔ پس ماندہ ممالک میں پانی کی طلب پوری کرنے کے لیے زیرِزمین پانی نکالنے سے اچھا کوئی طریقہ نہیں۔ اس صورت میں پانی کی رسد کو غیر معمولی حد تک بڑھایا جاسکتا ہے اور بڑھایا جاتا ہے۔
ماہرین کہتے ہیں: ایسا نہیں ہے کہ زمین کے گردشی محور میں پیدا ہونے والا جھکاؤ فوری طور پر کوئی بہت بڑی موسمی تبدیلی پیدا کرے گا یا ماحول کو ایسا خراب کرے گا کہ انسانوں کے لیے بڑے پیمانے پر کوئی مشکل پیدا ہوگی، تاہم اِتنا ضرور ہے کہ معاملات کو مزید بگاڑ کی طرف بڑھنے کا موقع ملے گا۔ ماہرین اور محققین خبردار کرتے ہیں کہ زمین سے پانی یونہی نکالا جاتا رہا تو اندر پیدا ہونے والا کھوکھلا پن ایسی خرابیاں پیدا کرے گا جن کا تدارک آسان نہ ہوگا۔ طویل المیعاد بنیاد پر یہ خرابیاں پورے کرہ ارض کے لیے انتہائی خطرناک، بلکہ ہلاک خیز ثابت ہوں گی۔
ارضیات کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو زمین کی محوری گردش میں رونما ہونے والی تبدیلیاں ماحول میں ایسی تبدیلیاں پیدا کرسکتی ہیں جن کے نتیجے میں موسموں کی شدت بڑھ سکتی ہے۔ موسموں کا پیٹرن بگڑنے سے کہیں بہت زیادہ بارشیں ہوتی ہیں تو کہیں انتہائی نوعیت کی خشک سالی پیدا ہوتی ہے۔ کہیں بہت زیادہ برف پڑتی ہے تو کہیں بہت زیادہ سیلاب آتے ہیں۔ ایسے میں لازم ہے کہ پانی سے متعلق نظم و نسق کا معیار بلند کیا جائے اور زمین کو انتہائی نوعیت کی پیچیدگیوں سے پاک رکھا جائے۔
دنیا بھر میں پالیسیاں تیار کرنے والوں اور ماحول کے بارے میں فکرمند رہنے والوں کے لیے یہ ویک اپ کال ہے۔ زمین سے پانی نکالنے کے عمل کو معقولیت کی حدود میں رکھنا لازم ہے۔ قدرتی وسائل سے اندھا دھند مستفید ہونا انتہائی خطرناک رویہ ہے۔ حکومتوں کی کمزوریاں ماحول کو شدید نقصان پہنچانے کی راہ ہموار کررہی ہیں۔ دنیا بھر میں حکومتیں اپنے حصے کا کام کرنے کے بجائے لوگوں کو بظاہر کھلی چھوٹ دے رہی ہیں کہ جس طرح چاہو اپنی ضرورتیں پوری کرلو اور ماحول کو جتنا بھی نقصان پہنچانا ہے بخوشی پہنچاؤ۔ یہ روش کسی بھی طور درست نہیں۔ دنیا بھر میں ترقی یافتہ حکومتیں ماحول کی خرابی روکنے کے لیے کچھ نہ کچھ کررہی ہیں۔ پس ماندہ ممالک کی حکومتیں اگر کچھ کر نہیں سکتیں تو ماحول کو نقصان پہنچانے والی سرگرمیوں کو تو روک ہی سکتی ہیں۔ قدرتی وسائل سے بے لگام طور پر فائدہ اٹھانے کی ہر کوشش کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہیے۔ دنیا بھر کی حکومتوں کو زیرِزمین پانی نکالنے کے حوالے سے متوجہ اور متفکر ہونا چاہیے۔ ماحول میں پیدا ہونے والی خرابیاں بالعموم دکھائی نہیں دیتیں۔ یہ خاموش قاتل کا کردار ادا کرتی ہیں۔
ماحول دنیا بھر کے انسانوں کا مشترکہ اثاثہ ہی نہیں مشترکہ ذمہ داری بھی ہے۔ اس معاملے میں اسموگ سب سے بڑی اور نمایاں مثال ہے۔ پاکستان اور بھارت کے کئی صوبوں یا خطوں میں ہر سال ایک سے ڈیڑھ ماہ تک شدید دُھند اور دھویں سے انتہائی نوعیت کی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ غفلت برتی جائے تو یہ خرابیاں انتہائی شکل اختیار کرتی ہیں۔ اس معاملے میں دونوں ملکوں کی حکومتوں کے درمیان اشتراکِ عمل، سیاسی اور اسٹرے ٹیجک کشیدگی کے باعث، مفقود ہے۔ ایسے معاملات میں تعلقات کی کشیدگی کو ایک طرف ہٹاکر اجتماعی مفاد کو ترجیح دینی چاہیے۔ اس حقیقت کا واقعی ادراک لازم ہے کہ ماحول کو پہنچنے والے نقصان کو پھیلنے سے روکنے کے لیے کوششیں لازم ہیں کیونکہ یہ نقصان کسی سرحد کی پروا نہیں کرتا۔