کیا یورپی ممالک، کینیڈا، آسٹریلیا، جاپان اور نیوزی لینڈ وارنٹ کی تعمیل میں اپنا مخلصانہ کردار اداکریں گے، یہ کہنا ذرا مشکل ہے کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا
عالمی فوجداری عدالت (ICC) نے 21 نومبر کو غزہ نسل کُشی کے مبینہ ملزمان اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو، سابق وزیر دفاع یعقوب گیلینٹ اور حماس کے ابراہیم المصری المعروف ابوضیف کے پروانۂ گرفتاری جاری کردیے۔ مستغیثِ اعلیٰ (Prosecutor) کریم خان نے اسماعیل ہنیہ اور یحییٰ سنوار کے وارنٹ جاری کرنے کی بھی استدعا کی تھی، لیکن ان دونوں حضرات کی شہادت کے بعد ججوں نے اسے غیر مؤثر قرار دے دیا۔ اسرائیلی حکام کے مطابق محمد ضیف بھی اب حیات نہیں، لیکن اس حوالے سے مصدقہ اطلاع نہ ہونے کے باعث ضیف صاحب کو بھی حراست میں لینے کا حکم جاری کردیا گیا۔
فاضل ججوں نے اپنے فیصلے میں لکھا: ’’اس بات پر یقین کرنے کی معقول بنیاد موجود ہے کہ نیتن یاہو اور یعقوب گیلنٹ غزہ کی شہری آبادی کے خلاف وسیع و منظم حملوں اور قتل و غارت گری کے ساتھ بھوک و فاقہ کشی کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کے مرتکب ہوئے ہیں۔‘‘
پروانۂ گرفتاری کی وجوہات بیان کرتے ہوئے آئی سی سی کے ججوں نے مزید کہا کہ ’’منظم ناکہ بندی کے نتیجے میں خوراک، پانی، بجلی، ایندھن اور طبی سامان کی کمی نے غزہ کے ایک حصے کو انسانی زندگی کے لیے غیر موزوں بنادیا ہے۔ غذائی قلت اور پانی کی کمی کی وجہ سے بچوں سمیت لاتعداد شہری ہلاک ہوئے۔ یہ اقدامات ججوں کے خیال میں انسانیت کُش جنگی جرائم شمار ہوتے ہیں۔‘‘
ابوضیف کے وارنٹ میں 7 اکتوبر 2023ء کو اسرائیل پر حملے، عصمت دری اور یرغمالیوں کو یرغمال بنانے کے الزامات شامل ہیں۔ ابراہیم المصری ابوضیف کو بڑے پیمانے پر ہلاکتوں اور غزہ کی جنگ شروع کرنے کا مبینہ ذمہ دار ٹھیرایا گیا ہے۔ تینوں ملزمان پر انسانیت کے خلاف اور جنگی جرائم کے یکساں الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ حالیہ قدم پروانۂ گرفتاری کا حکم ہے، مقدمے کا حتمی فیصلہ نہیں۔
حسبِ توقع اسرائیل اور امریکہ نے فیصلے پر سام دشمنی (Antisemitic) کا فتویٰ جڑ دیا۔ قومی سلامتی کے امریکی ترجمان نے کہا کہ ’’یہ معاملہ ICCکے دائرۂ اختیار سے باہر ہے‘‘۔ فیصلے کے فوراً بعد قصرِِ ابیض کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی صدر بائیڈن نے کہا کہ عالمی فوجداری عدالت کی طرف سے پروانۂ گرفتاری کا اجرا شرمناک ہے۔ اس سے ایک روز پہلے امریکی سینیٹ کے نومنتخب قائدِ ایوان جان تھیون (Jogn Theon)نے دھمکی دی تھی کہ اگر ICC نے اسرائیلی قیادت کے خلاف فیصلہ دیا تو وہ عالمی عدالت کے ججوں اور مستغیثِ اعلیٰ کریم خان پر پابندی لگانے کا بل منظور کرائیں گے۔
قارئین کی دلچسپی کے لیے عرض ہے کہ قانونِ روم یا Rome Statute of the International Criminal Courtمجریہ 1998 کے 125 دستخط کنندگان میں امریکہ، اسرائیل، روس، چین، پاکستان اور ہندوستان شامل نہیں۔
آئی سی سی کے وارنٹ جاری ہونے سے دودن پہلے کیتھولک مسیحیوں کے روحانی پیشوا اعلیٰ حضرت پوپ فرانسس کی آنے والی کتاب ’’امید کبھی نہیں مرتی، بہتر دنیا کی جانب ایک مقدس سفر‘‘ سے جو اقتباس ویٹی کن نے جاری کیے اُس کے مطابق پاپائے روم نے اس کتاب میں عالمی ضمیر کے سامنے یہ سوال رکھا ہے کہ کیا اسرائیل، غزہ میں نسل کُشی کا مرتکب ہورہاہے؟ اور خود ہی جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ ’’تحقیقات کرائی جائے‘‘۔
آئی سی سی کے فیصلے پر ہنگری کے سوا سارے یورپ کا ردعمل مثبت ہے۔ ہالینڈ کے وزیراعظم نے ایک بیان میں کہا کہ ان کا ملک ICC کی خودمختاری اورقانونِ روم کا احترام کرتا ہے۔ ہالینڈ گرفتاری کے وارنٹ پرکارروائی کرے گا۔ اسی بنا پر اسرائیلی وزیرخارجہ گدون سعر نے ہالینڈ کا دورہ منسوخ کردیا ہے۔ اپنی ہم منصب کی دعوت پر انھیں اگلے ہفتے ایمسٹرڈیم آنا تھا۔ فرانسیسی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ فرانس آئی سی سی کے فیصلوں کا احترام کرتا ہے۔ تاہم جب اُن سے پوچھا گیا کہ اگر نیتن یاہو فرانس آتے ہیں تو کیا حکومت انہیں گرفتار کرے گی؟ تو ترجمان نے no commentsکہہ کر بات ختم کردی۔ کینیڈا، ناروے، برطانیہ اور آئرلینڈ نے بھی فیصلے پر عمل درآمد کا اعلان کیا ہے۔ یورپی یونین کے ذمہ دار برائے خارجہ امور جوزف بوریل نے ایک بیان میں کہا کہ یہ ایک متفقہ فیصلہ ہے اور تمام ریاستیں جن میں یورپی یونین کے تمام ارکان شامل ہیں، عدالتی فیصلے پر عمل درآمد کی پابند ہیں۔ ہنگری نے پروانۂ گرفتاری کے اجرا کو شرمناک اور مضحکہ خیز قراردیا ہے۔ وزیراعظم وکٹر اوربن کے ترجمان نے کہا کہ فیصلے میں دہشت گرد حملے کا نشانہ بننے والے ملک کے رہنماؤں کو دہشت گرد تنظیم کے رہنماؤں کے برابر کھڑا کرکے بین الاقوامی عدلیہ کی توہین کی گئی ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے وارنٹ کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ ’’انصاف کے شکنجے نے بالآخر اُن لوگوں کو جکڑ ہی لیا جو فلسطین اور اسرائیل میں جنگی اور انسانیت کے خلاف جرائم کے ذمہ دار ہیں۔ ان گھنائونے جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کے لیے کوئی ’محفوظ پناہ گاہ‘ نہیں ہونی چاہیے‘‘۔ بیانات کی حد تک تو معاملہ ٹھیک ہے، لیکن کیا یورپی ممالک، کینیڈا، آسٹریلیا، جاپان اور نیوزی لینڈ وارنٹ کی تعمیل میں اپنا مخلصانہ کردار اداکریں گے، یہ کہنا ذرا مشکل ہے کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔
جہاں تک غزہ نسل کُشی کا تعلق ہے تو بائیڈن انتظامیہ اپنے آخری ایام میں بھی اسرائیل کی سہولت کاری کے لیے کمربستہ نظر آرہی ہے۔ سلامتی کونسل میں پیش ہونے والی غزہ جنگ بندی کی قرارداد امریکہ نے ایک بار پھر ویٹو کردی۔ یہ تحریک کونسل کے دس غیر مستقل ارکان کی طرف سے پیش کی گئی، جس کے حق میں 15 میں سے 14 ارکان نے ہاتھ بلند کیے لیکن چچا سام کے اکلوتے ووٹ نے قرارداد کو غیر مؤثر کردیا۔ اسی روز اسرائیل کو ٹینک کے گولوں کی فراہمی روکنے کی قرارداد امریکی سینیٹ نے 18 کے مقابلے میں 79 ووٹوں سے مسترد کردی۔ برنی سینڈرز سمیت صرف ایک تہائی ڈیموکریٹس نے قرارداد کی حمایت کی اور فلسطین دشمنی میں ڈیموکریٹس اور ریپبلکن یک جان نظر آئے۔
دلچسپ بات کہ بے شرمی کی حد تک غیر مشروط حمایت کے باوجود ظالم محبوب کی طرح ’بی بی‘ خوش نہیں۔ گزشتہ ہفتے اسرائیلی کنیسہ (پارلیمان) میں تقریر کرتے ہوئے اسرائیلی وزیراعظم نے کہا کہ ’’(غزہ مہم کے ہر پہلو پر) امریکہ کو اعتراض تھا، ان کی تجویز تھی کہ ہم غزہ میں داخل نہ ہوں۔ انھیں ہمارے غزہ شہر اور خان یونس میں داخلے کے بارے میں تحفظات تھے۔ صدر بائیڈن نے رفح پر اسرائیلی فوج کے حملے کی سخت مخالفت کی‘‘۔ نیتن یاہو کے مطابق امریکی حکومت نے اہم ہتھیاروں کی ترسیل روک دینے کی دھمکی دی لیکن میں نے ان سے دوٹوک کہا ’’اسلحہ نہ ملا تو ہم اپنے ناخنوں سے لڑیں گے‘‘۔ جھوٹ اور شیخی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ صدر بائیڈن نے دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے 2000 پائونڈ بموں کی ترسیل روکی اور وہ بھی صرف ایک ہفتے کے لیے۔ ناخنوں سے لڑنے کی لاف زنی سے نیتن یاہو معلوم نہیں کس کو بے وقوف بنارہے ہیں کہ اسرائیلی فوج کے لیے ڈائپرز بھی امریکہ بھیج رہا ہے۔
ایک طرف بی بی کا شکوہ تو دوسری جانب امریکی ہند بحرالکاہل کمان (Indo-Pacific Command)کے سربراہ ایڈمرل سام پاپارو نے انکشاف کیا ہے کہ اسرائیل اور یوکرین کو اسلحہ فراہم کرنے کے نتیجے میں امریکی فوج کے لیے مختص اسلحے کے ذخائر سکڑ گئے ہیں۔ مرکزِ دانش، بروکنگز انسٹی ٹیوٹ (Brookings Institute)میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے امیرالبحر نے کہا کہ پیٹریاٹ اور فضا سے زمین میں مار کرنے والے میزائل بڑی تعداد میں استعمال ہوچکے اور ان اہم اثاثوں کے ذخائر میں کمی محسوس کی جارہی ہے۔
بدترین بمباری اور غزہ وبیروت کو تباہ کردینے کے باوجود نہ تو نہتوں کی مزاحت کمزور پڑی اور نہ اسرائیل اپنے قیدی رہا کراسکا۔ لبنان سے راکٹوں، میزائلوں اور ڈرونوں کی بارش بھی جاری ہے۔ لبنانی راکٹوں نے کریات شمعونہ، حیفہ، الخلیل، رمعات گن اور شفا عمروکے بڑے حصے کو کھنڈر بنادیا ہے۔
گزشتہ ہفتے تل ابیب کے ایک تہہ خانے میں قیدیوں کی رہائی پر غور کے لیے وزیراعظم نیتن یاہو نے ایک خصوصی اجلاس طلب کیا۔ بیٹھک میں خفیہ ادارے شاباک (Shin Bet)کے سربراہ ران بار، فوج کے سربراہ جنرل حرزی حلوی اور موساد کے ڈائریکٹر ڈیوڈ برنی نے شرکت کی۔ گفتگو کے دوران فوج اور خفیہ اداروں کے سربراہوں نے وزیراعظم کو مطلع کردیا کہ طاقت کے بل پر قیدیوں کو چھڑانا ممکن نہیں۔ مسلسل قید اور کم خوراکی کی بنا پر یرغمالیوں کی حالت خراب ہے اور ان کے لیے موسمِ سرما حراست میں گزارنا بے حد دشوار ہوگا۔ شاباک کے سربراہ کا خیال ہے کہ مزاحمت کاروں کی شرائط مان لینے کے سوا قیدیوں کو چھڑانے کا اور کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔
ہدف کے حصول میں ناکامی نے وزیراعظم نیتن یاہو کی طبیعت میں جھنجھلاہٹ پیدا کردی ہے۔ خفیہ اداروں سے ان کی تُو تڑاخ کی داستانیں عام ہیں۔گزشتہ ہفتے جب حساس خفیہ دستاویز افشا کرنے کے الزام میں شاباک کی درخواست پر عدالت نے وزیراعظم کے ترجمان ایلی فینسٹائین پر فردِ جرم عائد کی تو نیتن یاہو پھٹ پڑے اور اپنے ایک بصری پیغام میں کہا کہ معلومات افشاکیس میں گرفتار ہونے والوں کے ساتھ دہشت گردوں جیسا سلوک کیا جارہا ہے۔ فوج اور شاباک نے معلومات پر پابندی کے حکم المعروف Gag orderکی آڑ لے کر حساس معلومات تک میری رسائی روک دی ہے حالانکہ آئین کے تحت وزیراعظم کو اندھیرے میں نہیں رکھا جاسکتا۔
اسی کے ساتھ قائدِ حزبِ اختلاف یارلیپڈ نے غزہ اور لبنان میں جنگ بندی، اسرائیلی قیدیوں کی رہائی اور علاقے میں پائیدار امن کا ایک منصوبہ پیش کیا ہے۔ تل ابیب کے مؤقر مرکزِ دانش متوِم انسٹی ٹوٹ (Mitvim Institute) میں تزویراتِ امید (Strategy of Hope)کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جناب لیپڈ نے کہا کہ اتحادی سیاست، علاقوں کے الحاق کا خبط اور غزہ کی اسرائیل سے وابستگی کے مذہبی تصورات کی وجہ سے بی بی جنگ کو طول دے رہے ہیں۔ قائدِ حزبِ اختلاف کا کہنا ہے کہ حقیقی فتح سفارتی پیش رفت سے ہی حاصل ہوگی۔
یارلیپڈ کے خیال میں لبنان اور غزہ میں جاری لڑائی کے خاتمے، ایران کے جوہری عزائم کے خلاف خطے کو متحد کرنے، اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان سفارتی تعلقات، اور اسرائیل سے ’’مستقبل کی علیحدگی‘‘ کے لیے مقتدرہ فلسطین (PA) سے مذاکرات وقت کی ضرورت ہے۔ جناب لیپڈ نے اس مقصد کے لیے ریاض میں ایک علاقائی کمیشن کا منصوبہ تجویز کیا۔ یارلیپڈ نے ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کو امن کے لیے ایک موقع قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ ایک ایسی انتظامیہ ہے جو فیصلہ کن اقدامات سے نہیں ڈرتی۔
غزہ، غربِ اردن اور لبنان میں ہونے والے مظالم کا ردعمل اسرائیل سے باہر بھی محسوس ہورہا ہے۔ 21 نومبر کو ابوظہبی سے لاپتا ہونے والے خبد (Chabad) ربائی (امام) زی کوگن (Zvi Kogan)کی لاش تین دن بعد العین سے برآمد ہوگئی۔ خبد،حریدی فرقے کے اعلیٰ ترین خاندان سے تعلق رکھنے والے ائمہ، حفاظِ توریت اور تالمود(یہودی فقہ) کے شارحین ہیں۔ ربائی کوگن کے پاس اسرائیل اور مالدووا کی دہری شہریت تھی۔ 28 سالہ ربائی امارات اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات بحال ہونے کے بعد اپنی اہلیہ کے ہمراہ ابوظہبی آگئے اور یہاں وہ Rimonکے نام سے کوشر (حلال) اشیائے خوردنی کی دکان چلاتے تھے۔ ابتدائی تحقیقات کے مطابق چند ازبک نوجوانوں نے انھیں اغوا کرکے قتل کیا اور مبینہ طور پر ترکیہ فرار ہوگئے۔
آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر Masood@MasoodAbdaliپربھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔