فریقین میں 7روزہ جنگ بندی پر اتفاق
صوبائی حکومت کی کوششوں سے کرم میں دہشت گردی کے ہونے والے واقعات اور ان کے ردعمل میں جلائو گھیرائو کے اندوہناک واقعات کے بعد فریقین نے7 روز کی جنگ بندی پر اتفاق کرلیا ہے، جبکہ ایک دوسرے کو لاشیں واپس کرنے کی بھی یقین دہانی کرا دی گئی ہے۔ صوبائی حکومت کا وفد صوبائی وزیر قانون آفتاب عالم، مشیر اطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف، چیف سیکرٹری ندیم اسلم چودھری، ڈی آئی جی اور کمشنر کوہاٹ سمیت دیگر حکام پر مشتمل تھا۔ وفد نے پہلے روز اپر کرم اور دوسرے روز لوئر کرم کے عمائدین سے ملاقات کی اور اُن کے گلے شکوے سنے۔ جرگہ میں دونوں فریق کو سیز فائر پر راضی کرلیا گیا۔
دوسرے روز کا جرگہ پیر سرمد علی سیف کی قیادت میں منعقد ہوا۔ اس حوالے سے حکومتی وفد کے سربراہ بیرسٹر محمد علی سیف نے بتایا کہ دونوں فریق 7 روز کے لیے جنگ بندی پر راضی ہوگئے ہیں اور دونوں ایک دوسرے کی لاشیں بھی واپس کردیں گے۔
واضح رہے کہ 21 نومبر کو ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں کے دو قافلوں پر فائرنگ سے 44 افراد جاں بحق اور 19 زخمی ہوگئے تھے۔ ڈپٹی کمشنر کرم جاوید اللہ محسود کے مطابق مندوری میں کانوائے پشاور سے پارا چنار جارہا تھا اور ڈاڈ کمر میں کانوائے پارا چنار سے پشاور آرہا تھا۔ جاں بحق ہونے والوں میں پولیس اہلکار، خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ جاوید اللہ محسود کا کہنا تھا کہ دونوں قافلوں میں تقریباً 40 گاڑیاں شامل تھیں، کانوائے پر فائرنگ کے بعد حملہ آور فرار ہوگئے جن کی گرفتاری کے لیے سرچ آپریشن جاری ہے۔ پولیس کے مطابق مسافر گاڑیوں کو پہاڑوں سے نشانہ بنایا گیا اور خودکار ہتھیاروں سے شدید فائرنگ کی گئی۔ یاد رہے کہ ضلع کرم میں ہر قسم کے سفر کے لیے پولیس کی سیکیورٹی میں مسافر، قافلوں کی صورت میں سفر کرتے ہیں۔
اس سے قبل 12اکتوبر کو اپرکرم کے علاقے کوعلیزئی میں ہونے والے مسافر وین قافلے پر حملے کے نتیجے میں 15 افراد جاں بحق ہوئے تھے جس کے بعد سے پاراچنار پشاور روڈ ہر قسم کی آمد و رفت کے لیے بند کردیا گیا تھا، تاہم بعدازاں سڑک کھول دی گئی تھی، لیکن اس پر صرف قافلوں کی صورت میں جانے کی اجازت تھی۔ عینی شاہدین اور کرم پولیس کے مطابق قافلے پر تین مختلف علاقوں میں مورچے لگا کر فائرنگ کی گئی اور کم از کم چودہ کلومیٹر کے علاقے میں قافلے پر فائرنگ ہوتی رہی۔ ان کا کہنا تھا کہ جن علاقوں میں فائرنگ ہوئی ان میں مندوری، بھگن اور اوچت شامل ہیں۔ عینی شاہدین نے بتایا کہ قافلے میں شامل بچ جانے والی گاڑیاں جب ایک علاقے سے نکل کر دوسرے علاقے میں جاتیں تو پھر دوسرے علاقے میں ان پر فائرنگ کی جاتی تھی، یہ سلسلہ ان تین علاقوں تک جاری رہا۔
دہشت گردی کے متذکرہ واقعے کے بعد ضلع کرم میں جھڑپوں کے دوران 32 مزید بے گناہ افراد جاںؐ بحق ہوئے۔ جمعہ کی شب سے کرم کے مختلف علاقوں میں توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیرائو کے واقعات رونما ہوئے اور بعض وڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کئی دکانوں اور مکانوں کو نذرِ آتش کیا گیا۔ کشیدہ صورتِ حال کے پیش نظر لوئر کرم سے خواتین اور بچوں سمیت ہزاروں افراد رات گئے نقل مکانی کرکے ضلع ہنگو کی تحصیل ٹل پہنچ گئے۔
اس دوران بھگن اور اوچت میں دہشت گردوں کی فائرنگ سے جاں بحق ہونے والے 44 افراد کی نمازِ جنازہ ادا کردی گئی جس کے بعد انہیں آبائی قبرستانوں میں سپردِ خاک کردیا گیا۔ واقعے کے خلاف پارا چنار میں تمام بازار اور تعلیمی ادارے بند رہے جبکہ مشتعل افراد نے مین شاہراہ پر ٹائر جلا کر سڑک کو بند کردیا۔ احتجاج کے دوران مشتعل افراد نے گاڑیوں کے شیشے توڑے اور ایک گاڑی نذرِ آتش کردی۔ گاڑیوں پر پتھراؤ کے نتیجے میں کئی مسافر زخمی ہوگئے۔ مشتعل مظاہرین نے میڈیا نمائندوں کو کوریج سے روکنے اور موبائل فون چھیننے کی کوشش بھی کی۔
دوسری جانب ایم ڈبلیو ایم کے سانحہ پارا چنار کے خلاف ملک بھر میں 3 روزہ سوگ کے سلسلے میں ایم ڈبلیو ایم کی جانب سے ملک کے مختلف شہروں میں مظاہرے کیے گئے اور ریلیاں نکالی گئیں۔
کرم واقعات کے اگلے روز آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے پشاور کا دورہ کیا جہاں انہیں موجودہ سیکیورٹی صورتِ حال پر بریفنگ دی گئی۔ آرمی چیف نے شہداء اور غازیوں کو زبردست خراجِ تحسین پیش کیا اور خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے فوجیوں کے بلند حوصلے، آپریشنل تیاری اور غیر متزلزل عزم کو سراہتے ہوئے کہا کہ یہ قربانیاں قومی عزم کی بنیاد ہیں، یہ قربانیاں مسلح افواج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے غیر متزلزل جذبے اور لگن کو تحریک دیتی ہیں۔ انہوں نے دشمن دہشت گرد نیٹ ورکس کو ختم کرنے کے عزم کو دہرایا اور قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے والے غیر قانونی عناصر کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے عزم کا اعادہ کیا۔ آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا کہ فوج قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ امن دشمنوں کا پیچھا کرے گی۔
قبائلی ضلع کرم اپنے جغرافیائی محلِ وقوع اور شیعہ سنی تنازعات کے حوالے سے ملکی اور عالمی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ یہ علاقہ تین طرف سے افغانستان جبکہ ایک جانب پاکستان کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ یہ ضلع تین حصوں اپر کرم، سنٹرل اور لوئر کرم میں تقسیم ہے۔ اپنے جغرافیہ کی وجہ سے ہی کرم کو کسی زمانے میں ”پیرٹ بیک“ یعنی ”طوطے کی چونچ“ کہا جاتا تھا اور افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف جنگ کے دوران اس ضلع کی اسٹرے ٹیجک اہمیت میں اسی وجہ سے اضافہ ہوا۔ کرم پاکستان کے کسی بھی شہر کے مقابلے میں افغانستان کے دارالحکومت کابل کے قریب ترین ہے، اور یہ افغانستان میں خوست، پکتیا، لوگر اور نگرہار جیسے صوبوں کی سرحد پر بھی واقع ہے جو شدت پسند تنظیموں داعش اور تحریک طالبان کے گڑھ ہیں۔ پارا چنار پاکستان کے دیگر علاقوں سے صرف ایک سڑک کے راستے جڑا ہوا ہے جو لوئر کرم میں صدہ کے علاقے سے گزرتی ہے جو سنی اکثریتی آبادی پر مشتمل ہے۔ اس علاقے کو کوہ سفید کا بلند و بالا پہاڑی سلسلہ افغانستان سے جدا کرتا ہے جو تقریباً سارا سال برف سے ڈھکا رہتا ہے۔ کرم میں بنیادی طور پر تین بڑے قبائل آباد ہیں جن میں طوری، بنگش اور مینگل شامل ہیں۔ طوری اور بنگش شیعہ، جب کہ مینگل سنی قبائل پر مشتمل ہیں۔ پارا چنار اور کرم کے دیگر علاقوں میں ماضی میں متعدد مرتبہ شیعہ سنی فسادات ہوتے رہے ہیں جن میں اب تک ہزاروں افراد جاں بحق ہوئے ہیں، جب کہ ایک بڑی تعداد کسی بھی ممکنہ فرقہ واریت کی چنگاری کے شعلہ بننے کے خوف سے یہاں پاکستان کے دیگر شہروں میں نقل مکانی پر بھی مجبور ہوئی ہے۔ یہاں چونکہ متحارب قبائل کے پاس وافر مقدار میں چھوٹے خودکار اسلحے کے علاوہ بھاری ہتھیاروں کی بھی کوئی کمی نہیں ہے اور انہوں نے مختلف قصبات اور دیہات میں باقاعدہ چیک پوسٹیں اور مورچے قائم کیے ہیں اس لیے جب یہاں خونریزی کا کوئی معمولی واقعہ بھی رونما ہوتا ہے تو وہ شعلہ بن کر جلد ہی پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے، جس کی تازہ مثال حالیہ واقعہ ہے جو کہ سفاکی اور ظلم و وحشت کی انتہا ہے، جب راہ چلتے غیر مسلح عام راہ گیروں کو چاروں طرف سے گھیر گھیر کر نشانہ بنایا گیا جس میں 44 قیمتی جانیں ضائع ہوئیں تو اس کے ردعمل میں آناً فاناً بگھن سمیت پورے پارا چنار میں آگ اور خون کی ہولی کھیلی گئی جس میں مزید 40افراد جان کی بازی ہار گئے۔
کرم کے ان حالیہ واقعات کے حوالے سے ایک سوال تو یہ اٹھایا جارہا ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں جب دہشت گردوں نے کانوائے پر حملہ کیا تو سیکیورٹی فورسز فوراً ایکشن میں کیوں نہیں آئیں؟ کیوں کہ بتایا جاتا ہے کہ حملے کی جگہ ایف سی قلعے سے محض چند کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ جب کہ اس واقعے کا ایک اور قابلِ توجہ پہلو یہ ہے کہ توڑ پھوڑ اور گھیرائو جلائو کے دوران بھی سیکیورٹی اداروں کی ابتدائی طور پر کوئی مؤثر کارروائی نظر نہیں آئی۔ اسی طرح ردعمل میں متاثرہ علاقوں میں شیعہ کالعدم دہشت گرد تنظیم زینبیون بریگیڈ کے جھنڈے لہرائے جانے کے واقعات بھی عام لوگوں، خاص کر سنی برادری میں تشویش کا باعث بنے ہیں۔
بہرحال جو عارضی سیز فائر ہوا ہے توقع ہے کہ فریقین کے ساتھ ساتھ ریاستی ادارے بھی اس کا فائدہ اٹھائیں گے اور یہاں مستقل قیام امن کے لیے کسی متفقہ حل اور نتیجے پر پہنچنے کی ہرممکن کوشش کریں گے۔