ہمارا نقطہ نظر کشمیر کے معاملے میں بھی ہے۔ ہماری یہ قطعی رائے ہے کہ کشمیر پر قبضہ کرنے میں ہندوستان نے سراسر زیادتی کی ہے اور اس کے مقابلے میں پاکستان کا دعویٰ بالکل حق بجانب ہے۔ سیدھی اور صاف بات یہ ہے کہ ہندوستان نے کشمیر پر قبضہ اس وجہ سے نہیں کیا کہ وہ اس کا حق تھا، بلکہ صرف اس وجہ سے کیا کہ تقسیم کے وقت پاکستان کمزور تھا اور ہندوستان اتنی طاقت رکھتا تھاکہ اپنے حق سے زائد ایک چیز حاصل کرلے۔ میں اس وقت اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا کہ ہماری کمزوریوں کے ساتھ کوتاہیاں کیا تھیں۔ بہرحال یہ واقعہ اپنی جگہ بالکل عیاں ہے کہ اگر پاکستان نے اُس وقت کشمیر پر قبضہ کیا ہوتا تو کوئی معقول آدمی یہ تصور نہیں کرسکتا کہ ہندوستان بھی اسی طرح کشمیر کا دعویٰ لے کر اٹھتا جس طرح آج پاکستان اٹھا ہے، اور وہ بھی پاکستان کی طرح یہ چیلنج کرتا کہ آئو، کشمیر میں استصوابِ رائے عام کراکے دیکھ لو۔ وہ خود جانتا ہے کہ ہندوستان و پاکستان کی تقسیم محض مذہب کی بنیاد پر ہوئی تھی۔ وہ خود جانتا ہے کہ وہی علاقے پاکستان بنائے گئے جہاں مسلمان اکثریت میں تھے اور وہی علاقے ہندوستان میں شامل کیے گئے جن میں ہندوئوں کی اکثریت تھی۔ وہ خود جانتا ہے کہ تقسیم سے پہلے اور تقسیم کے دوران میں جو کشت و خون ہوا، جو قتل عام ہوا، جو لوٹ مار ہوئی، وہ سراسر اس بنیاد پر ہوئی کہ ہندوئوں اور سکھوں کے نزدیک ہر مسلمان کشتنی تھا، اور مسلمان کے نزدیک ہر ہندو اور سکھ گردن زدنی تھا۔ ان ساری باتوں کو جانتے ہوئے کون یہ مان سکتا ہے کہ کشمیر جیسے مسلم اکثریت کے علاقے کو ہندوستان واقعی ایمان داری کے ساتھ اپنا حق سمجھتا تھا اور اگر پاکستان اس پر قابض ہوگیا ہوتا تو وہ بھی یہ دعویٰ کرنے کی جرأت کرسکتا تھا کہ استصوابِ رائے کراکر دیکھ لیا جائے، کشمیر کے باشندے ہندوستان سے الحاق کے حق میں رائے دیں گے۔ پس یہ ایک کھلی ہوئی حقیقت ہے جسے ایک ہٹ دھرم آدمی کے سوا کوئی جھٹلا نہیں سکتا کہ کشمیر پر ہندوستان کا قبضہ حق کی بنیاد پر نہیں ہوا بلکہ سراسر طاقت کی دھاندلی سے ہوا ہے، اور اس معاملے کا سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ہندوستان نے یہ صریح بے شرمانہ دھاندلی اُس زمانے میں کی جب کہ گاندھی جیسا اخلاق کا علَم بردار وہاں موجود تھا، اور اُس شخص کے ہاتھوں کی جو انگریزوں کی غلامی کے دور میں سیاست کو طاقت کے بجائے اخلاق پر قائم کرنے کا سب سے بلند بانگ مدعی بنا ہوا تھا، یعنی پنڈت جواہر لال نہرو۔
کشمیر اور جونا گڑھ کے معاملے میں ہندوستان نے بیک وقت جو دو مختلف پالیسیاں اختیار کی ہیں، پنڈت نہرو کے سوا اور کون آدمی ایسا ہوگا جو عقل رکھتے ہوئے دونوں پالیسیوں کو متضاد ماننے سے انکار کرسکے؟ ایک، جب آپ اس بنیاد پر قبضہ کرتے ہیں کہ وہاں حکمران چاہے مسلمان ہو مگر آبادی کی اکثریت ہندو ہے۔ دوسری جگہ آپ اس بنیاد پر قبضہ کرلیتے ہیں کہ وہاں کی آبادی کی اکثریت چاہے مسلمان ہو مگر حکمران ہندو ہے۔ ایک جگہ کا حکمران پاکستان سے الحاق کا اعلان کرتا ہے تو آپ اسے اس لیے ماننے سے انکار کرتے ہیں کہ حکمران نے الحاق کا فیصلہ باشندوں کی رضامندی حاصل کیے بغیر کردیا ہے۔ دوسری جگہ کا حکمران ٹھیک اسی طرح باشندوں کی رضامندی حاصل کیے بغیر ہندوستان سے الحاق کا اعلان کرتا ہے تو آپ اسے فوراً قبول کرلیتے ہیں اور اس الحاق کی دستاویز کو ایک سراسر آئینی دستاویز سمجھ کر دانتوں سے پکڑ لیتے ہیں۔ ایک جگہ آپ کے نزدیک اپنے علاقے کی قسمت کا فیصلہ کرنا باشندوں کا کام ہے اور حکمران کا فیصلہ بالکل بے معنی ہے، کیوں کہ وہاںکے باشندوں کی اکثریت ہندو اور حکمران مسلمان ہے، دوسری جگہ اس کے بالکل برعکس حکمران کا فیصلہ آپ کے نزدیک بالکل بامعنی اور سو فیصدی قانونی ہے اور اس کو تسلیم کرنے کے لیے باشندوں کی مرضی معلوم کرنے کی کوئی ضرورت نہیں، کیونکہ وہاں حکمران ہندو ہے اور باشندوں کی اکثریت مسلمان۔ کیا یہ کھلا تضاد نہیں ہے؟ یہ حرکتیں ایک ایسے سیاسی لیڈر کے سوا اور کون کرسکتا ہے جو حق اور انصاف اور راستی کے بجائے قوت اور زور کی بنا پر اپنی پالیسی بناتا ہو اور بالکل ایک ابن الوقت کی طرح ہر موقع کے لیے ایک نیا اصول گھڑ لیتا ہو؟ واقعہ یہ ہے کہ پنڈت نہرو نے اپنے اس طرزعمل سے اپنی اس ساری عزت و وقعت کو خاک میں ملا دیا ہے جو انھوں نے عمر بھر سیاست میں اخلاق کی علَم برداری کرکے حاصل کی تھی۔
اس موقع پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ میں یہ بھی ظاہر کردوں کہ ہماری نگاہ میں کشمیر کے معاملے کی اصل اہمیت اور غیر معمولی اہمیت کس وجہ سے ہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ ہم اپنے ملک کے لیے ایک وسیع علاقہ حاصل کرنا چاہتے ہیں، یا اپنے ملک کی معیشت کے لیے کشمیر کو ناگزیر پاتے ہیں۔ یہ ایک قوم پرست اور وطن پرست کا نقطہ نظر تو ہوسکتا ہے، مگر ایک حق پرست کا نقطہ نظر نہیں ہوسکتا۔ ہمارے لیے اس معاملے کی ساری اہمیت صرف اس وجہ سے ہے کہ کشمیر کے 30، 35لاکھ مسلمانوں کا مستقبل ہم کو خطرے میں نظر آرہا ہے۔ کون نہیں جانتا کہ جموں کے علاقے سے بکثرت مسلمان نکالے جاچکے ہیں؟ کس کو معلوم نہیں ہے کہ پٹھان کوٹ سے دلّی تک کا علاقہ مسلمانوں سے خالی ہوچکا ہے؟ کس سے یہ بات چھپی ہوئی ہے کہ ہندوستان نے قصداً ایک سوچی سمجھی اسکیم کے تحت اپنے اُن تمام علاقوں کو مسلمانوں سے خالی کرایا ہے جو مغربی پاکستان کی سرحد سے متصل واقع ہیں، اور اب اسی پالیسی پر مشرقی پاکستان کی طرف بھی عمل ہورہا ہے؟ اس کو دیکھتے ہوئے کبھی یہ توقع ہی نہیں کی جاسکتی کہ اگر کشمیر کی قسمت کا آخری فیصلہ ہندوستان کے حق میں ہوگیا تو وہ زیادہ مدت تک اپنے انتہائی شمالی سرے پر ایک مسلم اکثریت کے علاقے کو برداشت کرتا رہے گا۔ کبھی نہ کبھی وہ وقت ضرور آئے گا جب کشمیر کی ساری مسلمان آبادی، مشرقی پنجاب کے مسلمانوں کی طرح گھروں سے نکالی جائے گی اور مار مار کر اس کو بیک بینی و دو گوش پاکستان کی طرف دھکیل دیا جائے گا۔ آج کشمیریوں کی جو مدارات ہندوستان میں ہورہی ہے یہ ہمیشہ رہنے والی چیز نہیں ہے۔
(مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ۔ ’’روداد جماعت اسلامی‘‘ حصہ ششم)
اقبال
فردوس میں رومی سے یہ کہتا تھا سنائی
مشرق میں ابھی تک ہے وہی کاسہ، وہی آش!
حلاج کی لیکن یہ روایت ہے کہ آخر
اک مرد قلندر نے کی راز خودی فاش!