حیات و افکارِ اقبال

علامہ محمد اقبال ہماری تاریخ کے وہ شاعر ہیں جنہوں نے ہمیں تمنائوں اور آرزوئوں سے نوازا ہے۔ اقبال ایک آفاقی شاعر ہیں جنہوں نے اپنے اشعار کے ذریعے ہماری راہ نمائی کی ہے۔ اقبال ہمیں بتاتے ہیں کہ زندگی کو کس ڈگر پر چلانے کی ضرورت ہے۔ فکرِ اقبال ہمارے قلب و روح کو جلا بخشنے کے لیے مہمیز کا کام کرتی ہے۔

طارق محمود مرزا کا وطنِ ثانی آسٹریلیا کا شہر سڈنی ہے۔ آسٹریلیا میں اردو اور اقبال سے چاہت رکھنے والے کثیر تعداد میں موجود ہیں، ان میں ایک نام ہمارے محترم بھائی طارق محمود مرزا کا بھی ہے۔ طارق محمود مرزا آسٹریلیا میں اردو ادب کے سفیر کی حیثیت سے اپنا ایک مقام رکھتے ہیں اور آسٹریلیا کے مختلف شہروں میں اردو زبان و ادب اور اقبال شناسی کے فروغ میں سرگرم عمل ہیں۔ وہ دیارِ غیر میں رہتے ہوئے ادبی، صحافتی اور تنظیمی سرگرمیوں میں بھرپور حصہ لیتے ہیں۔

آپ کئی کتابوں کے مصنف ہیں، ان میں سفرِ عشق (روداد سفرِ حج)، تلاشِ راہ (افسانوں کا مجموعہ)، خوشبو کا سفر (سفرنامہ)، دنیا رنگ رنگیلی (سفرنامہ)، یورپ کے چند ممالک کا سفرنامہ بہ عنوان ’’ملکوں ملکوں دیکھا چاند‘‘ کے بعد اب ان کی نئی کتاب ’’حیات و افکارِ اقبال‘‘ منصہ شہود پر آئی ہے جس میں انہوں نے اپنے قلم سے علامہ محمد اقبالؒ سے عقیدت اور محبت کا اظہار کیا ہے۔ طارق محمود مرزا نے اپنی مذکورہ کتاب ’’اقبال کی حیات و افکار‘‘ پر سیر حاصل گفتگو کی ہے، بلاشبہ وہ اقبال شناسوں میں ایک ممتاز حیثیت رکھتے ہیں۔

مجموعی طور پر طارق محمود مرزا نے اس قابلِ قدر کاوش میں شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال کی زندگی اور ان کی مختلف جہتوں کو نہایت اختصار سے اور احسن انداز میں بیان کیا ہے جس سے قاری کو ادبی اور علمی تسکین حاصل ہوگی اور اقبال شناسی کے میدان میں ایک وسیع النظری قائم ہوگی۔ ان کی اس کتاب ’’حیات و افکارِ اقبال‘‘ نے انہیں اب ایک ماہرِ اقبالیات کی صف میں شامل کردیا ہے۔

انہوں نے اس کتاب کو ان عنوانات کے تحت حوالۂ قرطاس کیا ہے:

شاعرِ مشرق کی حیات و افکار، طارق محمود مرزا کی نظر میں، حیات و افکارِ اقبال کا اجمالی جائزہ اور طارق مرزا، دیباچہ (عرضِ مصنف)، ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبال کی حیات کا جائزہ، پیدائش اور ابتدائی زندگی، قابل اساتذہ سے کسبِ فیض، افقِ شاعری پر ابھرتا ہوا آفتاب، جہدِ حیات، اقبال کا فکری ارتقا، بیسویں صدی کا عظیم شاعر، علامہ اقبال کا تعلیمی سفرِ یورپ، قیام یورپ اور فکری انقلاب، ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات، وطن واپسی اور تلخیِ حیات، ترجمانِ ملّت، مسلمانانِ برصغیر کی فکری راہ نمائی، خانگی مسائل، والدہ کی جدائی کا غم، حکیم الامت، اقبال کی شاعری بام عروج کی جانب، اسرارِ خودی، رموزِ بے خودی، میکلوڈ روڈ منتقلی، فلسفی شاعر کے انقلابی نظریات، مخدوش سیاسی حالات، پیام مشرق، بانگِ درا، اقبال مصورِ پاکستان یا معمارِ پاکستان؟، برصغیر کی سیاست میں عظیم واقعہ، دوسری گول میز کانفرنس، تیسری گول میز کانفرنس، جاوید نامہ، علامہ کا سرزمینِ بھوپال سے لگائو، دورہ افغانستان، زوالِ عمری، ضربِ کلیم، قوم کا درد، علامہ اقبالؒ اور مولانا مودودیؒ، ارمغانِ حجاز، سفرِ آخرت،شاعرِ مشرق کے اہم نظریات و افکار۔علامہ اقبال کا عشقِ رسولؐ، اقبال اور تہذیب ِمغرب، اقبال کا فلسفہ خودی، خودی تک رسائی، خودی کی تربیت و حفاظت، اجتماعی خودی، خودی اور خدا کا تعلق، فلسفہ خودی کے مآخذ، حاصلِ کلامِ خودی، اقبال کا تصورِ عشق، اقبالؒ ترجمانِ فطرت، علامہ اقبال کی مخالفت کی وجوہات، کتابیات۔

طارق محمود مرزا نے اپنی اس حسین پیش کش میں حضرت علامہ محمد اقبال کی ابتدائی زندگی، تعلیم و تربیت، اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے لاہور آمد، پھر یورپ روانگی اور وہاں کی تہذیب، اردو اور فارسی شاعری، درس و تدریس اور وکالت، سیاست میں اپنا کردار، نیز ان کی کتب ’’اسرار و رموز بے خودی‘‘ سے لے کر ’’ارمغانِ حجاز‘‘ تک سب کا ایک جائزہ پیش کیا ہے، یوں یہ کتاب ماہرینِ اقبالیات، شائقینِ اقبالیات کے ساتھ ساتھ عام قاری کی بھی دلچسپی کا باعث بنے گی اور اس کو تحسین کی نگاہ سے دیکھا جائے گا۔

طارق محمود مرزا بلاشبہ اقبال شناسوں کی صف میں شامل ہونے پر مبارک باد کے مستحق ہیں، اور اب ہم یہ امید کرتے ہیں کہ ان کا قلم اقبالیات کے میدان میں رکنے نہیں پائے گا اور وہ علامہ محمد اقبالؒ کی فکر کو عام کرنے کا کام جاری و ساری رکھیں گے۔

علامہ اقبال کا ایک فارسی شعر ہے:

چومی می گویم مسلمانم بلرزم
کہ دائم مشکلات لاالٰہ را

( میں جب کہتا ہوں کہ مسلمان ہوں تو میں کانپ جاتا ہوں …کیونکہ میں لاالٰہ کی مشکلات کو جانتا ہوں)
اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ۔

طارق محمود مرزا نے اقبال کے فلسفہ ہائے حیات کو بہت آسان پیرائے میں بیان کیا ہے۔ کتاب کا سرورق انتہائی خوب صورت انداز میں بنایا گیا ہے۔ بہترین عمدہ کاغذ، اغلاط سے پاک کمپیوٹر کمپوزنگ کے ساتھ کتاب اچھی شائع ہوئی ہے۔ بلاشبہ افضال احمد صاحب نے اپنے اعلیٰ ذوق کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے کتاب بہترین شائع کی ہے۔