قسط نمبر 38
جن لوگوں کو سزا ملی اُن پر یہ الزام نہ تو ثابت ہوا کہ انہوں نے توڑ پھوڑ کی ہے، اور نہ ہی حقیقت میں ان میں سے کسی نے توڑپھوڑ کی تھی، بارک اللہ خان صاحب کو تو یوں ہی دھر لیا گیا تھا۔ باقی طلبہ کو اس بنیاد پر سزا دی گئی کہ ثابت ہوچکا تھا، وہ اُس رات موقع پر موجود تھے۔ عبدالرحیم، عبدالجبار قریشی، اشفاق حسین، بارک اللہ خان، تنویر عباس تابش اور یہ خاکسار کُل 6 ساتھی قید ہوئے، باقی سب رہا ہوگئے۔ ہمیں کیمپ جیل پہنچادیا گیا۔ باقی ساتھیوں کا سامان منشی اور نمبردار قسم کے پرانے قیدیوں کے ہاتھ باہر بھجوا دیا گیا۔
ہم سب نے ایک ایک سال کے لیے اپنے دل و دماغ کو تیار کرلیا تھا۔ ایک سال کی سزا سن کر بارک اللہ خان اپنے مخصوص لہجے میں کہنے لگے ’’چلو خیر ہی گزر گئی۔ ایک سال کا کیا ہے، گزر جائے گا۔‘‘ کسی ساتھی نے گرہ لگائی ’’خان صاحب کتنے دنوں میں؟‘‘ جواب میں آپ نے فرمایا ’’بیٹا! چٹکی بجانے میں‘‘۔ اس پر سبھی ساتھی خوب ہنسے۔ ہم نے جیل آنے کے پہلے ہی دن سے سب ساتھیوں کی مختلف ڈیوٹیاں لگا دی تھیں۔ میرے ذمے افسران اور جیل حکام سے بات چیت کرنا، اپنے مطالبات اُن تک پہنچانا اور انہیں منوانا وغیرہ کے کام تھے۔ بارک اللہ خان صاحب کی ذمہ داری خوراک اور طعام کی ترسیل اور انتظام پر تھی، جب کہ باقی ساتھیوں کا کام سیل کی صفائی، کھانے کی تیاری اور برتنوں کی صفائی، نماز کے لیے صفیں بچھانا وغیرہ تھی۔
سزا سننے کے بعد ابھی تھوڑے ہی دن گزرے تھے کہ ہماری چالی کا آرڈر آگیا۔ ’’چالی‘‘ جیل کی اصطلاح ہے جس کے معنی ہیں کہ قیدی کو اس جیل سے کسی دوسری جیل میں منتقل کیا جارہا ہے۔ اسے منتقلی بھی کہا جا سکتا ہے، مگر جیل میں ’’چالی‘‘ ہی کہلاتی ہے۔ صبح ہی صبح بعض نمبرداروں اور وارڈنز کی زبانی سنا کہ ہماری چالی کے احکامات آگئے ہیں۔ مجھے دوستوں نے ڈیوڑھی میں جاکر صحیح صورتِ حال معلوم کرنے کا حکم دیا۔ میں نے جاکر پتا کیا توخبر درست تھی۔ میں نے تحریری احکام میں دیکھا کہ ہم سب کو الگ الگ مختلف جیلوں میں بھیجے جانے کا فیصلہ ہوا تھا۔ میں نے واپس آکر دوستوں کو بتایا کہ ہم سب لوگ متفرق جیلوں میں جارہے ہیں، بارک اللہ خان سنٹرل جیل ملتان، عبدالجبار قریشی بہاولپور، اشفاق حسین سیالکوٹ، عبدالرحیم میانوالی، تنویر تابش شاہ پور اور میں سنٹرل جیل ساہیوال میں۔
ڈیوڑھی میں ایک واقف کار جیل ملازم سے میں کہہ آیا تھا کہ اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ ملک مختار صاحب کے لڑکے صفدر کو بلادیں۔ یاد پڑتا ہے کہ اس لڑکے کا نام صفدر ہی تھا۔ وہ اسلامیہ کالج سول لائنز کا طالب علم تھا اور جمعیت کے لوگوں کا بڑا مدّاح اور معتقد بھی تھا۔ عبدالمالک شہید کی شہادت پر گرفتار ہوکر جب میں اس جیل میں آیا تھا تو صفدر مجھ سے ملنے جیل کے اندر اکثر آجایا کرتا تھا۔ میرا ارادہ تھا کہ صفدر کے ذریعے برادرم صفدر علی چودھری کو بلواؤں اور ان سے درخواست کروں کہ ہر متعلقہ مقام پر اپنے احباب سے فوراً رابطہ قائم کریں اور تمام اصحاب سجن کی آمد کی انھیں اطلاع دیں اور ان کی مناسب دیکھ بھال کے بارے میں درخواست کریں۔
وہ لڑکا صفدر ابھی تک آیا نہیں تھا اور بارک اللہ خان صاحب مجھ سے بضد تھے کہ میں یہ چالی رکوانے کی کوشش کروں۔ ان کا مطالبہ تھا کہ میں بھوک ہڑتال کا اعلان کردوں۔ میں نے انہیں بہت محبت و احترام اور نرمی سے سمجھایا کہ ’’خان صاحب! پہلی بات تو یہ ہے کہ چالی کوئی نئی بات نہیں، یہ عام قانونی روش اور جیل قوانین کا معمول ہے۔ دوسرے میں بھوک ہڑتال کو ذاتی طور پر جائز ہی نہیں سمجھتا تو پھر کیسے بھوک ہڑتال کردوں؟‘‘ خان صاحب میرے خلاف احتجاج کررہے تھے اور پورے خلوص سے سمجھ رہے تھے کہ میں اپنے فرائض ادا کرنے سے یا تو پہلوتہی کررہا ہوں یا اپنی نااہلی ثابت کررہا ہوں۔
بہرحال ہمارا یہ گھریلو جھگڑا جاری ہی تھا کہ صفدر آگیا۔ میں اس کے ساتھ پھر ڈیوڑھی کی طرف چلا گیا۔ وہاں سے عزیزم صفدر کی وساطت سے اس کے والد کے دفتر میں بیٹھ کر برادرم صفدر علی چودھری صاحب کو مرکز جماعت اچھرہ فون کیا۔ انہیں صورتِ حال سمجھائی اور عرض کیا کہ ہر مقام پر فوراً مناسب پیغام پہنچ جائے تاکہ کوئی بھی ساتھی پریشانی کا شکار نہ ہو۔ صفدر صاحب نے کہا کہ وہ فوراً جیل پہنچ رہے ہیں، چناں چہ میں ابھی ڈیوڑھی ہی میں تھا کہ وہ تشریف لے آئے۔ ان کے ساتھ صاحب زادہ محمد ابراہیم اور مولانا محمد سلطان صاحبان بھی تھے۔ ان سے بالمشافہ گفتگو میں سارے انتظامات طے ہوگئے اور میں اطمینان سے واپس آگیا۔ میں نے بصد ادب و احترام خان صاحب کو تسلی دی کہ خدا تعالیٰ بہتری کرے گا۔ بہرحال اُس وقت تک خان صاحب کا غصہ کسی حد تک ٹھنڈا ہوچکا تھا اور ان کی وہی مشفقانہ اخوت لوٹ آئی تھی جو ان کا خاص امتیاز تھا، اور جس کی شیرینی آج تک محسوس کرتا ہوں۔
کیمپ جیل میں چند ہفتوں کے قیام کے دوران الحمدللہ قیدیوں کی ایک اچھی خاصی تعداد ہم سے بہت مانوس ہوگئی تھی۔ وہ ہمارے درسِ قرآن میں بھی تشریف لاتے تھے اور عمومی مجلسوں میں بھی رونق افروزہوتے تھے۔ اس چالی کے وقت کیمپ جیل کے قیدی ہمارے گرد جمع تھے اور بڑی محبت سے ہمیں الوداع کہہ رہے تھے۔ جس جس کا جو واقف، دوست اور عزیز چھ میں سے کسی بھی جیل میں تھا، اس نے فوراً اس کے نام رقعہ لکھ دیا تھا کہ اس کا فلاں نہایت قابلِ احترام دوست اس جیل میں آرہا ہے، اس سے نہایت اچھی طرح سے برادرانہ سلوک کیا جائے۔ ساہیوال جیل کے بارے میں تصور یہ تھا کہ وہ بہت بدنام اور سخت جیل ہے، اور یہ بات تھی بھی ٹھیک۔ میرے قیدی دوستوں نے کئی خطوط لاکر میرے ہاتھوں میں تھما دیے تھے ۔کوئی خط طراب شاہ (بنوں) کے نام تھا، تو کوئی خط نذر محمد (منڈی بہاء الدین) کو ایڈریس کیا گیا تھا،کسی خط کا مخاطب محمد حسین سڈل (غالباً جھنگ یا ٹوبہ) تھا، تو کوئی خط تنویر شاہ (سیالکوٹ) کے نام تھا۔
عزیزانِ گرامی اشفاق، عبدالرحیم اور تابش ہم سے پہلے روانہ ہوگئے، روانگی سے قبل میں نے ان کو بہت پیار دیا اور سب کے ماتھے چومے۔ ان کی آنکھوں میں جذباتِ محبت کی وجہ سے آنسو تھے، میرا بھی جی بھر آیا۔ ان کو رخصت کرتے وقت عجیب کیفیت تھی۔ میں، جناب بارک اللہ خان اور برادرم عبدالجبار قریشی ایک ہی ٹرین سے (شاید عوامی ایکسپریس تھی) روانہ کیے جارہے تھے۔ لاہور ریلوے اسٹیشن پر ہمارے دوستوں کا عظیم مجمع ہمیں الوداع کہنے کے لیے جمع تھا۔ ہم تینوں نے ہتھکڑیاں زیب تن کر رکھی تھیں۔ ہتھکڑیوں کے ساتھ ہی پلیٹ فارم پر میں نے عصر کی نماز پڑھائی۔ اگلے دن کے اخبارات میں اس نماز کی تصاویر اور خبر چھپی۔
عوامی ایکسپریس جوں ہی پلیٹ فارم پر آکر کھڑی ہوئی تو نعرے لگنے لگے۔ خان صاحب اُس وقت بڑے خوش گوار موڈ میں تھے۔ پُرجوش انداز میں اپنا ہتھکڑی والا ہاتھ لہرا لہرا کر میرے اور جمعیت کے حق میں نعرے لگوا رہے تھے۔ میں پوری ایمان داری سے کہتا ہوں کہ خان صاحب زندہ باد کا نعرہ لگاتے تھے تو بھی پورے خلوص اور نیک نیتی سے، اور مردہ باد کا نعرہ لگاتے تھے تو بھی پورے خلوص اور نیک نیتی سے۔ معصومیت ان کے چہرے پر میں نے ہر دو حالتوں میں جلوہ فرما دیکھی۔ اللہ مرحوم کے درجات بلند فرمائے۔
نعروں کی گونج میں عوامی ایکسپریس ہمیں لے کر روانہ ہوگئی۔ کئی اسٹیشنوں پر رکتے ہوئے، سفر جاری تھا۔ راستے میں ایک آدھ اسٹیشنوں پر بھی ہمارے استقبال کے لیے کچھ ساتھی موجود تھے۔ تین گھنٹے کے سفر کے بعد ساہیوال ریلوے اسٹیشن پر گاڑی رکی تو ہم نے دیکھا کہ ساتھیوں کی اچھی خاصی تعداد استقبال کے لیے موجود ہے۔ یہاں بھی بارک اللہ صاحب نے نعرے لگوائے۔ گاڑی کی روانگی سے قبل یہاں پر میں بارک اللہ خان صاحب اور عبدالجبار قریشی صاحب سے گلے ملا۔ جدائی کے وہ چند لمحے بڑے بھاری تھے۔ انہیں خدائے قدوس کے حوالے کرکے میں مقامی دوستوں کے ساتھ پلیٹ فارم سے باہر نکل آیا۔ پولیس کے خوش اخلاق کارندے ہمارے ساتھ تھے۔ ساہیوال شہر کے ایک ہوٹل میں دوستوں نے پُرتکلف کھانا کھلایا اور پھر پولیس گاڑی کے ساتھ اپنی ایک جیپ میں بیٹھ کر ہمیں رات ساڑھے بارہ بجے ساہیوال جیل کے مین گیٹ پر لے گئے۔ سب دوست مجھ سے گلے ملے اور پولیس والوں نے مجھے جیل حکام کے حوالے کیا۔ پھر وہ میرے دوستوں سمیت اپنی اپنی منزل کی طرف چلے گئے۔
مضمون خاصا طویل ہوگیا ہے، میں اب اپنی بات کو سمیٹنا چاہتا ہوں۔ ساہیوال جیل میں ایک سال کا قیام بڑا یادگار دور تھا۔ نئے نئے تجربات، قلبی کیفیات، مطالعہ، دوستوں سے خط کتابت، قیدی ساتھیوں سے گھل مل کر رہنا، درس قرآن، رمضان میں تراویح کی نماز، قید تنہائی کا ابتدائی عرصہ، گرمیوں کی شدید گرم راتیں، کال کوٹھڑی میں مچھروں کی یلغار، راتوں کو تلاوتِ قرآن مجید، ملاقات کے لیے ملک بھر سے دوستوں اور احباب کی آمد… غرض کیا کیا لکھوں، یہ اور ان کے علاوہ بے شمارباتیں ذہن میں محفوظ ہیں۔ ان کا مختصر تذکرہ اگلے صفحات میں کروں گا۔ جمعیت اور جماعت کے ساتھیوں کی ہر ہفتے آمد اور تحفے تحائف، والدِ محترم اور دیگر بہت سے عزیز و اقارب کا دو تین مرتبہ ساہیوال کا سفر اور لذت بھری ملاقاتیں۔ ان کی تفصیل کہاں لکھ سکتا ہوں! نہ ہمت ہے، نہ فرصت… بس اشارات ہی میں بات ہوسکے گی۔
ساہیوال جیل میں آمد پر مجھے جس وارڈ میں قید کیا گیا وہاں ایسی تنہائی اور ویرانی تھی کہ کوئی پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا تھا۔ جیل سے کبھی خوف محسوس نہیں ہوا، مگر اس تنہائی نے ایک عجیب سوہانِ روح میں مبتلا کردیا تھا۔ اللہ کا یہ بہت بڑا کرم ہے کہ بچپن ہی سے بزرگوں کی تربیت اور گھریلو ماحول کی وجہ سے اس طرح کی کیفیات میں ہمیشہ قرآن اور مسنون دعائوں سے دل لگاکر اللہ کی نصرت طلب کی ہے۔ سینے میں قرآن محفوظ ہونا ایک نعمتِ غیرمترقبہ ہے۔ یہاں ناشتہ اور کھانا لے کر آنے والے کارندے بھی کچھ زیادہ بات چیت نہ کرتے تھے۔ البتہ ایک جیل افسر جو تعلیم یافتہ اور نوجوان تھے، آئے تو انھوں نے صرف دو منٹ کے لیے بہت پیار ومحبت سے باتیں کیں اور پھر خدا حافظ کہہ کر اپنے ساتھ دو ماتحتوں کو لے کر واپس چلے گئے اور دروازے بند ہوگئے۔ اس افسر کا نام مجھے آج تک یاد ہے ’’مہر جہانگیر‘‘۔ جہانگیر کے ساتھ کوئی اور بھی لاحقہ لگتا تھا، مگر وہ یاد نہیں رہا۔ انھوں نے خود اپنا تعارف کرایا۔ وہ اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ جیل تھے۔
میں نے مہر صاحب سے کچھ کہنا چاہا تو انھوں نے کہا ’’خدا حافظ! پھر ملیں گے‘‘۔ اگلے روز پھر وہ تشریف لائے اور معمول کا دورہ کرتے ہوئے دو تین منٹ میں حال احوال معلوم کرکے واپس چلے گئے۔ تیسرے روز مہر صاحب کی آمد پر میں تقریباً اس بات سے مایوس تھا کہ ان سے کوئی بات ہوسکے گی، مگر آج خلافِ معمول آپ نے حال احوال پوچھنے کے بعد مزید سوال بھی کیے جن میں میری تعلیم، آبائی علاقہ، خاندانی پس منظر اور پنجاب یونیورسٹی کے انتخابات کو موضوع بنایا۔ ان سب موضوعات پر مختصر الفاظ میں بارہ پندرہ منٹ باہمی گفتگو ہوئی۔ میں نے مہر صاحب سے کہا کہ اس قید ِتنہائی کی وجہ کیا ہے؟ اس پر وہ مسکرائے اور فرمانے لگے کہ آپ فکر نہ کریں، چند دنوں میں یہ مرحلہ ختم ہوجائے گا اور آپ کو جیل کے کسی دوسرے حصے میں منتقل کردیا جائے گا۔
میں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ اس سے سخت جگہ بھی جیل میں کوئی ہے؟ تو فرمانے لگے کہ ہاں ہے، مگر آپ کو اس سے آسان جگہ پر ہی شفٹ کیا جائے گا۔ اگلے روز جیل کے اس گوشۂ تنہائی سے نکال کر مہر صاحب جس حصے میں مجھے لے کر گئے، اس کا نام ’’قصوری چکیاں‘‘ تھا۔ قصوری کا تعلق ضلع قصور سے نہیں بلکہ جیل میں بڑے قصور یا جرم کرنے والوں کے حوالے سے یہ نام دیا گیا تھا۔ یہاں بھی جیل کی باقی بیرکوں یا چکیوں کے مقابلے میں زیادہ پابندیوں سے گزرنا پڑتا تھا۔ تاہم یہاں قیام کے دوران آہستہ آہستہ ماحول سے مانوسیت پیدا ہوگئی اور جیل حکام سے اچھے تعلقات کی وجہ سے پابندیاں بھی بتدریج نرم ہونے لگیں۔ اس احاطے میں چالیس چکیاں (Cell) تھیں اور تقریباً 80۔85 حوالاتی اور قیدی بند تھے۔
(جاری ہے)