حکومت نہیں چاہتی کہ اپوزیشن ملک میں کوئی ایسا بحران کھڑا کردے جس سے نئی امریکی انتظامیہ اسلام آباد کے ساتھ اپنے کسی بھی نوعیت کے تعلقات پر نظرثانی کرنے پر مجبور ہوجائے
دنیا بھر میں پاکستان ہی شاید ایسا واحد ملک ہے جس میں حکومت اور اپوزیشن دونوں کو امریکہ کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹیلی فون کال کا انتظار ہے۔ حکومت بھی سرتوڑ کوشش میں ہے کہ کسی طرح وزیراعظم کا مبارک باد کا پیغام پہنچ جائے اور ٹیلی فون ڈونلڈ ٹرمپ سے مل جائے۔ پوری وزارتِ خارجہ اس کام کے لیے متحرک ہے۔
وزارتِ خارجہ میں دوسرا سب سے بڑا موضوع پاک چین تعلقات ہیں۔ پاکستان اور چین کی حکومتوں کے مابین اس وقت دو اہم مذاکرات جاری ہیں۔ ایک حکومتِ پاکستان کی جانب سے چینی پروجیکٹ اسپانسرز کو ادائیگیوں کی ری شیڈولنگ سے متعلق ہیں، جبکہ دوسرے مذاکرات پاکستان میں چینی سرمایہ کاری اور شہریوں کے تحفظ کے حوالے سے ہیں۔ حالیہ برسوں میں چینی حکام کی جانب سے بیانات میں اس بات پر زور دیا گیا کہ ان کے لیے یہ بہت اہم ہے کہ پاکستان میں رہنے اور کام کرنے والے چینی شہریوں کے لیے سیکورٹی کے انتظامات کو بہتر بنایا جائے۔ اس موضوع پر حکومتِ پاکستان ناقابلِ یقین حد تک سنجیدگی سے کام کررہی ہے۔ یہ معاملہ بہت زیادہ زیادہ سنگین ہے۔ دو پیش رفت بہت ہی اہم سمجھی جارہی ہیں، ایک چینی وزارتِ خارجہ کی معمول کی پریس کانفرنس تھی جس میں برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کے نمائندے نے خصوصی طور پر ’پاکستان میں چینی شہریوں پر حالیہ حملوں‘ سے متعلق سوال پوچھا، جس کا چین نے سفارتی جواب دیا جو یہ تھا کہ ’’چین دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی حمایت جاری رکھے گا‘‘۔ اسی روز کراچی میں پاکستانی حکام کی جانب سے پریس کانفرنس کی گئی جس میں انہوں نے 6 اکتوبر کو کراچی ایئرپورٹ کے باہر چینی شہریوں پر حملے کی مکمل تفصیلات میڈیا کو فراہم کیں۔ اس حملے میں دو چینی شہریوں سمیت تین افراد مارے گئے تھے۔ پریس کانفرنس میں فراہم کی گئی تفصیلات میں بالترتیب حملے کا سبب بننے والے واقعات بتائے گئے، جوکہ کافی متاثر کُن تھے۔ آئی جی پولیس اور وزیر داخلہ سندھ کی میزبانی میں میڈیا بریفنگ کے ذریعے پاکستانی حکام نے ایک اہم پیغام پہنچایا، جو یہ تھا کہ ہم معاملے کی تہ تک پہنچ رہے ہیں اور ہماری تحقیقات کے نتائج سامنے آرہے ہیں۔ لیکن اس وقت مغربی میڈیا کراچی میں ہونے والے واقعے کو خوب اچھال رہا ہے اور ایڑی چوٹی کا زور لگاکر یہ بات ثابت کرنے کی کوشش میں ہے کہ پاک چین تعلقات دھندلا رہے ہیں، لیکن مغربی میڈیا کا یہ مکروہ کھیل اور دھندا ناکام ہوگا کیونکہ چین کو احساس ہے کہ پاکستان اپنے تئیں مسئلے کو حل کرنے کے لیے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کررہا ہے۔ ایس سی او کے بعد جاری ہونے والے مشترکہ بیان میں دونوں ممالک نے تعلقات مضبوط اور گہرے کرنے اور عملی تعاون کو فروغ دینے سے متعلق گفتگو کی۔ اس اعلامیے میں کچھ ایسے شعبہ جات کا ذکر کیا گیا جن میں کام کرنے سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات مستحکم ہوسکتے ہیں جیسے کہ ML-1 ریلوے اور قراقرم ہائی وے کی تصحیح وغیرہ۔ جبکہ اُن معاشی عوامل کی نشاندہی بھی کی گئی جو ان اہم پروجیکٹس کی تکمیل میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔ سیکورٹی خدشات سے متعلق بھی چین کے لہجے میں اب تبدیلی دیکھی گئی جہاں وہ دونوں ممالک کے درمیان تعاون کے وسیع تر منظرنامے کا حوالہ دیتا رہا اور دونوں ممالک کے مابین تعاون کو فروغ دینے کی بات کی گئی۔
پاک امریکہ تعلقات، اور سی پیک کی سیکورٹی کے معاملے پر پاک چین بات چیت سے بھی بڑی خبر اسلام آباد میں جنم لے چکی ہے۔ حکومت اور تحریک انصاف کے مابین ایک اہم رابطہ ہوا ہے، اس رابطے کے مثبت نتائج کی امید کی جارہی ہے۔ اس کے نتیجے میں تحریک انصاف 24 نومبر کے لیے احتجاج کی کال واپس لے گی۔ اس رابطے کا پہلا مثبت نتیجہ یہ نکلا کہ تحریک انصاف کی لیڈرشپ نے یقین دہانی کرائی کہ بشریٰ بی بی سیاست میں حصہ نہیں لے رہی ہیں بلکہ انہیں عمران خان اور پارٹی راہنمائوں کے مابین رابطے کی ذمہ داری دی گئی ہے۔ ملکی سیاست کے حوالے سے یہ ایک اچھی پیش رفت ہے۔ حکومت اور تحریک انصاف کے اس رابطے کے بعد پارلیمنٹ کے اندر اور باہر حکومت اپوزیشن تعلقات کیسے ہوں گے؟ یہ فی الوقت موضوع نہیں ہے، تاہم ملک گیر احتجاج کا فیصلہ واپس لیا جاسکتا ہے۔ اگر بات چیت ناکام ہوئی تو پھر تحریک انصاف کے احتجاج کی کوئی نئی شکل بھی سامنے آسکتی ہے، حکومت نہیں چاہتی کہ اپوزیشن ملک میں کوئی ایسا بحران کھڑا کردے جس سے نئی امریکی انتظامیہ اسلام آباد کے ساتھ اپنے کسی بھی نوعیت کے تعلقات پر نظرثانی کرنے پر مجبور ہوجائے۔ ویسے بھی ملک کے اعلیٰ ترین سفارتی حلقوں میں یہ رائے پائی جارہی ہے کہ نئی امریکی انتظامیہ فی الحال مشرق وسطیٰ کی جانب دیکھ رہی ہے، ایشیا میں کیا ہورہا ہے یہ ابھی اُس کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔ امریکہ کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سامنے تین محاذ ہیں: روس یوکرائن جنگ، حماس اسرائیل جنگ، اور افغانستان۔ اس خطے میں پاک بھارت کشیدگی بھی ایک اہم موضوع ہے جو کشمیر کے مسئلے کے حل کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ دیکھنا ہے کہ صدر کے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ سب سے پہلے کیا فیصلہ کرتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا صدر منتخب ہونا اس بات کی ضمانت ہے کہ امریکہ کی مشرق وسطیٰ پالیسی میں تبدیلی آئے گی۔ وزارتِ خارجہ میں یہ بات اِن دنوں سر جوڑ کر سوچی جارہی ہے، مگر اصل سوال یہ ہے کہ ہم بطور ملک، مشرق وسطیٰ کی صورتِ حال پر خود کیا حتمی رائے رکھتے ہیں؟ اور اپنی رائے کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں کو کیسے اپنی حکمت عملی کے مطابق موڑ سکتے ہیں؟ نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو جو کچھ بھی کرنا ہے اگلے سال جنوری کے بعد ہی کرنا ہے، لیکن جنوری آنے تک اسرائیل کیا کچھ کرجائے گا، اس کا راستہ کون اور کیسے روکے گا؟ یہ اصل سوال ہے۔ پاکستان کے سفارتی حلقے یہ سمجھتے ہیں کہ ٹرمپ کے لیے ابتدائی بڑا امتحان یہ ہے کہ کیا یہ تبدیلی معنی خیز ہوگی؟ کیا وہ سمجھتے ہیں کہ اس خطے کی جغرافیائی سیاست ان کے دور کے مقابلے میں نمایاں طور پر مختلف ہوچکی ہے اور شاید حلف برداری کے دن تک مزید بدل سکتی ہے؟ سفارتی حلقوں میں ہونے والی گفتگو سے کچھ کچھ اندازہ ہے کہ ابتدائی علامات حوصلہ افزا نہیں ہیں کہ ٹرمپ کو نئے اسٹرے ٹیجک مواقع یا واشنگٹن اور اس کے اتحادیوں کو درپیش خطرات کا اندازہ ہے۔ ایک سوچ یہ پائی جاتی ہے کہ اس خطے کا مرکزی بحران اور توجہ کا مرکز ایران کی ’رنگ آف فائر‘ حکمت عملی ہو گی جو اسرائیل کے خلاف ہے۔ اس وقت اسرائیل منظم طریقے سے حماس کی سیاسی قیادت، فوجی صلاحیتوں اور زیرزمین قلعے ختم کررہا ہے۔ اسی طرح اسرائیل لبنان میں حزب اللہ کو بھی ختم کررہا ہے، اس کی قیادت کو شہید کیا جارہا ہے، اس کے بڑے اسلحہ اور میزائل کے ذخائر کو بتدریج تباہ کیا جارہا ہے، اور اس کے پناہ کے ٹھکانے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ مشرق وسطیٰ پر نظر رکھنے والے حلقے اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ اسرائیل حماس، حزب اللہ اور مغربی کنارے کے عسکریت پسندوں کو کمزور کرتا رہے گا اور بالآخر ایران کی طاقت کے ان ستونوں کو ختم کردے گا، حتیٰ کہ صدر بائیڈن کی ٹیم نے بھی قطر سے کہا ہے کہ وہ حماس کے رہنماؤں کو ملک بدر کردے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ابھی تک ایران اسرائیل کشیدگی ختم نہیں ہوئی، ایران نے ناپ تول کر اسرائیل کے ساتھ محاذ آرائی کر رکھی ہے اور اسے جوابی کارروائی کا بھی سامنا کرنا پڑا، جس میں اسرائیل نے روسی ساختہ ایس-300 ایئر ڈیفنس سسٹم کو تباہ کردیا اور میزائل بنانے والی سہولیات کو شدید نقصان پہنچایا۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ وائٹ ہاؤس کے دباؤ اور امریکی انتخابات کے پیش نظر اسرائیل نے تہران کے جوہری پروگرام یا تیل کے بنیادی ڈھانچے کو نشانہ نہیں بنایا۔ اب یہاں سب سے بڑا سوال یہ پیدا ہورہا ہے کہ 20 جنوری سے پہلے اسرائیل مزید بڑے اقدامات کرے گا یا نہیں؟ جب کہ تہران مسلسل یہ دعویٰ کررہا ہے کہ وہ اس کا بدلہ لے گا۔ ہوسکتا ہے کہ یہ نوبت نہ آئے۔ امریکی انتظامیہ یہ چاہتی ہے کہ ٹرمپ ایران پر زیادہ سے زیادہ معاشی دباؤ ڈالنے کے لیے مزید اور بہتر طور پر نافذ پابندیاں لگائیں اور اسرائیل کی مضبوط اور مستقل حمایت کریں، جیسے کہ انہوں نے اپنے پہلے دور میں کی تھی۔اگر ایسا ہوا تو تہران کی ترجیحات کیا ہوں گی؟ ابھی حال ہی میں ٹرمپ کے ایک نمائندے نے بھی اعلان کردیا ہے کہ نئی انتظامیہ ایران میں حکومت کی تبدیلی میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ شاید ٹرمپ اپنے دوسرے دور میں تہران کے ساتھ ایک جامع معاہدہ کرسکیں۔ اس بیان کا وزارتِ خارجہ بہت تجزیہ کیا جارہا ہے۔ پچھلے ہفتے اگرچہ نیتن یاہو نے ٹرمپ کو کال کی ہے، اس کے باوجود ان کے ذاتی تعلقات کشیدہ ہیں۔ ٹرمپ نے 2021ء میں کہا تھا کہ ’’پہلا شخص جس نے بائیڈن کو مبارک باد دی وہ نیتن یاہو تھا‘‘۔ سفارتی حلقوں میں یہ بات کہی جارہی ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسرائیل کو پہلے کی طرح ٹرمپ کی حمایت کی توقع نہیں کرنی چاہیے۔ چونکہ ٹرمپ آئینی طور پر تیسری مدت کے لیے انتخاب نہیں لڑ سکتے، اس لیے انہیں اسرائیل کے خلاف مؤقف اختیار کرنے پر منفی اندرونی سیاسی ردعمل کا خوف بھی نہیں ہے۔ تاہم یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ بہت کچھ ان نامعلوم حالات پر منحصر ہے جن کا ٹرمپ کو 20 جنوری کو سامنا ہوگا۔ ٹرمپ بظاہر صرف جلدی سے تنازعے کو ختم کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں، شاید اس بات کی پروا کیے بغیر کہ کیسے؟ ایک حلقے کی رائے ہے کہ اگر اسرائیل نے ٹرمپ کی حلف برداری سے قبل ایران کی جوہری خواہشات کو ختم نہ کیا تو یہ ان کے سامنے پہلا اور سب سے اہم مسئلہ ہو گا۔ اگر وہ دوبارہ پابندیوں کے ذریعے ’زیادہ سے زیادہ دباؤ‘ کی پالیسی اپناتے ہیں تو وہ ایران کے ساتھ ایک حتمی حساب کتاب کو دوبارہ ملتوی کر رہے ہوں گے۔ تاہم اسلام آباد میں ایران کے ایک نہایت ذمہ دار ذریعے نے مکمل اعتماد کے ساتھ فرائیڈے اسپیشل کے سوال پر کہا کہ’’ ہم ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی سے پریشان نہیں ہیں، اور نہ ہمارے ایٹمی پروگرام کو کوئی خطرہ ہے، دونوں ملکوں کے مابین ضروری سفارتی رابطے ہیں‘‘ ۔
اسلام آباد کے ایرانی ذریعے کی بات پر یقین کرنے کو اس لیے بھی دل کرتا ہے کہ ٹرمپ کے بارے میں اُن کے آبائی علاقے میں یہ بات معروف ہے کہ وہ باتیں بہت کرتے ہیں اور عمل کم۔ انہوں نے کبھی ایران کے جوہری پروگرام کے خلاف فیصلہ کن اقدام کرنے کی خواہش ظاہر نہیں کی، انہیں اپنے اندرونی سیاسی مسائل بھی حل کرنے ہیں۔تمام اہم ابتدائی آزمائشوں میں جن کا ٹرمپ کو سامنا ہو گا، مشرق وسطیٰ سب سے نمایاں ہے۔ اس پر صرف مشرقِ وسطیٰ کے ملک ہی نہیں بلکہ چین، روس اور امریکہ کے دیگر مخالفین بھی اتنی ہی گہری نظر رکھیں گے، کیونکہ ٹرمپ کے فیصلوں کے نتائج دوررس ہوں گے۔
پاکستان میں پارلیمنٹ میں اپوزیشن جماعت تحریک انصاف کی صفوں سے متعدد بار یہ بات کہی گئی ہے کہ امریکی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی عمران خان کی رہائی میں مدد گار ثابت ہوسکتی ہے۔ اگر تحریک انصاف کی لیڈرشپ یہ بیانیہ لے کر چلے گی تو پھر ’’امریکی سائفر‘‘بیانیے کا گلا وہ اپنے ہاتھوں ہی سے دبائے گی۔ اسلام آباد کے اہم باخبر سفارتی ذرائع یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ عمران خان کی رہائی کے لیے حکومت پر دبائو نہیں ڈالیں گے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو ایک بالواسطہ پیغام پہنچ چکا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ عمران خان کے ساتھ بات چیت نہیں کرنا چاہتی۔ تحریک انصاف کے سینئر راہنما مخدوم شاہ محمود قریشی ایک پرانے سیاسی کارکن ہیں، وہ نوازشریف، بے نظیر بھٹو اور عمران خان کی کابینہ میں رہے، ایک تجربہ کار سیاسی کارکن ہیں، وہ اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ تحریک انصاف کو ریلیف لینے کے لیے ملک کی سیاسی جماعتوں کے ساتھ ہاتھ ملانا ہوگا۔ انہوں نے پارلیمنٹ میں تحریک انصاف کی لیڈرشپ تک یہ پیغام پہنچایا بھی ہے۔ انہیں یقین ہے کہ ریلیف کا راستہ یہیں سے ملے گا۔ تحریک انصاف کی قیادت کو اگر کوئی خطرہ ہے تو وہ 9 مئی کے واقعات اور ان کی بنیاد پر قائم مقدمات ہیں، یہ مقدمات تحریک انصاف کی قیادت کے گلے میں پھندا ہیں جن کا اب بہت جلد فیصلہ ہونے جارہا ہے کیونکہ انسداد دہشت گردی کی عدالت نے اس میں ملوث تحریک انصاف کے تمام راہنمائوں کے بیرونِ ملک جانے پر پابندی عائد کردی ہے۔ عمران خان، شبلی فراز، عمر ایوب خان، شیخ رشید اور دیگر کے خلاف چالان عدالت میں داخل کرادیا گیا ہے اور شاہ محمود قریشی، اعجاز چودھری سمیت دیگر متعدد افراد پر فردِ جرم بھی عائد کردی گئی ہے۔ فردِ جرم عائد ہوجانے پر اب بات چیت کے دروازے بند سمجھے جائیں، اور اب تو جیل میں عمران خان کی ملاقاتوں میں کمی لائی جارہی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ عمران خان کے ساتھ کسی بھی قسم کے مذاکرات سے انکاری ہے، اس کا مؤقف ہے کہ عمران خان کو اپنے خلاف مقدمات کا سامنا کرنا پڑے گا اور انہیں کسی معاہدے کی توقع نہیں کرنی چاہیے۔
ملکی سیاست کے حوالے سے دوسرا اہم موضوع معیشت ہے۔ مشن چیف کی سربراہی میں آئی ایم ایف کے وفد نے 5 روز تک وزارتِ خزانہ اور اس سے متعلقہ اداروں کے حکام سے بات چیت کی ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے کو یکم جنوری 2025ء سے صوبوں میں زرعی ٹیکس عائد کرنے کی یقین دہانی کروائی گئی، جبکہ چاروں صوبوں کے بجٹ سرپلس کی شرط بھی پوری کردی گئی ہے۔ مالی سال 25-2024ء کی پہلی سہ ماہی میں حکومتِ پنجاب کا 40 ارب روپے کا صوبائی سرپلس ہوگیا، وزارتِ خزانہ نے حکومتِ پنجاب کے صوبائی سرپلس کے حصول کے دعوے کی تصدیق کی ہے۔ پنجاب حکومت نے مالی سال 25-2024ء کے لیے بجٹ میں صوبائی سرپلس کی مد میں 630 ارب روپے کا ہدف مقرر کردیا ہے جس پر آئی ایم ایف نے اتفاق کرلیا ہے۔ وزارتِ خزانہ نے پہلی سہ ماہی میں مالیاتی آپریشن کے اعداد و شمار آئی ایم ایف کے ساتھ 14 نومبر کو شیئر کردیے، اور حیران کن حد تک یہ اطلاع ہے کہ ’’آئی ایم ایف اہداف کے حصول میں خیبرپختون خوا سب سے آگے ہے‘‘، پنجاب تمام صوبوں میں چوتھے نمبر پر ہے۔ خیبر پختون خوا نے 45 ارب روپے ہدف کے مقابلے میں سرپلس 103 ارب روپے، سندھ نے 75 ارب روپے ہدف کے مقابلے میں سرپلس 130 ارب روپے، جبکہ بلوچستان نے27 ارب روپے ہدف کے مقابلے میں سرپلس 85 ارب روپے حاصل کرلیے۔ پنجاب نے 150 ارب روپے ہدف کے مقابلے میں سرپلس 40 ارب روپے حاصل کیے۔ خلاصہ یہ کہ پنجاب کی کارکردگی مالی انتظام کے حوالے سے مایوس کن ہے۔
آئی ایم ایف کی ٹیم 11 نومبر کو ناتھن پورٹر کی سربراہی میں پاکستان پہنچی تھی اور پہلے دن ٹیکنیکل سطح پر تبادلہ خیال کیا گیا تھا۔ آئی ایم ایف ٹیم سے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر)، وزارت خزانہ، اسٹیٹ بینک اور وزارتِ توانائی کے حکام نے ملاقات کی تھی۔ ایف بی آر کے اہداف میں کمی کو پورا کرنے پر بات چیت ہوئی، اس کے علاوہ انرجی سیکٹر کی اصلاحات پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا تھا۔ پیٹرولیم مصنوعات پر جی ایس ٹی عائد کرنے کی تجویز دی گئی تھی، اس وقت صفر جی ایس ٹی عائد ہے، پیٹرولیم مصنوعات پر 60 روپے فی لیٹر پیٹرولیم لیوی وصول کی جارہی ہے، جسے بڑھاکر 70 روپے کرنے کا امکان ظاہر کیا گیا تھا۔ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان اسلام آباد میں ہونے والے مذاکرات میں ٹیکس شارٹ فال، تاجر آسان ٹیکس، توانائی شعبے، ایف بی آر اصلاحاتی پلان پر بریفنگ دی گئی تھی۔ آئی ایم ایف نے سولرائزیشن کو محدود کرنے اور پیٹرولیم مصنوعات پر جنرل سیلزٹیکس عائد کرنے کے علاوہ لیوی بھی 70 روپے کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ ایف بی آر نے ٹیکس شارٹ فال کے بارے میں بتایا کہ مہنگائی اور درآمدات میں کمی کی وجہ سے ٹیکس شارٹ فال آیا، رواں مالی سال کے پہلے چار ماہ ٹیکس وصولی ہدف سے 190 ارب روپے کم ہوئی جبکہ تاجر دوست اسکیم کا ہدف حاصل نہیں کیا جاسکا۔
معاشی ماہرین نے ریونیو اہداف سمیت کچھ کلیدی اہداف کی تکمیل میں ناکامی پر مسلم لیگ ن کی اتحادی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا، جس کے باعث ان خدشات میں اضافہ ہوا ہے کہ آئی ایم ایف اکتوبر تا دسمبر کی موجودہ سہ ماہی کے لیے کچھ مزید اور ممکنہ طور پر غیر مقبول اقدامات تجویز کرسکتا ہے۔ عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) اور حکومت توانائی کے شعبے کے مسائل پر الجھن میں مبتلا دکھائی دے رہے ہیں کیونکہ بعض سرکاری اداروں میں ممکنہ دیوالیہ ہونے کے خدشات نے صرف دو ماہ قبل دستخط کیے گئے 7 ارب ڈالر کے قرض پروگرام کے معیار اور ساخت پر سوالیہ نشان کھڑے کر دیے ہیں۔ آئی ایم ایف ٹیم نے صوبوں کی جانب سے پہلی سہ ماہی میں ٹیکس آمدن کے اہداف پورے کرنے میں ناکامی پر بھی خدشات کا اظہار کیا جس کی بڑی وجہ پنجاب حکومت کے 160 ارب روپے کے اضافی اخراجات ہیں، جس کے نتیجے میں 350 ارب روپے کے اضافی صوبائی بجٹ کا ہدف حاصل نہیں کیا جاسکا، حالانکہ باقی 3 صوبوں نے اپنے عہد کو پورا کیا۔آئی ایم ایف کو آگاہ کیا گیا تھا کہ سندھ اور پنجاب میں بھی جلد زرعی انکم ٹیکس کے حوالے سے قانون سازی متعارف کرادی جائے گی، پنجاب اسمبلی نے حکومتی اتحادی پیپلزپارٹی کے بائیکاٹ کے باوجود پنجاب زرعی انکم ٹیکس ترمیمی بل 2024کی منظوری دے دی، ساتھ ہی دیگر تمام صوبوں کی کابینہ نے اپنے اپنے مگر یکساں قانونی مسودے کی منظوری دے دی ہے۔آئی ایم ایف سے جاری مذاکرات میں شریک ایک عہدیدار نے بتایا کہ اگر آئی ایم ایف قرض پروگرام کی شرائط میں اتنی جلدی ترمیم پر راضی ہوجاتا ہے تو آئی ایم ایف کے عملے اور حکومتی مذاکرات کاروں کی ساکھ خطرے میں پڑ جائے گی، لیکن اگر تین سرکاری ادارے ایسا نہیں کرتے ہیں تو وہ دیوالیہ ہوجائیں گے، جس کے باعث بہتر خدمات کی فراہمی اور شعبے کی افادیت کے لیے حکومتی اداروں میں اصلاحات سے متعلق آئی ایم ایف پروگرام کے مقاصد میں سے ایک کلیدی مقصد ناکام ہوجائے گا۔