سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار ہوتا ہے، آپ کو پانی سے لے کر ہوا اور سڑک سے لے کر گلی تک کسی جگہ گندگی نظر نہیں آتی۔ میں ایک بار لوزرن لیک کے ساتھ ساتھ کسی گاؤں سے گزر رہا تھا، میں نے ندی کے کنارے بیٹھ کر کیلا کھایا اور چھلکا ندی میں پھینک دیا، سامنے بالکونی میں ایک بزرگ خاتون بیٹھ کر سلائیوں سے سویٹر بن رہی تھی، اس نے غصے سے میری طرف دیکھا اور چلّا کر بولی ’’پلیز میرا چرچ گندا نہ کریں‘‘۔ میں نے حیرت سے اس کی طرف دیکھ کر کہا ’’میڈم یہاں تو کوئی چرچ نہیں‘‘۔ خاتون نے سلائی سے ندی کی طرف اشارہ کرکے کہا ’’یہ ندی میرا چرچ ہے‘‘۔ میں نے کہا ’’لیکن کیلے کا چھلکا تو آرگینک اور قدرتی ہوتا ہے، اس سے پانی آلودہ نہیں ہوتا‘‘۔ اس نے غصے سے پوچھا ’’تمہارا مذہب کیا ہے؟‘‘ میں نے جواب دیا ’’اسلام‘‘۔ اس نے اونچی آواز میں کہا ’’کیا تم کعبے میں کیلے کا چھلکا پھینکو گے؟‘‘ میں نے انکار میں سر ہلا دیا، اس نے کہا ’’ماحول ہمارا مذہب ہے اور سوئٹزرلینڈ کی ندیاں، دریا، جھیلیں اور جنگل ہمارے کعبے ہیں، ہم کسی کو انھیں گندا کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے‘‘۔ میں نے اس سے معذرت کی اور باقی چھلکے لفافے میں رکھ کر ڈسٹ بن میں ڈال دیے۔ مجھے اس دن سوئٹزرلینڈ کی صفائی اور خوب صورتی کی وجہ معلوم ہوئی۔ سوئس لوگ ماحولیات کو مذہب کا درجہ دیتے ہیں اور اپنے جنگلوں اور ندی نالوں کو عبادت گاہیں سمجھتے ہیں، لہٰذا یہ خود گند ڈالتے ہیں اور نہ کسی دوسرے کو ڈالنے دیتے ہیں۔
مجھے میرے دوست ڈاکٹر معاذ نے چند ماہ قبل بہت دل چسپ بات بتائی، یہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) میں کام کرتے ہیں اور جنیوا میں رہتے ہیں، ان کا کہنا تھا: 1830ء میں جرمنی کو بڑے پیمانے پر لکڑی درکار تھی، یہ افریقہ اور روس سے لکڑی امپورٹ کرتے تھے، جرمن حکومت نے سوچا ہمیں یہ لکڑی مہنگی پڑتی ہے لہٰذا ہم کیوں نا یہ سوئٹزرلینڈ سے منگوا لیا کریں۔ جرمنوں نے سوئس حکومت سے رابطہ کیا اور سوئس گورنمنٹ فوراً مان گئی۔ جرمن آرے آئے اور دھڑادھڑ جنگل کاٹنے لگے، اس کے نتیجے میں چند سال بعد سوئٹزرلینڈ میں برف پڑنا بند ہوگئی، لوگ حیران ہوگئے۔ ریسرچ کی تو پتا چلا اس کی وجہ جنگلوں کی کٹائی ہے، اور اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو سوئٹزرلینڈ مکمل ویران اور بنجر ہوجائے گا۔ چناں چہ سوئس مشاہیر اور سیاست دان اکٹھے ہوئے اور انھوں نے 1843ء میں ’’دی سوئس فاریسٹری سوسائٹی“ کی بنیاد رکھ دی، سوسائٹی نے ماحولیات کی بقا کے لیے فارمولا بنایا، لابنگ کی اور حکومت کو 1874ء میں آئین میں آرٹیکل 24 شامل کرنے پر مجبور کردیا، جس کے بعد سوئٹزرلینڈ میں ماحولیات کو مذہب کی حیثیت حاصل ہوگئی اور درخت کاٹنا، پانی گندا کرنا، قدرتی آبی گزر گاہوں کا راستہ روکنا، کنکریٹ کی عمارتیں بنانا اور ماحول میں سیوریج کا پانی اور گندگی شامل کرنا گناہ بن گیا۔ آپ اس قوم کا کمال دیکھیے، 1874ء سے لے کر 2024ء تک اس قانون میں ذرہ برابر نرمی نہیں کی گئی۔
1978ء میں آرٹیکل 24 میں تبدیلی ہوئی لیکن یہ تبدیلی نرمی نہیں تھی، قانون کو مزید سخت کردیا گیا تھا اور اس میں کوڑا کرکٹ، شور شرابہ، گاڑیوں کی مینٹی نینس اور ہوائی جہازوں کو بھی شامل کرلیا گیا تھا۔ سوئٹزرلینڈ شاید دنیا کا واحد ملک ہے جس میں اپارٹمنٹس کی عمارتوں میں رات کے وقت واش روم کا فلش نہیں چلایا جاسکتا، ہائی ویز بھی رات کے وقت ہیوی ٹریفک کے لیے بند کردی جاتی ہیں اور رات کے وقت جہازوں کی آمدورفت بھی معطل ہوجاتی ہے کیوں کہ ان سے لوگوں کی نیند ڈسٹرب ہوتی ہے اور یہ بھی ماحولیات کی خرابی سمجھی جاتی ہے۔ سوئس لوگ مانتے ہیں کہ آج اگر ہمارے ملک کا شمار دنیا کے سات صاف ترین ملکوں میں ہوتا ہے اور ہم اسموگ سے بچے ہوئے ہیں تو اس کی وجہ 1843ء کی دی سوئس فاریسٹری سوسائٹی اور آرٹیکل 24 پر عمل درآمد ہے، ہم اگر اُس وقت فضائی آلودگی کنٹرول نہ کرتے تو آج ہم بھی دہلی اور لاہور ہوتے۔
آپ اب دوسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے۔ لندن میں 5 دسمبر 1952ء شام کے وقت فوگ (دھند) آئی، لوگوں نے اسے معمول کا واقعہ سمجھا۔ یورپ میں ہر سال سردی میں دھند آتی رہتی ہے جس میں عملاً شہری زندگی منجمد ہوکر رہ جاتی ہے۔ لندن کے لوگوں نے اس دھند کو بھی روٹین سمجھا، لیکن رات کے وقت دھند کالی سیاہ تارکول بن گئی، یہ جسم کے جس حصے کو چھوتی تھی وہ سیاہ ہوجاتا تھا، لوگوں کے لیے سانس لینا دشوار ہوگیا اور وہ شدید سردی کے باوجود کھڑکیاں دروازے کھولنے پر مجبور ہوگئے، لیکن اس کے ساتھ ہی ان کے گھر سیاہ دھند سے بھر گئے، لوگوں نے کھانسنا شروع کردیا۔
اسپتالوں کے فون بجنا شروع ہوئے اور پورے لندن میں ایمبولینسز کے سائرن کی آوازیں آنے لگیں، رات دس بجے اسپتالوں کے ایمرجنسی روم بھر گئے اور لندن کا ہیلتھ سسٹم چوک ہوگیا۔ وہ رات لوگوں نے جاگ کر گزاری، لوگوں کا خیال تھا صبح صورتِ حال بہتر ہوجائے گی، لیکن صبح حالات مزید خراب ہوگئے، سورج نے نکلنے سے انکار کردیا تھا، حدِّ نگاہ صفر ہوگئی تھی، لوگ سڑکوں پر نکلتے تھے تو ہاتھ میں ٹارچ یا لالٹین اٹھاکر نکلتے تھے۔ ٹریفک، ریلوے اور ائیرلائنز بند ہوچکی تھیں، کاروبارِ حیات بھی معطل ہوگیا۔ یہ سلسلہ پانچ دن جاری رہا۔ لندن کی تاریخ میں ان پانچ دنوں کو ’’ڈارک آورز“ کہا جاتا ہے، ان سیاہ دنوں میں 15 ہزار لوگ انتقال کرگئے جب کہ سوا لاکھ سانس کی بیماریوں میں مبتلا ہوگئے۔
اسپتالوں کی حالت یہ تھی کہ مُردے اور مریض دونوں ایک بیڈ پر پڑے تھے اور ڈاکٹرز اور نرسیں کوریڈورز میں بے ہوش اور نیم مُردہ حالت میں گرے ہوئے تھے۔ پانچ دن بعد بارش ہوئی تو حکومت نے ریسرچ شروع کی، پتا چلا کوئلے کے پاور پلانٹس، بے ہنگم انڈسٹری، دھواں پھینکنے والی گاڑیوں، بے تحاشا تعمیرات، جنگلوں کی کٹائی اور اندھا دھند آبادی کی وجہ سے لندن کی فضا آلودہ ہوچکی تھی۔ نومبر میں سردی شروع ہوئی تو لوگوں نے گھر گرم کرنے کے لیے انگیٹھیاں جلا لیں۔ اُس زمانے میں گھروں میں پتھر کا کوئلہ جلایا جاتا تھا۔ یہ دھواں اوپر اٹھا، فضائی آلودگی میں شامل ہوا اور جب دھند آئی تو اس نے پاؤڈر بن کر پورے شہر کو حصار میں لے لیا، حصار نے تازہ ہوا بند کردی اور سورج کا راستہ بھی روک لیا۔ درخت آکسیجن کا سب سے بڑا ذریعہ ہوتے ہیں اور درختوں کو آکسیجن پیدا کرنے کے لیے سورج کی روشنی چاہیے ہوتی ہے، لندن میں جب سورج غائب ہوا تو آکسیجن کی سپلائی ایک چوتھائی رہ گئی، چناں چہ پورا شہر بیمار ہوگیا۔
برطانوی میڈیا نے اس بحران کو اسموگ (اسموک اور فوگ کا مجموعہ) کا نام دیا اور اسے ہٹلر سے زیادہ لندن کا دشمن قرار دے دیا۔ حکومت کے پاس اب دو آپشن تھے، اول یہ کہ حالات کو جوں کا توں رہنے دیتی اور اگلے برس ہلاکتوں کی تعداد دوگنی ہوجاتی جس کے بعد امیر لوگ لندن چھوڑنا شروع کردیتے اور یوں دس بیس سال میں لندن ویران ہوجاتا، یا پھر حکومت اسموگ کا کوئی مستقل اور دیرپا حل تلاش کرتی۔ حکومت نے دوسرا آپشن لیا، اس نے اسموگ فری لندن پالیسی بنانا شروع کردی۔ پالیسی کو چار سال لگے، اس میں ہر قسم کے ماہر کی رائے لی گئی اور یوں ایک ایسی مضبوط پالیسی بنائی گئی جس کے بعد اسموگ کا راستہ ہمیشہ کے لیے رک سکتا تھا۔ برطانیہ نے اس پالیسی کی بنیاد پر 1956ء میں کلین ائیر ایکٹ پاس کیا اور اس کے بعد لندن کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اسموگ فری کردیا۔ برطانیہ نے کیا کیا؟ برطانوی حکومت نے گھروں، ریستورانوں اور فیکٹریوں میں کوئلہ جلانے پر پابندی لگادی، فیکٹریوں میں دھواں ختم کرنے کے سسٹم لگائے، تمام پرانی اور دھواں پھیلانے والی گاڑیاں بند کردیں اور گاڑیوں کی مینٹی نینس کو لازمی قرار دے دیا۔ لندن میں 1956ء کے بعد کوئی گاڑی مینٹی نینس سرٹیفکیٹ کے بغیر سڑک پر نہیں آسکی، دھواں پھیلانے والے بھٹے ختم کردیے گئے، ہیٹنگ سسٹم گیس اور بجلی پر شفٹ کردیے گئے، عمارتوں کو گرم رکھنے کے لیے انسولیشن لازم قرار دے دی گئی، باغات اور پارکس کی تعداد اور زرعی رقبے میں اضافہ کردیا گیا، درخت کاٹنے کو قتل کے برابر جرم قرار دے دیا گیا، زرعی علاقے طے کیے گئے اور ان میں کسی بھی قسم کی تعمیرات پر پابندی لگا دی گئی، سیوریج سسٹم کے ایس او پیز بنوائے اور ان کی خلاف ورزی کو جرم قرار دے دیا گیا، کوڑا اور فصلوں کی باقیات جلانے پر پابندی لگا دی گئی اور ڈیزل انجن کی گاڑیاں مہنگی اور پیٹرول اور ہائی آکٹین کی گاڑیاں سستی کردی گئیں۔ سڑکوں کا سائز چھوٹا کردیا گیا اور پارکنگ فیسیں بڑھا دی گئیں جس کی وجہ سے لوگ پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرنے اور پیدل چلنے پر مجبور ہوگئے، اور بڑے شہروں میں پراپرٹی ٹیکس بڑھا کر لوگوں کو دیہات اور کم آبادی کے شہروں میں رہائش پر مجبور کردیا گیا۔ ان اقدامات کا نتیجہ یہ نکلا کہ لندن بلکہ پورا برطانیہ اسموگ فری ہوگیا۔ آپ آج لندن جائیں، آپ کو سردیوں میں وہاں فوگ تو ملے گی لیکن اسموگ کسی جگہ دکھائی نہیں دے گی۔
(جاوید چودھری۔ ایکسپریس،19نومبر،2024ء)