انسان کی روح ایک سزا یافتہ قیدی کی حیثیت سے اس قفس میں بند کی گئی ہے۔ لذّات و خواہشات اور تمام وہ ضروریات جو اس تعلق کی وجہ سے انسان کو لاحق ہوتی ہیں اصل میں یہ اس قید خانہ کے طوق و سلاسل ہیں۔ انسان جتنا اس دنیا اور اس کی چیزوں سے تعلق رکھے گا اتنا ہی ان زنجیروں میں پھنستا چلاجائے گا اور مزید عذاب کا مستحق ہوگا۔ نجات کی صورت اس کے سوا کوئی نہیں کہ زندگی کے سارے بکھیڑوں سے قطع تعلق کیا جائے، خواہشات کو مٹایا جائے، لذّات سے کنارہ کشی کی جائے، جسمانی ضروریات اور نفس کے مطالبوں کو پورا کرنے سے انکار کیا جائے، اُن تمام محبتوں کودل سے نکال دیا جائے جو گوشت و خون کے تعلق سے پیدا ہوتی ہیں، اور اپنے اس دشمن (یعنی نفس و جسم) کو مجاہدوں اور ریاضتوں سے اتنی تکلیفیں دی جائیں کہ روح پر اس کا تسلط قائم نہ رہ سکے۔ اس طرح روح ہلکی اور پاک صاف ہوجائے گی اور نجات کے بلند مقام پر ہونے کی طاقت حاصل کرلے گی۔
(”اسلام اور جاہلیت“۔مولانا سیّد ابو الاعلیٰ مودودیؒ)