میں ’پین برطانیہ‘ اور جیوری کے اراکین کا شکریہ ادا کرتی ہوں کہ مجھے اس سال ’پین پنٹر‘ ایوارڈ کا حق دار قرار دیا گیا۔ اپنی گفتگو کا آغاز اس ’مینارۂ جرأت‘ کے نام سے کروں گی، جن کے ساتھ میں نے اپنا ایوارڈ بانٹنے کا فیصلہ کیا ہے۔ علاء احمد عبدالفتح [پ:نومبر ۱۹۸۱ء] اس ایوارڈ میں میرے شریک ہیں۔ ہم پُرامید تھے اور دُعا کررہے تھے کہ آپ اس سال ستمبر میں آزاد ہوں گے، لیکن مصر کی حکومت نے آخرکار یہی فیصلہ کیا کہ آپ اتنے ’شان دار‘ مصنّف اور ایسے ’خطرناک‘ مفکر ہیں کہ آپ کو آزاد کرنے کا خطرہ مول نہیں لیا جا سکتا۔ لیکن آپ آج اس ہال میں ہمارے ساتھ ہیں اور آپ یہاں پر موجود لوگوں میں سب سے اہم ہیں۔ آپ نے جیل خانے سے لکھ بھیجا ہے کہ ’’میرے الفاظ اثر کھو چکے ہیں، لیکن میں لکھ رہا ہوں۔ اگرچہ سننے والے چند ہی ہیں اور میں بول رہا ہوں‘‘۔
ہم سن رہے ہیں علاء، بہت غور سے!
آپ سب جو یہاں آئے ہیں، سب کو میرا سلام، اور اُن کو بھی جو حاضرین کو تو شاید نظر نہ آئیں، لیکن میری نظریں انھیں بالکل ایسے ہی دیکھ رہی ہیں، جیسے یہاں پر موجود لوگوں کو۔ میرا اشارہ ہندوستانی جیلوں میں قید میرے دوستوں اور ساتھیوں کی طرف ہے، جن میں وکیل بھی ہیں، اور اساتذہ بھی…. طلبہ بھی ہیں اور صحافی بھی۔ میں عمر خالد، گل فشاں فاطمہ، خالد سیفی، شرحبیل امام، رونا ولسن، سریندرا گیڈلنگ، مہیش راوت کی بات کررہی ہوں۔ خرم پرویز میرے دوست! میں تم سے مخاطب ہوں۔ تم انتہائی خوب صورت لوگوں میں سے ایک ہو، لیکن جیل کی دیواروں نے تمھیں تین سال سے اپنے حصار میں لے رکھا ہے۔ عرفان مہراج میں تمھیں بھی یاد کررہی ہوں اور اُن ہزاروں خاک نشینوں کو بھی جو کشمیر یا ملک بھر [انڈیا] کی جیلوں میں قید، متاعِ حیات لٹا رہے ہیں۔
جب پین برطانیہ کی مہتمم اور پنٹر جیوری کی رکن، رُتھ بورتھویک نے اس اعزاز سے متعلق پہلی بار مجھ سے بات کی تو انھوں نے لکھا تھا کہ ’پنٹر پرائز‘(Pinter Prize)ایسے مصنّفین کو دیا جاتا ہے جو ’’اٹل سچائی، غیرمتزلزل (unflinching)اور فکری عزم کے ساتھ ہماری زندگی اور معاشرے کی اصل حقیقتوں‘‘ کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ بات ہرلڈ پنٹر نے نوبیل انعام کے حصول کے وقت تقریر میں کہی تھی۔
’غیر متزلزل‘ کے لفظ نے مجھے سوچ میں ڈال دیا کیوں کہ میں خود ہمیشہ متزلزل رہتی ہوں۔ میں ان دو الفاظ متزلزل اور غیر متزلزل پر کچھ مزید بات کرنا چاہوں گی۔ اس لفظ کی شاید سب سے بہتر وضاحت ہیرلڈ پنٹر نے ہی کی تھی:
”میں ۱۹۸۰ء کے عشرے میں لندن کے امریکی سفارت خانے میں موجود تھا۔ امریکی کانگریس، ریاست نکاراگوا کے خلاف سرگرم مسلح باغیوں ’کونٹراز‘ (Contras) کو مزید رقم کی فراہمی کے متعلق فیصلہ کرنے والی تھی۔ میں نکاراگوا کے نمائندہ وفد میں شامل تھا، لیکن ہمارے وفد کا اہم ترین حصہ ایک پادری جان میٹکاف تھے۔ امریکی کمیٹی کے سربراہ ریمنڈ سیٹز (Raymond Seitz) تھے (جو اُس وقت نائب سفیر تھے، اور بعد میں سفیر بنے)۔ پادری میٹکاف نے کہا’جناب میں شمالی نکاراگوا کے ایک مذہبی حلقے کا منتظم ہوں۔ وہاں اہلِ علاقہ نے مل کر ایک مدرسہ، شفاخانہ اور پنچایت گھر تعمیر کیا تھا۔ ہم امن و سکون کے ساتھ رہتے آئے ہیں، لیکن کچھ مہینے پہلے باغیوں نے حملہ کرکے مدرسہ، شفاخانہ اور پنچایت گھر سمیت ہر شے تباہ کردی۔ انھوں نے نرسوں اور استانیوں کی آبروریزی کی اور ڈاکٹروں کو انتہائی دردناک طریقے سے ذبح کردیا۔ ان کا رویہ بالکل وحشیانہ تھا۔ آپ براہ مہربانی امریکی انتظامیہ سے درخواست کریں کہ وہ ان دہشت گردوں کی حمایت سے پیچھے ہٹ جائے۔
ریمنڈ سیٹز ایک سلجھے ہوئے آدمی کے طور پر جانے جاتے تھے۔ سفارتی حلقوں میں ان کی بڑی عزّت تھی۔ انھوں نے یہ بات سنی، کچھ دیر خاموش رہے اور پھر گہری آواز میں بولے: ’پادری صاحب! آج میں آپ کو کچھ بتاتا ہوں۔ معصوم لوگ ہمیشہ سے جنگ کا ایندھن بنتے آئے ہیں۔‘ برف جیسی منجمد خاموشی کے ساتھ، ہم ان کی طرف دیکھتے رہے لیکن سفیر صاحب ذرا بھی ’متزلزل‘ نہ ہوئے۔“
یاد رہے [۴۰ ویں] امریکی صدر رونالڈ ریگن [م:۲۰۰۴ء] ان باغیوں کو’اخلاقی طور پر امریکی بانیانِ قوم کے ہم پلّہ‘ قرار دے چکے تھے اور یہ اصطلاح انھیں خاصی پسند تھی۔ انھوں نے افغان مجاہدین کے لیے بھی یہی اصطلاح استعمال کی تھی، جو پھر طالبان بن گئے۔ یہی طالبان امریکی قبضے کے خلاف بیس سالہ جنگ لڑنے کے بعد آج افغانستان میں حکمران ہیں۔ ان سے پہلے ایک جنگ ویت نام کی بھی تھی، جہاں پر وہی ’غیر متزلزل‘ امریکی نظریہ کارفرما تھا، جس کے تحت سپاہیوں کو کھلی اجازت تھی کہ ’ہر متحرک شے کو قتل کردو‘۔
اگر آپ ویت نام میں امریکی جنگ کے اہداف سے متعلق ’پینٹاگون پیپرز‘ اور دیگر دستاویزات کا مطالعہ کریں تو آپ کو نسل کُشی سے متعلق کئی مباحث میں یہ ’غیر متزلزل‘ عزم نظر آئے گا۔ ’لوگوں کو سیدھا سیدھا قتل کردیا جائے یا انھیں آہستہ آہستہ بھوک پیاس سے سسکا سسکا کر مارا جائے… دیکھنے میں زیادہ اچھا کیا لگے گا؟ پینٹاگون میں موجود مینڈرینوں کا مسئلہ یہ تھا کہ ان کے بقول امریکی جو ’زندگی، خوش حالی، دولت اور طاقت‘ کے خواہش مند ہیں، ان کے برعکس ایشیائی لوگ ’بڑے پُرسکون طریقے سے املاک کی تباہی اور جانی نقصان کو قبول کرلیتے ہیں‘۔ جس کی وجہ سے امریکی مجبور ہوجاتے ہیں کہ ’اپنے اسٹرے ٹیجک اہداف کو منطقی انجام یعنی نسل کُشی تک پہنچا سکیں‘۔
کون اتنا بھاری وزن بغیر ’متزلزل‘ ہوئے اٹھا سکتا ہے؟
آج اتنے سال گزرنے کے بعد ہم دیکھ رہے ہیں کہ سال بھر سے ہمارے سامنے ایک اور نسل کشی (Genocide) جاری ہے۔ امریکہ اور اسرائیل نسلی عصبیت کی بنیاد پر قائم نوآبادیاتی قبضے کو بچانے کے لیے غزہ اور لبنان میں اپنی ’غیر متزلزل‘ نسل کُشی جاری رکھے ہوئے ہیں، جو ٹیلی ویژن پر براہِ راست دکھائی جارہی ہے۔ اب تک سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ۴۲ہزار لوگ جاں بحق ہوچکے ہیں، جن میں سے اکثریت بچوں اور خواتین کی ہے۔ ان میں ابھی وہ شامل نہیں، جن کی چیخیں کسی عمارت، محلے، بلکہ پورے شہر کے ملبے تلے دبی رہ گئیں اور جن کی باقیات کو ابھی ملبہ کھود کر نکالنا اور لاشوں کی گنتی میں شمار کرنا باقی ہے۔ ’آکسفام‘ (Oxfam)کی حالیہ تحقیق کے مطابق گزشتہ بیس برس کی کسی بھی جنگ کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ بچے غزہ میں مارے جا چکے ہیں۔
نازی جرمنی کے ہاتھوں یورپی یہودیوں کی نسل کُشی کے وقت لاتعلق رہنے والے امریکہ و یورپ نے اپنے جذبۂ جرم کی تسکین کے لیے ایک اور نسل کُشی کا میدان سجا دیا ہے۔
تاریخ میں نسل کشی کی مرتکب ہونے والی ہر ریاست کی طرح اسرائیلی صہیونیوں نے بھی، جو خود کو اللہ کے چنیدہ لوگ سمجھتے ہیں، فلسطینیوں کے قتل عام اور ان کی زمینوں پر قبضے سے پہلے ان کو انسانی مرتبے سے گرانے کی کوشش کی:
٭ سابق اسرائیلی وزیراعظم مناخم بیگن [م: ۱۹۹۲ء] نے فلسطینیوں کو ’دو ٹانگوں والے درندے‘ قرار دیا۔
٭ جب کہ سابق اسرائیلی وزیراعظم اسحٰق رابن [م: ۱۹۹۵ء] کے مطابق فلسطینی ’ٹڈیوں‘ کی مانند ہیں ’جنھیں کچلا جا سکتا ہے‘۔
٭گولڈامیئر [م: ۱۹۷۸ء]نے فلسطینیوں کے انسانی وجود کا ہی انکار کرتے ہوئے کہا: ’فلسطینی نام کی کوئی مخلوق وجود نہیں رکھتی‘۔
٭فسطائیت کے خلاف لڑنے کی شہرت رکھنے والے مشہور سورما برطانوی وزیراعظم ونسٹن چرچل [م:۱۹۶۵ء] کا کہنا تھا کہ ’میں نہیں مان سکتا کہ کوئی کتا کھولی کا مالک بن سکتا ہے، چاہے جتنا عرصہ بھی وہ اس میں لیٹا رہے۔ کھولی کی حتمی ملکیت ایک ’اعلیٰ نسل‘ کے پاس ہی رہے گی‘۔
چنانچہ ان ’دو ٹانگوں والے درندوں‘، ’ٹڈیوں‘، ’کتوں‘ اور ’عدم موجود لوگوں‘ کو قتل کرنے، کونوں کھدروں میں دھکیلنے اور ان کی ’نسل کشی‘ کے بعد ایک نیا ملک قائم کیا گیا: اسرائیل۔ خوشی سے نعرے لگائے گئے کہ ’بے وطن قوم کو بے آباد وطن مل گیا۔‘امریکہ و یورپ نے ایٹمی ہتھیاروں سے لیس اسرائیلی ریاست کو مشرق وسطیٰ کی دولت اور وسائل پر قبضے کے لیے اپنی چھاؤنی کے طور پر استعمال کیا۔ اسے کہتے ہیں ’مفادات کا حسین امتزاج!‘
چنانچہ، ہر جرم کے باوجود، اس نئی ریاست کی ’غیر متزلزل‘ اور ’بے جھجک‘ مدد کی گئی، اسے مسلح کیا گیا اور اس کی جیبیں بھری گئیں، اس کے ناز نخرے اٹھائے گئے اور سراہا گیا۔ یہ ریاست اُس بگڑے ہوئے بچّے کی طرح پروان چڑھائی گئی، جو امیر گھر میں پیدا ہو اور والدین اس کے ہر ظلم و زیادتی پر فخر سے مسکراتے رہیں۔ چنانچہ آج اگر اسرائیلی، فلسطینیوں کی نسل کشی پر کھلے عام فخر کرتے دکھائی دیتے ہیں، تو حیرت کیسی؟ (’پینٹاگون پیپرز‘ کو کم از کم خفیہ رکھا گیا تھا۔ یاد رہے کہ انھیں چُرا کر شائع کیا گیا)۔ اگر اسرائیلی سپاہی تہذیب کے تمام تقاضے فراموش کرچکے ہیں تو کیسا تعجب؟
کیا یہ کوئی اَنہونی بات ہے کہ آج خواتین کو قتل یا بے گھر کرنے کے بعد ان کے زیریں جامے پہن کر گھٹیا وڈیوز سوشل میڈیا پر ڈالی جارہی ہیں اور اسرائیلی فوجی، اپنے ہاتھوں مرتے ہوئے فلسطینیوں، زخمی بچوں اور آبروریزی و گھنائونےتشدد کا شکار ہونے والے قیدیوں کی نقلیں اُتارتے دکھائی دیتے ہیں؟ آپ کو ایسی وڈیوز بھی مل جائیں گی کہ اسرائیلی فوجی سگریٹ کا دھواں اُڑاتے یا موسیقی کی دھنوں پر ناچتے ہوئے عمارتوں کو بارود سے اڑاتے چلے جاتے ہیں۔ یہ کون لوگ ہیں؟
اسرائیل کی ان حرکتوں کا کیا جواز ہوسکتا ہے؟
اسرائیل اور اس کے اتحادیوں اور مغربی ذرائع ابلاغ کے مطابق: ’یہ جواب ہے ۷؍ اکتوبر ۲۰۲۳ء کو حماس کے اسرائیل پر حملے، اسرائیلی شہریوں کے قتل اور اغواء کا‘۔
اب یہ گفتگو کا وہ حصہ ہے جہاں مجھ سے توقع کی جائے گی کہ میں اپنی حفاظت کے پیش نظر، اپنی غیر جانب داری اور دانش وَرانہ صلاحیتوں کو ثابت کرنے کے لیے فریقین کو برابر ثابت کروں۔ اپنی اخلاقی غیر جانب داری ثابت کرنے کے لیے اب مجھے حماس اور غزہ کی دیگر مسلح تنظیموں، لبنان اور حزب اللہ کی مذمت کرنی ہوگی کہ انھوں نے شہریوں کو قتل و اغوا کیا۔ پھر مجھے غزہ کے شہریوں کو بھی ڈانٹنا پڑے گا کہ وہ حماس کے حملے پر خوش کیوں ہوئے؟ یہ سب کرنے کے بعد ہر شے آسان ہوجاتی ہے۔ چھوڑیں جی دفعہ کریں، جب سب ایک جیسے ہیں تو ہم کیا کرسکتے ہیں؟
لیکن میں اس مذمتی کھیل کا حصہ نہیں بنوں گی۔ میرا نقطۂ نظر بڑا واضح ہے۔ مظلوم خود پر ہونے والے ظلم کے خلاف مزاحمت کیسے کرے اور اس کا اتحادی کون ہو، یہ فیصلہ کرنا میرا کام نہیں۔
امریکی صدر جوبائیڈن نے ۲۰۲۳ء میں دورۂ اسرائیل کے دوران اسرائیلی وزیراعظم اور جنگی کابینہ سے ملاقات کرتے ہوئے کہا تھا: ’صہیونی ہونے کے لیے یہودی ہونا ضروری نہیں۔ میں بھی صہیونی ہوں‘۔
صدر بائیڈن کے برخلاف جو خود کو ‘غیر یہودی صہیونی‘ سمجھتے ہیں اور بالکل ’غیر متزلزل‘ طریقے سے جنگی جرائم کے لیے اسرائیل کو ہتھیار اور پیسہ فراہم کررہے ہیں، اُنھیں دیکھتے ہوئے میں خود کو کسی ایسے خول میں محدود نہیں کروں گی، جس میں میرے لکھے ہوئے الفاظ نہ سما سکیں۔ میں وہی ہوں جو میں لکھتی ہوں، اور وہی لکھتی ہوں، جو سوچتی اور دیکھتی ہوں۔
مجھے اس حقیقت کا پوری طرح احساس ہے کہ بطور ایک مصنف، بطور ایک غیر مسلم اور بطور ایک خاتون میرا حماس، حزب اللہ یا ایرانی حکومت کے زیر اثر زندہ رہنا بہت مشکل یا شاید ناممکن ہو۔ لیکن فی الوقت یہ ہمارا موضوع ہی نہیں ہے۔ ہمیں اس تاریخ اور سیاق و سباق کو سمجھنا ہوگا، جس کے تحت یہ گروہ وجود میں آئے۔ فی الوقت اہم بات یہی ہے کہ یہ سب ایک نسل کُشی کے خلاف مزاحمت کررہے ہیں۔ ہمیں خود سے یہ پوچھنا چاہیے کہ آیا کوئی لبرل اور سیکولر فوج، نسل کُشی کے اس بدمست ہاتھی کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہے؟ کیونکہ جب دنیا کی تمام طاقتیں ایک قوم کے خلاف ہوں تو وہ اپنے دفاع کے لیے خدا سے رجوع نہ کرے تو کیا کرے؟
مجھے معلوم ہے کہ ایرانی حکومت اور ’حزب اللہ‘ کے بہت سے ناقدین ان کے اپنے ملکوں میں بھی موجود ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ بہت سے جیلوں میں اس سے بھی برے حالات کا سامنا کررہے ہوں۔ مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ حماس کے کچھ اقدامات جنگی جرائم کے زمرے میں آتے ہیں، مثلاً ۷؍اکتوبر کو عام شہریوں کا قتل و اغوا…لیکن پھر بھی اس کا موازنہ اس سب سے نہیں کیا جاسکتا جو اسرائیل اور امریکہ غزہ، مغربی کنارے اور اب لبنان میں کررہے ہیں۔ فلسطینی زمینوں پر اسرائیلی قبضہ اور فلسطینیوں کی غلامی ۷؍اکتوبر سمیت اس سارے فساد کی جڑ ہے۔ یاد رکھیے، اس مسئلے کا آغاز ۷؍اکتوبر ۲۰۲۳ء کو نہیں ہوا۔
میں یہاں اِس ہال میں موجود تمام سامعین سے یہ سوال پوچھتی ہوں کہ ہم میں سے کتنے اس ذلت آمیز زندگی کو قبول کرنے پر رضامند ہوں گے، جو فلسطینی کئی عشروں سے گزار رہے ہیں؟ کون سے پُرامن راستے ہیں، جو فلسطینیوں اور ان کی قیادتوں نے نہیں آزمائے؟ گھٹنوں کے بل گر کر مٹی چاٹنے کے سوا کون سا سمجھوتہ ہے، جو انھوں نے قبول نہیں کیا؟
آگاہ رہیے اور جان لیجیے کہ اسرائیل اپنے دفاع کی کوئی جنگ نہیں لڑ رہا ہے، بلکہ اسرائیل جارحیت مسلط کرنے کی لڑائی لڑ رہا ہے تاکہ مزید فلسطینی زمینوں پر قبضہ کرسکے، اپنی نسلی عصبیت کے نظام کو مزید مضبوط کرسکے، فلسطینی عوام اور خطے پر اپنی گرفت مضبوط تر کرسکے۔
۷؍ اکتوبر سے جاری جنگ میں ہزاروں لوگوں کو جان سے مار دینے کے ساتھ ساتھ اسرائیل، غزہ کی اکثریتی آبادی کو کئی دفعہ دربدر کرچکا ہے۔ اس نے ان کے اسپتالوں پر حملے کیے ہیں۔ ڈاکٹروں، امدادی کارکنوں اور صحافیوں کو جان بوجھ کر نشانہ بناتے ہوئے قتل کیا ہے۔ ایک پوری قوم کو بھوکوں مارا جارہا ہے کہ ان کی تاریخ ہی مٹ جائے۔ دنیا کی امیر ترین اور طاقت ور ترین حکومتیں اور ان کے ذرائع ابلاغ اخلاقی و مادی سطح پر پوری طرح ان سارے مظالم میں شامل ہیں۔ ان میں میرا وطن ہندوستان بھی شامل ہے، جو اسرائیل کو ہتھیار اور ہزاروں کارکن فراہم کرتا ہے۔
یہ سب ممالک اسرائیل کے ساتھ یک جان دو قالب ہوچکے ہیں۔ گزشتہ صرف ایک سال میں امریکہ اسرائیل کو ۱۷ء۹ بلین ڈالر کی فوجی امداد بھیج چکا ہے۔ چنانچہ اب مناسب ہے کہ امریکی اس جھوٹ کا لبادہ اتار دیں کہ وہ ’ثالث ہیں‘، ’جنگ کے مخالف ہیں‘، یا جیسا کہ انتہائی بائیں بازو کا حصہ سمجھی جانے والی الیکسینڈرا اوکاسیو کورٹیز کا کہنا ہے کہ ’ہم جنگ بندی کے لیے سر توڑ کوششیں کررہے ہیں‘۔ مَیں برملا کہوں گی کہ جو فریق بذاتِ خود نسل کشی میں شامل ہو، وہ ہرگز ثالث نہیں ہوسکتا۔
دنیا کی ساری طاقت، سارا پیسہ، سارے ہتھیار اور سارا پروپیگنڈا مل کر بھی اس زخم کو چھپا نہیں سکتے، جسے ہم فلسطین کہتے ہیں۔ اس زخم سے تمام انسانیت کا خون رِس رہا ہے۔
سلامتی کونسل میں رائے شماری کے مطابق جو ممالک اسرائیلی نسل کشی کو ممکن بنارہے ہیں، ان کی اکثریتی آبادی اس کے خلاف ہے۔ ہم نے ان ممالک میں مسلسل لاکھوں احتجاج کرنے والوں کے مظاہرے دیکھے ہیں۔ ان میں نوجوان یہودیوں کی وہ اکثریت بھی شامل ہوتی ہے، جو اسرائیل کی سرپرستی کے لیے گھڑا جانے والا جھوٹ سن سن کر اور کسی کے ہاتھوں استعمال ہوہو کر تنگ آچکی ہے۔ کیا کبھی کسی نے سوچا تھا کہ ایک دن جرمن پولیس، یہودیوں پر ہی ’یہود دشمنی‘ کا الزام لگاکر انھیں صہیونیت اور اسرائیل کے خلاف مظاہرے میں گرفتار کرے گی؟ کس نے سوچا تھا کہ امریکی حکومت، اسرائیل کی خدمت میں یہاں تک چلی جائے گی کہ اسے آزادیٔ اظہار کے اپنے بنیادی اصول کی خلاف ورزی کرتے ہوئے فلسطین پسند نعروں پر پابندی لگانا پڑے؟ کچھ استثنائی صورتوں کے سوا ساری مغربی دنیا کے اخلاقی اصول آج باقی دنیا کے لیے ایک خوفناک لطیفہ بن چکے ہیں۔
اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے جب دنیا کے سامنے ’دریا سے سمندر تک اسرائیل‘ کا وہ نقشہ لہرایا، جس میں فلسطین سرے سے موجود ہی نہیں، تو دنیا ان کے آگے بچھی دیکھی گئی ہے کہ کیسا بابصیرت آدمی ہے جو یہودیوں کے قومی وطن کے لیے جدوجہد کررہا ہے۔
دوسری طرف جب فلسطینی یا ان کے اتحادی ’نہر سے بحر تک‘ کا نعرہ لگاتے ہیں تو انھیں الزام دیا جاتا ہے کہ وہ کھلے عام یہودیوں کی نسل کشی کا اعلان کررہے ہیں۔
کیا واقعی ایسا ہے؟ یا انھیں اپنا خبث ِباطن دوسروں میں دکھائی دے رہا ہے؟ یہ کیسی ذہنیت ہے جو تنوع برداشت نہیں کرسکتی؟ جو ایک ملک میں دوسروں کے ساتھ برابری کی سطح پر مساوی حقوق کے ساتھ رہنے کے لیے تیار نہیں؟ کیا ساری دنیا اسی طرح رہتی ہے؟ یہ وہ ذہنیت ہے جو قبول نہیں کرسکتی کہ فلسطینی بھی جنوبی افریقہ، ہندوستان اور نوآبادیاتی چنگل سے آزاد ہونے والے دوسرے ممالک کی طرح آزاد زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ ایسے ممالک کی طرح جو متنوع آبادی کے حامل ہیں، چاہے کئی بنیادی مسائل سے دوچار ہوں، لیکن آزاد ہیں۔ جب جنوبی افریقہ کے باشندے اپنا مشہور نعرہ ’عوام زندہ باد‘ لگایا کرتے تھے تو کیا وہ گورے لوگوں کی نسل کشی کا اعلان کررہے تھے؟ ہرگز نہیں۔ وہ نسلی عصبیت پر مبنی حکومتی نظام کا خاتمہ چاہتے تھے اور آج یہی مطالبہ فلسطینیوں کا ہے۔
جو جنگ اب شروع ہوئی ہے، یہ بہت تکلیف دہ ہوگی۔ لیکن اس کا خاتمہ اسرائیل میں نسلی عصبیت کے خاتمے کے ساتھ ہوگا۔ یہودیوں سمیت سب کے لیے، پوری دنیا پہلے سے زیادہ محفوظ ہوگی اور دنیا میں انصاف ہوگا۔ ہمارے دلوں سے آخرکار یہ کانٹا نکل جائے گا۔
اگر امریکی حکومت، اسرائیلی حمایت سے دست بردار ہوجائے تو آج ہی یہ جنگ ختم ہوجائے گی۔ ابھی اسی لمحے سب قتل و غارت گری بند ہوجائے گی۔ اسرائیلی مغوی اور فلسطینی قیدی آزاد ہوں گے۔ حماس اور دیگر فلسطینی نمائندوں کے ساتھ جو مذاکرات جنگ کے بعد ہونے ہیں، وہ ابھی ہوسکتے ہیں اور یوں لاکھوں لوگوں کو تکلیف اور تباہی سے بچایا جا سکتا ہے۔ کیسی دردناک بات ہے کہ کچھ لوگوں کے لیے یہ امکان ہی ناقابلِ تصوّر ہے کہ انھیں اس پر ہنسی آئے گی!
علاء عبدالفتح! اختتام پر میں پھر تمھاری طرف آؤں گی۔ میں تمھاری کتاب ”تم ابھی ہارے نہیں“ (Not Yet Been Defeated)کا ذکر کروں گی، جو تم نے جیل میں لکھی ہے۔ ہار اور جیت کے معنی سے متعلق ایسے خوب صورت الفاظ میں نے اور کہیں نہیں پڑھے، نہ میں نے کسی اور کو یوں مایوسی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے دیکھا ہے۔ میں نے کم ہی ایسا کام دیکھا ہے جس میں ایک شہری اپنی ریاست، اپنے جرنیلوں، اور (قاہرہ کے التحریر) چوک کے ان نعروں سے اس قدر واضح انداز میں الگ کھڑا نظر آتا ہے:
”مرکز میں کھڑے ہونا بغاوت ہے کیونکہ مرکز کی جگہ صرف جرنیل کے لیے ہے۔
مرکز بغاوت کی جگہ ہے اور میں کبھی باغی نہیں رہا۔
وہ ہمیں کناروں کی طرف دھکیل کر خوش ہیں، لیکن وہ نہیں جانتے کہ ہم مرکز سے ہٹے نہیں، بس کچھ دیر کے لیے کھو گئے تھے۔
ووٹوں کے ڈبے، محل سرا، وزارتیں، قید خانے، یہاں تک کہ قبریں بھی اتنی کشادہ نہیں ہیں کہ ان میں ہمارے خواب سما سکیں۔
ہم نے کبھی مرکز میں ہونا نہیں چاہا کیونکہ یہ اپنے خوابوں سے منہ موڑنے والوں کی جگہ ہے۔ یہاں تک کہ وہ چوک بھی ہمارے لیے کافی نہیں تھا۔ اس لیے ہم نے انقلاب کی جنگ اس سے ہٹ کر لڑی اور ہمارے اکثر ہیرو منظر سے باہر رہے۔ “
غزہ اور لبنان کی جنگ ایک علاقائی جنگ میں تبدیل ہونے کو ہے اور اس کے ہیرو بھی منظر سے باہر ہیں۔ لیکن وہ لڑ رہے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ایک دن ’دریا سے سمندر تک، فلسطین آزاد ہوگا‘ (From the River to the Sea – Palestine will be Free) اور یہ ہوکر رہے گا۔
اپنی نظریں گھڑیوں پر نہیں، کیلنڈر پر رکھیں۔ کیونکہ اپنی آزادی کے لیے لڑنے والے عوام، یہاں پر میں جرنیلوں کی بات نہیں کررہی، بلکہ عوام کی کررہی ہوں اور عوام اسی طرح اپنے وقت کا فیصلہ کرتے ہیں۔ (The Wire، 11؍اکتوبر 2024ء)