کشمیر اسمبلی میں دفعہ370کی بحالی کی قرارداد

نریندر مودی نے جس اقدام کو جموں و کشمیر کے عوام کے وسیع تر مفاد اور ترقی کے لیے ناگزیر قرار دیا تھا، کشمیری اس کو مسترد کرکے اس فکر و فلسفے کو کوڑے دان میں ڈالتے رہیں گے

مقبوضہ جموں و کشمیر میں ایک ایسا سیاسی بندوبست قائم ہوگیا ہے جس کی بنیاد ہی کشمیر کی خصوصی شناخت کی بحالی کا نعرہ ہے۔ یہی وہ نعرہ تھا جس نے بھارتیہ جنتا پارٹی کو مسلم اکثریتی علاقوں سے بے نیلِ مرام واپس موڑ دیا، اور یہی وہ نعرہ تھا جس نے ان علاقوں میں عوام کے شکوے شکایتوں کے باوجود نیشنل کانفرنس کی جیت کی راہ ہموار کی۔ ڈاکٹر فاروق عبداللہ اور عمرعبداللہ نے زبانی اور پارٹی کے انتخابی منشور میں بھی کشمیر کی خصوصی شناخت کی بحالی کا وعدہ کیا تھا، یہاں تک کہ پہلے اسمبلی اجلاس میں ہی ایسی قرارداد لانے کی بات کی تھی۔ یہی وہ نکتہ تھا جس نے کشمیری ووٹر کو نیشنل کانفرنس کی جانب مائل کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ یہ احساس عمرعبداللہ کو بھی بخوبی ہے کہ اگر انہوں نے اپنے اس مؤقف کے بارے میں معمولی سی لچک بھی دکھائی تو عوام میں ان کی ساکھ تباہ ہونے میں لمحوں کی تاخیر نہیں ہوگی۔ اسی احساس کے تحت نیشنل کانفرنس نے اسمبلی کے پہلے باضابطہ اجلاس میں کشمیر کی خصوصی شناخت کی بحالی کی قرارداد منظور کرلی۔ اس سے پہلے اسمبلی کے اسپیکر عبدالرحیم راتھر کی حلف برداری کے لیے طلب کردہ اجلاس میں محبوبہ مفتی کی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے رکن عبدالوحید پرہ نے اجلاس شروع ہوتے ہی آرٹیکل 370کی بحالی کی قرارداد پیش کرنے کی کوشش کی، جس پر بھارتیہ جنتا پارٹی نے ہنگامہ کھڑا کیا اور عبدالوحید پرہ کی رکنیت معطل کرنے کا مطالبہ کیا۔ خود نیشنل کانفرنس نے بھی اپوزیشن رکن اسمبلی کی اس قرارداد کی مخالفت کی اور کہا کہ اس کی کوئی حیثیت نہیں بلکہ یہ فقط کیمروں کی ضرورت کے تحت اُٹھایا جانے والا قدم ہے۔ پی ڈی پی کے رکن کی اس قرارداد کی حمایت وادیِ کشمیر کے چند آزاد اپوزیشن ارکان کی طرف سے کی گئی جن میں پیپلزکانفرنس کے سربراہ سجادلون اور انجینئر رشید کے بھائی بھی شامل تھے۔ اسپیکر عبدالرحیم راتھر نے کہا کہ قرارداد پیش کرنے کا ایک طریقہ کار ہے جس میں قرارداد سیکرٹری اسمبلی کے پاس جمع کرائی جاتی ہے جو اسے اسپیکر کے پاس بھیجتا ہے۔ اس طریقہ کار کو اپنائے بغیر پی ڈی پی رکن اسمبلی نے جو کہا سنا اُس کی کوئی اہمیت نہیں تھی نہ ہمیں اس کا پتا ہے۔ عبدالرحیم راتھر نے اس پر ایک مصرعے میں یوں تبصرہ کیا:

”کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی“

جب میڈیا کے نمائندوں نے محبوبہ مفتی سے پوچھا کہ ان کے رکن اسمبلی کی قرارداد پر اپوزیشن اور حکومت دونوں نے ہنگامہ کیوں کیا؟ تو انہوں نے بھی شعری تبصرے میں ہی جواب دیا کہ

”ہنگامہ کیوں ہے گھر پر
کوئی چوری تو نہیں کی ہے“

اس شعری مقابلے کے تیسرے روز حکمران جماعت نیشنل کانفرنس نے اسمبلی میں کشمیر کی خصوصی شناخت کی بحالی کی قرارداد پیش کی۔ اس عجلت کی وجہ یوں لگتا ہے کہ اپوزیشن کی قرارداد کے ذریعے بننے والا تاثر تھا۔ اپوزیشن رکن کی قرارداد نیشنل کانفرنس کے ہاتھ سے خصوصی شناخت کی قرارداد اور نعرے کا کارڈ چھیننے کی کوشش تھی، کیونکہ اس کے بعد یہ تاثر بننے لگا کہ نیشنل کانفرنس اقتدار کی بھول بھلیوں میں اپنے بنیادی انتخابی نعرے کو بھولنے لگی ہے۔ اسی لیے اپوزیشن رکن کی قرارداد کے مسترد کیے جانے کے تیسرے روز نیشنل کانفرنس نے خصوصی شناخت کی بحالی کی قرارداد ایسے ماحول میں منظور کی جب بھارتیہ جنتا پارٹی کے ارکان شدید احتجاج کررہے تھے، وہ اسے اینٹی نیشنل قرارداد کہہ کر جے شری رام اور بھارت ماتا کی جے کے نعرے بلند کررہے تھے، اور اسی دوران ڈیسکوں کے اوپر چڑھ کر چیخ پکار کررہے تھے۔ انہوں نے قرارداد کی کاپیاں پھاڑ کر پھینک دیں اور اسپیکر پر جانب داری کا الزام عائد کیا۔ گوکہ قرارداد میں آرٹیکل 370کی بحالی کی بات نہیں کی گئی بلکہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کی بحالی کا ذکر کیا گیا ہے۔ بہ الفاظِ دیگر اس کا یہی مطلب اور مفہوم بنتا ہے۔ عمرعبداللہ نے قرارداد کی منظوری کے بعد واضح لفظوں میں کہا کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ کشمیریوں نے 5 اگست 2019ء کے فیصلے پر مہرِ تصدیق ثبت نہیں کی بلکہ انہوں نے اس فیصلے کی مخالفت کی بنا پر ہمیں ووٹ دیا۔ اگر کشمیریوں نے اس فیصلے کو تسلیم کیا ہوتا تو آج ہم حزبِ اقتدار کی بینچز پر نہ ہوتے۔ اس لیے اس ایوان کو عوامی جذبات کی نمائندگی کرنا ہے۔ اس سے پہلے عمرعبداللہ نے اپنی تقریر میں بھارت کے سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کو بہت یاد کیا، اور کشمیر کے حوالے سے اُن کی اپروچ کی تعریف کی۔ ان کا کہنا تھا کہ کشمیرکی خصوصی شناخت کے خاتمے پر نہ خاموش رہا جائے گا، نہ اس مسئلے کو دفن ہونے دیں گے۔ نیشنل کانفرنس نے اس قرارداد کو مسلمانوں کی قرارداد یا مسلم جذبات کی عکاس بناکر پیش کرنے کے بجائے اسے مجموعی طور پر ریاستی عوام کے جذبات کا عکاس بناکر پیش کیا، جس کے لیے قرارداد پیش کرنے کی ذمے داری جموں سے تعلق رکھنے والے ہندو ڈپٹی وزیراعلیٰ سریندر چودھری کو سونپی گئی۔ اس طرح بھارتیہ جنتا پارٹی کے ہاتھ سے ہندو کارڈ اور اینٹی نیشنل نعرے کا کارڈ چھیننے یا اس کی شدت کم کرنے کی کوشش کی گئی۔

حقیقت بھی یہی ہے کہ جموں کے عوام کے ایک بڑے طبقے کو یہ احساس ہوچلا ہے کہ کشمیر میں باہر سے آنے والوں کی وجہ سے پہلے وہی اقلیت میں تبدیل ہوں گے کیونکہ بھارت سے آنے والے اب بھی وادیِ کشمیر کی طرف منتقل ہونے میں جھجک محسوس کررہے ہیں، اس کے برعکس انہیں جموں کے کچھ ہندو اکثریتی علاقوں میں امن و امان کے بہتر ماحول اور اپنائیت کا احساس ہوتا ہے۔ اس لیے یہ اپنائیت سب سے پہلے جموں کے ہندو اکثریتی علاقوں کی شناخت کو ہضم کرنے کا باعث بنے گی۔

بہرحال نیشنل کانفرنس نے قرارداد منظور کرکے اپنا پہلا انتخابی وعدہ پورا کردیا، جس سے عمر عبداللہ وقتی طور پر اپنے ووٹروں میں ساکھ کے کسی فوری بحران کا شکار ہونے سے بال بال بچ گئے ہیں۔ نریندر مودی حکومت اس پر کیا ردعمل ظاہر کرے گی؟ یہ بھی واضح ہے۔ ظاہر ہے کہ نریندرمودی نے یہ قدم چند برس بعد واپس لینے کی خاطر نہیں اُٹھایا تھا۔ یہ اُن کی دیرینہ نظریاتی پیاس تھی جسے کشمیر میں انہوں نے جلد یا بدیر بجھانا تھا۔ وہ جب اس کو راما پرساد مکھرجی کے خواب کی تکمیل کہتے ہیں تو اس کے پیچھے نظریات کے معانی اور مفاہیم اور طویل سفر کی ایک تاریخ ہوتی ہے۔ اس لیے یہ سمجھنا کہ بی جے پی کشمیریوں کی اس اجتماعی آواز کو سن کر اس کے احترام کی کوئی صورت پیدا کرے گی، ایسا ہرگز ممکن نہیں۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ کشمیر کے سیاسی نظام کے اندر خصوصی شناخت کی بحالی کی یہ قرارداد اور اس طرح کی آوازیں بھارتی حکمرانوں کے کانوں میں بجنے والی گھنٹیوں کی صورت میں کبیدہ خاطر ہونے کا سامان کرتی رہیں گی۔ نریندر مودی نے جس اقدام کو جموں و کشمیر کے عوام کے وسیع تر مفاد اور ترقی کے لیے ناگزیر قرار دیا تھا، کشمیری اس کو مسترد کرکے اس فکر و فلسفے کو کوڑے دان میں ڈالتے رہیں گے۔ گھنٹی کی یہ صدا کشمیریوں کو یاد دلاتی رہے گی کہ اُن سے کچھ بلکہ کچھ چھینا گیا تھا جسے واپس حاصل کرنا اُن کا حق ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ کشمیر کی 77 سالہ تحریک ناتمامی کے جذبات، محرومیوں کے احساس اور کچھ چھن جانے کے خوف کے ملے جلے جذبات کی بنیاد پر آگے بڑھتی رہی ہے۔ نریندر مودی نے پانچ اگست کو اس آگ پر نیا تیل چھڑکنے کے سوا کوئی کارنامہ انجام نہیں دیا۔